کیا سیدنا عمر نے بی بی فاطمہ کے گھر کو جلانے کی دھمکی دی…کیا سیدنا عمر نے سیدہ فاطمہ کو مکا مارا کہ ان کے پیٹ میں بچہ محسن شہید ہوگیا………….؟؟

.

جواب.و.تحقیق:

*پہلی،دوسری روایت:*

شیعہ(الشيخ محمد فاضل المسعودي اور ابن شہرآشوب اور محشی جواہر المطالب وغیرہ رافضی نیم رافضی)بڑے فخر سے پیش کرتے ہیں کہ سیر اعلام اور میزان االاعتدال وغیرہ کتب اہلسنت میں لکھا ہے کہ عمر نے سیدہ فاطمہ کو مکا مارا اور پیٹ میں بچہ محسن شہید کردیا

انَّ عُمر رفَسَ فَاطِمَة حَتَّى أَسقطتْ محسّناً

بے شک عمر نے فاطمہ کو مکا مارا یہاں تک کہ فاطمہ کا بچہ محسن پیٹ میں شہید ہوگیا

(سیر اعلام النبلاء،میزان الاعتدال)

.

جواب.و.تحقیق:

ایک راوی أحمد بن محمد بن السري بن يحيى بن أبي دارم المحدث کے ترجمہ و حالات میں یہ بات بیان کی ہے کہ یہ محدث غیر معتبر اور غیر ثقہ جھوٹا رافضی کذاب ہے اس کے جھوٹ اور خرابیوں میں سے یہ ہے کہ اس کے پاس کہا جاتا تھا کہ حضرت عمر نے مکا مارا اور بی بی فاطمہ کا پیٹ میں بچہ شہید ہو گیا۔۔۔یہ اس بات پر خاموش رہتا تھا گویا کہ یہ اقرار کر رہا ہوں کہ یہ بات ٹھیک ہے۔۔لہذا یہ اس کے عیوب و جھوٹ خرابیوں میں سے ہے, یہ اس کی غیر مستند باتوں میں سے ہے۔۔۔سیر اعلام النبلاء اور میزان الاعتدال میں اس کی بات کو مستند بات کہہ کر لکھا نہیں ہے بلکہ جھوٹ و بہتان عیوب و تہمت والی غیر مستند غیر معتبر باتوں میں سے لکھا ہے

۔

شیعوں رافضیوں نیم رافضیوں نے حسبِ عادت بڑی چالاکی اور مکاری دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے ان دونوں کتابوں کی آدھی عبارت پیش کی اور آدھی کو چھوڑ دیا۔۔۔ہم آپ کے سامنے پوری عبارت پیش کر رہے ہیں ملاحظہ فرمائیے

.قَالَ الحَاكِمُ: هُوَ رَافضي، غَيْرُ ثِقَةٍ .

وَقَالَ مُحَمَّدُ بنُ حَمَّاد الحَافِظ: كَانَ مُسْتَقِيْمَ الأَمْر عَامَّة دَهْره، ثُمَّ فِي آخر أَيَّامه كَانَ أَكْثَرَ مَا يُقرأُ عَلَيْهِ المَثَالب، حَضَرْتُه وَرَجُل يَقْرأُ عَلَيْهِ أَنَّ عُمر رفَسَ فَاطِمَة حَتَّى أَسقطتْ محسّناً

أحمد بن محمد بن السري بن يحيى بن أبي دارم المحدث کے متعلق امام حاکم نے فرمایا ہے کہ یہ رافضی ہے یہ غیر ثقہ ہے

مُحَمَّدُ بنُ حَمَّاد الحَافِظ نے فرمایا کہ یہ راوی شروع میں ٹھیک تھا پھر آخری ایام میں اس کے پاس زیادہ تر عیوب و خرابیوں والی باتیں جھوٹ بہتان تہمت والی باتیں پڑھی جاتی تھی۔۔۔(انہیں خرابیوں اور بہتان اور جھوٹ والی باتوں میں سے ہے کہ) ایک دن میں اس کے پاس آیا اور اس کے پاس ایک شخص پڑھ رہا تھا کہ حضرت عمر نے فاطمہ کو مکا مارا یہاں تک کے سیدہ فاطمہ کے پیٹ میں بچہ محسن شہید ہوگیا

(سیر اعلام النبلاء15/578)

.

