سفرِ معراج کے چند اسرار و نِکات
{سفرِ معراج کے چند اسرار و نِکات}
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ
صدر المدرسین دارالعلوم محبوبِ سبحانی کرلا ویسٹ ممبئی
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
معراج کا معنی : رسول اللہ ﷺکا عالمِ بیداری میں، رات کے ایک مختصر لمحے میں، اپنے جسم کے ساتھ آسمانوں تک تشریف لے جانا، پھر اس کے بعد جہاں تک اللہ تعالی نے چاہا آپ ﷺ کا جانا ’’معراج‘‘ ہے۔ یہ حق اور احادیثِ مشہورہ سے ثابت ہے [شرح عقائد نسفی، ص:۱۰۵]قرآنِ مقدس کے بعد معراج پر تشریف لے جانا رسول اللہﷺ کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔رات کے ایک مختصر حصے میں مسجدِ حرام سےمسجد اقصی تک کا سفر خود قرآن مقدس سے ثابت ہے، انکار کرنے والا کافر ہو جائے گا؛ کیوں کہ یہ قطعی ہے۔زمین سے آسمان تک کی سیراحادیثِ مشہورہ سے ثابت ہے، انکار کرنے والا گمراہ و مبتدع ہے اور آسمان سے جنت تک یا عرش تک یا اس سے بھی آگے تک کا سفر اخبارِ آحاد سے ثابت ہے۔علماے اہل سنت و جماعت فرماتے ہیں کہ :معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال قبل، ماہ رجب المرجب کی ستائیسویں تاریخ کو پیش آیا، یہ اکثر علما و محدثین کا مذہب ہے، اس بارے میں دیگر مذاہب بھی ہیں[شرح الشفا علی ھامش نسیم الریاض ج۲؍ ص: ۲۲۴لملا علی بن سلطان محمد القاری حنفی ]اللہ رب العزت اپنے کلامِ ازلی میں ارشاد فرماتا ہے :
سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلٰی الْمَسْجِدِ الْأقْصٰى الَّذِيْ بَارَكْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ آيَاتِنَا. اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ. [سورہ بنی اسرائیل، آیت نمبر:۱]
ترجمہ:وہ ہر عیب سے پاک ہے جو اپنے خاص بندے کو رات کے مختصر حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے ارد گرد ہم نے بے شمار برکتیں رکھی ہیں، تاکہ ہم اپنے اس عبدِ خاص کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہی سننے والا، وہی دیکھنے والا ہے۔
اس آیت کریمہ میں رب تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺکے سفر ِ معراج کو نہایت اختصار و جامعیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، ایک سفر نامے میں جتنی چیزوں کا بیان اہم و ضروری ہوتا ہے وہ سبھی باتیں یہاں مذکور ہیں۔سفر نامے میں علی العموم سات چیزوں کا بیان اہم ہوتا ہے [۱]سفر کس نے کیا [۲]سفر کس نے کرایا [۳]سفر کی شروعات کہاں سے ہوئی [۴]سفر کہاں منتہی ہوا [۵]سفر دن میں ہوا یا رات میں [۶]سفر کس مقصد سے ہوا [۷]سفر کتنی مدت میں ہوا۔
