حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر اعتراضات اور ان کے جوابات
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر اعتراضات اور ان کے جوابات
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبان مبارک سے کئی بار جنت کی بشارت پانا ، بیررومہ کا وقف ِ عام فرما کر جنتی چشمہ کا مالک بننا ۔ غزوہ تبوک کے موقع پر عسر ت وتنگ دستی کے دور میں سب سے زیادہ فیاضی فرما کر لسانِ نبو ت سے دادِ تحسین حاصل کرنا او رسرکار کا اس موقع پر ان کی نذر کردہ رقم کو اچھالتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمانا ” ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم ” (آج کے بعد عثما ن پر کسی عمل کامواخذہ نہیں) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو شہزادیوں کا یکے بعد دیگر ے ان کے عقد میں آکر ذوالنورین کا خطاب پانا ، بیعت ِرضوان کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اپنے دستِ کریم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دے کر انہیں شاملِ بیعت فرمانا ، دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع فرماکر ملتِ اسلامیہ کو بڑے افتراق وانتشار سے محفوظ فرمانا ،یہ وہ مناقبِ جلیلہ او ر اوصافِ حمیدہ ہیں جن کے لئے صرف حضر ت امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ والا کو چنا گیا ہے ۔
ان اعلیٰ اوصاف کے تناظر میں کوئی مسلمان ان بیہودہ او ر خود ساختہ الزامات کا حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذات میں موجود گی کا تصور بھی نہیں کر سکتا جن کا ان کی ذات کومورد ٹھہرایا گیا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کایہ پہلو بڑا درد ناک ہے کہ جوبے بنیاد الزامات ان پر عائد کئے جا تے ہیں ان میں بیشتر الزامات وہ ہیں جو ان کی حیاتِ طیبہ میں ان کے روبر ولگائے گئے اور ان کے تشفی بخش جوابات خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دیئے ،چاہئے تو یہ تھا کہ سلسلہءِ اعتراضات ختم ہوجاتا مگر افسوس یہ سلسلہ آپ کی شہادت کے بعد بھی دورِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کرآج تک زور و شور سے جاری ہے۔ مشکوۃ شریف میں صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بابت حضر ت عبدا للہ بن عمر اور ایک صاحب کے درمیان مکالمہ مذکو رہے جس کاخلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ ایامِ حج میں ایک صاحب نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تین سوال کئے ۔
پہلا یہ تھا کہ کیا عثما ن جنگِ احد میں بھاگے نہیں تھے ؟ ۔۔۔۔۔۔ آپ نے فرمایا !ہاں ۔۔۔۔۔۔ دوسراسوال یہ کہ کیاعثمان غنی جنگِ بدر میں غیر حاضر نہیں تھے ؟ ۔۔۔۔۔۔ آپ نے فرمایا ! ہاں ۔۔۔۔۔۔ اس کا تیسرا سوال یہ تھا کہ کیابیعتِ رضوان میں وہ غائب نہیں تھے ؟ ۔۔۔۔۔۔ آپ نے فرمایا !ہاں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس شخص نے یہ جان کرکہ میرے سوالات کا حضر ت ابنِ عمر نے اعتراف کیاہے ، خوش ہوکر اللہ اکبر کانعرہ لگایا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ان تینوں سوالوں کا جواب بھی لیتاجا،پھر آپ نے اس کے سوالوں کاترتیب وار جواب دیا ۔ فرمایا !۔۔۔۔۔۔ جہاں تک جنگِ احد میں فرار کاتعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں ان کی معافی کااعلان کرچکا ہے (یعنی جب اللہ تعالیٰ نے معافی کااعلان فرمادیا تو اعتراض کیسا ۔۔۔۔۔۔؟) دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ وہ جنگِ بدر میں اسلئے حاضر نہیں ہوسکے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صاحبزادی او ر اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں دو انعاموں سے نوازا ۔۔۔۔۔۔ انہیں مجاہدینِ بدر میں شامل فرماکر ان کے لئے اجروثواب کااعلان فرمایا اور انہیں غنیمت میں دوسرے مجاہدین کی طرح حصہ بھی عطا فرمایا ۔ او رتیسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کواہلِ مکہ کی جانب اپنا سفیر اور نمائندہ بنا کر ان کازبردست اعزاز و اکرام فرمایا ان کے مکہ جانے کے بعد بیعت ِرضوان کامعاملہ پیش آیا پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں بیعتِ رضوان کے خوش بخت لوگوں میں شامل فرمایا ، اپنا دایاں ہاتھ بلند کرکے فرمایایہ عثمان کاہاتھ ہے پھر اس اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر حضرت عثمان غنی کی بیعت لی ۔ حضرت ابنِ عمر نے جوابات سے فارغ ہوکر اس معترض سے فرمایا ”اذھب بھاالآن” ان جوابات کو اپنے ساتھ لیتاجا ، یعنی ان سوالات کے ذریعے تم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نیچا دکھانا چاہتے تھے مگر تم نے دیکھ لیا کہ تینوں واقعات ان کی عظمت کے چمکتے ہوئے نشانات ہیں ۔ (مشکوۃ المصابیح مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ،چشتی)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف اس طوفانِ بدتمیزی کا اصل سبب یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلام کا بدخواہ ایک سازشی گروہ پیدا ہوچکا تھا جس کا قائد عبد اللہ بن سبا تھا جس نے بڑی تیزی کے ساتھ کوفہ ، بصرہ ، مصر اور بعض دوسرے شہروں میں لوگوں کو اپنا ہم نوابنایا اورسادہ لوح عوام کواپنے دام تزویرمیں پھنسا کرخلیفہ اسلام سے بد گمان کرکے ان کے خلاف ایک محاذ قائم کیا یہ بے بنیاد الزامات و اتہامات اسی گروہ کے تراشے ہوئے ہیں ۔ اس سبائی گروہ کی باقیات و نسل آج بھی ان خودساختہ الزامات کو بنیاد بناکرحضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کوہدفِ تنقید بنارہے ہیں ۔ اوراہلِ حق نے ہمیشہ ہر دور میں ان الزامات سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی براء ت ثابت کرکے ان کی پوزیشن واضح فرمائی ۔ لہذا مناسب ہوگاکہ ان سطو رمیں چند ایسے الزامات کامع جوابات کے ذکر کیاجائے جو شہرت کے ساتھ آپ کی ذات پر عائد کئے گئے ہیں ۔
(1) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے مناصب سے معزول کرکے اپنے رشتہ داروں کو ان کی جگہ مقرر کیا ، چنا چہ حضر ت مغیرہ بن شعبہ کوفہ کی گورنری سے ہٹا کرحضرت سعد بن ابی وقاص کا تقرر کیا پھر انہیں معزول کیا اور ان کی جگہ ولید بن عقبہ کو گورنر بنایا ، اسی طرح حضر ت ابو موسیٰ اشعری کوبصرہ کی گورنر ی ہٹا کر عبد اللہ بن عامر کو بطورگور نرمقرر کیا ، یونہی حضر ت عمر وبن العاص کو مصر کی گورنر ی معزول کرکے عبد اللہ بن ابی سرح کو اس منصب پر بٹھایا ، ان تمام کاروائیوں کی اصل بنیاد اقربہ پروری ہے کیونکہ عبد اللہ بن ابنی سرح ، عبد اللہ بن عامر ، اور ولید بن عقبہ حضر ت عثما نِ غنی رٰ اللہ عنہم کے قریبی رشتہ دار تھے ۔
(2) بغیر کسی استحقاق کے اپنے اعزہ واقارب کو بیت المال سے بڑی بڑی رقمیں دلائیں ۔
