حُبُّ الدُّنْیَا رَأسُ کُلِّ خَطِیْئَةٍ

دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے

بعض نے اس روایت کو موضوع قرار دیا۔۔

کسی نے اسے جندب البجلی کا کلام کہا۔۔

جب کہ امام بیھقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں

اس روایت کو سندِ حسن کے ساتھ حسن بصری رحمہ اللہ سے مرسلاً نقل فرمایا۔۔۔

امام جلال الدین سیوطی الشافعی رحمہ اللہ نے اسے موضوعات میں شمار کیا۔۔۔

دیلمی نے اسے سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجھہہ کا ارشاد کہا۔۔۔ لیکن بلا سند۔۔

حلیتہ الاولیاء میں اسے سیدنا عیسی علیہ السلام کا ارشاد ۔۔۔۔۔

جبکہ۔۔۔ابن ابی الدنیا کی ” مکائد الشیطان ” میں سیدنا مالک بن دینار رحمہ اللہ کا قول قرار دیا گیا

اقول ۔

یہ قول معنی کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے، اس سے کسی بشر کو انکار نہیں ، دنیا کی محبت اندھا، بہرہ، گونگا کردیتی ہے، انسان اچھے اعمال سے غافل ہوکر برائیوں میں منہمک رہتا ہے، آخرت کی دائمی زندگی کو فراموش کرکے اس نا پائیدار دنیا میں رہنے کے خواب دیکھتا ہے جو کہ سببِ غفلت ہے۔۔۔۔۔۔۔

وہ ہی نہ کہ۔۔۔۔ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

یہ عالیشان گھر، لگژری گاڑیاں، بینک بیلنس، ٹھاٹھ باٹھ

ایک دن یہیں رہ جانا ہے، گر یہی سوچ بن جاوے تو

دنیا کی محبت کم ہوسکتی ہے،

حدیث بخاری ہے” دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر “

یعنی بالکل ہی دنیا میں گم نہ ہوجاؤ، بلکہ ہر وقت آخرت

کی تیاری رکھو ، سامان اپنا ضرورت کا رکھو، تاکہ

سفر میں اسانی رہے۔۔۔

ایک روایت میں پڑھا تھا کہ صاحبِ عشرہ مبشرہ ، عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ 500 سال بعد جنت میں جائیں گے، اسکا سبب بھی مال ہی تھا حالانکہ انکا مال پاکیزہ، حلال، مگر اسکا حساب میں اشتغال کی وجہ سے وہ تاخیر سے داخلِ جنت ہونگے

( کسی کے پاس اسکا اصل حوالہ ہو تو سینڈ کریں)

ایک صاحب پرسوں مجھ سے کہہ رہے تھے،آج فلاں کا انتقال ہو ، کل ہماری باری ہے، حالانکہ وہ کہنے والے

ایک وقت کی نماز نہیں پڑھتے، انکا قول غفلت کی

نشانی ہے بلکہ رب سے ٹھٹھہ ہے

اصل تیاری وہی ہے ، کہ اچھے اعمال کی کوشش کریں ،پھر

رب سے رحمت، مغفرت کی امید رکھی جاوے ،

ابنِ حجر

29/1/2021ء