ایک شیعہ نے کہا کہ ابراہیم علیہ السلام شیعہ تھے

میں نے کہا وہ کیسے؟

اس نے کہا: ”وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ

[ القران سورت الصافات : ایت نمبر 83]

ترجمہ:

اور بے شک ابراہیم علیہ السلام اس کے شیعہ میں سے ہیں۔..

جواب.و.تحقیق:

تم نے غلط ترجمہ کرکے قرآن میں ایک قسم کی تحریف کی….بہت بڑا گناہ کیا بلکہ بات کفر تک جا سکتی ہے

بالفرض آپ کے غلط ترجمہ کو مان لیا جائے تو ان آیات کا ترجمہ بھی شیعہ کرکے دیکھو کیا معنی و مطلب بنتا ہے…؟؟

( 1) ”وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ، وَمَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

ترجمہ:

ہم نے آپ سے پہلے شیعوں میں جتنے بھی رسول بھیجے اور جو بھی رسول آتا وہ(شیعے)ان کا ٹھٹھہ مذاق اڑاتے”

[ القران آیت ۔10۔ 11 سورت الحجر]

مطلب بنے گا کہ شیعہ وہ کافر کمینے گستاخ ہیں جو رسولوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے

( 2) ”إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًاً“

ترجمہ:

“بےشک فرعون نے سر کشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو شیعہ بنا رکھا تھا”

(القصص آیت نمبر 4)

مطلب بنے گا کہ شیعہ فرعونی جہنمی فرقہ ہے.

(3) ” إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ

ٍٕ“ترجمہ:”

بے شک جن لوگوں نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے وہ شیعہ تھے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں”

[ القران پاک سورت الانعام آیت نمبر 159]

مطلب بنے گا کہ دین کو تفرقہ مین دالنے والے دین کی دھجیاں اڑانے والے شیعہ ہیں،رسول کریم کا ان سے کوئی تعلق نہیں.

یہ تو ہوا الزامی جواب…اب آتے حقیقی جواب کی طرف

حقیقت یہ ہے کہ لفظ شیعہ جو قرآن میں ایا ہے وہ شیعہ مذہب کے معنی میں نہیں ایا بلکہ شیعہ لغوی معنی میں آیا ہے اور لفظ شیعہ کے لغوی معنی درج ذیل ہیں

تابع

پیروکار

مددگار

چھوٹے چھوٹےٹکرے

گروہ امت

وَهُوَ مَأْخُوذٌ مِنَ الشِّيَاعِ، وَهُوَ الْحَطَبُ الصِّغَار

ترجمہ:

شیعہ لفظ ماخوذ ہے شیاع سے جسکا معنی ہے لکڑیوں کے ٹکرے(مطلب شیعہ بمعنی گروہ ٹکرے امت بھی آتا ہے)

[تفسير القرطبي ,15/91]

أصل الشيعة في اللغة قولان: أحدهما: أنهم الأتباع

الثاني: وهو قول الأصمعي الشيعة الأعوان،

ترجمہ:

شیعہ کے لغت میں اصلی معنی کے متعلق دو قول ہیں ایک یہ کہ شیعہ کا معنی ہے تابع پیروکار، دوسرا معنی مددگار ہےیہ اصمعی کا قول ہے

[تفسير الماوردي=النكت والعيون ,5/54بحذف یسییر].

#شیعہ کی پیش کردہ آیت میں لفظ شیعہ کس معنی میں ہے ائیے مفسرین کی زبانی سنیے

عَنِ ابْنِ عباس: {وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لإبْرَاهِيمَ} يَقُولُ: مِنْ أَهْلِ دِينِهِ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: عَلَى مِنْهَاجِهِ وَسُنَّتِهِ

ترجمہ:

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ شیعتہ سے مراد اہل دینہ ہے اور سیدنا مجاہد نے کہا کہ شیعتہ سے مراد منھاجہ و سنتہ ہے(یعنی حضرت ابراہیم نوح علیہ السلام کے دین پر تھے ان کے منھج و سنت پے تھے)

[تفسير ابن كثير ت سلامة ,7/23]

ابن عباس، قوله (وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لإبْرَاهِيمَ) يقول: من أهل دينه

ترجمہ:

سیدنا ابن عباس نے فرمایا کہ شعتہ سے مراد اہل دینہ ہے(یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے دین والے تھے)

[تفسير الطبري = جامع البيان,21/61].

{وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ} [أَيْ: أَهْلِ دِينِهِ وَسُنَّتِهِ] {لَإِبْرَاهِيمَ

ترجمہ:

شیعتہ سے مراد یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام ان(نوح علیہ السلام) کے دین و سنت پر تھے

[تفسير البغوي,7/44].

وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لإبْرَاهِيمَ) قال: على منهاج نوح وسنته

ترجمہ:

سیدنا علی نے فرمایا کہ شیعتہ سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے منھج و سنت پے تھے)

[تفسير الطبري = جامع البيان ,21/61]..

وإن من شيعته لإبراهيم} فيه وجهان: أحدهما: من أهل دينه , قاله ابن عباس. الثاني: على منهاجه وسنته , قاله مجاهد.

ترجمہ:

شیعتہ کے دو معنی ہیں، سیدنا ابن عباس نے فرمایا کہ شیعتہ سے مراد اہل دینہ ہے اور سیدنا مجاہد نے کہا کہ شیعتہ سے مراد منھاجہ و سنتہ ہے(یعنی حضرت ابراہیم نوح علیہ السلام کے دین پر تھے ان کے منھج و سنت پے تھے)

[تفسير الماوردي=النكت والعيون ,5/54بحذف یسییر].

قَوْلُهُ تَعَالَى:” وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ” قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَيْ مِنْ أَهْلِ دِينِهِ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَيْ عَلَى مِنْهَاجِهِ وَسُنَّتِهِ

ترجمہ:

سیدنا ابن عباس نے فرمایا کہ شیعتہ سے مراد اہل دینہ ہے اور سیدنا مجاہد نے کہا کہ شیعتہ سے مراد منھاجہ و سنتہ ہے(یعنی حضرت ابراہیم نوح علیہ السلام کے دین پر تھے ان کے منھج و سنت پے تھے)

[تفسير القرطبي ,15/91].

#حتیکہبعضشیعہمفسرین نے بھی یہی تفسیر کی ہے

ان ضمير ” شيعته ” لنوح أي إن إبراهيم كان ممن يوافقه في دينه

ترجمہ:

شیعتہ میں ہ ضمیر نوح علیہ السلام کی طرف ہے یعنی ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے دین کی موافقت کرتے تھے

شیعہ تفسیر المیزان17/147).

وإن من شيعته لإبراهيم أي إن إبراهيم كان سائرا على خطى نوح (عليه السلام) في التوحيد والعدل والتقوى والإخلاص

ترجمہ:

شیعتہ سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید عدل تقوی اخلاص میں نوح علیہ السلام کے پیروکار تھے

شیعہ تفسیر الامثل14/347).

#ممکن ہے بعض شیعوں نے جھوٹی من گھڑت تفسیر کی ہو کہ ابراہیم علیہ السلام شیعان علی میں سے تھے(نعوذ باللہ) اور بعض شیعوں نے صحیح تفسیر کی ہو….یہی ان کے باطل ہونے کی نشانی کہ انکی کتب تضاد و جھوٹ غلو و گستاخی سے بھری پڑی ہیں….العیاذ باللہ..

اب چاروں آیتوں کا صحیح ترجمہ ملاحظہ کیجیے

إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًاً“

ترجمہ:

“بےشک فرعون نے سر کشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو تابع بنا رکھا تھا”

(القصص آیت نمبر 4).

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ

ٍٕ“ترجمہ:”وہ جنہوں نے اپنے دین میں جُدا جُدا راہیں نکالیں اور کئی گروہ ہوگئے اے محبوب ! تمہیں ان سے کچھ علاقہ نہیں

[سورت الانعام آیت نمبر 159]

”وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ، وَمَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

ترجمہ:

ہم نے آپ سےپہلے گرہوں(امتوں)میں جتنے بھی رسول بھیجے اور جو بھی رسول آتا وہ ان کا ٹھٹھہ مذاق اڑاتے”

[ القران آیت ۔10۔ 11 سورت الحجر].

”وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ

ترجمہ:

حضرت ابراہیم علیہ السلام ان(یعنی حضرت نوح علیہ السلام) کے دین و ملت اور انہیں کے طریق و سنت پر تھے

[ القران سورت الصافات : ایت نمبر 83].

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

facebook,whatsApp nmbr

03468392475