’’ بحری سفر، ہوائی سفر ، ٹرین ، بس اور دیگر سواریوں کے سفر میں نماز پڑھنے کے احکام ‘‘

چلتی ہوئی سواری پرنماز پڑھنے کے مسائل کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے ایک اہم جزیہ ذہن میں رکھیں کہ نماز کی صحت کے لئے استقرار علی الارض شرط ہے یعنی سواری کا زمین پر ٹھہرنا شرط ہے ۔ اگر سواری زمین پر ہے اور ٹھہری ہوئی نہیں یا ٹھہری ہوئی ہے مگر زمین پر نہیں بلکہ پانی پر ہے مثلاً چلتی ہوئی ٹرین یا کنارے پر لگی ہوئی ناؤ یاکشتی۔ان پر بلا عذر نماز صحیح نہیں ۔

 صرف کنارے سے دوراور بیچ سمندرمیں چلتی ہوئی کشتی یا بحری جہاز (Steamer) پر ہی چلتی ہوئی حالت میں نماز صحیح ہے ۔ ان نمازوں کا اعادہ نہیں ۔ کنارے سے لگی ہوئی کشتی یا کنارے سے لگے ہوئے بحری جہاز میں جو زمین پر ٹکے نہ ہوں یا چلتی ہوئی ٹرین میں فرض ، وتر اور سنت فجر پڑھی ہے تواس کا اعادہ یعنی اس کو لوٹانا ضروری ہے ۔

چلتی اور ٹہہری ہوئی سواری پر نماز پڑھنے کے متعلق ضروری مسائل :-

مسئلہ: کنارے سے میلوں دور چلنے والے جہاز یاکشتی خواہ لنگر کئے ہوئے ہوں ، ان پر نماز جائز ہے اور جو جہاز یا کشتی کنارے پر ٹھہرے ہوئے ہوتے ہیں اگر وہ پانی پر ہوں زمین سے ٹکے نہ ہوں توان ٹھہرے ہوئے جہاز ، کشتی ، ناؤ وغیرہ میں فرض، وتر اور فجر کی سنتیں نہ ہوسکیں گی۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص۱۹۶)

مسئلہ: چلتی ہوئی کشتی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے جبکہ چکر آنے کا گمان غالب ہو ۔ ( غنیہ ، بہار شریعت، حصہ ۳ ، ص ۶۹)

مسئلہ: چلتی ہوئی کشتی پر نماز پڑھے تو تکبیر تحریمہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرے اورجیسے جیسے کشتی گھومتی جائے یہ نمازی بھی اپنامنہ پھیرتا جائے اگرچہ وہ نفل نماز پڑھ رہا ہو۔ ( غنیہ ، بہار شریعت ، حصہ ۳ ، ص ۵۰)

مسئلہ: دو کشتیاں باہم بندھی ہوئی ہوں ۔ ایک پر امام ہے اور دوسری پر مقتدی ہیں تو اقتدا صحیح ہے اور اگر جدا ہوں تو اقتدا صحیح نہیں ۔ ( درمختار، ردالمحتار، بہار شریعت ،حصہ۳ص۱۱۲)

مسئلہ: کنارے پانی پر ٹھہری ہوئی کشتی سے اتر کر جو شخص خشکی (زمین) پر نماز پڑھ سکتا ہے اس کی ایسی کشتی پر نماز ہوگی ہی نہیں ۔ ( درمختار، ردالمحتار، بہار شریعت، حصہ ۳ ص ۱۱۲)

کیونکہ وہ کشتی پانی پر ٹھہری ہوئی ہے ۔ استقرار علی الارض یعنی زمین پر ٹھہری ہوئی نہیں اور صحت نماز کے لئے استقرار علی الارض شرط ہے ۔

مسئلہ: کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی بندرگاہ پر کشتی ٹھہری۔ کشتی میں کام کرنے والے کشتی سے اتر کر خشکی میں نماز پڑھنا چاہتے ہیں لیکن اس بندرگاہ کے حکام اور حکومت کے منتظمین کشتی سے اترنے نہیں دیتے ۔ایسی صورت میںکشتی والوں کے لئے حکم ہے کہ وہ کشتی پر ہی پنج گانہ نماز پڑھ لیں اور پھر جب موقع ملے تب ان سب نمازوں کا اعادہ کریں ۔ فتاوٰی رضویہ شریف میں ہے کہ :-

