فقہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی رائج کرنے کی وجہ

کچھ خارجی قسم کے لوگوں کی جانب سے عموماً اعتراض ہوتا کہ کہ فقہ کو مدون کرنے کی کیا ضرورت تھی

اگر یہ اتنا ہی ضروری تھا تو صحابہ اکرام نے یہ کام کیوں نہیں کیا امام اعظم ابوحنیفہ کو ہی یہ کام سوجھا؟

انکا یہ اعتراض دراصل ذاتی بغض و عناد پر مبنی ہے جوکہ اس بات سے بالکل واضح ہوجاتا ھے جو امام اعظم ابوحنیفہ پر الزام عائد کرتے ہیں کہ انکو صرف سترہ احادیث یاد تھی۔

جبکہ ہم فقہ و تفسیر کی پرانی کتب پڑھے تو محدثین و فقہا جگہ جگہ اور ہر اختلافی موضوع پر امام اعظم ابوحنیفہ کا مؤقف ضرور بیان کرتے ہیں اور اکثر ان سے اتفاق رائے بھی کرتے ہیں۔

علامہ سعدالدین تفتازانی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو کہ درس نظامی میں جس کی اتنی کتب پڑھائی جاتی ہوں جتنی کہ علامہ سعدالدین تفتازنی کی پڑھائی جاتی ہیں۔

علامہ سعدالدین تفتازانی خارجیوں کی جانب سے ہونے والے اعتراضات کہ فقہ حنفی شافعی مالکی حنبلی کو رائج کیوں کیا اور صجابہ اکرام یہ کام کیوں نا کیا کا نہایت احسن طریقے سےجواب دیتے ہیں کہ خارجیوں کےپاس حنفیوں کی حقانیت یا علامہ سعد الدین تفتازانی کے انکار کے سواء کوئی چارہ نہیں بچتا۔

چنانچہ علامہ سعدالدین تفتازانی پہلے اعتراض کے صحابہ نے یہ کا کیوں نا کیا کا جواب دیتے ہوے لکھتے ہیں کہ

اور متقدمین یعنی صحابہ اور تابعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت اور آپ کے زمانے سے قریب ہونے کے سبب اور نئے مسائل اور اختلافات کم پیش آنے اور قابل اعتماد حضرات سے رجوع اور دریافت کرنے پر قادر ہونےکے سبب ان دونوں علموں( یعنی کہ علم الشرائع والاحکام (فقہ) اور علم التوحید والصفات ) کو مدون کرنے اور باب دار اور فصل دار مرتب کرنے اور انکے مسائل کو جزئیات و کلیات کی شکل میں بیان کرنے سے مستغنی اور بے نیاز تھے۔

اور اسکے آگے علامہ سعد الدین تفتازانی خارجیوں کے اعتراض کے فقہوں کو کیوں رائج کیا کا جواب دیتے ہوے لکھتے ہیں کہ.

یہاں تک کہ مسلمانوں کےدرمیان فتنے اور آئمہ دین پر ظلم رونما ہوا اور راویوں کا اختلاف اور بدعات و خواہش نفس کی طرف لوگوں کا میلان ظاہر ہوااور نئے نئے مسائل اور علماء کے فتاوی اور اہم مسائل میں علماء کی طرف لوگوں کا رجوع بڑھ گیا تو علماء اکرام نظر و استدلال اجتہاد و استنباط اور قواعد و اصول بیان کرنے اور ابواب و فصول ترتیب دینے اور دلائل کےساتھ زیادہ سے زیادہ مسائل بیان کرنے اور اعتراضات کو ان کے جواب سمیت ذکر کرنے اور اصطلاحی الفاظ کو متعین کرنےاور مذاھب واختلافات بیان کرنے میں لگ گئے اور انھوں نے اس علم کا جو تفصیلی دلائل کےساتھ احکام عملیہ کی معرفت عطاء کرے فقہ نام رکھا۔

(شرح عقائد ص 30 -31 مکتبہ البشری)

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ شریروں کےشر سے محفوظ رکھےآمین

احمدرضارضوی