سیرتِ صدیقِ اکبر احادیث کی روشنی میں!

از مفتی منیب الرحمن ۔

…(حصہ اول)

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزاج سنتِ رسول اللہ ﷺ کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔ ان کا ہر عمل اتباع واطاعتِ رسول کا مظہر تھا‘حدیث پاک میں ہے:”حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے پوچھا:تم میں سے آج کس کا روزہ ہے ؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: میرا‘ پھر فرمایا: تم میں سے آج کس نے جنازے میں شرکت کی؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: میں نے‘ پھر فرمایا: تم میں سے آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: میں نے‘ پھر فرمایا:تم میں سے آج کس نے مریض کی عیادت کی؟حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: میں نے‘ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص میں یہ ساری خصلتیں جمع ہوجائیں ‘وہ یقینا جنت میں داخل ہوگا‘ ( مسلم:1028)‘‘۔ زبانِ رسالت مآب ﷺ سے جنت کی بشارت ملنے کے باوجود حضرت ابوبکر صدیقؓ پر ہمیشہ خشیَتِ الٰہی کا اس قدر غلبہ رہتاکہ نماز پڑھتے پڑھتے رونے لگتے ‘ آپ کے اندازِ تلاوت پر بھی خشیتِ الٰہی اس قدر غالب رہتی کہ آپ کی تلاوت کو سن کر کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا‘ یہاں تک کہ قریشِ مکہ نے آپ کی عَلانیہ تلاوت پر بھی پابندی لگا دی تھی اور خداخوفی کا عالم یہ تھا کہ حرام لقمہ کھانا تو دور کی بات ‘اگراس کے بارے شک بھی پیدا ہوجاتاتوفوراً قے کرلیتے تاکہ حرام غذا کا کوئی بھی حصہ آپ کا جزوِ بدن نہ بن سکے؛چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: حضرت ابوبکر صدیق ؓکا ایک غلام تھا جو ان کے لیے خَراج نکالتا تھا اور وہ اس کے خراج سے کھاتے تھے‘ ایک دن وہ کوئی چیز لے کر آیا‘ حضرت ابوبکر ؓنے اس سے کھایا‘ تو غلام نے پوچھا: آپ جانتے ہیں یہ کیا چیز تھی(جو آپ نے کھائی ہے)‘ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا: وہ کیا چیز تھی؟اس نے بتایا: میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شخص کوکہانت سے کچھ بتایا تھا‘ حالانکہ مجھے کہانت اچھی طرح نہیں آتی تھی مگر میں نے اس کو دھوکا دیا تھا‘ (آج) وہ مجھ سے ملا تو اس نے مجھے اس کا معاوضہ دیا‘ سو آپ نے اسی (معاوضہ) سے کھایا ہے‘ پھر حضرت ابوبکرؓ نے اپنا ہاتھ (اپنے حلق میں داخل کیا )اور جو کچھ پیٹ میں تھا‘قے کر کے نکال دیا(صحیح البخاری:3842)‘‘۔ آپ کو دنیا اور دنیا کی نعمتوں سے رغبت نہیں تھی‘ آپ کے وصال کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس تھیں‘ وہ بیان کرتی ہیں: ”حضرت ابوبکرؓنے مجھ سے پوچھا:آپﷺ کو کتنے کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا؟ میں نے بتایا: تین کپڑوں میں‘ انہوں نے کہا: جو دو کپڑے میں نے پہنے ہوئے ہوں‘ مجھے انہی دو کپڑوں میں کفنادینا اور ایک نیا کپڑا خرید لینا ‘کیونکہ مردے کی نسبت زندہ کو نئے کپڑے کی زیادہ ضرورت ہے‘ (یہ کپڑے تو پیوندِ خاک ہوجائیں گے) ‘ (صحیح ابن حبان:3036)‘‘۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نعمتِ مال سے نوازا تھا‘ مگر آپ اس مال کو جمع کرنے کی بجائے راہِ خدا میں خرچ کرتے رہے۔حدیث میں ہے:حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں:نبی ﷺ نے فرمایا:”ہم پر جس کا بھی کوئی احسان ہے اُس کا صلہ ہم نے عطا کردیا ‘سوائے ابوبکر کے‘کیونکہ اُن کے ہم پراتنے احسانات ہیں کہ اُن کا صلہ اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن عطا فرمائے گااور مجھے (یعنی دینِ اسلام کو )کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں پہنچایا ‘جتنا کہ ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے ۔ اگر مجھے کسی کو دوست بنانا ہوتا تو ابوبکر کو دوست بناتا‘سنو! تمہارے صاحب خلیل اللہ ہیں‘ (سنن ترمذی:3661)‘‘‘ علامہ اقبال نے آپ کی اسی ادا کو اشعار کی صورت میں بیان کیا ہے:

مَنْ شَبے صِدِّیق را دیدم بخواب

گل زِخاکِ راہِ اُو چیدم بخواب

آں اَمَنُّ النَّاس بر مولائے ما

آں کلیمے اوّلِ سینائے ما

ہمت اُو کِشتِ ملّت را چو ابر

ثانیِ اسلام وغار وبدر وقبر

گفتمش اے خاصّۂ خاصانِ عشق

عشقِ تو سِرِّے مَطلعِ دیوانِ عشق

پختہ از دستت اساسِ کارِ ما

چارہ فرمائے آزارِ ما

ترجمہ:” ایک رات میں نے خواب میں حضرت ابوبکر صدیق ؓکو دیکھا ‘آپ کی خاکِ راہ سے میں نے عالمِ خواب میں چند پھول چُنے ۔حضرت ابوبکر صدیقؓ جو ہمارے آقا ومولا سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے اور ہمارے ”کوہِ سینا‘‘ کے پہلے کلیم اور ہمراز ہیں‘(”سینائے ما‘‘ سے مرادغارِ ثورلیا جاسکتا ہے‘ کیونکہ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراز وکلیم صرف جنابِ صدیق اکبرؓ تھے )۔اُن کی عزیمت کشتِ ملّت کے لیے ابرِ رحمت کی طرح ہے ‘وہ اسلام قبول کرنے میں اورغارِ ثور ‘غزوۂ بدر اور روضۂ انور میں آپ ﷺکے ثانی ہیں ۔الغرض وہ نبوت کے تئیس سالہ دور میں اور بعد از وصال آپ کے رفیق ہیں ۔میں نے اُن سے عرض کی: اے عشقِ نبوت کے سرخیلوں کے تاجدار!کتابِ عشق کا عنوان اور اُس کا سربستہ راز آپ ہی تو ہیں ۔آپ ہی کے دستِ مبارک سے تاجدارِ نبوت ﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد ”خلافت علیٰ منہاجِ النُّبوّۃ‘‘ کی بنیادپڑی ‘آج امت ایک بار پھر مصیبت میں مبتلا ہے ‘ اس مشکل میں آپ ہماری چارہ گری فرمائیے ‘‘۔

