موضوع حدیث کے متعلق امام اہلسنت کا موقف
sulemansubhani نے Monday، 30 December 2019 کو شائع کیا.
تحریر : حسنین رضا قادری
🔥موضوع حدیث کے متعلق امام اہلسنت کا موقف۔۔!!!!!
فیسبک میں کئی دفعہ یہ بات دیکھنے کو ملی کہ بعض لوگ کسی حدیث کو موضوع قرار دیتے ہیں اور جب ان سے کہا جائے کہ امام اہلسنت نے اس حدیث کو ذکر کیا وہ فوراً ہی بلا تامل یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ امام اہلسنت کا تسامح ہے کہ انہوں نے سند کی تحقیق کیے بغیر حدیث لکھ دی جبکہ اصل سند میں متروک و کذاب راوی آ رہے ہیں لہذا یہ امام اہلسنت کا کھلا تسامح ہے۔۔۔
*تبصرہ مسکین* ۔۔۔میرے نزدیک اس طرح بلا جھجک اتنے بڑے امام کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کرنا سخت جرأت ہے اور تسامح کی نسبت امام اہلسنت کی طرف قطعا درست نہیں کیونکہ یہ امام اہلسنت کی قوی اور راجح تحقیق ہے اور اسی موقف کو امام سخاوی اور دیگر کئی آئمہ نے ترجیح دی جیسا کہ عنقریب ملاحظہ کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ لہذا اس حوالے سے ایک بہترین توجیہ عرض کرنے کی سعی کرتا ہوں۔۔۔۔۔
سب سے پہلے یہ اصول رکھ لیجئے کہ کسی بھی حدیث کو موضوعیت پہچاننے کے 15 قرائن ہیں اگر وہ قرائن پائے جائیں تو حدیث بالاتفاق موضوع کہلاتی ہے وہ قرآن درج ذیل ہیں۔۔
١) قرآن عظیم (٢) سنتِ متواترہ (٣) یا اجماعی قطعی قطعیات الدلالۃ (٤) یا عقل صریح (٥) یا حسن صحیح (٦) یا تاریخ یقینی کے ایسا مخالف ہوکہ احتمالِ تاویل وتطبیق نہ رہے۔(٧) یا معنی شنیع وقبیح ہوں جن کا صدور حضور پُرنور صلوات الله علیہ سے منقول نہ ہو،جیسے معاذالله کسی فساد یا ظلم یا عبث یا سفہ یا مدح باطل یا ذم حق پر مشتمل ہونا۔(٨) یا ایك جماعت جس کا عدد حدِ تواتر کو پہنچے اور ان میں احتمال کذب یا ایك دوسرے کی تقلید کا نہ رہے اُس کے کذب وبطلان پر گواہی مستندًا الی الحس دے۔
(٩) یا خبر کسی ایسے امر کی ہوکہ اگر واقع ہوتا تو اُس کی نقل وخبر مشہور ومستفیض ہوجاتی،مگر اس روایت کے سوا اس کا کہیں پتا نہیں۔
(۱۰) یا کسی حقیر فعل کی مدحت اور اس پر وعدہ وبشارت یا صغیر امر کی مذمّت اور اس پر وعید وتہدید میں ایسے لمبے چوڑے مبالغے ہوں جنہیں کلام معجز نظام نبوت سے مشابہت نہ رہے۔یہ دس١٠ صورتیں تو صریح ظہور ووضوحِ وضع کی ہیں۔
(١١) یا یوں حکم وضع کیا جاتا ہے کہ لفظ رکیك وسخیف ہوں جنہیں سمع دفع اور طبع منع کرے اور ناقل مدعی ہوکہ یہ بعینہا الفاظ کریمہ حضور افصح العرب صلی الله تعالٰی علیہ وسلم ہیں یا وہ محل ہی نقل بالمعنی کا نہ ہو۔
(١٢) یا ناقل رافضی حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہ ہوں،جیسے حدیث:لحمك لحمی ودمك دمی (تیرا گوشت میرا گوشت،تیرا خُون میرا خُون۔ت)
(١٣) یا قرائن حالیہ گواہی دے رہے ہوں کہ یہ روایت اس شخص نے کسی طمع سے یاغضب وغیرہما کے باعث ابھی گھڑکر پیش کردی ہے جیسے حدیث سبق میں زیادت جناح اورحدیث ذم معلمین اطفال۔
(١٤) یا تمام کتب وتصانیف اسلامیہ میں استقرائے تام کیاجائے اور اس کاکہیں پتانہ چلے یہ صرف اجلہ حفاظ ائمہِ شان کاکام تھاجس کی لیاقت صدہاسال سے معدوم۔
(١٥) یاراوی خود اقرار وضع کردے خواہ صراحۃً خواہ ایسی بات کہے جو بمنزلہ اقرار ہو،مثلًا ایك شیخ سے بلاواسطہ۔۔
اب اگر کوئی حدیث ان 15 قرائن سے خالی ہو تو اس کو موضوع کہنے کے متعلق 3 مذاھب ہیں۔۔
1 ) *امام سخاوی کا مذھب_* …
امام سخاوی کے نزدیک جو حدیث ان پندرہ عیوب سے خالی ہو اس کو موضوع نہیں کہا جا سکتا اگرچہ اس حدیث کا مدار کذاب یا متہم بالکذب پر ہی کیوں نہ ہو چنانچہ امام سخاوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔”ﻣﺠﺮﺩ ﺗﻔﺮﺩ اﻟﻜﺬاﺏ ﺑﻞ اﻟﻮﺿﺎﻉ، ﻭﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﺑﻌﺪ اﻻﺳﺘﻘﺼﺎء ﻓﻲ اﻟﺘﻔﺘﻴﺶ ﻣﻦ ﺣﺎﻓﻆ ﻣﺘﺒﺤﺮ ﺗﺎﻡ اﻻﺳﺘﻘﺮاء – ﻏﻴﺮ ﻣﺴﺘﻠﺰﻡ ﻟﺬﻟﻚ، ﺑﻞ ﻻ ﺑﺪ ﻣﻌﻪ ﻣﻦ اﻧﻀﻤﺎﻡ ﺷﻲء۔۔(فتح المغیث ،ج1 ،ص313)..
