تاریخ طبری میں شان صحابہ کے خلاف روایات کا حکم
sulemansubhani نے Tuesday، 15 September 2020 کو شائع کیا.
تاریخ طبری میں شان صحابہ کے خلاف روایات کا حکم
مخالفین اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے تاریخ طبری کی بعض روایات کو بنیاد بنا کر یہ دعوی کرتے ہوے نظر آتے ہیں کہ ہمارے عقائدآپکی کتب سے ثابت ہیں ۔
ان بعض روایات کو پڑھنے کے بعد ہماری عوام کافی پریشانی میں مبتلا ہوجاتی ھے تو ان سے گذارش ھے کہ پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں آپ کے لئے چند بنیادی باتیں جان لینا ضروری ہیں۔
(1)تاریخ کو دین اسلام میں ثانوی حیثیت جبکہ قرآن و حدیث کو اول حیثیت حاصل ھے۔گویا کہ اگر کوئی عقیدہ قرآن و حدیث سے ثابت ہورہا ھے اور تاریخ اس سے متضاد عقیدہ دے رہی ھے تو مسلمان ہونے کے ناطے تاریخ کو چھوڑ کر قرآن پر عمل کرنا لازم ھے کیونکہ مخلوق کے کلام میں غلطی ہوسکتی ھے خالق کے کلام میں نہیں ۔
اور قرآن نے کس طرح شان صحابہ بیان کی کسی پر مخفی نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اللہ نے تمام صحابہ کے جنتی ہونے کی بشارت عطاء فرمائی ۔
(2) جب بھی کوئی روایت ہمارے سامنے آتی ھے اسکا تعلق چاہے کتب احادیث سے ہو یا کتب تواریخ سے تبھی ہمارے نزدیک وہ قابل قبول ہوگی جب اسکی سند کی صحت کے بارے علماء جرح و تعدیل و محدثین نے جو شرائط مقرر کی ان پر پورا اترے۔
اور کتب تواریخ میں جتنی بھی روایات شان صحابہ کے خلاف ہیں وہ یا تو بے سند ہیں یا ان میں رافضی راویوں کی آمیزش ھے۔
اور ایسی روایات بالاتفاق محدثین کے نزدیک قابل قبول نہیں ۔
شان صحابہ کے خلاف بےسند اور رافضی راویوں پر مشتمل روایات کا جم غفیر تاریخ طبری میں پایا جاتا ھے۔
اسکی بنیادی وجہ یہ بھی ھے کہ امام طبری نے اپنی اس تاریخ لکھنے میں جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ اور ایک تحقیق کے مطابق مشہور رافضی ابومخنف لوط بن یحیی سے 612 روایات اپنی کتب میں درج کی اور جنگ جمل و صفین کے حوالے سے جتنی بھی روایات اس کتاب میں موجود ہیں انکی بنیاد ابومخنف لوط بن یحیٰ ھے۔
اسی وجہ سے حافظ ذھبی میزان الاعتدال میں امام ابن جریر طبری کا تعارف لکھتے ہوے ارشاد فرماتے ہیں کہ
اگرچہ یہ ثقہ ہیں لیکن ان میں تشیع پایا جاتا تھا۔
لہذا اس کتاب میں جتنی بھی شان صحابہ کے خلاف روایات ہیں وہ ہرگز ہم پر حجت نہیں کیونکہ اسکی بنیاد رافضی راوی ہیں۔
اسطرح کی روایات کا ہم پر حجت نا ہونا اسکی دوسری دلیل امام ابن جریر کا اپنا مقدمہ ھے کہ جس میں انھوں نے بالکل واضح طریقے میں لکھ دیا کہ
میری کتاب میں اگر کوئی روایت کو قبیح جانے تو اسکو جان لینا چاہیے کہ بعض ناقلین سے ایسے ہی پہنچی ھے
اس بات سے امام ابن جریر طبری کا اسطرح کی روایات سے بری الذمہ ہونا ثابت ہوتا ھے کیونکہ انھوں نے پہلے ہی بتادیا کہ اس کتاب میں جو روایات اکٹھی کی ان میں کسی شرط یا صحت وغیرہ کا التزام نہیں کیا بلکہ جس سے جسطرح کی روایات پہنچی اسکو اپنی کتاب میں لکھ دیا ۔
تو جو کتاب خود مصنف پر حجت نا ہو وہ ہم پر کیسے حجت بن سکتی ھے؟
لہذا جب بھی ایسی کوئی روایات ہماری سامنے آئیں گی اسکی سند پر تحقیق کریں گے تحقیق کے بعد ہی وہ قابل قبول ہوگی۔
نوٹ ۔ امام ابن جریر طبری کے حوالے سے مزید مفصل گفتگو پڑھنے چاہتے ہیں تو کمنٹ میں بتادیں ایک ۔مختصر رسالہ سینڈ کردوں گا اور اسے کے متعلق ویڈیو کا لنک کمنٹ میں دے دیا گیا ھے۔
احمد رضا رضوی
ٹیگز:-
تاریخ طبری , احمد رضا رضوی