حضرت عمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں: ”رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا‘ اس دن اتفاق سے میرے پاس مال تھا‘ میں نے دل میں خیال کیا: اگر میں کسی دن حضرت ابوبکرؓ سے(نیکیوں میں) سبقت لے سکتا ہوں تو آج اس کا بہترین موقع ہے ‘پس میں اپنا آدھا مال لے کر آیا تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی رکھا ہے‘ حضرت عمرؓ نے عرض کی: میں نے ان کے لیے اتنا ہی مال باقی رکھا ہے اور حضرت ابوبکرؓ کے پاس جتنا مال تھا‘ وہ سب لے کر آگئے‘ آپ نے پوچھا: اے ابوبکر! تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی رکھا ہے‘ حضرت ابوبکر نے کہا: میں نے ان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو باقی رکھا ہے؟حضرت عمرؓ نے کہا: تب میں نے دل میں کہا: میں حضرت ابوبکرؓ پر کبھی بھی سبقت نہیں لے سکتا‘ (ترمذی:3675)‘‘‘ علامہ اقبال نے کہا ہے:

پروانے کو چراغ ہے‘ بلبل کو پھول بس

صدیق کے لیے ہے‘ خدا کا رسول بس

حضرت ابوبکر صدیقؓ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کی مدافعت میں سینہ سپر رہے :”حضرت عروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں:” میں نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے سوال کیا: مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سب سے بڑا ظلم کون سا کیا تھا؟ انہوں نے بتایا: نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے‘ عقبہ بن ابی مُعَیط نے آکر اپنی چادر آپ کے گلے میں ڈال کر آپ کا گلا گھونٹنا شروع کردیا‘ پس بہت شدت سے گلا گھونٹا‘ پھر حضرت ابوبکرؓ آئے اور اس کو دھکا دے کر آپ ﷺ سے دور کیا‘ پھر یہ آیت پڑھی‘ترجمہ: ”کیا تم ایک شخص کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتے ہیں: میرا رب اللہ ہے‘ حالانکہ یقینا وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانیاں لے کر آئے ہیں‘ (المومن:28)‘ (صحیح البخاری: 3678)‘‘۔ حضرت عمر ؓکے سامنے حضرت ابوبکرؓ کا ذکر کیا گیا تو وہ رونے لگے اور کہا: میری تمنا ہے کہ میرے تمام (نیک) اعمال حضرت ابوبکرؓ کے اُس ایک دن ایک رات کے عمل برابر ہوجاتے ‘ رات کے عمل سے مراد وہ رات ہے جب آپ رسول اللہﷺ کے ساتھ غار میں گئے ‘جب وہ دونوں غار تک پہنچ گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: اللہ کی قسم! آپ غار میں نہ داخل ہوں حتیٰ کہ میں آپ سے پہلے داخل ہوجائوں تاکہ اگر اس میں کوئی ضررناک چیز ہو تواس کا ضررآپ کے بجائے مجھے پہنچے۔ پس حضرت ابوبکرؓ غار میں داخل ہوئے‘ پھر اس کو صاف کیا‘ پھر انہوں نے دیکھا کہ اس کی ایک جانب سوراخ ہے تو انہوں نے اپنے تہبند کو پھاڑ کر اس کے سوراخ کو بند کیااور اس میں دوسوراخ پھر بھی باقی رہ گئے‘ انہوں نے ان سوراخوں پر اپنے دونوں پیر رکھ دیے‘ پھر رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اب آپ تشریف لے آئیں ‘ سو رسول اللہ ﷺ غار میں داخل ہوگئے اور آپ نے اپنا سر ان کی گود میں رکھ دیا‘ پھر اس سوراخ سے (ایک سانپ نے)حضرت ابوبکرؓ کے پیرمیں ڈس دیا۔حضرت ابوبکرؓ (شدید کرب کے باوجود)ہلے بھی نہیں کہ کہیں رسول اللہﷺ کے آرام میں خلل واقع نہ ہو‘ شدتِ تکلیف سے ان کا آنسو رسول اللہ کے چہرۂ انور پر گرا تو آپ ﷺنے پوچھا: ابوبکر! کیا ہوا‘ انہوں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں‘ مجھے سانپ نے ڈس لیا ہے ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنا لعابِ مبارک( اُن کے پائوں میں )لگایا توان کی تکلیف جاتی رہی ‘ پھر(ایک وقت آیا کہ ) درد لوٹ آیااور وہی زہر ان کی موت کا سبب بن گیا(اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کو سِرّی شہادت نصیب ہوئی) اور رہی ان کی دن کی نیکی تو جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی اور بعض عرب مرتد ہوگئے اور انہوں نے کہا: ہم زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے‘ تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا: اگر یہ ایک رسی دینے سے بھی منع کریں تو میں ان کے خلاف جہاد کروں گا‘(حضرت عمر ؓبیان کرتے ہیں:)میں نے کہا: اے رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ! لوگوں کے ساتھ نرمی کریں‘ تو انہوں نے مجھ سے کہا: عمر!تم جاہلیت میں سخت تھے اور اسلام میں کمزور ہوگئے ہو‘ بے شک وحی منقطع ہوچکی ہے اور دین مکمل ہوچکا ہے‘ کیا میرے زندہ ہوتے ہوئے دین میں کمی کی جائے گی ‘ (مشکوٰۃ :6034)‘‘۔ ” حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: حضرت عمر ؓنے کہا: ابوبکرؓ ہمارے سردار ہیں اور ہم سب سے افضل ہیں اور رسول اللہ کے نزدیک ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں‘ (ترمذی:3656)‘‘۔ ”حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلند درجے والوں کو نچلے درجے والے ایسے دیکھتے ہیں جیسے تم آسمان کے کنارے میں طلوع ہونے والے ستاروں کو دیکھتے ہو اور ابوبکرؓ و عمرؓانہی میں سے ہیں اور بہت اونچے درجے پر فائز ہیں‘ ( ترمذی:3658)‘‘۔ ”حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق فرمایا: یہ دونوں اولین اور آخرین میں سے جنت کے ادھیڑ عمر لوگوں کے سردار ہیں ماسوا نبیوں اور رسولوں کے‘ (ترمذی:3665-66)‘‘۔ (جاری ہے)

سیرت صدیقِ اکبر احادیث کی روشنی میں …

از مفتی منیب الرحمن

(حصہ دوم)

