آؤ امامت کیساتھ ایماندارانہ تجارت کرکے ایک نئی دنیا بسائی
🌹آؤ امامت کیساتھ ایماندارانہ تجارت کرکے ایک نئی دنیا بسائیں🌹
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تحریر سگ بارگاہ آل رسول
واسیر حضور تاج الشریعہ
ظفرالدین رضوی
خطیب و امام رضا جامع مسجد گئو شالہ روڈ ملنڈ ممبئی ۹۸۲۱۴۳۹۹۷۱
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عزیزان گرامی
ایک وہ دور تھا جب مسلمان تجارت کی دنیا کا بے تاج بادشاہ تھے،انبیائے کرام ورسولان عظام اورصحابۂ کرام،تابعین وتبع تابعین،ائمۂ مجتھدین نے تجارت کی صحابہ وتابعین اور دیگر ائمۂ کرام نے تجارت کے ذریعہ مختلف ریاستوں اور شہروں میں جاکر دین متین کی تبلیغ فرمائی،قرون اولی کے مسلمانوں کو تجارتی دنیا میں غلبہ حاصل تھا دراصل تجارت ترقی کا بہترین طریقہ وزینہ ہے افسوس موجودہ دور میں ہم تجارت سے کوسوں دور ہوتے جارہے ہیں جبکہ تجارت سلف صالحین کا محبوب مشغلہ وطریقہ رہاہے اس سلسلے میں علمائے کرام پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو تجارت کے دینی اصول و ضوابط سے آگاہ فرمائیں اور خود بھی اس پیشے سے منسلک ہوکر اپنی معاشی طاقت کو مضبوط کریں خاص کر کرائمۂ مساجد کواپنے جمعہ وغیرہ کے خطبے میں ایماندارانہ تجارت پہ روشنی ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ عوام الناس کا ذھن ودماغ صاف و شفاف ہوسکےاور وہ یہ محسوس کرسکیں کہ جب ہمارے اکابرین نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا تھا اور ہمارے اسلاف جب تجارت کرسکتے ہیں تو ہمارے علمائے کرام اور ائمۂ مساجد تجارت کیوں نہیں کرسکتے لہذاہمارے اسلاف واکابرین کی حیات طیبہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے اکل حلال اور کسب معاش تجارت کے ذریعہ پورا کیا جاسکتا ہے تجارت کے رہنما اصول اللہ جل مجدۂ کے پیارے حبیب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو بہت ہی جامعیت کیساتھ عطاء فرمایا ہے ہم پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر تجارتی دنیا میں پائی جانے والی خرابیوں اور غلاظتوں کو دورکرسکتے ہیں اس کام کو عالم دین سے بہتر اور کوئی نہیں کرسکتا ہے، ہم تجارتی دنیا میں آکرایک اچھی دنیا کی تعمیر کرسکتے ہیں کیونکہ تجارت کی سنہری اصول و ضوابط صرف رزق میں فراوانی ہی نہیں بلکہ اس میں تعمیر و ترقی کے راز پنہاں ہیں اسلام میں جہاں نماز اور جملہ عبادتوں پر زور دیا گیا ہے اسی طرح سے کسب حلال اور طلب معاش کی اہمیت دی گئی ہے لہذا ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ اپنے دنیاوی واخروی معاملات میں شریعت مصطفے کی روشنی میں زندگی بسر کرتے ہوئے تجارتی دنیا کو ایمان دارانہ ماحول فراہم کرے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے ایک ایسا جامع نظام حیات عطاء کیا ہے کہ جس میں دین کی وسعت وجامعیت ہر طرح سے موجود ہے اس میں ہر طرح کے امور عبادات اور کاروباری معاملات و مسائل کا مکمل حل روز روشن کیطرح عیاں ہےآج علماء کی جماعت صرف اپنے آپ کو درسگاہ اور مصلے امامت تک ہی محدود کرلیا ہے ان میں صرف مسند نشینی والی سوچ رچی بسی ہوئی ہے اگر کوئی عالم دین تجارتی دنیا میں قدم رکھنے کوشش کرتاہے تو کچھ لوگ اس پر دنیادار کا لیبل لگا کراسے گداگری کرنے پہ مجبور کردیتے ہیں جو نہایت ہی بزدلانہ اور غیر اخلاقی طریقہ ہے کیا ایک عالم درسگاہ اور امامت کے منصب پر رہتے ہوئے پاک و صاف تجارت نہیں کرسکتا ہے بیشک کرسکتا ہےمگر اس کیلئےہمت لگن،محنت