قرآنِ مقدس کی شانِ اعجاز ملاحظہ فرمائیں: کہ اس مختصر آیتِ کریمہ میں یہ ساتوں باتیں بیان کر دی گئی ہیں۔ سفر کس نے کرایا؟ فرمایا : سفر اس نے کرایا جو سبحان یعنی ہر عیب سے پاک ہے۔سفر کس نے کیا؟ فرمایا : سفر اس نے کیا جو اس کا عبدِ خاص یعنی مخصوص بندہ ہے۔سفر کا آغاز کہاں سے ہوا؟ ارشاد ہوا : مسجد حرام سے۔ سفر کہاں تک ہوا؟ بتایا : مسجد اقصی تک۔ سفر رات میں ہوا یا دن میں؟ فرمایا : اسری یعنی اس نے رات میں سیر کرائی۔ سفر کتنے مدت میں مکمل ہوا؟ فرمایا :لیلا یعنی رات کے ایک نہایت قلیل لمحے میں۔ اس سفر کی غرض و غایت کیا تھی؟ فرمایا: لنریہ یعنی یہ سیر اس لیے کرائی تاکہ ہم اپنے عبد خاص کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔
اس آیتِ کریمہ کے تفسیری نکات بیان کرتے ہوئے ماضی قریب کے مایہ ناز محقق و محدث حضرت علامہ غلامہ رسول صاحب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
لفظ سبحان کے اسرار : رات کے ایک قلیل لمحے میں اتنی عظیم الشان سیر کراکے واپس لے آنا عادۃً محال تھا، اللہ تعالی نے “سبحان” فرما کر یہ ظاہر کر دیا کہ مخلوق کے لیے تو یہ محال ہے، اگر خالق کے لیے بھی محال ہو تو یہ اس کے لیے نقص و عیب ہوگا اور وہ ہر عیب سے پاک ہے۔ اسی لیے بعض علما نے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ کے شروع میں “سبحان” ذکر کرکے واقعۂ معراج کو ثابت کیا ہے۔بعض علما نے فرمایا کہ جب اللہ نے آیتِ کریمہ کے آغاز میں “سبحان” لاکر اس کے بعد”الذی ‘‘ ذکرکیا تو معلوم ہو گیا کہ جس نے حضور ﷺ کو معراج کرائی وہ سبحان ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ تو ہمیشہ سے سبحان ہے اور رہے گا ؛مگر اس کے سبحان ہونے کا کامل ظہور اس وقت ہوا جب اس نے اپنے حبیب ﷺکو رات کے بالکل قلیل لمحے میں فرش سے عرش بلکہ اس سے بھی ماورا کی سیر کرائی اور اسی لمحے انھیں عرش سے فرش پر لے آیا۔ اس لیے آیت کریمہ کے شروع میں ” سبحان” نہ ہوتا تو معراج تو ثابت ہو جاتی مگر اللہ تعالی کے سبحان ہونے کا ظہورِ کامل نہ ہوتا۔اس آیت کے شروع میں “سبحان” ہے اور آخر میں “سمیع و بصیر” ہے اور یہ دونوں اللہ کی صفات اور اس کا ذکر ہیں، معلوم ہوا کہ سیر معراج کی ابتدا بھی اللہ کے ذکر سے ہوئی اور انتہا بھی ذکر الہی پر ہوئی اور سیر معراج سے آپ ﷺجو تحفۂ نماز لائے وہ بھی اللہ کا ذکر ہے۔
حضور ﷺکو عبد کہنے کے اسرار : عبد وہ ہوتاہے جو بندوں کی طرف سے رب تبارک و تعالیٰ کے پاس جائے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کا موقع تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر ’’رسول‘‘کہنے کے بجائے’’عبد‘‘ فرمایا۔ پھر یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ اللہ نے آپﷺ کو صرف ’’عبد‘‘نہیں فرمایا بلکہ ’’عبدہ‘‘ یعنی اپنا بندہ فرمایا۔ عبد تو دنیا میں ہزاروں کروڑوں ہیں؛ لیکن کامل عبد اور بندہ تو وہ ہے جس کو خود مالک کہے کہ یہ میرا بندہ ہے۔اللہ رب العزت نے ’’عبدہ‘‘ کہہ کر اپنے حبیبﷺ کی عظمت و شان اور آپ کے بلند مقام و مرتبہ کو بیان فرمایا ہے۔