(۱)”حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: ایک دن نبی ﷺ گھر سے باہر نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ میں سے ایک آپ کی دائیں طرف تھے اور دوسرے بائیں طرف تھے اور آپ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے‘ آپ نے فرمایا: ہم قیامت کے دن اسی طرح اٹھائے جائیں گے‘‘ (ترمذی:3669)۔ (۲)”حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا: تم میرے حوض پر بھی صاحب ہو اور غار میں بھی صاحب ہو‘ ‘( ترمذی: 3670)۔ (۳)”حضرت عبداللہ بن حنطب بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو دیکھ کر فرمایا: یہ میری آنکھیں اور کان ہیں‘‘ (ترمذی:3671)۔ (۴)”حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس قوم میں ابوبکر موجود ہوں‘اس قوم میں ابوبکر کے سوا کسی اور کے لیے امام بننا سزاوار نہیں ‘‘ (ترمذی:3673)۔ (۵)” حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس ابھی ابھی جبریل آئے‘ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت داخل ہوگی‘ پھر حضرت ابوبکرؓ نے کہا: یارسول اللہ ! میری خواہش ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوں؛ حتیٰ کہ میں بھی اس دروازے کو دیکھوں‘ تب آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر!سنو! تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگے‘‘ (سنن ابودائود:4652)۔ (۶)”حضرت سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے مشورہ کیا‘ صحابہ نے عرض کی : حضرت ابوبکرؓ کی رائے صحیح ہے ‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو ابوبکر کا خطا پر ہونا پسند نہیں ہے‘‘(مجمع الزوائد‘ ج:9ص:46)۔

اسلام میں حضرت ابوبکر صدیق کے کئی امتیازات واختصاصات ہیں‘ جن میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے‘ ان میں ایک سفرِ ہجرت اور غارِ ثور کے تین دن اور تین راتیں ہیں۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو رسول اللہ ﷺ کی ذات کے ساتھ جوڑ کر ”اِثْنَیْن‘‘ (دو) سے تعبیر فرمایااور سورۂ توبہ میں غارِ ثور کے منظر کو اِن کلماتِ طیبات میں بیان فرمایا :”دو میں سے دوسرا جب کہ وہ دونوں غار میں تھے ‘ جب وہ اپنے صاحب سے فرمارہے تھے :غم نہ کرو ‘بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے ‘پس اللہ نے اُن پر قلبی طمانیت نازل فرمائی‘‘۔اس آیت میں قرآنِ مجید کا کمالِ اعجاز ہے کہ رسول کریمؐ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓکا ذکر ایک ساتھ فرمایا اور یہ ذکرِ مبارک اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ آیت کے ایک حصے میں دونوں کا مختلف انداز میں چھ چھ بار ذکر فرمایا‘اس کی تفصیل یہ ہے: تین مقامات میں دونوں کا ذکر ایک ہی کلمے میں ہے اور وہ ہیں:(۱)’اِثْنَیْن‘‘(۲)ضمیرِ تثنیہ’ھُمَا‘(وہ دونوں)‘ (۳) ‘مَعَنَا‘ (ہمارے ساتھ)میں ضمیر جمع متکلم۔ تین مقامات میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر جدا ہے: (۱)’ثَانِیْ‘‘(۲) ‘یَقُولُ‘ صیغہ واحد غائب‘ (۳) ‘لِصَاحِبِہٖ‘ میں ‘ہ‘ضمیرِ متصل‘ اس کا مرجع رسول اللہ ﷺ ۔اسی طرح حضرت ابوبکر ؓ کا ذکر بھی تین مقامات پر جدا ہے : (۱) ‘لِصَاحِبِہٖ‘میں ‘صاحب‘ سے مراد صدیقِ اکبر ہیں‘ (۲) ‘لَا تَحْزَنْ میں واحد مذکر مخاطَب کی ضمیرِ مستتر ‘اَنْتَ‘‘ (۳)’فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ‘میں ‘ ہ ‘ ضمیر متصل‘ اس کا مرجع ابوبکر صدیق ہیں۔ اس کے علاوہ پوری آیت میں چار جگہ نبی کریم ﷺ کا ذکرِ مبارک مزید بھی ہے: (۱) ‘اِلَّا تَنْصُرُوْہٗ ‘اور ‘فَقَدْ نَصَرَہٗ‘ اور ‘اِذْاَخْرَجَہٗٗ اور ‘وَاَیَّدَہٗ‘میں چار بار ‘ ہٗ ‘ ضمیرِ متصل کا مرجع ذاتِ رسالت مآب ﷺ ہے‘گویا مجموعی طور پر رسول کریم ؐکا ذکر دس مرتبہ آیا ہے۔ سفرِ ہجرت میں حضرت ابوبکر صدیق ؓکی رسول کریم ﷺ کے ساتھ رفاقت اور غارِ ثور میں بلاشرکتِ غیرے معیّتِ مصطفی ﷺ ایسا مُسَلَّمہ شرف ہے کہ اِس کے مصداق میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیُّع کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ۔ مشہور قول ہے :”مَنْ اَحَبَّ شَیْئاً اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ ‘‘یعنی جو جس سے محبت کرتا ہے ‘وہ اُس کا کثرت سے ذکر کرتا ہے ‘پس اللہ تعالیٰ کا اس ایک آیت میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے رفیقِ غار حضرت ابوبکر صدیقؓ کابالترتیب دس باراور چھ بارمدح کے طورپر ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں ہستیاں اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں ۔معیّت ورفاقت توآج تک روضۂ انور میں بھی جاری وساری ہے ‘حشر میں بھی ہوگی اور یقینا جنت میں بھی ہوگی۔ امام فخر الدین رازی نے لکھا ہے ” اللہ تعالیٰ نے النساء:69میں انعام یافتہ طبقات کا ذکر فرمایا اور اُس میں مقامِ نبوت کے بعد مقامِ صدیقیت کو بلافصل بیان کر کے بتادیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نبوت کے بعد یہ اعلیٰ ترین منصب ہے‘اسی طرح آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓکی خلافت بھی بلا فصل ہے ‘‘۔

