رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انداز فیصلہ
🌹رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انداز فیصلہ☀
۔ حضرت سیدنا عباس بن عبد المطلب ابھی مکہ ہی میں ہیں ۔ بدر میں ہونے والی شکست کا بدلہ لینے کے لیئے کفار مکہ کی تمام تیاریوں کو دیکھ رہے ہیں ۔ کفار کے کہنے کے باوجود ساتھ نہیں جاتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے ایک خط تیار کرتے ہیں اور اس میں ساری تفصیلات اور پروگرام اس میں لکھ کر سر بمہر کر کے ایک غفاری کو دیتے ہیں اور کہتے ہیں 3 دن میں ہر صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچاؤ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خط ملتا ہے اس کی مہر کھول کے ابی بن کعب سے پڑھوانے سے ساری صورت حال پتہ چلتی ہے تو پہلے خصوصی مشورہ ، پھر مشورہ عام ہوتا ہے ۔
رسول اللہ کی اپنی اور زیادہ تر صحابہ کی رائے ہے کہ مدینہ سے باہر نہ نکلا جائے ۔ کفار اندر آئیں گے ہی نہیں اور آئے تو گلی کوچوں میں مرد ، عورتیں، بچے سب کے خوب قابو آئیں گے ۔ لیکن کچھ صحابہ کی رائے باہر نکلنے کی ہے ۔
پھر باہر نکل کر مقابلہ کرنے کی رائے پختہ ہو جاتی ہے ۔ 14 شوال 3 ھ نماز جمعہ پڑھانے کے بعد مسلح ہونے کے لیئے اللہ کے رسول اپنے گھر تشریف لے جاتے ہیں ۔ اب اسید بن حضیر اور سعد بن معاذ نے کہا کہ آپ لوگوں نے اچھا نہیں کیا کہ اللہ کے رسول کو پسند نہ ہونے کے باوجود مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ کرنے کا کہا ہے ۔ اب ان حضرات کو بھی احساس ہوا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلح ہو کر کاشانہ نبوت سے باہر تشریف لائے تو اب عرض گذار ہوئے ۔
یا رسول اللہ! ہم سے بھول ہوئی ۔ اب جیسے آپ پسند فرمائیں ۔ چاہیں تو روانہ ہو لیتے ہیں اور چاہیں تو یہیں رہ جائیں
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
نبی کے لیئے مناسب ہی نہیں ہوتا کہ ایک بار ہتھیار پہن لے تو پھر انہیں اتار دے قبل اس کے اللہ اس کے اور اس کے دشمن کے درمیان فیصلہ کر دے ۔
📜فقیر خالد محمود صرف یہی عرض کرتا ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں تعداد بہت ہی کم ہے ۔ سامان جنگ بھی نہیں ۔ اپنی اور اکثریت کی رائے بھی نہیں تھی ۔ جن کی رائے تھی وہ بھی نادم اور معذرت کناں تھے لیکن رسول اللہ نے ، مسلمانوں کے لیڈر نے ، ان کے حاکم وقت نے اب رائے نہیں بدلی ، ہتھیار نہیں اتارے کہ اپنی قوم تذبذب کا شکار نہ ہو ۔ اس کا مورال ڈاؤن نہ ہو ۔ اپنی قوم کو واضح پیغام مل جائے کہ جو طے ہوا کرے گا وہی ہو گا اور رہے گا ۔
قریب پہنچے ہوئے دشمن کے سامنے بھی قوت فیصلہ کی کمی کمزوری کی بجائے فولادی نیت اور مضبوط قوت ارادی آئے ۔ کہنے والے یہ نہ کہیں کہ یہ تو عین موقع پر فیصلہ بدل لینے والی قوم ہے ۔ ان کا کیا بھروسہ ؟