أحمد بن محمد بن السري بن يحيى بن أبي دارم المحدث.

الكوفي الرافضي الكذاب.الحاكم، وقال: رافضي، غير ثقة.

وقال محمد بن أحمد بن حماد الكوفي الحافظ – بعد أن أرخ موته: كان مستقيم الأمر عامة دهره، ثم في آخر أيامه كان أكثر ما يقرأ عليه المثالب، حضرته ورجل يقرأ عليه: إن عمر رفس فاطمة حتى أسقطت بمحسن.

أحمد بن محمد بن السري کوفی ہے رافضی ہے کذاب بہت جھوٹا ہے امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ رافضی ہے غیر ثقہ ہے

مُحَمَّدُ بنُ حَمَّاد الحَافِظ نے فرمایا کہ یہ راوی شروع میں ٹھیک تھا پھر آخری ایام میں اس کے پاس زیادہ تر عیوب و خرابیوں والی باتیں جھوٹ بہتان تہمت والی باتیں پڑھی جاتی تھی۔۔۔(انہیں خرابیوں اور بہتان اور جھوٹ والی باتوں میں سے ہے کہ) ایک دن میں اس کے پاس آیا اور اس کے پاس ایک شخص پڑھ رہا تھا کہ حضرت عمر نے فاطمہ کو مکا مارا یہاں تک کے سیدہ فاطمہ کے پیٹ میں بچہ محسن شہید ہوگیا

(میزان الاعتدال1/139ملتقطا)

.

*#تیسری روایت:*

درج ذیل فوٹو میں شیعہ کذاب مکار علامہ محقق شہنشاہ نقوی کتاب دکھا کر کہہ رہا ہے کہ اہلسنت کی کتاب الملل و النحل میں لکھا ہے کہ حضرت عمر نے بی بی فاطمہ کے پیٹ پے مارا اور(پیٹ میں موجود بچہ) محسن شہید کر دیا…شیعہ اسے بڑے فخر سے خوب پھیلا رہے ہیں

.

جواب و تحقیق:

دوستو بھائیو ایک اصول یاد رکھیں بہت کام آئے گا، اصول یہ ہے کہ شیعہ جھوٹ بولتے ہیں اور نام اہلسنت کتاب کا ڈال دیتے ہیں جلد نمبر صفحہ نمبر حتی کہ لائن نمبر بتاتے ہیں تاکہ رعب بیٹھے اور سننے پڑھنے والا سچ سمجھ لیے…. یہ ان کی مکاری دھوکہ بازی جھوٹ و افتراء ہے

لیھذا

شیعہ کی باحوالہ بات کو فورا سچ مت سمجھیے بلکہ معتبر پرمغز اہلسنت عالم سے تصدیق و تردید تحقیق کرائیے

.

الملل و النحل کی پوری بات پڑھیے لکھا ہےکہ

وزاد في الفرية فقال: إن عمر ضرب بطن فاطمة يوم البيعة حتى ألقت الجنين من بطنها

ترجمہ:

(فرقہ نظامیہ کا بانی إبراهيم بن يسار بن هانئ النظام نے)مزید جھوٹ و بہتان باندھتے ہوئے کہا کہ عمر نے فاطمہ کے پیٹ پے مارا اور اپ کے پیٹ میں بچہ گر گیا

(الملل و النحل1/57)

.

ذرا سی بھی عقل والا سمجھ سکتا ہے کہ ملل نحل میں تو اس کو جھوٹ بہتان و افتراء کہا ہے اور شیعہ آدھی بات پیش کرکے مکاری و دھوکہ بازی دیتے ہوئے کیا مفھوم بدل کر پیش کر رہے ہیں….فلعنۃ اللہ علی الکاذبین الماکرین

.