قرآنِ مجید میں ایک سے زائد مرتبہ عظمتِ رسالت مآب ﷺ کے لیے باری تعالیٰ نے یہ انداز اختیار فرمایا کہ جب مخالفین نے عِناد کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ پر کوئی الزام لگایا یا آپ پر عِیَاذاً بِاللّٰہ!کوئی طعن کیا تواللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی صفائی بیان فرمائی‘ بعینہٖ یہی شِعار ہمیں سیرتِ ابوبکرِ صدیقؓ کے بارے میں بھی نظر آتا ہے ۔ سعید بن مسیَّب کی روایت میں ہے کہ آپ نے اپنے غلام نِسطاس کے عوض حضرت بلال کو خرید کر آزاد کردیا‘ اُس کے پاس کافی مال تھا ‘وہ بھی اُمَیَّہ کو دے دیا ۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس سے کہا: تم مسلمان ہوجائوتو یہ سب مال تمہارا ہوجائے گا‘ اس نے انکار کردیا جس وجہ سے حضرت ابوبکرؓ اس سے ناراض ہوگئے اور جب اُمَیَّہ نے کہا: میں بلال کونِسطاس کے عوض بیچتا ہوں تو حضرت ابوبکرؓ نے اس کو غنیمت جانا اور نِسطاس کے عوض حضرت بلال کو خرید لیا۔ اس موقع پر مشرکین نے طعن کیااورکہا: ابوبکرؓ نے جو بلال کو اتنی بھاری قیمت پر خریدا ہے‘لگتا ہے کہ بلال نے اُن پر کوئی احسان کیا ہوگا‘ جس کا انہوں نے بدلہ چکایا ہے ‘ اُس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں: ”اورعنقریب وہ انتہائی پارسا شخص (نارِ جہنم ) سے محفوظ رہے گا‘جواپنا مال اس لیے دیتا ہے کہ پاک ہوجائے اور اُس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ چکایا جارہا ہو‘وہ صرف اپنے خداوند بزرگ وبرتر کے لیے ایسا کرتا ہے اور عنقریب اللہ اس سے ضرور راضی ہوگا‘‘(اللیل:17-21)‘(السیرۃ النبویہ ‘ ج:1ص: 354-55)۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓنے مختلف مواقع پرحضرت بلالؓ بن رباح کے علاوہ مندرجہ ذیل چھ مظلوم غلاموں کو اُن کے آقائوں کے ظلم وستم سے بچانے کے لیے خرید کر آزاد کیا :(۱) عامر بن فہیرہ ‘یہ بئر معونہ کے موقع پر شہید ہوئے ‘ (۲) اُمِّ عُمَیس‘(۳) زُنَیرہ‘اِن کی بینائی چلی گئی تھی ‘اللہ تعالیٰ نے کفار کے طعن کے بعد لوٹادی‘(۵۔۴)نہدیہ اور اُن کی بیٹی ‘ (۶) بنو مؤمل کی باندی ۔

نفسِ نبوت میں تمام انبیاء ورسل کرام برابر ہیں‘ مگر اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر درجات میں بلندی عطا فرمائی ہے اور اس کا بیان اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں فرمایا ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے بھی دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر اپنی فضیلت کی وجوہ کو صراحت کے ساتھ بیان فرمایاہے ؛اگرچہ ہر نبی کا رُتبہ اپنی جگہ بلند ہے ‘اسی طرح تمام اہلِ بیت اطہار اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اعلیٰ مراتب کے حامل ہیں ‘ہماری عقیدت ومحبت کا مرجع اور محور ہیں اورہم اُن میں سے کسی کی بھی تنقیص کا تصور نہیں کرسکتے ‘ لیکن ان کے درمیان باہم ایک دوسرے پر فضیلت کی گنجائش موجود ہے اور قرآن وسنت میں مختلف انداز میں اس کا بیان بھی ہے ‘لیکن اس باہم تفاضُل کا بیان نفسُ الامر اور حقیقتِ واقعی کے طور پرہونا چاہیے ‘ اِس سے تعریض ‘ توریہ ‘اشارہ وکنایہ اور ایہام کے طور پر کسی دوسرے صحابی کی تنقیص مراد لینا باطل ہے ۔حضرت ابوبکرصدیق ہمیشہ ایثاراورجاں نثاری کا استعارہ اور حوالہ رہے اور تاقیامت رہیں گے ۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓکی ذات پر سید المرسلین ﷺ کے غیر معمولی اعتماد کا ثبوت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نا صرف انہیں‘ بلکہ اُن کے پورے گھرانے کوہجرت کی تیاری اور سفرِ ہجرت کے موقع پر امین بنایا ‘ اس میں اُن کی بیوی ‘صاحب زادی ‘ فرزند اور غلام‘ الغرض سب شامل تھے ۔یہ حضرتِ ابوبکر صدیق ؓکی استقامت ہی تھی کہ خاتم النبیینﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد انتہائی نازک دور میں امورِ خلافت کو سنبھالا اور اُسے منہاجِ نبوت پر اُستوار کیا ۔آپ ہی نے یہ شِعار قائم کیا کہ حالات کیسے ہی پُرخطر کیوں نہ ہوں ‘ اطاعت واتّباعِ مصطفی ﷺ سے انحراف نہیں کیا جائے گااور ”مقامِ اُبْنیٰ‘‘کی طرف” جیشِ اُسامہ ‘‘کی روانگی اس کی روشن مثال ہے ۔ آپ نے یہ شِعاربھی قائم کیا کہ حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں‘ اصولوں پر کوئی مفاہمت نہیں ہوسکتی ‘منکرینِ زکوٰۃ اور منکرینِ ختمِ نبوت کی سرکوبی اس کی واضح مثال ہے۔آپ نے اپنے اوّلین خطبۂ خلافت میں اپنا منشور بیان کرتے ہوئے یہ اصول وضع کیا کہ ہر تنقید سے بالاتر اور معصوم عن الخطا صرف ذاتِ رسالت مآب ﷺ ہے ‘آپ کے بعد ہر صاحبِ اقتدار واختیار کو قرآن وسنت کے معیار پر پرکھا جائے گااوراِسی پیمانے پر اُس سے اتفاق یا اختلاف کیا جاسکے گا‘کوئی بڑے سے بڑا صاحبِ منصب اپنی ذات میں قطعی حجت نہیں ۔

”ثانی اثنین ‘‘کا مظہر صرف سفرِ ہجرت پر ہی موقوف نہیں ہے ‘ بلکہ رسول اللہ ﷺ کی تئیس سالہ نبوی زندگی میں قدم قدم پر یہ منظر ہمیں نظر آئے گا ۔آپ ایمان لانے اوردعوت وتبلیغِ دین میں بھی ”ثانی اثنین ‘‘ ہیں‘اسلام کے ابتدائی دور میں آپ ہی کی دعوت وترغیب سے اسلام کے تابندہ ستارے حضرت عثمان بن عفان‘ عثمان بن مظعون ‘طلحہ بن عبیداللہ‘ زبیر بن عوام ‘عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم مشرّف بہ اسلام ہوئے ‘اِن میں سے پانچ حضرات عَشرۂ مبشّرہ میں سے ہیں‘ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دیدی تھی۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ جب مرضِ وفات میں مبتلا ہوئے ‘تو آپ ﷺ نے حضرت ابوبکرصدیق کو مصلّیٰ امامت پر اپنا جانشین بنایااور آپ نے رسول کریم ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں سترہ نمازوں کی امامت فرمائی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ نے بیعت کی ‘جب حضرت ابوبکرؓنے فرمایا: لوگو!میں نے تمہاری بیعت کو لوٹادیا ہے‘ مبادا تم میں سے کوئی اس بات کو ناپسند کرے‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ” اللہ کی قسم!ہم آپ کی بیعت کو واپس نہیں لیں گے اور نہ کبھی اس کا مطالبہ کریں گے ‘آپ کو رسول کریم ﷺ نے نماز میں ہمارا امام بنایا ‘تو کون ہے‘ جو آپ کو (خلافت میں) پیچھے رکھے‘‘(فضائل الصحابہ لامام احمد بن حنبل:101)۔جاری ہے۔