’’ کنارے پرٹھہرے ہوئے جہازوں پر نماز پنجگانہ (پانچوں وقت کے فرض) وتر و سنت فجر بھی نہیں ہوسکتے کہ ان کا استقرار پانی پر ہے اور ان نمازوں کی شرط صحت استقرار علی الارض مگر بحالت تعذر ‘‘

مسئلہ: ’’ اس صورت میں اگر جبراً نہ اترنے دیتے ہوں پنجگانہ پڑھیں اور اترنے کے بعد سب کا اعادہ کریں ۔ لان المانع من جہۃ العباد‘‘ ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص۷۵۷)

مسئلہ: فرض ، واجب اور سنت فجر چلتی ہوئی ریل (Train) میں نہیں ہوسکتے اگر ریل (ٹرین) نہ ٹھہرے اور وقت نکل جارہا ہو تو چلتی ٹرین میں پڑھ لے اور پھر استقرار (ٹھہرنے) پر نماز کا اعادہ کرے ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۴۴)

مسئلہ: اسی طرح چلتی ٹرین، بس و دیگر سواریوں میں اگر کھڑا رہنا ممکن نہیںتو بیٹھ کر نماز پڑھ لے پھر بعد میں نماز کا اعادہ کرے ۔ ( فتاوٰی رضویہ ،جلد۱ ، ص ۶۲۷ )

نوٹ : ایک اہم تحقیق اور جزیہ کی وضاحت قارئین کرام کی خدمت میں افہام مسئلہ کی نیت صالح سے عرض خدمت ہے کہ سمندر میں چلتی ہوئی کشتی پرنمازپڑھنا جائز ہے جبکہ چلتی ہوئی ٹرین میں نماز پڑھنا جائز نہیں ۔اسی طرح ریلوے اسٹیشن یا کسی مقام پر ٹھہری ہوئی ٹرین میں نماز پڑھنا جائزہے جب کہ کنارہ پر ٹھہری ہوئی کشتی پرنماز پڑھنا جائز نہیں ۔ اب کسی کے دل میں یہ شبہہ اور دماغ میں یہ سوال پیدا ہونے کا امکان ہے کہ جب چلتی ہوئی کشتی پر نماز پڑھنا جائز ہے تو چلتی ہوئی ٹرین پر بھی نماز پڑھنا جائز ہونا چاہئے ۔اسی طرح جب ٹھہری ہوئی ٹرین پر نماز جائز ہے تو کنارہ پرٹھہری ہوئی کشتی پر بھی نماز پڑھناجائز ہونا چاہئے ۔

اس کاجواب یہ ہے کہ :-

چلتی ہوئی ٹرین پر اس لئے جائز نہیں کہ ٹرین کا چلنا زمین پر ضرور ہے لیکن چلنے کی وجہ سے اس کا زمین پر استقرار بالکلیہ نہیں لہٰذا نفس استقرار نہیں بخلاف چلتی ہوئی کشتی پر کہ جس سے اترنا ممکن نہیں اور بیچ سمندر میں کشتی اتر کر نماز پڑھنا ممکن ہی نہیں ۔ اگربالفرض اس کشتی کو روک بھی لیا جائے پھر بھی اس کا استقرار پانی پر ہوگا نہ کہ زمین پر ۔ لہٰذاکشتی کا چلنا اور ٹھہرنا دونوں برابر ہے ۔ یعنی کشتی کے چلنے اور ٹھہرنے کی دونوں صورتوں میں کشتی کا استقرار زمین کے بجائے پانی پر ہے لیکن اگر ٹرین روک لی جائے تو وہ زمین پر ہی ٹھہرے گی اور مثل تخت ہوجائے گی ۔

اس مسئلہ کی تحقیق میں مجدد دین وملت ، امام عشق و محبت ، امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان نے فقہ کی مشہور و معروف اور معتمد و مستند کتب مثل درمختار ، ردالمحتار، بحرالرائق ، غنیہ ، فتاوٰی ظہیریہ ، فتاوٰی ہندیہ ، محیط امام سرخسی ، شرح المنیہ ، فتح القدیر وغیرہ کے حوالوں سے علم کے دریا رواں کئے ہیں ۔ فتاوٰی رضویہ شریف کی ایک عبارت قارئین کی ضیافت طبع کی خاطر ذیل میںپیش خدمت ہے :-