(3) حکم بن ابی العاص کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے افشاء راز کے جرم میں طائف کی طرف جلاوطن کردیا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے بعد شیخین نے اس سزاکو برقراررکھا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو حکم کو مدینہ طیبہ بلالیا اور یہ اس لئے تھا کہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا تھے ۔ (چشتی)
(4) باغیوں کا ایک وفد جو مصر ، کوفہ اور بصرہ کے لوگوں پر مشتمل تھا مدینہ طیبہ میں حضر ت علی ، حضر ت طلحہ اور حضرت زبیر وغیرہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزل کا مطالبہ کر رہا تھا ، جب ان بزگوں نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر واپس کردیا تو بعد میں بصری وفد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا انہوں نے ان کی واپسی کی وجہ پوچھی توانہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک خط پکڑا ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے گورنر مصر کے نام لکھا ہے جس میں اسے حکم دیا گیا ہے کہ جب وفد تمہارے پاس پہنچے تو اسے قتل کردینا ، اس خط پر حضرت عثما نِ غنی کی مہر لگی ہوئی تھی جب حضرت عثمان غنی سے اس خط کی بابت سوال کیا گیا ۔ توآپ نے لاعلمی کا اظہارکیا ، اس لئے لوگوں نے نتیجہ نکالا کہ پھر یہ خط مروان نے لکھا ہوگا جو حضر ت عثمان کے چچازاد بھائی ان کے سیکریٹری ہیں سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی سازش پکڑے جانے کے باوجود حضرت عثمان نے مروان کوسزاکیوں نہ دی او راسکے جرائم پرپردہ کیوں ڈالا گیا ۔
(5) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حجۃالوداع میں منیٰ و عرفات میں نمازِ قصر ادا فرمائی اور شیخین کاعمل بھی اسی پر رہا مگر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ منیٰ وعرفات میں اتمام کرتے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور طریقہ شیخین کے خلاف تھا ۔
ان تمام سوالات کے اختصارکے ساتھ جوابات پیشِ خدمت ہیں
پہلے ، دوسرے اور پانچویں سوال اور بہت سے دیگرسوالات کے خود حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوابات دئیے جو ھدیہ قارئین کئے جاتے ہیں ، چنانچہ تاریخِ اسلام مؤلفہ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی میں ہے ، ایک شخص نے اٹھ کر سوال کیا کہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ناجائز طورپرمال دیتے ہیں مثلاً عبد اللہ بن سعد کو آپ نے تمام مالِ غنیمت بخش دیا حضرت عثمانِ غنی نے جواب دیا کہ میں اس کو مالِ غنیمت کے خمس میں سے صرف پانچواں حصہ دیا ہے مجھ سے پہلے خلافتِ صدیقی ، فاروقی میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ اس کے بعد ایک اور شخص اٹھا اس نے کہا کہ تم نے اپنے عزیز و اقارب کو امارتیں اور حکومتیں دے رکھی ہیں مثلاً معاویہ بن سفیان جن کو تمام ملک ِشام پر امیر بنا رکھا ہے بصرہ کی امارت سے ابو موسیٰ اشعری کو معزول کر کے ان کی جگہ عبد اللہ بن عامر کو امیر بنایا ، کوفہ کی امارت سے مغیرہ بن شعبہ کوجدا کر کے ولید بن عقبہ کو اس کے بعد سعید بن العاص کو امیر بنایا ۔ یہ سن کر حضرت عثمانِ غنی نے فرمایا کہ جن لوگوں کومیں نے امارتیں دے رکھی ہیں وہ سارے میرے اقارب نہیں اور وہ اپنے عہدوں کے کام کو بحسن و خوبی انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہیں ۔