سیرت صدیق اکبرؓ احادیث کی روشنی میں

از مفتی منیب الرحمن (حصہ سوم)

حضرت ابوبکر صدیق ؓکے حسنِ نیت کی شہادت رسول اللہ ﷺ نے دی۔حدیثِ پاک میں ہے: (1)”حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺنے فرمایا: جس نے ازراہِ تکبر اپنا تہبند (ٹخنوں سے نیچے)لٹکایا ‘ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی طرف نظر کرم نہیں فرمائے گا‘ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! میرے تہبند کی ایک جانب لٹک جاتی ہے‘اِلَّا یہ کہ میں اس کی حفاظت کروں‘ تو نبی ﷺ نے فرمایا:(ابوبکر!)تم اُن میں سے نہیں ہو(جوتہبند کو ازراہِ تکبر لٹکاتے ہیں)‘(صحیح البخاری:5784)‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ کا پیٹ کچھ باہر کو تھا‘اس کے سبب اُن کا تہبند بے اختیار ایک جانب لٹک جاتا تھااور ظاہر ہے کہ آدمی کام کاج کرتے ہوئے ہر وقت تہبند کو پکڑ کر نہیں رہ سکتا۔ پس ثابت ہوا کہ ممانعت کی علّت تکبر ہے‘ اگر بے اختیار لٹک جائے تو وہ اس وعید کا مصداق نہیں ہے یا جہاں شلوار کا ٹخنوں سے نیچے لٹکنا تکبر کی علامت نہیں ہے تو اس پر ملامت روا نہیں ہے جیسے آج کل ائمۂ حرمین کے جبے ٹخنوں سے نیچے تک ہوتے ہیں اور یہ وہاں کا رواج ہے۔ جنت کی تمنا مومن کی آرزوئوں کی معراج ہے‘ زبانِ رسالت مآب ﷺ کی یہ شہادت آج بھی قائم ہے کہ جنت کا ہر دروازہ صدیقِ اکبرؓکیلئے کشادہ رہے گا: (الف) :”حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے ہر چیز کا جوڑا (مثلاًکپڑے‘ گھوڑے وغیرہ )اللہ کی راہ میں خرچ کیے‘ اس کو جنت کے (مختلف)دروازوں سے بلایا جائیگا‘ (کہاجائے گا:)اے بندۂ خدا! ادھر آ یہ بہتر ہے ‘سو جو نمازی ہوگا‘ اسے بَابُ الصَّلٰوٰۃ سے‘ جو مجاہد ہوگا‘ اسے بَابُ الْجِہَادسے‘ جو صدقہ دینے والا ہوگا‘ اسے بَابُ الصَّدَقَہ سے اور جو روزے دار ہوگا ‘ اسے بَابُ الصِّیَام اور بَابُ الرِّیَان سے بلایا جائیگا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کی:(یارسول اللہؐ!)جس شخص کو ان دروازوں میں سے کسی ایک سے بھی بلالیا جائے گا‘اس کی تو کوئی حاجت باقی نہیں رہے گی( یعنی اصل مقصود تو جنت میں داخل ہونا ہے‘ اگر ایک دروازے سے بھی بلا لیا گیا توکامیاب ہے)‘پھر انہوں نے پوچھا: یارسول اللہؐ! کوئی ایسا بھی (خوش نصیب )ہے ‘ جسے ہر دروازے سے بلایا جائے گا‘آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اور(ابوبکرؓ!) مجھے یقین ہے کہ تم انہی میں سے ہو‘ (صحیح البخاری:3666)‘‘۔ (ب): ”حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک ایسا شخص داخل ہوگا‘ جسے جنت کے ہر گھر والے اور ہر بالا خانے والے کہیں گے: مرحبا‘ مرحبا‘ ہمارے پاس آئیں‘ ہمارے پاس آئیں‘ حضرت ابوبکر ؓنے عرض کی: یارسول اللہؐ! وہ شخص بہت کامیاب اور سرخرُو ہوگا‘ آپ ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں ! اورابوبکر! وہ تم ہی ہوگے‘ (صحیح ابن حبان: 6867)‘‘۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی نظر میں حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ہی اس کے اہل تھے کہ عالمِ برزخ میں رسول اللہ ﷺ کی قُربت سے فیض یاب ہوں‘ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: میں لوگوں کے درمیان کھڑا ہوا تھا‘ لوگ حضرت عمر بن الخطابؓ کے لیے دعا کر رہے تھے اور حضرت عمر کا جنازہ تخت پر رکھا ہوا تھا‘ اس وقت ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھی ہوئی تھی اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ آپ پر رحم کرے‘ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کا مقام آپ کے دو صاحبوں(رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر) کے ساتھ کردے گا‘ کیونکہ میں نے کئی بار رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”میں اور ابوبکر اور عمر تھے‘ میں نے اور ابوبکر وعمر نے یہ کام کیا‘ میں اور ابوبکر اور عمر گئے، پس بے شک میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ آپ کو آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا‘ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے حضرت علی بن ابی طالب تھے‘ (صحیح البخاری:3677)‘‘۔

جس منبعِ علم سے رَحْمَۃٌ لِلْعَالَمِیْن سیراب ہوئے‘ اسی کابچا ہواتبرک حضرت ابوبکر صدیق ؓکو عطا ہوا‘ حدیث پاک میں ہے:”حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے ایک بڑا پیالہ دیا گیا ہے‘ جو دودھ سے بھرا ہوا تھا‘ میں نے اس سے اتنا سیر ہوکر پیاکہ مجھے لگادودھ میرے گوشت اور جلد میں سرایت کر رہا ہے ‘ میں نے اس پیالے میں کچھ دودھ بچایا اور وہ ابوبکرؓ کو دیا‘ صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! یہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا حتیٰ کہ جب آپ اس سے سیر ہوگئے تو آپ نے اپنا بچا ہوا علم ابوبکر ؓکو دیا‘ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے اس کی صحیح تعبیر کی ہے‘ (صحیح ابن حبان:6854)‘‘۔