اور جدوجہد کی سخت ضرورت ہے ہماری کاہلی اور آرام طلبی نے ہمیں بزدل بنا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ گروہ اپنے ذریعۂ معاش کی فکر کم اپنے پوشاک پہ دھیان زیادہ دیتا ہے کہیں لباس پہ کسی طرح کی شکن نہ آجائے اورنہ کوئی دھبہ بھی لگے ہروقت اجلا پوشاک دیکھائی دے ہم نے کنویں کے مینڈھک کیطرح سیٹھیوں کے اردگرد چکر لگانے کو ہی زندگی کی سب سے بڑی دنیا تصور کرلیا ہے یاد کرو اس امام ربانی کو جس کی ہم تقلید کرتے ہیں ہمارے اس عظیم مقتدا وپیشوا نےدین اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے ایسی تجارت کی ہے اس کی مثال ملنا آج کے دور میں ممکن ہی نہیں ناممکن ہے اس خدا رسیدہ عالم ربانی کے جیسا تجارتی دنیا میں کوئی امین و صادق اور متقی وپرہیزگار نہ ملے گا اس عظیم المرتبت شخصیت جسے زمانہ تاجدار فقہاء حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے نام سے جانتا ہے اس نابغۂ روزگار ہستی نے مذہب اسلام اور اس کے رموزونکات کو تجارتی دنیا میں ایسا پیش کیا ہے جس کی مثال رہتی دنیا نہیں پیش کرسکتی ہم خوش نصیب لوگ اسی امام ربانی کے ماننے والے ہیں ہم بھی انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی بیباکی و بے خوفی کامظاہرہ کرسکتے اورمصلے امامت سےاپنے دینی پیغام کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے اللہ ورسول کا انہیں مطیع وفرمابردار بنا سکتے ہیں ابھی بھی وقت ہے کہ اپنے آنے والی نسلوں کو جاہلوں کے نرغے سے بچا لیں آج جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے ہم جن کی سرپرستی میں امامت کے فرائض انجام دیے رہے ہیں ان میں اکثر جاہلوں کی ٹولی دیکھائی دیتی ہے ان کے دل ودماغ پر دنیاوی دولت کا نشہ سوار ہے ان جاہلوں نے اپنی زندگی میں نہ جانے کن مقاصد کے حصول کو اپنی کامیابی سمجھ رکھا ہے انکی مت مر چکی ضمیر مردہ خانے کی سیر کررہاہے انہیں تو اپنی ممبری پہ ناز ہے ایک بزرگ نے درست فرمایا تھا اگر اناپرست مغرور ٹرسٹی بخش دئے گئے تو شیطان بھی اپنی بخشش کی عرضی لیکر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے گا لہذاان نادانوں سے بچنے کا واحد راستہ تجارت کی دنیا بسانا ہے کیونکہ تجارت میں برکت ہی برکت ہے تجارت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رزق کے دس حصے میں سے نو حصہ اللہ نے تجارت میں رکھا ہے اسی لئے ہمارے اسلاف نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا تھا جس کی وجہ سے وہ خود مختار تھے کسی حاکم یا امراء سے وہ کبھی مرعوب بھی نہ ہوئے انھوں نے تبلیغ رشدوہدایت کا جو بیڑا اٹھایا تھا اسی کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام بغیر کسی تحریف و تبدیلی کے اسی طریقے سے زندہ و تابندہ ہے جس طرح آسمان سے سورج کی شعاعیں پوری آب و تاب کے ساتھ پوری دنیا میں بکھری ہوئی ہیں لہذا ائمہ حضرات کو تجارت سے جڑ کر منافع کی شکل میں فی سبیل اللہ امامت کے فرائض انجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے اگر یہ کام ہم نے کرلیا تو یقین جانیئے کہ غلام نہیں آقا بن کر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرسکتےہیں اور صحیح معنوں میں دین اسلام کی سچی تبلیغ بھی کرسکتے ہیں اسی طرح سے تجارت کے کچھ اصول و ضوابط بھی ہیں جن پر عمل کرکے بڑے تاجر بھی بن سکتے ہیں قرون اولی کے مقدس نفوس قدسیہ نے اسلامی اصولوں کے تحت تجارت کا آغاز کیا تو دھیرے دھیرے غیر مسلم ان کی ایمانداری اور پاک و صاف تجارت سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل ہوتےگئے ویسے بھی ایک تاجر کیلئے خوش اخلاقی بہت ضروری ہے تجارت میں کامیابی اسی کو ملتی ہے جو ایمانداری کیساتھ ساتھ خوش اخلاق ہو ہمارے اندر اخلاق واخلاص نہ کے برابر ہے ہم امامت کو نوکری سمجھتے ہیں جبکہ یہ نوکری نہیں اللہ کے گھر کی خدمت ہے ہم جب اللہ ورسول کے گھر کا خادم بن کر کوئی بھی کام کریں گے تو اس کے اندر برکت ہی برکت پیدا ہوگی ہمیں نوکر بن کر نہیں دین کاخادم بن کر کام کرنا ہوگا اور دین و ملت کی اشاعت و تبلیغ ہماری ذمہ داری ہے ہمیں خلوص و للہیت کیساتھ اس کام کو انجام دینا ہوگا تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس کے وارث بنیں جیسے ہمارے اسلاف نے ہمیں اس کا وارث بنایا ہے موجودہ دور میں جب ہم مساجد کے اماموں اور مؤذنوں پہ نظر ڈالتے ہیں تو اکثریت خلوص و محبت سے کوسوں دور نظر آتی ہے اس جماعت کو سب سے پہلے اپنے اندر خلوص و للہیت کو جگہ دینا ہوگا آج اگر ہم کسی کی گرفت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں باغی قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ اللہ رب العزت نے ہمیں حق کو حق باطل کو باطل کہنے کا اختیار عطاء کیا ہے چاہے حاکم وقت ہو یا کہ عام انسان تاکہ لوگ اس کی غلط حرکتوں سے بچ جائیں اگر حاکم وقت اپنی رعایا کیساتھ ناانصافی کرتاہے تو اس کے خلاف آواز بلند کرنا یہ بغاوت نہیں بلکہ اس کی کوتاہیوں کو اجاگر کرنا مقصد ہوتا ہے تاکہ اسے احساس ہوسکے کہ ہم صحیح کررہے ہیں یا کہ غلط رہا سوال مساجد ومدارس کے ٹرسٹیوں کی غلط پالیسیوں کو اجاگر کرنا انہیں راہ راست پہ لانا یہ عوام سے بڑھ کر ائمہ حضرات کی بہت بڑی ذمہ داری ہے ہم اپنی امامت بچانے کے چکر میں مساجد ومدارس کے متوالیان کی کوتاہیوں کو عوام کے سامنے لانے میں ناکام ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم عوام و خواص سب کی نظروں میں گنہگار دیکھائی دینے لگتے ہیں امام اس شخص کا نام ہے جو سارے مقتدیوں کا بوجھ اپنے نازک کندھے پہ لیکر چلتا ہے اگر امام پھسل گیا تو مقتدی خود بخود پھسل جائے گا اگر امام سلامت ہے تو پورے مقتدی سلامت ہیں اگر امام خوشحال تو پوری قوم خوشحال نظر آئے گی لیکن آج کے دور میں سب سے زیادہ کوئی دکھی دیکھائی دیتا ہے تووہ مساجد کے ائمہ حضرات ہیں ان سے زیادہ پریشان کوئی اور نہیں جبکہ مسلم معاشرے میں اماموں اور مؤذنوں کا مقام نہایت ہی بلند و بالا ہے امام اسی لئے بنایا ہی جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے مگر حالات اس کے برعکس ہیں ہماری قوم امام کی اقتداء کم اپنی اقتداء زیادہ کرواتی ہے سائیکلون طوفان سے بڑا طوفان تو اس وقت ہوتا ہے جب کوئی گھر کاستایا ہوا شخص مسجد کا صدر،سکریٹری،ممبر بن جاتا ہے تو وہ امام کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتاہےجس کی مثال دینا مشکل ہے آپ سوچتے ہوں گے کہ راقم الحروف نے کچھ زیادہ ہی مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے تو میرے بھائی مارنے پیٹنے کا ہی نام ظلم نہیں ہے ہر ان باتوں کا شمار ظلم میں ہوتا ہے جس سے انسان کا دل دکھی ہو آخر یہ ظلم نہیں تو اور کیاہے کہ اپنے نوکر کو ماہانہ پندرہ سے بیس ہزار تنخواہ دیں ہر وقت اس کی جی حضوری میں لگے رہیں کہ کہیں وہ چھوڑ بھاگ نہ جائے گاڑی کون چلائے گا بچوں کو اسکول کون لے کے جائے گا بازار سے سبزی کون لیکر آئے گا ہاں ان کی نظروں میں اگر کوئی شخص کمتر دیکھائی دیتا ہے تو وہ مسجد کا امام ہے کیونکہ اس کے رہنے