اگرآپ کی رائے کے مطابق امارت کے قابل نہیں ہیں اورمجھ پر ان کی بے جا رعایت کا الزام عائد ہوتا ہے تو میں ان لوگوں کی جگہ دوسروں کو مقرر کرنے کےلئے تیار ہوں ۔ چنانچہ میں نے سعید بن العاص کو ان کی امارت سے الگ کر کے ابو موسیٰ اشعر ی کو کوفہ کا گورنر بنایا ہے ۔ اس کے بعد ایک شخص نے کہا تم نے بلا استحقاق اور ناقابل رشتہ داروں کو امارتیں دی جوان امارتوں کے اہل نہ تھے مثلاً عبد اللہ بن عامر ایک نوجوان شخص ہیں ان کو والی نہیں بنانا چاہئے تھا حضرت عثمان نے جواب دیا کہ عبد اللہ بن عامر عقل و فراست ، دین داری اور قابلیت میں خاص طور پر ممتاز ہے محض نوجوان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اسامہ بن زید کو صرف 17 سال کی عمر میں کیوں امیر بنایا تھا ۔(چشتی)
اس کے بعد ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ آپ کو اپنے کنبے والوں سے بڑی محبت ہے آپ ان کو بڑے بڑے عطیا ت دیتے ہیں حضرت عثمانِ غنی نے جواب دیا کہ خاندان والوں سے محبت ہونا کوئی گناہ نہیں ہے میں اگر ان کو عطیا ت دیتا ہوں تو بیت المال سے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مال سے دیتا ہوں بیت المال سے تو میں اپنے خرچ کیلئے بھی ایک کوڑی نہیں لی ، اپنے رشتہ داروں کیلئے بلا استحقاق کیسے لے سکتا ہوں اپنے ذاتی مال کا مجھے اختیار ہے چاہے جس کو بھی دوں ۔ اس کے بعد ایک شخص اٹھا او راس نے کہا کہ تم نے چراگاہ کو اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے حضر ت عثما نِ غنی نے جواب دیا کہ میں جب خلیفہ نہ تھا تو مدینہ میں مجھ سے زیادہ نہ اونٹ کسی کے پاس نہ ہی بکریاں لیکن آج کل میرے پا س صرف دو اونٹ ہیں جو صرف حج کی سواری کے لیے ہیں میں ان کو چرائی پر بھی نہیں بھیجتا البتہ بیت المال کے اونٹوں کی چراگاہ مخصوص ضرور ہے اور وہ میرے زمانے میں نہیں بلکہ پہلے سے مخصوص چلی آ رہی ہے اس کا مجھ پر الزام نہیں لگایا جاسکتا ۔
پھر ایک شخص نے کہا کہ تم بتاؤکہ تم نے منیٰ میں پوری نمازکیوں پڑھی حالانکہ قصر کرنی چاہئے تھی حضرت عثمان نے جواب دیا کہ میرے اہل وعیال مکہ میں مقیم تھے لہذا میرے لئے نماز قصر نہ کرنا جائز تھا ۔ (تاریخ اسلام جلد اول صفحہ نمبر 341 ،چشتی)
گورنروں کے عزل ونصب کے سلسلے میںیہ با ت ذہن نشین ہونی چاہئے کہ تقرری اور برخاستگی کاسلسلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِخلافت کے ساتھ مخصوص نہیں ۔ شیخین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے دورمیں جہاں عزل ونصب کی ضرور ت محسوس کی گئی ، عزل ونصب کیاگیا ۔ چنانچہ حضر ت عمر نے حضر ت ابو موسیٰ اشعری کوبصرہ کی گورنری سے علیحدہ کیا اسی طرح حضرت سعدبن ابی وقاص کوبھی بصرہ کی گورنری سے حضرت عمر نے معزول فرمایا تھا اورحضر ت خالد بن ولیدکی کمانڈر انچیف کی حیثیت سے برخاستگی مشہورومعروف ہے جس طرح حضرت عمر نے بعض حالات کے تحت بعض جلیل الشان صحابہ کو ان کے عہدوں سے الگ کیا اسی طرح حضر ت عثما نِ غنی رضی اللہ عنہ نے جن حضرات کوانکے عہدوں سے الگ کیا اس کے معقول اسباب و وجوہ تھے ۔ اورجن حضر ت کا تقرر فرمایا وہ باصلاحیت لوگ تھے ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، عہدِ شیخین میں کسی عہدہ پر فائز رہے تھے ۔ مثلاً ولیدبن عقبہ فتح مکہ کے زور مسلمان ہوئے پھر انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بنو مصطلق کے صدقات کاعامل مقرر فرمایا او ر حضرت عمر نے انہیں عرب الجزیرہ کاعامل بنایا اسی طرح عبد اللہ بن ابی سرح فاتح افریقہ اورعبد اللہ بن عامر فاتحِ ایر ان وخراسان ہیں حضر ت عثمانِ غنی کی مردم شناس نگاہوں نے جن عظیم افراد کاانتخاب فرمایا وہ رشتہ داری کی بناء پر نہیں بلکہ خداداد صلاحیتوں کی بناء پرچنے گئے اور وہ مستقبل میں قوم کے ہیرو بنے جن کے کارناموں پر اسلام واہلِ اسلام کو نازہے ۔