*#چوتھی روایت:*

علامہ صاحب میں بہت پریشان ہوگیا ہوں، کیا یہ میسج اور وڈیو سچ میں صحیح ہے کیا…..؟؟میسج اور وڈیو میں ہے کہ:

اہل سنت کے مشہور محدث، ابن ابی شیبہ کی کتاب ”المصنف“

ابوبکر بن ابی شیبہ (۲۳۵۔۱۵۹) کتاب المصنف کے موْلف صحیح سند سے اس طرح نقل کرتے ہیں:

٣٧٠٤٥ – مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , نا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ أَنَّهُ حِينَ بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُشَاوِرُونَهَا وَيَرْتَجِعُونَ فِي أَمْرِهِمْ , فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: «يَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ , وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ , وَايْمُ اللَّهِ مَا ذَاكَبِمَانِعِي إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ ; أَنْ أَمَرْتُهُمْ أَنْيُحَرَّقَ عَلَيْهِمِ الْبَيْتُ» , قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاءُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيُحَرِّقَنَّ عَلَيْكُمُ الْبَيْتَ وَايْمُ اللَّهِ لَيَمْضِيَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَيْهِ , فَانْصَرِفُوا رَاشِدِينَ , فَرَوْا رَأْيَكُمْ وَلَا تَرْجِعُوا إِلَيَّ , فَانْصَرَفُوا عَنْهَا فَلَمْ يَرْجِعُوا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعُوا لِأَبِي بَكْرٍ

جس وقت لوگ ابوبکر کی بیعت کر رہے تھے، علی اور زبیر حضرت فاطمہ زہرا کے گھر میں گفتگو اور مشورہ کر رہے تھے اور یہ بات عمر بن خطاب کو معلوم ہوگئی۔ وہ حضرت فاطمہ کے گھر آئے اور کہا: اے رسول کی بیٹی، سب سے محبوب انسان ہمارے نزدیک تمہارے والد گرامی تھے اور ان کے بعد اب تم سب سے زیادہ محترم ہو لیکن خدا کی قسم یہ محبت اس بات کے لئے مانع یا رکاوٹ نہیں بن سکتی کہ یہ لوگ تمہارے گھر میں جمع ہوں اور میں اس گھر کو ان لوگوں کے ساتھ جلانے کا حکم نہ دوں۔

اس جملہ کو کہہ کر باہر چلے گئے جب علی اور زبیر گھر میں واپس آئے تو حضرت فاطمہ زہرا نے علی اور زبیر سے کہا: عمر یہاں آئے تھے اور اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر تم دوبارہ اس گھر میں جمع ہوئے تو تمہارے گھر کو ان لوگوں کے ساتھ آگ لگا دوں گا، خدا کی قسم ! اس نے جو قسم کھائی ہے وہ اس کو انجام دے کر رہے گا۔

مسیج میں لکھا تھا کہ:

دوبارہ وضاحت کرتا ہوں کہ یہ واقعہ المصنف نامی کتاب میں صحیح سند کے ساتھ نقل ہوا ہے

اور

وڈیو میں مولوی صاحب نے اہلسنت کی کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس روایت کا راوی محمد بن بشر ثقہ ہے

.

الجواب:

وڈیو میں اور میسج میں انتہائی مکاری عیاری دھوکے بازی کا مظاہرہ کیا گیا ہےجوکہ شیعہ رافضی نیم رافضی کی عادت قبیحہ ہے،باطل جھوٹا مکار ہونے کی دلیل ہے….مذکورہ روایت المصنف میں موجود تو ہے مگر صحیح نہیں بلکہ منقطع منکر ضعیف و ناقابل حجت ہے، اس روایت کے پہلے راوی کو ثقہ ثابت کرکے دھوکہ دینے کی کوشش کی گئ ہے کہ باقی راوی بھی ثقہ ہیں اور روایت صحیح….شیعہ رافضی نیم رافضی اور مولانا َموصوصف مکار منافق دھوکے باز نہ ہوتے حق پسند ہوتے تو اس روایت کے مرکزی راوی اسلم کے اس روایت کے متعلق توثیق پیش کرتے،ثابت کرتے کہ اسلم واقعہ میں موجود تھا یا اسلم نے فلاں ثقہ راوی سے سنا