سفرِ معراج کے موقع پر نبی ﷺ کو وصفِ عبدیت کے ساتھ ذکر کرنے سے یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ آپﷺ کو یہ فضیلت اور یہ بلند مقام’’ عبدیت‘‘ کی وجہ سے حاصل ہوا، کیوں کہ جو شخص اللہ رب العزت کی بارگاہ میں تواضع کرتا ہے، اللہ عز و جل اس کے رتبے کو بلند فرما دیتا ہے۔نیز یہ بتاتا بھی مقصود تھا کہ یہ معراج جسمانی تھی نہ کہ محض روحانی؛ کیوں کہ ’’عبد‘‘ کا اطلاق لغتِ عرب فقط روح پر نہیں؛ بلکہ روح و جسم دونوں پر ہوتا ہے۔
لفظ اسری کے اسرار : اللہ رب العزت نے “اسری” کہہ کر یہ بتلا دیا کہ یہ سیر عالَمِ بیداری میں ہوئی، نہ کہ عالَمِ خواب میں؛ کیوں کہ اسراء کا معنی ہے ’’کسی شخص کو عالمِ بیداری میں رات کے وقت لے جانا‘‘ خواب میں لے جانے کو اسراء نہیں کہا جاتا۔
حضرت علامہ غلام رسول صاحب قبلہ سعیدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شرح مسلم جلد اول میں واقعاتِ معراج کے بڑے شاندار نکات و اسرار بیان فرمائے ہیں ۔ افادۂ عام کی غرض سے ذیل میں نہایت آسان لب و لہجے میں اختصار کے ساتھ اُن کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے ۔
رات کے وقت معراج کرانے کے اسرار :اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ کو رات کے وقت سیرِ معراج کرائی ، کیوں کہ رات دن سے افضل و اشرف ہے۔ افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ محبوبوں سے راز ونیاز کا وقت ہوتا ہے ۔ اللہ رب العزت نے بہت سے انبیاے کرام، مثلاً’’ حضرتِ سیدنا ابراہیم ، حضرت سیدنا لوط ، حضرتِ سیدنا موسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام کو رات کے وقت مختلف عظمتوں سے نوازا۔قرآنِ مقدس کے کئی مقام پر اُن کا تذکرۂ جمیل ہے ۔ہمارے سرکار حضور احمدِ مصطفی ﷺ کو بھی اُس نے کئی انعامات رات کے وقت عطا فرمائے۔ انگلی کے اشارے سے چاند کا شق ہونا ،جنوںکا آپ پر ایمان لانا ، مدینۂ منورہ کی جانب ہجرت کرنا ، غارِ ثور میں داخل ہونا وغیرہ متعدد واقعات رات میں پیش آئے۔اللہ رب العزت نے متعدد آیتوں میں رات کو دن پر مقدم فرمایا ہے ۔ مہینے کی ابتدا رات سے ہوتی ہے ۔رات کی سیاہی میں آنکھ کی روشنی تیز ہو جاتی ہے ۔ہر رات کے لیے دن ضروری ہے مگر ہر دن کے لیے رات لازم نہیں ، کیوں کہ روزِ محشر کے لیے کوئی رات نہیں ہے ۔رات کے وقت دعائیں مقبول ہوتی ہیں اور رب تعالیٰ کی جانب سے بخشش کا پروانہ ملتا ہے ۔لیلۃ القدر ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے ۔رسول اللہ ﷺ اکثر و بیشتر رات میں سفر کیا کرتے تھے اور آپ ﷺ نے رات میں سفر کرنے کی ترغیب بھی دی ہے ۔رات زیادہ عبادت کرنے کا وقت ہے ، آقا ے دو عالَم ﷺ راتوں میں اِس قدر عبادت کیا کرتے تھے کہ مبارک قدموں میں ورم آجایا کرتا تھا ، یہاں تک رب تعالیٰ نے آپ کو آرام کرنے کا حکم دیا ۔ اِن تمام وجوہات کی بنا پر اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کے سفرِ معراج کے لیے رات کا انتخاب فرمایا ۔