جہاں تک تیسرے سوال کاتعلق ہے کہ حضر ت عثما نِ غنی نے حکم بن ابی العاص کو طائف سے مدینہ طیبہ میں بلالیا حضرت عثما نِ غنی نے ان کی واپسی کی وجہ خود بیا ن فرمائی کہ میں نے حکم بن ابی العاص کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سفارش کی جسے حضورؐ نے قبول فرماتے ہوئے ان کی واپسی کامجھ سے وعدہ فرمایا ۔ اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد دوم ص٥٣مطبوعہ المکتبہ اسلامیہ تہران میں ہے کہ ۔۔۔۔۔۔! ”فلماولیٰ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ الخلافۃ ردہ وقال کنت قد شفعت فیہ الی رسول اللہؐ فوعدنی بردہ وتوفی فی خلافۃعثمان”
ترجمہ : پھرجب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو آپ نے حکم بن ابی العاص کو مدینہ طیبہ میں بلالیا او رفرمایا کہ میں نے ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سفارش کی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے ان کی واپسی کا وعدہ فرمایا ۔
او ر چوتھے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ خط نہ حضر ت عثمانِ غنی نے لکھا اور نہ اس کا حکم دیا اور نہ یہ آپ کی مہر تھی اور نہ ہی اس میں مروان ملوث تھا بلکہ یہ شیعہ مذھب کے بانی عبد اللہ بن سبا کی جماعت کی سازش تھی جنہوں نے حضرت عثمانِ غنی کو شہید کیا اس جماعت نے صرف حضر ت عثمانِ غنی کے نام سے جعلی خط نہیں لکھا بلکہ حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضر ت زبیر کے نام سے مختلف شہروں کے عوام کو جعلی خطوط لکھے گئے جن میں ان سے کہا گیا کہ تم لوگ مد ینہ طیبہ میں جمع ہوکر حضر ت عثمانِ غنی سے معزول ہونے کا مطالبہ کرو ، چنانچہ (حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ ج٧ص١٧٥) میں اس خط کے بارے میں حضر ت عثمانِ غنی کے تاثرات ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں ”فو اللہ لاکتبت ولااملیت ولادریت بشیء من ذالک والخاتم قد یزورعلی خاتم” ترجمہ : بخدا میں نے یہ خط نہ لکھوایا نہ اسکے بارے میں کچھ علم ہے اور انگوٹھی ۔۔۔۔۔۔ انگوٹھی توجعلی بھی بنائی جا سکتی ہے ۔ چند سطربعد حافظ ابن کثیر ، ابن جریر کے حوالے سے لکھتے ہیں : ان الصحابۃ کتبو االی الافاق من المدینۃ یامرون باالنا س بالقدوم علی عثما ن لیقاتلوہ .وھذاکذب علی الصحابۃ .وانما کتبت کتبا مزورۃ علیھم کماکتبو من جھۃ علی وطلحۃ والزبیرالی الخوارج کتبا مزورۃ علیھم انکروھا وھکذا زورھذالکتاب علی عثمان ۔
ترجمہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مدینہ طیبہ سے باہر رہنے والوں کو خطوط لکھے جس میں انہیں مدینہ طیبہ میں آکر حضر ت عثما ن سے لڑائی کرنے کو کہا گیا تھا اور یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جھوٹا الزام ہے ، ان بزرگوں کی طرف سے جھوٹے لکھے گئے جیسے علی و طلحہ و زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرف سے جھوٹے خطوط لکھے گئے جس کا انہوں نے انکار کیا ، اسی طرح حضرت عثمانِ غنی کی طرف سے یہ جھوٹا خط لکھا گیا ۔
معاملاتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں راہ عافیت
حضر ت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعداء دین کی طرف سے لگائے گئے الزام و اتہامات کی ایک طویل فہر ست ہے جن میں سے چند ایسے مطاعن جنہیں بہت زیادہ اچھالا جاتا ہے انتخاب کیا گیا اور پھر اختصار کے ساتھ ان کا جواب دیا گیا حق کے متلاشی کے لئے یہ چند سطو رکافی وشافی ہیں مگراس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ صحابہ کرام خصو صاًخلفائے راشدین علیھم الرضوان کی عدالت ایک مسلم امر ہے اور اپنی زبانوں کوان کے حق میں برائی سے روکنا عقائدِ اہلِسنت میں شامل ہے ۔
شرح عقائد میں ہے : ویکف عن ذکر الصحابۃ الابخیر ۔
ترجمہ : ذکرِصحابہ رضی اللہ عنہم سے زبان کو روکا جائے مگر بھلائی کے ساتھ او ریہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم ان کی عظمتوں کی گواہی دے رہا ہے اور احادیث ان کے فضائل ومناقب سے مالامال ہیں ۔ یہ آیتیں ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہییں ۔
یداللّٰہ فوق ایدیھم ،
ان کے ہاتھوں پر اللہ کاہاتھ ہے ۔
رضی اللّٰہ عنہ ورضو عنہ،
اللہ ان سے راضی اوروہ اللہ سے راضی ہیں۔
کلا وعداللّٰہ الحسنیٰ ،
سب صحابہ سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی (جنت )کاوعدہ فرمایا ہے ۔
اور یہ حدیثیں بھی ہمارے ذہن نشین رہنی چاہییں۔۔۔۔۔۔
لایمس النا رمسلماًرأنی
،جس مسلمان نے میرا دیدارکیااسے آگ نہیں چھوئے گی ۔
اکرموااصحابی فانھم خیارکم
میرے سارے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم سب میں بہترہیں۔
لاتسبوااصحابی،میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔
اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لاتتخذوھم غرضا،
میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈروانہیں طعن کانشانہ نہ بناؤ۔
من سب اصحابی فعلیہ لعنۃاللّٰہ،
جومیرے صحابہ کو گالی دے اس پراللہ کی لعنت ۔
اذارأیتم الذین یسبون اصحابی فقولوالعنۃاللّٰہ علی شرکم،
جب تم ایسے لوگوں کودیکھوجو میرے صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں توکہوتمہارے شرپر اللہ کی لعنت ہو ۔
خصوصاً حضر ت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جاری ہونے والاپروانہءِ بشارت کبھی لوحِ قلب سے محو نہ ہو ۔ ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم ، آج کے بعد عثمان پرکسی عمل کامؤاخذہ نہیں ۔ اور یہ بات بھی ہر دم ملحوظ ہو کہ وہ ان دس خوش بختوں میں شامل ہیں جنہیں ان کی زندگی میں لسانِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے نبوت سے نوید ِ جنت ملی ۔ ان نصوص کے مقابلہ میں ان تاریخی کتب کی کیا حیثیت ہے جو ضعاف درکنار موضوعات سے بھری پڑی ہیں جب کتبِ احادیث موضو عات سے محفوظ نہ رہ سکیں تو کتبِ تاریخ کا کیا ٹھکانا ، لہذا راہِ احتیاط قرآن و سنت کو اپنا نے میں ہے تاریخی موضوعات و مہملات کو عقیدے کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی نصوصِ شرعیہ کے مقابلے میں تاریخی واقعات کواہمیت دی جاسکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ملتِ اسلامیہ کے قلوب و اذہان میں صحابہ واہلِ بیت کی محبت بسائے او ران کی بارگاہ میں زبا ن درازی سے محفوظ فرمائے آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)