مگر

افسوس اس پے بات نہ کیونکہ اس پر بات کرتے تو انکا پول کھل جاتا…جھوٹ مکاری عیاری پکڑی جاتی

کیونکہ

کتب اہلسنت میں دوٹوک لکھا ہے کہ اسلم راوی دھمکی والے فرضی واقعہ کے وقت موجود ہی نہ تھا تو یہ واقعہ کیسے سنا رہاہے لازما کسی اور سے سنا ہوگا مگر کس سے سنا، کسی شیعہ راوی سے تو نہیں سنا ، کسی افواہ کو سن کر روایت تو نہیں کر رہا بحرحال اسلم جب موجود ہی نہ تھا تو اسکی روایت قابل حجت نہیں…..انتہائی ضعیف و منقطع مردود روایت کہلائے گی

.

دلیل:

بیعت کا واقعہ کہ جس میں حضرت عمر کو دھمکی دینے والا کہا گیا ہے اگر بالفرض مان لیا جائے تو مدینہ میں گیارہ ہجری ماہ ربیع الاول کا واقعہ ہے

اور

اس وقت اسلم مکہ میں تھا گیارہ ہجری ماہ ربیع الاول کے کچھ ماہ بعد حج کے موقعہ پر حضرت عمر نے اسلم کو خریدا تھا کیونکہ یہ غلام تھا…..ثابت ہوا کہ واقعہ بتانے والا مرکزی راوری اسلم واقعہ کے وقت تھا ہی نہیں اس نے ناجانے کس سے کسی شیعہ سے کسی ضعیف سے کسی دشمن اسلام سے یا افواہ سن کر روایت کر دی جوکہ ناقابل حجت ہے

.

امام بخاری فرماتے ہیں

بَعَثَ أَبُو بَكْرٍ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سَنَةَ إِحْدَى عَشْرَةَ فَأَقَامَ لِلنَّاسِ الْحَجَّ وَابْتَاعَ فِيها أَسْلَمَ

ترجمہ:

گیارہ ہجری کو سیدنا ابوبکر نے سیدنا عمر کو حج قائم کرانے مکہ بھیجا…حضرت عمر نے ان دنوں مکہ میں اسلم کو خریدا

(بخاری….تاریخ صغیر1/62)

.

ترجمہ کرنے والے نے آخری دو لائنوں کا ترجمہ نہیں کیا…کیونکہ کرتا تو جھوٹ مکاری دھوکے بازی پکڑی جاتی….جی ہاں المصنف کی اس روایت کے مردود ہونے کے لیے یہ بھی دلیل ہے کہ اس روایت کے اخر میں ہے کہ اس دھمکی کے بعد حضرت علی وغیرہ نے بیعت کرلی

جبکہ

صحیح بخاری کی روایت4240میں ہے کہ حضرت علی نے اپنی مرضی سے بیعت اس وقت کی جب چھ ماہ بعد بی بی فاطمہ کا انتقال ہوا….لیھذا المصنف کی روایت بخاری کے متضاد و خلاف ہے اس لیے منکر ضعیف و مردود ہے….شیعہ مصنف لکھتا ہے

فحديثه منكر مردود

ترجمہ:

(غیر ثقہ ثقہ کی مخالفت کرے تو)اسکی حدیث منکر مردود ہے..(شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185)

.

نیز المصنف کی روایت میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ سیدنا عمر نے سیدہ فاطمہ کو مکا مارا اور پیٹ میں بچہ محسن شہید کردیا…..لیھذا محسن کو پیٹ میں شہید کرنے کی بات سراسر جھوٹ بہتان مکاری و بغض صحابہ ہے…اللہ ہدایت دے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر