ماں کا حق زیادہ ہے
ماں کا حق زیادہ ہے
باپ کے مقابلے میں ماں کے احسانات زیادہ ہیں اس لئے پروردگار عالم نے ماں کا حق باپ سے زیادہ متعین کیا ہے اور ماں کے ساتھ خصوصی حسنِ سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص رسول اللہﷺ کی خدمت با برکت میں حاضر ہوا۔ اس نے سوال کیا یا رسول اللہﷺ سب سے زیادہ میری خدمت کا مستحق کون ہے ؟ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا تیری ماں اُس نے عرض کیا پھر کون ؟آپ انے ارشاد فرمایا تیری ماں سائل نے عرض کیا پھر کون ؟ ارشاد ہو ا ’’ تیری ماں ‘‘ دریافت کیا اس کے بعد ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ تیرا باپ ‘‘۔
(صحیح بخاری، مشکوٰۃ شریف)
میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو!اس حدیث پاک سے ماں کی فضیلت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خدا ئے وحدہ لا شریک اور اس کے محبوب ﷺ کی نظر میں ماں کی کتنی عظمت اور کتنا بلند مقام ہے ؟ سائل نے ایک ہی سوال چار مرتبہ دہرایا، تین مرتبہ زبان نبوی سے جواب ملتا ہے وہ ’’ماں ‘‘ ہے اور چوتھی مرتبہ زبان نبوی پر آتا ہے کہ وہ ’’باپ ‘‘ ہے۔
غو ر کیجئے ! حضور انور ﷺ نے احسان اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق ماں کو قرار دیا اور چوتھی دفعہ باپ کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نوماہ تک حمل کا بوجھ اٹھاتی اور جننے کی تکلیف و مشقت برداشت کرتی ہے، پھر دوسال تک بچے کو دودھ پلاتی ہے۔ یہ دودھ کیا ہے ؟ در حقیقت اس کا خون ہے جو بچے کو خوشی خوشی پلاتی ہے پھر اپنے پاس سُلاتی اور اس کا بول و براز دھوتی ہے اگر بچہ بستر پر پیشاب کردے تو گیلی جگہ پر خود سوتی ہے اور بچے کو خشک جگہ سُلاتی ہے، ساری ساری رات اس کی بیماری کا غم سہتی ہے۔ اور ہزارہا تکالیف برداشت کرتی ہے۔ یہی وہ اسباب ہیں کہ اسلام نے والدہ کا حق اولاد پر زیادہ رکھا ہے۔
محبوبۂ محبوب ِ ربِّ العلمین، زوجۂ رسول، اُمّ المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا ’’ عورت پر کس کا حق زیادہ ہے ؟ فرمایا اس کے خاوند کا پھر میں نے عرض کیا ’’اَیُّ النَّاسِ اَعْظَمُ حَقَّاً عَلٰی الرَّجُلِ قَال اُمُّہٗ‘‘مرد پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟ فرمایا اس کی والدہ کا۔(مسند بزاز، المستدرک للحاکم )
امام ِ اہلسُنّت، مجدد ِدین و ملت، امام احمد رضا خا ں مُحدِّث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں ـ ’’اِس زیادت کے معنیٰ یہ ہیں کہ خدمت دینے میں باپ پر ماں کو ترجیح دے، مثلاً سو روپئے ہیں اور کوئی خاص وجہ مانع ِ تفضیل مادر نہیں تو باپ کو پچیس دے اور ماں کو پچہتر، یا ماں باپ دونوں نے ایک ساتھ پانی مانگا تو پہلے ماں کو پلائے پھر باپ کو یا دونوں سفر سے آئے ہیں پہلے ماں کے پائو ں دبائے پھر باپ کے۔ اور اگراتفاق سے خدا نخواستہ دونوں میں تنازعہ ہوتوماں کا ساتھ دے کرباپ کو تکلیف نہ دے یا اس پر کسی طرح کی ز یادتی نہ کرے اور نہ ہی اس (باپ) کی شان میں کوئی بے ادبی کرے۔ کیوں کہ یہ سب باتیں حرام اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ تو اس جھگڑے کی صورت میں اسے ماں باپ میں سے کسی کاساتھ دینا ہر گز جائز نہیںبلکہ اولاد کو چاہئے کہ ایسے حالات میں نمازوں کی پابندی کر کے رب کی بارگاہ میں ان کی صلح کی دعا کرے۔
اگر کوئی ماں چاہتی ہے کہ بیٹا باپ کو کسی طرح تکلیف پہنچائے اور بیٹا نہیں مانتاتو وہ ناراض ہوتی ہے اس صورت میں بیٹے کو ماں کی بات نہ ماننے میں کوئی گناہ بھی نہیں کیوں کہ باپ کو تکلیف دینا اللہ کی نافرمانی ہے وہ ناراض ہوتی ہے تو ہونے دے اور ہر گز نہ مانے ایسے ہی باپ کی طرف سے ماں کے معاملے میں ان کی ایسی ناراضیاں کچھ قابلِ لحاظ نہ ہوں گی کہ ان کی نری زیادتی ہے۔ کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی چاہتے ہیں بلکہ ہمارے علمائے کرام نے یوں تقسیم فرمائی ہے کہ خدمت میں ماں کو ترجیح ہے جس کی مثالیں ہم لکھ آئے اور تعظیم باپ کی زائد ہے کہ وہ اس کی ماں کا بھی حاکم و آقا ہے۔
(فتاویٰ رضویہ حصہ اول)
اللہ عز و جل ہم سب کو اپنی ماں کا حق اور ان کی خدمت کی توفیق عطافرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم