صحیح بخاری کی ایک بہت ہی نایاب سند۔۔!!!

صحیح بخاری کی جو ایک نایاب سند جس کی عاجز کو بہت تلاش تھی لیکن پاک و ہند میں کہیں سے نہیں مل رہی تھی اور جن علماء کے پاس فقیر گیا ان کے پاس وہی اسناد تھیں جو عاجز کے پاس پہلے سے موجود تھیں کیونکہ پاک و ہند میں تقریبا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی اسناد رائج ہیں اور عموما مدارس میں انہی کی اسناد کی اجازت دی جاتی ہے۔

پھر الحمدللہ علامہ حق النبی سکندری سندھی حفظہ اللہ تعالی نے شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی اسناد پر مشتمل ان کی کتاب “ذکر اجازات الحدیث فی القدیم والحدیث”کو اپنی تحقیق سے چھپوایا اور علامہ سکندری حفظہ اللہ کو اس کتاب کی اسناد کی اجازت ان کے والد گرامی مفتی اعظم سندھ علامہ عبدالرحیم سکندری سندھی علیہ الرحمہ سے اور دوسرے علمائے سندھ سے ہے اور عاجز کو علامہ سکندری حفظہ اللہ تعالی نے 4 جمادی الثانی 1440ھ کواس کتاب کی اجازت عنایت فرمائی الحمدللہ، لیکن اس کتاب میں صحیح بخاری کی وہ سند موجود نہ تھی جو عاجز کو تلاش تھی۔

بالآخر کافی جستجو اور تلاش کے بعد عاجز کو یہ نایاب سند علامہ محمد زاہد البکری الصدیقی النقشبندی حفظہ اللہ تعالی سے ملی اور علامہ الصدیقی حفظہ اللہ کو اس سند کی اجازت عرب کے عالم علامہ اسامہ محمد صالح المحضار حفظہ اللہ تعالی سے ہے اور عاجز کو علامہ محمد زاہد الصدیقی حفظہ اللہ تعالی نے اس سند کی اجازت 23 جمادی الثانی 1440ھ کو عنایت فرمائی۔

لیکن عاجز کے چائینہ جاتے وقت وہ سند کا اجازت نامہ کہیں کھو گیا تھا اس لئے اس سند کو ظاہر نہ کیا تاکہ کہیں تدلیس و ارسال کا اعتراض شروع نہ ہو جائے، لیکن الحمدللہ آج اپنے پرانے موبائل سے اس اجازت نامے کی تصویر ملی جو میرے موبائل میں محفوظ تھی اور یہ بات اس وقت میرے لئے بہت بڑی خوشی کا باعث ہے۔اب وہی اجازت نامہ فیس بک پر شیئر کر رہا ہوں تاکہ مستقبل میں اس پر کوئی اعتراض نہ ہو۔

اس سند کی خصوصیت یہ ہے کہ اس سند میں امام ابوذر عبد بن احمد بن محمد بن عبداللہ بن غفیر بن محمد المعروف ابن السماک الانصاری الخراسانی الہروی المالکی اپنے تین شیوخ سے ایک ساتھ صحیح بخاری روایت کرتے ہیں اور ایسی بات صحیح بخاری کی اور اسناد میں نہیں ہے۔

امام ابوذرالہروی ان تین شیوخ کے نام یہ ہیں جن سے وہ ایک ساتھ صحیح بخاری روایت کرتے ہیں:

1-امام ابو محمد عبداللہ بن حمویہ السرخسی علیہ الرحمہ

2-امام ابواسحاق ابراہیم بن احمد المستملی البلخی علیہ الرحمہ اور

3- امام ابوالہیثم محمد بن المکی الکشمہینی علیہ الرحمہ

اور امام ذہبی علیہ الرحمہ نے بھی امام ابوذر الہروی کے ترجمہ میں ان تینوں ائمہ سے ان کا صحیح بخاری کی روایت کا ذکر کیا ہے جیسے کہ سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں:

وراوي ” الصحيح ” عن الثلاثة: المستملي، والحموي، والكشميهني

[سیر اعلام النبلاء ج 17 ص 555 رقم 370]

اور یہی تینوں ائمہ پھر صحیح بخاری امام ابو عبداللہ محمد بن یوسف الفربری علیہ الرحمہ سے روایت کرتے ہیں اور امام الفربری علیہ الرحمہ امام بخاری علیہ الرحمہ کے شاگرد خاص ہیں اور ان کی روایت صحیح بخاری کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔

اور یہ سند بہت ہی نایاب ہے اور بہت ہی کم علماء کے پاس موجود ہے پاک و ہند میں جیسے اس عاجز کا تجربہ بتاتا ہے۔

اس کے علاوہ اس طرح کی سند کا ذکر سلفی عالم زبیر علی زئی صاحب نےبھی کیا ہے جو اس کو اس کے استاد بدیع الدین راشدی سندھی سے اجازت حاصل ہے [مقالات زبیر علی زئی ج 1 ص 488-489] اور یہ سند ابن تیمیہ کے طرق سے ہے لیکن یہ سند متصل نہیں ہے بلکہ اس میں تین جگہ پر انقطاع ہے لیکن پھر مزید تحقیق کی غرض سے راشدی صاحب کے رسالہ کی تلاش کی اس سوچ کے کہیں زبیر علی زئی سے سند لکھتے وقت غلطی نہ ہو گی ہو۔

پھر عاجز کو بدیع الدین راشدی صاحب کا رسالہ “منجد المستجیز لروایۃ السنۃ والکتاب العزیز” پی ڈی ایف فارمیٹ میں ملا اس رسالہ میں راشدی صاحب نے صفحہ 10 پر اس سند کو ذکر کیا اور یہ اسی طرح تھی جس طرح زبیر علی زئی نے لکھی تھی لیکن زبیر علی زئی نے اس سند میں امام ابن رجب حنبلی کا واسطہ گر دیا تھا لیکن یہ واسطہ اس کے استاد راشدی کے رسالے میں موجود ہے۔

خیر زئی اور راشدی صاحبان کی یہ سند متصل نہیں ہے لیکن پھر بھی زئی صاحب بڑے فخر سے اس کو اپنی کتب میں ذکر کرتے رہے اور یہی دعوی کرتے رہے کہ ان کی سند میں مقلدین راوی نہیں ہیں لیکن زئی صاحب یہ تحقیق کرنا بھول گے کہ ان کی منقطع سند میں بھی منفرد راوی امام ابوذر الہروی خود مالکی مقلد ہیں جس کا ثبوت کتب رجال میں موجود ہے ۔

اللہ عزوجل ایسے بندوں کو ہدایت دے۔

آمین

ثبوت کے طور عاجز کا اجازت نامہ اس پوسٹ کے نیچے موجود ہے ۔

عسقلانی غفراللہ لہ

3 اپریل 2020ء