’’ چلتی کشتی سے اگر زمین پر اترنا میسر ہوتوکشتی میں پڑھناجائز نہیں بلکہ عندا لتحقیق اگرچہ کشتی کنارے پر ٹھہری ہومگرپانی پر ہو اور زمین تک نہ پہنچی ہو اور یہ کنارے پر اتر سکتا ہے تو کشتی میں نماز نہ ہوگی کہ اس کا استقرار ( ٹھہرنا) پانی پر ہے اور پانی زمین سے متصل باتصال ( قریب لگا ہوا ہونا) قرار نہیں (ٹھہرنا نہیں) ۔ جب استقرار کی ان حالتو ںمیں نمازیں جائز نہیں ہوتیں جب تک زمین پر استقرار اور وہ بھی بالکلیہ (کامل) نہ ہو ۔ تو چلنے کی حالت میں کیسے جائز ہوسکتی ہیں کہ نفس استقرار ہی نہیں ۔ بخلاف کشتی رواں جس سے نزول میسر نہ ہو کہ اگر اسے روکیں گے بھی تو استقرار پانی پر ہوگا نہ کہ زمین پر ۔ لہٰذا سیر و قوف (چلنا اور ٹھہرنا) برابر لیکن اگر ریل روک لی جائے تو زمین پر ہی ٹھہرے گی اور مثل تخت ہوجائے گی ۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۴۴)

مسئلہ: ہوائی جہاز اگر اڈے (Airport) پر ٹھہرا ہوا ہے تو اس پر استقرار علی الارض کے جزیہ کی بنا ء پر نماز صحیح ہے اور اگر کوئی ہوائی جہاز فضا میں پرواز کر رہا ہے ، تو بھی اس میں نماز درست ہے ۔ فضا میں اڑتے ہوئے ہوائی جہاز پر نماز درست ہونا سمندر میں چلتی ہوئی کشتی پر نماز پڑھنے کی طرح ہے ۔ جس طرح چلتی ہوئی کشتی کو روک کر پانی پر اتر کر نماز پڑھنا ممکن نہیں اسی طرح اڑتے ہوئے ہوائی جہاز سے باہر آکر ہوا میں معلق ہوکر نماز پڑھنا ممکن نہیں۔ لہذا جس طرح سمندر میں چلتی ہوئی کشتی پر نماز پڑھنا درست ہے، اسی طرح فضا میں اڑتے ہوئے ہوائی جہاز میں بھی نماز درست ہے ۔ (نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری ، جلد۲، ص ۳۷۵)

مسئلہ: اگر بس (Bus) یاموٹر کار سے سفر کررہا ہے ۔ اگر اس کو روک کر نماز پڑھنے کااختیار ہے تو روک کر نیچے اتر کر نماز پڑھ لے ۔ اور اگر اسٹیٹ ٹرانسپورٹ (State Transport) یا کسی خانگی ٹرانسپورٹ (Private Transport) کی بس (Bus) سے سفر کررہا ہے اور اس کو روکنا اپنے اختیار میں نہیں توجہاں بس ٹھہرے وہاںکے بس اڈے (Bus Depot) پر اتر کر نماز پڑھ لے اور بس کسی مقام پر ٹھہرے گی اس انتظار میں اگر نماز کا وقت نکل جانے کا خوف و امکان ہے تو چلتی ہوئی بس میں نماز پڑھ لے ۔ اگر بس میں وسعت ہے اور وہ کھڑے ہوکر اور اگر کھڑے ہوکر ممکن نہیں تو بیٹھ کر رکوع اور سجود کرکے نماز پڑھ سکتا ہے تو اس طرح پڑھ لے اور اگر بس میں بھیڑ(Crowd) ہے اور یہ اپنی نشست (Seat) سے کھڑا یا ہل نہیں سکتا تو نشست پر بیٹھے ہوئے اشارہ سے پڑھ لے اوربہر حال چلتی ہوئی بس پر پڑھی ہوئی نماز کا بعد اعادہ ضروری ہے ۔

مسئلہ: اگر مذکورہ صورت سے بس میں نشست پر بیٹھے ہوئے اشارہ سے نماز پڑھنے کا اتفاق ہو اور اگر وضو ہے تو بہتر ہے اوراگر وضو نہیں تو تیمم کرلے اور تیمم کرنے کے لئے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ۔ بس کی کھڑکی (Window) سے ہاتھ باہر نکال کر بس کی باڈی(Body) کی باہری سطح کی لوہے کی چادر (Plate) پر ہاتھ پھرالے یعنی ضرب لگالے ۔ بس کے چلنے کی وجہ سے راستہ کا گردو غبار اس پر لگا ہوا ہوتا ہے اس گرد و غبار سے تیمم ہوسکتا ہے ۔