افضل البشر بعدالانبیاء کون ہے‘ ملاحظہ کیجیے: ”رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان بن ثابتؓ سے فرمایا: تم نے ابوبکر کی شان میں کچھ اشعار کہے ہیں‘ انہوں نے عرض کی: جی ہاں‘ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے بھی سنائو‘تو میں نے یہ اشعار پڑھے:ترجمہ:”بلند غار میں دو میں سے دوسرا‘جب وہ پہاڑ پر چڑھے تو دشمن نے (ان کی تلاش میں)چکر کاٹااور وہ رسول اللہ ﷺ کے محبوب تھے اور انہیں پتا تھا کہ مخلوق میں (انبیاء کے علاوہ )کوئی اُن کا ہمسر نہیں‘‘ تو رسول اللہﷺ یہ اشعار سن کر مسکرائے‘ (اَلْمُسْتَدْرَکْ عَلَی الصَّحِیْحَیْنِ لِلْحَاکِم:4413)‘‘۔ حضرت انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کا تریسٹھ برس کی عمر میں وصال ہوا اور حضراتِ ابوبکر وعمرؓ کی عمریں بھی تریسٹھ سال تھیں‘ (صحیح مسلم: 2348)‘‘۔ سورۃ اللیل کی آخری پانچ آیاتِ مبارکہ کی تفسیر اس حدیث میں ملاحظہ کیجیے:” حضرت عبداللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں:اس دوران نبی ﷺ تشریف فرما تھے اور آپ کے پاس ابوبکرِ صدیقؓ عَبا پہنے ہوئے تھے اور وہ عبااُن کے سینے پر کانٹوں سے جوڑ کر ڈلی ہوئی تھی‘ دریں اثنا جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور سلام عرض کیا اور کہا: یارسول اللہؐ! کیا بات ہے کہ ابوبکر اپنے سینے پر کانٹوں سے جڑی ہوئی عبا ڈالے ہوئے ہیں‘ آپ ﷺ نے فرمایا: جبریل! انہوں نے فتح مکہ سے پہلے اپنا مال مجھ پر خرچ کیا ہے ‘ جبریلِ امین نے کہا: اللہ کی جانب سے انہیں سلام پہنچائیے اور کہیے: آپ کا رب آپ سے پوچھتا ہے: ابوبکر! کیا تم اپنے اس فقر پر مجھ سے راضی ہو یا ناراض‘ تو ابوبکر روئے اور کہا: کیا میں اپنے رب پر ناراض ہوں گا‘(پھر دو بار فرمایا) میں اپنے رب سے راضی ہوں‘ (حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَائ‘ج:7ص:105)‘‘۔ یہ روایت ضعیف ہے ‘ لیکن فضائل میں ضعیف روایات معتبر ہیں‘ البتہ جن روایات پر عقیدے ‘ فرائض‘ واجبات اور سُنَنْ کا مدار ہے‘اُن کے لیے صحت لازمی ہے۔

سورۂ طٰہٰ آیت:55کی رو سے حضور سید المرسلین ﷺ اور حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی تخلیق جس مٹی سے ہوئی‘وہ ایک ہی ہے:”عبداللہ بن سوّار بیان کرتے ہیں:میرے باپ نے ایک دن مجھے یہ واقعہ بیان کیا: نبی ﷺ کا گزر ایک مکان پر ہوا جہاں ایک قبر کھودی جارہی تھی‘ آپ ﷺ نے پوچھا: یہ کس کی قبر ہے‘ لوگوں نے بتایا: فلاں حبشی کی قبر ہے‘ آپ ﷺ نے فرمایا: واہ سبحان اللہ! زمین سے آسمان تک اس مٹی کے آثار ہیں جس سے اسے پیدا کیا گیا تھا‘ تو میرے والد نے کہا: سوّار! میں تو سمجھتا ہوں ابوبکر وعمرؓ کی اس سے بڑھ کر کوئی فضیلت ہوہی نہیں سکتی کہ اُن دونوں کی تخلیق اُس مٹی سے ہوئی جس سے رسول اللہ ﷺ کو پیدا کیا گیا تھا‘ (فَضَائِلُ الصَّحَابَہْ لِامَام اَحْمَدْ بِنْ حَنْبَل:528)‘‘۔ ”اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیاہے اور اسی میں تم کولوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ تم کو باہر نکالیں گے ‘ (طٰہٰ: 55)‘‘۔ قرآنِ کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی صحابۂ کرام کے مدارج ومراتب میں اصولِ ترجیح کو بیان فرمایا ہے‘ ارشاد ہوا: ”(اے مسلمانو!) تم میں سے کوئی بھی ان کے برابر نہیں ہوسکتا‘ جنہوں نے فتح (مکہ) سے پہلے (اللہ کی راہ میں )مال خرچ کیا اور(کافروں سے) قتال کیا‘ ان کا درجہ اُن سے بہت بڑا ہے جنہوں نے فتحِ مکہ کے بعد (اللہ کی راہ میں )مال خرچ کیا اورجہاد کیا‘ (ہاں!)اللہ نے ان سب سے اچھے انجام کا وعدہ فرمایا ہے اور اللہ تمہارے کاموں کی خوب خبر رکھنے والا ہے‘ (الحدید:10)‘‘۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓکی تصدیق قرآن کریم میں سورۂ آل عمران:181سے ہوئی‘ امام ابن جریر طبری روایت کرتے ہیں:”حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: حضرت ابوبکر صدیقؓ بَیْتُ الْمِدْرَاس گئے‘ آپ نے دیکھا وہاں بہت سے یہودی فِنْحَاص کے گرد جمع تھے‘ یہ شخص یہودیوں کا بہت بڑا عالم تھا‘ حضرت ابوبکرنے فِنْحَاص سے کہا: اے فِنْحَاص ! تم پر افسوس ہے‘ تم اللہ سے ڈرو اور اسلام قبول کرلو‘ تم کو معلوم ہے کہ سیدنا محمدؐ اللہ کے رسول ہیں‘ وہ اللہ کے پاس سے وہ دین برحق لے کر آئے ہیں جس کو تم تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہو‘فِنْحَاص نے کہا: ابوبکر! بخدا!ہمیں اللہ کی کوئی حاجت نہیں ہے‘ بلکہ اللہ ہمارا محتاج (فقیر) ہے‘ ہمیں اس سے فریاد کی ضرورت نہیں ہے‘ بلکہ وہ ہم سے فریاد کرتا ہے اور ہم اس سے مستغنی (بے پروا) ہیں‘اگر اللہ ہم سے مستغنی ہوتا توہم سے قرض طلب نہ کرتا جیساکہ تمہارے پیغمبر کہتے ہیں‘ وہ ہم کو ربا(سود) سے منع کرتا ہے اور خود ہم کو سود(اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر زیادہ اجر) دیتا ہے‘ اگر اللہ غنی ہوتا تو ہم کو سود نہ دیتا۔ حضرت ابوبکرؓ یہ سن کر غضبناک ہوئے اورفِنْحَاص کے منہ پر زور سے ایک تھپڑ مارا اور فرمایا: بخدا! اگر ہمارے اور تمہارے درمیان معاہدہ نہ ہوتا تو میں تمہاری گردن ماردیتا‘فِنْحَاص رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور حضرت ابوبکرؓ کی شکایت کی‘ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓسے پوچھا: تم نے اس کو تھپڑ کیوں مارا تھا‘ حضرت ابوبکرؓ نے بتایا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کی اور کہا: اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں‘ اس وجہ سے میں نے غضبناک ہوکر اس کو تھپڑا مارا۔فِنْحَاص نے اس کا انکار کیا اور کہا: میں نے یہ نہیں کہا تھا‘ تب اللہ تعالیٰ نے فِنْحَاص کے رد اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی: ”بے شک اللہ نے ان لوگوں کا قول سن لیا جنہوں نے کہا تھا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں‘ (تفسیر طبری: 8300)‘‘۔ جاری ہے