حضرتِ اُمِّ ہانی کے گھر کی چھت پھاڑ کر فرشتوںکے آنے کے اسرار:متعدد روایتوں سے ثابت ہے کہ شبِ معراج فرشتے ،حضرت ام ہانی فاختہ بنت ابو طالب رضی اللہ عنہا کے مکان کی چھت پھاڑ کر حضور ﷺ کے پاس تشریف لائے ۔ ایسا اِس لیے کیا گیا تاکہ معراج کا اچانک رو نما ہونا اور زیادہ واضح ہوجاے ۔ نیز فرشتوں نے خلافِ عادت ایک غیر معمولی راستے کا انتخاب کیا تاکہ سب پر واضح ہو جائے کہ یہ سفرِ معراج بھی غیر معمولی نوعیت کا حامل اور خلافِ عادت ہے۔ چھٹ شق کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ حضور ﷺ کو تنبیہ ہو جائے کہ اِس سفر میں آپ ﷺ کا سینۂ مبارک بھی چاک کیا جائے گا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معلوم ہو جائے کہ یہ سفر اوپر کی جانب ہوگا ۔
حضور ﷺ کے مکانِ اقدس سے سیرِ معراج شروع نہ ہونے کے اسرار : سفرِ معراج کا آغاز حضور ﷺ کے مکان سے نہ ہوکر آپ ﷺ کی چچیری بہن حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہاکے مکان سے ہوا ۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے مکان کو تو پہلے ہی سے فضیلت حاصل تھی ،جب حضرت ام ہانی کے گھر سے معراج کرائی گئی تو اُن کے مکان کو بھی فضیلت حاصل ہو گئی؛کیوں کہ اب جب بھی معراج کا ذکر ہوگا ،حضرتِ ام ہانی کے مکان کا بھی تذکرۂ جمیل ہوگا ، گویا کہ حضرت ام ہانی کو حضور ﷺ سے سچی محبت اور بے لوث خدمت کا یہ صلہ دیا گیا کہ اُن کے ذکر کو حضور ﷺ کے سفرِ معراج کے ذکر سے وابستہ کر دیا گیا ، اب قیامت تک حضرت ام ہانی کا ذکر خیر ہوتا رہے گا ۔
ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ نبی ﷺ کے درِ دولت میں بغیر اجازت داخل ہونا اور آپ ﷺ حجرے کے پیچھے سے پکارنا بنصِّ قرآنی حرام و ناجائز ہے ۔ اللہ رب العزت نے فرمایا :
یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّآ أنْ یُّؤذَنَ لَکُمْ [سورۂ احزاب، آیت نمبر : ۵۳]
ترجمہ: اے ایمان والو! نبی [ ﷺ] کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل مت ہو ۔
اِس آیتِ کریمہ میں بلا اجازت داخل ہونے کی ممانعت ہے ۔ دوسری آیت میں فرمایا :
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ ۔ وَلَوْ اَنَّھُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ ۔ [سورۂ حجرات ، آیت نمبر ۴؍۵]
ترجمہ:اے محبوب! بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں اُن میں اکثر نادان و بے وقوف ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک آپ خود اُن کی جانب باہر تشریف لے آتے تو ضرور اُن کے لیے بہتر ہوتا ۔
اِس آیتِ کریمہ میں حضور ﷺ کو حجروں کے باہر سے پکارنے سے منع کیا گیا ہے ۔چوں کہ حضور ﷺ شبِ معراج محوِ خواب تھے ، اگر آپ ﷺ اپنے مکان میں ہوتے تو فرشتوں کو دشواریاں پیش آتیں ، نہ وہ مکان میں داخل ہو پاتے ، نہ باہر سے پکار پاتے اور نہ ہی آپ ﷺ کو مسجدِ حرام میں لے جانا اُن کے لیے آسان ہوتا ۔ اِس لیے رب تعالیٰ کی مرضی یہ ہوئی کہ اُس رات آپ ﷺ ام ہانی کے مکان پر سوئیں تاکہ فرشتے بلا روک ٹوک اچانک آپ کی بارگاہ میں آئیں اور آپ کو مسجدِ حرام میں لے جائیں اور وہاں سے سفرِ معراج کا آغاز ہو ۔