2۔ *حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کا مذھب*۔
آپ کے نزدیک اگر کوئی حدیث ان 15 عیوب سے خالی ہے لیکن اس کا راوی کذاب ہے تو اس حدیث کو تب بھی موضوع کہا جائے گا ﻟﺃﻥ اﻟﻄﻌﻦ ﺇﻣﺎ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻟﻜﺬﺏ اﻟﺮاﻭﻱ ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ اﻟﻨﺒﻮﻱ، ﺑﺄﻥ ﻳﺮﻭﻱ ﻋﻨﻪ
[ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ] ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﻘﻠﻪ ﻣﺘﻌﻤﺪا ﻟﺬﻟﻚ ﺃﻭ ﺗﻬﻤﺘﻪ بذلك ﻓﺎﻟﻘﺴﻢ اﻷﻭﻝ ﻭﻫﻮ / اﻟﻄﻌﻦ ﺑﻜﺬﺏ اﻟﺮاﻭﻱ ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ اﻟﻨﺒﻮﻱ ﻫﻮ اﻟﻤﻮﺿﻮﻉ…(شرح نخبة الفكر مع نزهة النظر ص 430-435 ، ملخصا..)
3۔ *امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ کا مذھب* ۔
امام جلال الدین سیوطی اور علامہ زرکشی علیہ الرحمہ کے نزدیک ان 15 قرائن سے خالی حدیث کا راوی اگر متہم بالکذب یا کذاب ہے تو تب بھی حدیث موضوع کہلائے گی،۔
اب تین مذاھب میں سے امام اہلسنت نے پہلے مذھب یعنی علامہ سخاوی علیہ الرحمہ کے مذھب کو اختیار فرمایا ہے لہذا امام اہلسنت کے نزدیک جو حدیث بھی ان 15 عیوب سے خالی ہو اس پر موضوعیت کا حکم نہیں لگایا جا سکتا اگرچہ اس میں کذاب راوی ہی کیوں نہ ہو۔۔
تو اب امام اہلسنت نے اپنے فتاویٰ میں کوئی ایسی حدیث ذکر فرمائی جو ان پندرہ عیوب سے خالی ہو لیکن اس میں کذاب راوی تو اس بات کو پکڑ کر امام اہلسنت پر تسامح کا فتویٰ نہیں لگایا جائے بلکہ یہ کہا جائے کہ امام اہلسنت کے موقف و تحقیق کیے مطابق یہ حدیث موضوع نہیں ہے۔۔
( *نوٹ : امام اہلسنّت نے علامہ سخاوی علیہ الرحمہ کے مذھب کو کئی دلائل سے قوی قرار دیا* اور اس پر کئی آئمہ کی نصوص پیش فرمائیں جیسا کہ آخر میں آپ فرماتے ہیں،”الحمدلله اب بوجہ کثیر اسے تاکد وتائید حاصل ہوا کلام۱ امام سخاوی کی تصریح کلام۲ علّامہ قاری وعلامہ۳ مناوی ہیں اُس کے نظائر۴ صریح کلام امام اجل شعبہ بن الحجاج سے استنباط صحیح تعریف۵ امام ابن الصلاح وامام۶ نووی وامام۷ عراقی وامام۸ قسطلانی کا اقتضائے نجیع حدیث۹ سے تائید دلیلِ عقل ۱۰ سے تشیید کلام امام۱۱ بخاری وعلامہ ابن عراق۱۲ سے تاکید الحمدلله سرا وجھرا فقد حقق رجائی واحدث امرا تمام خوبیاں ظاہرًا وباطنًا الله کے لئے ہیں پس اس نے میری امید پوری کی اور نئی راہ پیدا فرمائی” ۔۔(فتاویٰ رضویہ جلد 5 صفحہ 594)..
*مزید تفصیلی دلائل کے لیے فتاویٰ رضویہ جلد 5 کا مطالعہ کیجئے*
دعا ہے کہ اللہ پاک حق فہمی کی توفیق بخشے۔۔۔۔
✍ حسنین رضا قادری
ٹیگز:-