نہ رہنے سے ٹرسٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے انکی سوچ یہی ہوتی ہے کہ ایک جائے گا دوسرا خود بخود آجائے گا ہم مولویوں کا بھی برا حال ہے ہم میں بھی کچھ دنیادار قسم کے لوگ آگئے ہیں انکی وجہ سے ہماری جماعت کی قدر و قیمت دن بدن گھٹتی ہی جارہی ہے ان کم ظرف لوگوں کی وجہ سے ہم عوام و خواص کی نظروں میں کمتر دیکھائی دیتے ہیں ہمیں بھی اپنے طرز عمل کو بدلنا ہوگا چاپلوسی عیاری مکاری جی حضوری ان سب باتوں سے پرہیز کرنا ضروری ہے ایک عالم دین نائب رسول ہوتا ہے اس کا مقام و مرتبہ بہت ہی بلند و بالا ہے ہزاروں بار حج کرنے والا دن رات عبادت و ریاضت میں مشغول رہنے والا غیر عالم، عالم دین کے پیر کا دھون بھی نہیں ہوسکتا ہے نائب رسول کا خطاب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عطاء فرمایا ہے عالم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہوسکتے یہی حال امام ومقتدی کا ہے یہ ہماری نا سمجھی کا نتیجہ ہے کہ آج ٹرسٹی ہم پر جیسا چاہتے ہیں حکومت کرتے ہیں حق بات تو یہ ہے کہ جو لوگ منصب امامت پر فائز ہیں ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو معاشی اعتبار سے نہایت ہی پسماندہ ہوتے ہیں ان کو مہینے کی ملنے والی تنخواہ اتنی قلیل ہوتی ہے اس سے گزارا بڑی مشکل سے ہو پاتا ہے ان کے پاس تنخواہ کے علاوہ اور کوئی ذریعۂ معاش بھی نہیں ہوتا ایسی صورت میں انارکی کا حد درجہ بڑھنے کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے مہنگائی کے اس نازک دور میں اماموں اور مؤذنوں کی تنخواہیں اتنی کم ہوتیں ہیں جو ایک متمول گھرانوں کے ناشتے سے بھی کم ہے اور سچ تویہ بھی ہے کہ مساجد کے ائمہ حضرات کے بچے کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ترسنے لگ جاتے ہیں ہوسکتا ہے کہ کوئی ہماری ان باتوں سے ناراض ہو جائے لیکن انہیں ناراض ہرگز نہیں ہونا چاہئے ہم تو ان کے درد کا اظہار کررہےہیں اگر یہ بات دنیا کے سامنے نہیں لائیں گے تو لوگ ہماری پریشانیوں کو کیسے سمجھ پائیں گے ہم تو آپ کی مفلسی میں بھی آپ کے رہن سہن اور شاہانہ طور طریقے کو داد دیتے ہیں کہ ماشاءاللہ آپ سماج میں جب چلتے ہیں تو آپ کے شاہانہ لباس کو دیکھ کر یہ جاہل اپنا ہاتھ مسلتے رہ جاتے ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہم اتنا کمانے کے باوجود بھی اتنے اچھے کپڑے نہیں پہن پاتے یہ اللہ رب العزت کا ہم مولویوں پر بے پناہ احسان اور رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص کرم ہے کہ جتنی شان و شوکت کے ہم مالک ہیں وہاں تک کسی جاہل کی رسائی تک نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ نے ہمیں علم دین مصطفٰے سے مالا مال فرمایا ہے یہ کوئی چھوٹی دولت نہیں بہت بڑی دولت ونعت ہے ہماری ائمہ حضرات سے ایک چھوٹی سی درخواست ہے اپنی قلیل آمدنی کی فکر چھوڑ کر تجارتی دنیا میں قدم رکھیں اور محنت و مشقت کا مظاہرہ کریں کوئی ضروری بھی نہیں کہ پہلے بڑی پونجی لگائیں چھوٹی سی پونجی سے تجارت کا آغاز کریں ان شاء اللہ وہ دن بھی آئے گا کہ یہی دوکوڑی کے جاہل ہاتھ چومنے پہ مجبور ہوں گے کیونکہ ہم ان کے بندھوا مزدور نہیں بلکہ فی سبیل اللہ امامت کرتے ہوئے اپنے اسلاف کے بتائے ہوے اصولوں کے مطابق تبلیغ دین اسلام بہتر طریقے سے کرسکیں گے
آؤ امامت کرتے ہوئے ایماندارانہ تجارت کرکے ایک نئی دنیا بسائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طالب دعاء
ظفرالدین رضوی
صدر رضا اکیڈمی بھانڈوپ ملنڈ ممبئی