حضور ﷺ کا سینۂ مبارک چاک کرنے کے اسرار:معتبر اور صحیح روایتوں سے ثابت ہے کہ شبِ معراج حضور ﷺ کا قلبِ اطہر چاک کیا گیا ۔یعنی جبریلِ امین نے آپ ﷺ کے سینۂ اقدس کو چیر کر آپ کا دل نکالا اور اُسے غسل دیا۔ اِسی کو ’’ شقِّ صدر‘‘کہا جاتا ہے۔شقِّ صدر کے واقعات تین مرتبہ پیش آئے ۔ ہمیں اگرچہ اِن کی حقیقت کا علم نہیں ،مگر اِن پر ایمان رکھنا لازم و ضروری ہے ؛کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ شقِّ صدر پہلی بار اِس لیے ہوا تاکہ حضور کے قلبِ اطہر سے جمے ہوئے خون کو نکا لا جا سکے ۔ دوسری بار اِس لیے ہوا تاکہ آپ کے دل میں پیغامِ الٰہی حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کی جا سکے۔ اور یہ شقِّ صدر کا واقعہ تیسری بار اِس لیے پیش آیا تاکہ آپ کے مبارک دل میں معراج کے واقعات مثلاً’’عالَمِ برزخ کے عجوبوں ، قدرت کی نشانیوں اور رب تبارک و تعالیٰ کے حسنِ ازلی کے جلووں‘‘ کو دیکھنے کی استعداد و لیاقت رکھی جا سکے۔فتح الباری ج ۱۳ میں یہ روایت ہے کہ جب جبریلِ امین نے آپ کے قلب کو دھویا تو فرمایا: یہ قلبِ صحیح ہے ، اِس میں دیکھنے والی دو آنکھیں اور سننے والے دو کان ہیں ۔
شبِ معراج آپ ﷺ کے قلبِ اطہر کو آبِ زم زم سے دھویا گیا اور اُسے ایمان و حکمت سے لبریز کیا گیا [الروض الانف ،ج ۱؍ص: ۱۱۰] معجزۂ شقِّ صدر کا یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ آپ ﷺ کا سینۂ پاک چاک کیا گیا ، دل باہر نکالا گیا اور اُسے بیچ سے چیرکر ایمان و حکمت سے بھرا گیا ۔ یہ سب کچھ آپ ﷺ کی نگاہوں کے سامنے ہوا ، نہ آپ کو بیہوش کیا گیا ، نہ آپ کے درد ہوا اور نہ ہی ایک قطرہ خون باہر آیا ۔ معلوم ہوا کہ آقاے دو جہاں ﷺ کی بشریت بے نظیر و بے مثال ہے ، آپﷺکائنات میں سب سے زیادہ بہادر ہیں اور آپﷺ کا حال و مقام تمام لوگوں سے زیادہ بلند و بالا ہے۔کیوں کہ کسی بھی بشر کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اُس کا سینہ چاک کیا جائے اور اُسے بالکل دردنہ ہو ۔ چیرنا تو درکنار ، اگر کسی کےجسم میں ایک کانٹا بھی چبھو دیاجائے تو اس کی چیخیں نکل جائیں ، زبان باہر آجائے اورم اس پر بے قراری کی کیفیت طاری ہو جائے ۔ بلکہ میڈیکل سائنس کے اِس عروج کے زمانے میں بھی کسی کو بے ہوش کیے بغیر اُس کا ہارٹ آپریشن ممکن نہیں ہے ۔ اِسی لیے ہمارے امام نے کہا تھا ۔
اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ
ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انھیں
ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ
واقعۂ شقِّ صدر سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حضور ﷺ اپنی حیاتِ طیبہ میں دل کے محتاج نہیں ہے ۔ کیوں کہ آپ ﷺ کا قلب نکالا گیا مگر آپ کی زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ ہر انسان اپنی بقا میں دل کا محتاج ہے مگر اِس قاعدے سے اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ کو مستثنی رکھا ہے ۔ بلکہ واقعاتِ معراج اورآپ ﷺ کی سیرتِ پاک کے دوسرے پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ حضور سید المرسلین ﷺ اپنی حیات میں آب وہوا اورزمان ومکان بلکہ کسی چیز کے محتاج نہیں ، جب کہ ہر ذی روح اِن چیزوں کی محتاج ہے ۔
قلبِ اطہر کو سونے کے طشت میں رکھنے کے اسرار : معتبر روایتوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ شقِ صدرکے بعد آپ ﷺ کے قلبِ پاک کو سونے کے برتن میں رکھا گیا ۔ علماے کرام کی اس کی یہ حکمتیں بیان فرمائی ہیں ۔
[۱]سونا تمام دھاتوں میں سب سے افضل ہے اور حضور ﷺ کا دل تمام دلوں میں سب سے افضل ہے ۔سب سے افضل قلب کے لیے سب سے افضل دھات کے طشت کا اہتمام کیا گیا ۔
[۲]سونے کو مٹی نہیں کھاتی اور حضراتِ انبیائے کرام علیہم السلام کے جسموں کو بھی مٹی نہیں کھاتی ، اِسی مناسبت کی وجہ سے آپ ﷺ کے قلب کے سونے کا طشت لایا گیا ۔
[۳]دنیا میں مسلمانوں کو سونے کے برتنوں کے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی ؛ لیکن جنت میں استعمال کریں گے اور جو نعمت عام مسلمانوں کو جنت میں ملے گی اللہ رب العزت نے وہ نعمت اپنے حبیب ﷺ کو دنیا ہی عطا کر دی ہے ۔ اِس لیے آپ ﷺ کے قلبِ اطہر کے لیےسونے کا طشت لایا گیا ۔ اِن حکمتوں کے علاوہ بھی بہت سی حکمتیں بیان کی گئی ہیں ۔
براق پر سواری کے اسرار: آپ ﷺ کے لیے شبِ معراج مسافت کو لپیٹا نہیں گیا کہ آپ کا ایک قدم مکۂ مکرمہ میں ہو تاور دوسرا قدم مسجدِ اقصی میں ۔ کیوں کہ بہت سے اولیا و صلحا کے لیے بھی مسافت لپیٹی گئی ہے ۔ پس اگر آپ ﷺ کے لیے بھی زمین لپیٹ دی جاتی تو اِس سے آپ کی امتیازی شان ظاہر نہ ہوتی ۔ اِس لیے اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ کے لیے براق نامی سواری کا انتظام فرمایا تاکہ حبیب ﷺ کی امتیازی شان ظاہر ہو ؛ کیوں کہ ایسی سواری پر سوار ہونا جو پل بھر میں مسافت کو طے کر لے حضراتِ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ مخصوص ہے ۔
براق کے مچلنے کے اسرار :بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ جس وقت نبی ﷺ براق پر سوار ہوئے تو وہ مچلنے لگا اور اچھلنے کودنے لگا ۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے اُس نے فرمایا: یہ کیا ہے ؟ بخدا تجھ پر آج تک کوئی ایسی ذات سوار نہیں ہوئی جو اللہ کے نزدیک حضور ﷺ سے زیادہ معزز و مکرم ہو ۔ یہ سن براق شرمندہ ہو کر پسینہ پسینہ ہو گیا اور سکون و اطمینان کے ساتھ کھڑا ہو گیا ۔
علمائے کرام نے براق کے مچلنے کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ براق شرارت سے نہیں بلکہ فرحت و مسرت کی وجہ سے اچھل رہا تھا ، بلکہ یوں کہیے کہ وہ خوشی کے مارے جھوم رہا تھا ۔ اور بھلا کیوں کر نہ جھو متا جب کہ اُسے حضور رحمتِ عالم ﷺ کی سواری بننے کا شرف حاصل ہوگیا تھا ۔اور بعض مشایخِ کرام
نے براق کے مچلنے کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ وہ آپ ﷺ سے یہ وعدہ لینا چاہتا تھا کہ قیامت کے دن بھی آپ اُس پر سواری فرمائیں گے ۔ جب حضور ﷺ نے وعدہ کر لیا تو وہ مطمئن ہو گیا ۔
دوزخ کے واقعات دکھانے کے اسرار :سیرِ معراج میں حضور ﷺ کو عالَمِ برزخ کے کچھ واقعات کا مشاہدہ کرایا گیا ۔ مثلاً آپ ﷺ نے دیکھا کہ کچھ لوگ اپنے ہونٹوں کو قینچیوں سے کاٹ رہے ہیں ۔آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ یہ حضور کی امت کے وہ لوگ ہیں جو خود تو برائیاں کیا کرتے تھے لیکن دوسروں کو نیکیوں کا حکم دیا کرتے تھے ۔ اِسی طرح زناکاریوں اور سودخوروں کو مبتلاے عذاب دکھایا گیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کی امت میں ابھی ایسے لوگ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے ،پھر اُن کے عذاب میں مبتلا ہونے کو کیسے دکھایا گیا ؟ شارحینِ حدیث نے اِس سوال کا جواب یہ عنایت فرمایا کہ حضور ﷺ کو جتنی بھی سزائیں دکھائی گئیں وہ سب دوزخ میں دیے جانے والے عذاب کی پیشگی مثالیں تھیں ؛ تاکہ آپ ﷺ کی آنے والی امت کو عبرت حاصل ہو اور وہ اِن گناہوں میں مبتلا ہونے سے بچے ۔
مسجدِ اقصی میں امامتِ انبیا کے اسرار: شبِ معراج تمام انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے حضور ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کا شرف حاصل کیا ۔ علمائے کرام نے اِس امامت کی حکمتیں یہ بیان فرمائی ہیں:
[۱]اِس سے مقصود حضور ﷺ کی عظمت و شان کو ظاہر کرنا تھا ؛ کیوں کہ تمام انبیائے کرام نے مسجدِ اقصیٰ میں نمازیں پڑھیں ؛ مگر اُنھیں ایک نماز پر ایک ہی اجر ملتا تھا ۔ لیکن جب شبِ معراج حضورﷺ نے انبیائے کرام کی امامت فرمائی تو اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کے صدقے میں مسجدِ اقصی میں پڑھی جانے والی ایک نماز کا ثواب بچاس گنا زیادہ کر دیا ۔ اب قیامت تک جو مسلمان بھی وہاں ایک نماز ادا کرے گا اُسے بچاس نمازیں ادا کرنے کا ثواب ملے گا ۔
[۲]اگر آپ ﷺ مسجدِ اقصی جا کر انبیائے کرام کی امامت نہ فرماتے تو آپ ﷺ کی معراج تو ہو جاتی مگر کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام معراج سے محروم رہ جاتے ؛ کیوں اللہ رب العزت کی بارگاہ تک پہنچ کر اُس کے حسنِ ازلی کا دیدار کرنا حضور ﷺ کی معراج تھی اور حضور ﷺ کا دیدار کرنا اور آپ کی اقتدا میں نما ادا کرنا انبیائے کرام کی معراج تھی ۔