خصائص وامتیازاتِ صدیق اکبرؓ…(حصہ چہارم)

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے شمار خصوصیات اور امتیازات سے نوازا‘ اُن میں سے ایک یہ ہے کہ جمہورِ امت نے آپ کو ”اَفْضَلُ الْبَشَر بَعْدَ الْاَنْبِیَاء‘‘ قرار دیا‘ امامِ اہلسنت امام احمد رضا قادری نے لکھا ”اس سے مراد افضلیت مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہ نہیں ہے ‘بلکہ مطلق افضلیت ہے‘ سو اگر کسی خاص شعبے میں یا بعض شعبوں میں دیگر صحابۂ کرام کو کوئی امتیازی فضیلت حاصل ہو تو یہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی افضلیتِ مطلقہ کے منافی نہیں ‘‘۔ آپ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسلام میں آپ ”اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن‘‘ میں سے ہیں‘ غارِ ثور اور سفرِہجرت کے امین ورفیق ‘ تمام غزوات میں آپﷺ کے ہم سفر اور آج روضۂ رسولﷺ میں جوارِ مصطفیﷺ میں آرام فرما ہیں اور اس طرح کہ جہاں قدمینِ مصطفی ہیں ‘اس کے متصل قبرِ صدیق اکبرؓ کا سرہانہ ہے اور قیامت میں بھی آپﷺ کے ساتھ اٹھیں گے اور ساتھ ہی جنت میں داخل ہوں گے‘ کسی نے کیا خوب کہا ہے:؎
پائے رسول پاک پہ ہو سر رکھا ہوا
ایسے میں آ اَجَل‘ تو کہاں جا کے مر گئی 
یہ خواب تو ہر مومن کا ہے‘ لیکن اس کی تعبیر صدیق اکبرؓ نے پالی‘ سن 6 ہجری کو رسول اللہ ﷺ تقریباً چودہ سو اصحاب کے ساتھ عمرے کے لیے تشریف لائے ‘ آپ نے صحابۂ کرام کو بتایا تھا ”میں نے خواب دیکھا ہے کہ ہم بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں ‘‘ ‘ حدیبیہ کے مقام پر مشرکینِ مکہ نے آپ کو روک دیا اور کہا ”ہم عمرے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ اس دوران قریشِ مکہ کے ساتھ سفارت کاری ہوئی اور بالآخر ایک معاہدے پر اتفاق ہوا‘ اس کی شرائط یہ تھیں: (۱)دس سال تک جنگ بندی رہے گی اور لوگ ایک دوسرے سے محفوظ رہیں گے‘ (۲) اس سال مسلمان عمرہ ادا کیے بغیر واپس چلے جائیں گے اور آئندہ سال عمرہ ادا کریں گے اور تین دن مکہ مکرمہ میں رہیں گے‘ صرف وہی ہتھیار ساتھ رکھیں گے ‘جو عام حالات میں سفر میں رکھے جاتے ہیں‘ (۳)جو شخص مکۂ مکرمہ سے اسلام قبول کرنے کے لیے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے گا تو اُسے لوٹادیا جائے گا‘(۴)جو مدینۂ منورہ سے پلٹ کر قریش کے پاس آئے گا تو اُسے نہیں لوٹایا جائے گا‘ (۵) قبائلِ عرب کو آپشن دیا جائے گا کہ وہ مسلمانوں اور قریشِ مکہ میں سے جس کے چاہیں حلیف بن جائیں۔ 
بظاہر اس معاہدے کی شرائط مسلمانوں کی کمزور پوزیشن کو ظاہر کر رہی تھیں‘ اس سے مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہوا ‘ حضرت عمر بن خطاب جن کے روئیں  روئیں اور انگ انگ میں دینی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی ” یارسول اللہ! کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘ آپﷺ نے جواب دیا ”یقینا سچا نبی ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا ”کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ”یقینا ایسا ہی ہے‘‘۔انہوں نے کہا ”کیا ہمارے شہداء جنت میں اور اُن کے مقتولین جہنم میں نہیں ہوں گے؟‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” ایسا ہی ہوگا‘‘۔ انہوں نے کہا ”تو پھر ہم کمزور پوزیشن میں آکر کیوں معاہدہ کر رہے ہیں؟‘‘۔ آپ ﷺ نے جواب دیا ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں‘ اس کی نافرمانی نہیں کرتا اور وہ مجھے ضائع نہیں فرمائے گا‘ وہ میرا مددگار ہے ‘‘۔ انہوں نے پھر کہا ”کیا آپ نے ہمیں یہ نہیں کہا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف کریں گے؟‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا ”یقینا کہا تھا‘ لیکن میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اسی سال کریں گے‘‘۔ حضرت عمر کو پھر بھی قرار نہ آیا اور وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے‘ جو رسول اللہ ﷺ سے سوال وجواب کے وقت وہاں موجود نہیں تھے‘ اُن سے وہی سوال اُسی ترتیب سے کیے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لفظ بہ لفظ وہی جوابات دئیے جو آپﷺ نے دیے تھے‘ اس سے معلوم ہوا کہ اُن کی سوچ تاجدارِ نبوت کی فکر کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی اور ذرّہ بھر فرق نہیں تھا‘‘ (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد‘ج:5ص:52)۔ 
اسی طرح جب رسول اللہ ﷺ غارِ حرا سے پہلی امانتِ وحی لے کر گھر لوٹے تو بتقاضائے بشری آپ پر ایک خوف کی سی کیفیت تھی اور شدید گرمی کے موسم میں آپ پر کپکپی طاری تھی ‘ ام المومنین خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا ”بخدا! اللہ آپ کو بے آبرو نہیں کرے گا‘ کیونکہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں‘ دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘ ناداروں کے کام آتے ہیں‘ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبت اٹھانے والوں کے مددگار ہوتے ہیں‘‘ (صحیح البخاری:3)یعنی جس کا کردار اتنا پاکیزہ اور بلند ہو‘ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُسے دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑدے‘پھر ایک موقع آیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کفارِ مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر ہجرت کے ارادے سے مکے سے روانہ ہوئے ‘ پھر جب آپ ”بَرْکَ الْغِمَاد‘‘ کے مقام پر پہنچے تو راستے میں وہاں کے رئیس ”اِبْنُ الدَّغِنَہ‘‘ سے ملاقات ہوئی ‘ اس نے پوچھا” ابوبکر! کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا: قوم مجھے وطن سے نکال رہی ہے‘ تو میں نے سوچا کہ اللہ کی زمین میں سیاحت کروں اور اپنے رب عزوجل کی عبادت کروں‘ اِبْنُ الدَّغِنَہ نے کہا: ابوبکر! رک جائو‘ آپ جیسے شخص کو نہ وطن سے جانا چاہیے اور نہ نکالا جانا چاہیے‘ کیونکہ آپ ناداروں کے کام آتے ہیں‘ صلۂ رحمی کرتے ہیں‘ کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘ مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصائب اٹھانے والوں کے مددگار ہوتے ہیں‘ پس میں آپ کوپناہ دیتا ہوں‘ لوٹ جائیے اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجیے‘ ‘(سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد‘ ج:2ص:410)۔
ذرا غور فرمائیے ! خُلُقِ مصطفی ﷺ کے بارے میں جو کلمات آپ کی رفیقۂ حیات حضرت خدیجہ نے کہے ‘بعینہٖ وہی کلمات خُلُقِ صدیقی کے حوالے سے ایک نظریاتی دشمن اور رئیسِ مکہاِبْنُ الدَّغِنَہ نے کہے‘ اس سے معلوم ہوا کہ قُرْبت وصحبتِ مصطفی ﷺکی برکت سے جنابِ صدیقِ اکبرؓ کا کردار خُلُقِ مصطفی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا‘ اس طرح سوفیصد عکسِ کردارِ مصطفی ﷺکہیں اور ملے گا۔ 
عام دستور یہ ہے کہ جس پر کوئی طعن کیاجائے یا الزام لگایا جائے تو وہ خود اپنی صفائی پیش کرتا ہے‘ لیکن مقامِ مصطفی ﷺ کے انداز نرالے ہیں کہ طعن مصطفی پر کیا جاتا ہے اور صفائی ربِ مصطفی بیان فرماتا ہے‘ سو جب کچھ عرصے کے لیے وحی موقوف ہوگئی تو کفارِ مکہ نے طعن کیا ”محمد کے رب نے ان کو چھوڑ دیا ہے اور وہ اُن سے ناراض ہوگیا ہے‘‘ بجائے اس کے کہ آپ جواب دیتے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”(اے حبیبِ مکرم!) آپ کے رب نے آپ کو چھوڑا نہیں ہے اور نہ وہ آپ سے ناراض ہوا ہے اور بے شک بعد والی ساعت آپ کے لیے پہلی ساعت سے بہتر ہے‘‘ (الضحیٰ:4)۔ اسی طرح جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خرید کر آزاد کرنے پر کفارِ مکہ نے طعن کیا کہ ہو نہ ہو‘ ابوبکر نے بلال کے کسی احسان کا بدلہ چکایا ہے‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اور اس آگ سے وہ سب سے زیادہ متقی شخص محفوظ رہے گا‘جو (اللہ کی راہ میں) اپنامال دیتا ہے‘ تاکہ اس کا قلب (مال کی محبت سے) پاک ہوجائے اور اُن پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے‘ جس کا بدلہ چکا رہے ہوں‘ وہ تو صرف اپنے بزرگ وبرتر پروردگار کی رضا کے لیے (اپنا مال خرچ کرتے ہیں)اور وہ عنقریب اُن سے راضی ہوجائے گا‘‘ (اللیل:17-21)۔
جماعتِ صحابہ میں حضرت صدیقِ اکبر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی چار پشتوں کو شرفِ صحابیت سے سرفراز فرمایا”حضرت موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں:ہم صرف چار ایسے افراد کو جانتے ہیں جو خود بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور شرف صحابیت پایا اوران کے بیٹوں نے بھی اسلام قبول کر کے شرفِ صحابیت پایا : ابوقحافہ‘ ابوبکرصدیق عبداللہ‘ عبدالرحمن بن ابی بکر‘ ابوعتیق محمد بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہم‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْر لِلطَّبْرَانِیْ:11)۔ 
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے ”اگر ہم ان پریہ فرض کردیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھرو ں سے نکل جائو تواُن میں بہت کم ہوں گے اس پر عمل کریں گے‘‘(النساء:66)۔
عامر بن عبداللہ بن زبیر بیان کرتے ہیں: جب یہ آیۂ مبارکہ نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر نے عرض کی:یارسول اللہ! اللہ کی قسم! اگر آپ مجھے حکم فرمائیں کہ میں اپنے آپ کو قتل کردوں تو میں ضرور ایسا کروں گا‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر! تم نے سچ کہا‘‘ (تفسیر ابن ابی حاتم:5566)۔ حضرت عبداللہ بن قرط بیان کرتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا ” اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا دن ”یوم النّحر‘‘ ہے پھر دوسرادن‘‘راوی بیان کرتے ہیں؛پانچ یا چھ اونٹنیاں رسول اللہ ﷺ کے قریب آئیں اور وہ آپ کے قریب ہونے لگیں ‘تاکہ آپ ﷺ جس کے گلے پر چاہیں چھری پھیردیں‘‘ (ابودائود:1765)۔ امیر خسروؔ نے اس روایت کو نہایت حسین انداز میں منظوم کیاہے:؎
ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف
بہ امید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد
(ترجمہ)”صحرا کی کے سارے ہرن اپنا سر اپنی ہتھیلی پر رکھ کرتیار بیٹھے ہیں کہ شاید کسی دن آپ ﷺ ان کے شکار کے لیے تشریف لائیں اوروہ آپ کا شکار بننے کی سعادت حاصل کریں ‘‘۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں آپ نے امامت فرمائی ‘ حدیث پاک میں ہے‘آپ ﷺ نے فرمایا ”جس قوم میں ابوبکر موجود ہوں‘ کسی اور کے لیے سزاوار نہیں کہ وہ امامت کرے‘‘ (سنن ترمذی:3670)۔ اسی طرح خلیفۂ اول بلافصل ہونے ‘مانعینِ زکوٰۃ اور منکرینِ ختم نبوت کے خلاف عَلَمِ جہاد بلند کرنے اور جمعِ قرآن کا اعزاز حاصل کرنے میں بھی آپ افضل الصحابہ ہیں۔