[۳]تمام انبیائے کرام نے عالَمِ میثاق میں اللہ رب العزت سے حضور نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے اور آپ ﷺکی نصرت و حمایت کرنے کا وعدہ کیا تھا ، جب انھوں نے شبِ معراج آپ ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھ لی تو اُن کا وعدہ پورا ہوگیا ۔اگر حضور ﷺ مسجدِاقصیٰ میں تشریف نہ لے جاتے تو آپ ﷺ کی معراج تو ہو جاتی مگر حضرات انبیائے کرام کا وعدہ پورا نہ ہو پاتا۔
[۴] جملہ انبیائے کرام و مرسلینِ عظام آپ ﷺ کے جمالِ جہاں آرا کی دید کے مشتاق تھے ۔ آپ ﷺ کی ایک جھلک پانے کے لیے بے تاب تھے۔ اگر حضور ﷺ مسجدِ اقصیٰ جا کر اُن کی امامت نہ فرماتے تو اُن سب کی تمانائیں ادھوری رہ جاتیں ۔ جب آپ ﷺ مسجدِ اقصیٰ میں آکر سب نبیوں کے امام بنے تو اُن کی مرادیں بھی پوری ہو گئیں اور وہ آپ ﷺکے رخِ زیبا کے دیدار سے شاد کام بھی ہو گئے ۔
آسمانوں پر جانے کے اسرار: متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ شبِ معراج آپ ﷺ نے آسمانوں پر کئی انبیائے کرام سے ملاقات کی ۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم ، دوسرے پر حضرت یحیٰ اور حضرت عیسیٰ ، تیسرے پر حضرت یوسف ، چوتھے پر حضرت ادریس ، پانچویں پر حضرت ہارون ، چھٹے پر حضرت موسیٰ اور ساتویں پر حضرت ابراہیم علیہم السلام سے ملاقات کی ۔ اور ہر آسمان کا دروازہ اس وقت تک نہیں کھلا جب تک حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور ﷺ کا نام نہیں بتلایا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ شبِ معراج حضور ﷺ کو عزت و کرامت کی ایسی شاہ راہ سے لے جایا گیا جو صرف حضور ﷺ کے ساتھ مخصوص تھی ۔ اِس سے واضح ہوتا ہے کہ عزت و کرامت کا کوئی بھی دروازہ نامِ محمد ﷺ کے بغیر نہیں کھلتا ۔ جسے عزت و کرامت چاہیے اُسے حضور ﷺ کے نام کی مالا جپنی چاہیے ۔
سدرۃ المنتھیٰ سے گزرنے کے اسرار: سدرۃ المنتہی وہ مقام ہے جس سے نیچے والے اوپر نہیں جا سکتے اور اوپر والے نیچے نہیں آ سکتے ۔ مگر شبِ معراج حضور ﷺ اوپر بھی گئے اور اور اوپر جاکر نیچے بھی آگئے ۔ اوپر جانے سے معلوم ہوا کہ نیچے والے حضور ﷺ کے مثل نہیں اور اوپر جاکر واپس آنے سے پتہ چلا کہ اوپر کی مخلوق حضور ﷺ کی طرح نہیں ۔ حضورﷺ کائنات میں بے نظیر و بے مثیل ہیں ۔ نیز یہ معلوم ہوا کہ کائنات کی مخلوق کے لیے رب تعالیٰ نے ایک ایسی حد مقرر فرمائی ہے جس سے وہ مخلوق آگے نہیں جا سکتی ؛ مگر حضور ﷺ کے لیے اُس نے کوئی حد مقرر نہیں فرمائی ۔ یہ آقاے دوجہاں ﷺ کی وہ شان ہے جس میں آپ یکتا و تنہا ہے ۔ حضور سرکارِ تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
مصطفاے ذاتِ یکتا آپ ہیں
یک نے جس کو یک بنایا آپ ہیں
آپ جیسا کوئی ہو سکتا نہیں
اپنی ہر خوبی میں تنہا آپ ہیں
اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے محبوب داناے غیوب ﷺ کا مقام ومرتبہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ ﷺ کی غلامی میں جینے مرنے کی سعادت مرحمت فرمائے ! آمین بجاہ حبیبہ الکریم ﷺ