جرابوں پر مسح کا شرعی حکم
جرابوں پر مسح کا شرعی حکم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارٸینِ کرام : اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں احکامِ وضو بیان فرماتے ہوئے سورۃ المائدہ میں ارشاد فرمایا : اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے چہرے کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھولو، اپنے سر کا مسح کرلو، اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں تک دھولو۔
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ نماز پڑھنے سے قبل وضو کرلیا کرو جس میں چار چیزیں ضروری ہیں، جن کے بغیر وضو ہوہی نہیں سکتا۔ ۱) پورے چہرہ کا دھونا۔ ۲) دونوں ہاتھوں کوکہنیوں سمیت دھونا۔ ۳) سر کا مسح کرنا۔ ۴) دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھونا۔
اہل سنت و جماعت کے تمام مفسرین و محدثین و فقہاء و علماء کرام نے اس آیت ودیگر متواتر احادیث کی روشنی میں تحریر فرمایا ہے کہ وضو میں پیروں کا دھونا ہی شرط ہے، سر کے مسح کی طرح پیروں کا مسح کرنا کافی نہیں ہے۔ لیکن متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مرتبہ پیر دھونے کے بجائے چمڑے کے موزوں پر مسح بھی کیا ہے ۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ پیروں کے دھونے کا ذکر آیا ہے، میں اُس وقت تک موزوں (چمڑے کے) پر مسح کا قائل نہیں ہوا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل متواتر احادیث سے میرے پاس نہیں پہنچ گیا۔
غرضیکہ قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ وضو کے صحیح ہونے کے لئے دونوں پیروں کا دھونا شرط ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص وضو کرنے کے بعد (چمڑے کے) موزے پہن لے تو مقیم ایک دن و ایک رات تک اور مسافر تین دن و تین رات تک وضو میں پیروں کو دھونے کے بجائے (چمڑے کے) موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کرسکتا ہے ، جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے ۔ اگر کوئی شخص چمڑے کے بجائے سوت یا اون یا نایلون کے موزے پہنے ہوئے ہے تو جمہور فقہاء وعلماء کی رائے ہے کہ ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے بلکہ پیروں کا دھونا ہی ضروری ہے۔ اس مسئلہ کو سمجھنے سے قبل موزوں کے اقسام کوسمجھیں : اگر موزے صرف چمڑے کے ہوں تو اُنہیں خُفَّین کہا جاتا ہے۔اگر کپڑے کے موزے کے دونوں طرف یعنی اوپر ونیچے چمڑا بھی لگا ہوا ہے تو اسے مُجَلّدین کہتے ہیں۔اگر موزے کے صرف نچلے حصہ میں چمڑا لگا ہوا ہے تو اسے مُنَعَّلین کہتے ہیں ۔جَوْرَب : سوت یا اون یا نایلون کے موزوں کو کہا جاتا ہے، اِن کو جُرَّاب بھی کہتے ہیں ۔
موزے کی ابتدائی تینوں قسموں پر مسح کرنا جائز ہے، لیکن جمہور فقہاء وعلماء نے احادیث نبویہ کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ جراب یعنی سوت یا اون یا نایلون کے موزوں پر مسح کرنا اسی وقت جائز ہوگا جب ان میں ثخین (یعنی موٹا ہونے) کی شرائط پائی جاتی ہوں، یعنی وہ ایسے سخت اورموٹے کپڑوں کے بنے ہوں کہ اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو پاؤں تک نہ پہنچے ۔ معلوم ہوا کہ سوت یا اون یا نایلون کے موزوں (جیساکہ موجودہ زمانے میں عموماً پائے جاتے ہیں) پر مسح کرنا جائز نہیں ہے ۔
ہند و پاک کے علماء حتی کہ اہل حدیث علماء نے بھی یہی تحریر فرمایا ہے کہ عام نایلون کے موزوں پر جیسا کہ عموماً موجودہ زمانے میں موزے استعمال کئے جاتے ہیں مسح کرنا جائز نہیں ہے ۔ مگر کچھ لوگوں کو دیکھ کر ہم نے بھی عام موزوں پر مسح کرنا شروع کردیا ہے خواہ موزوں پرمسح کرنے کے مسائل سے واقف ہیں یا نہیں۔
جرابوں پر مسح کرنے کے بارہ میں غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے دو نظریئے ہیں
پہلا نظریہ : پہلا نظریہ یہ ہے کہ ہر قسم کی جرابوب پر مسح جائز ہے ۔ چناچہ اس بارے میں سوال ہوا تو جواب دیا گیا کہ : پائتا {جراب} پر مسح کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ (فتاوٰی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 441۔چشتی)
مولوی محمد صادق سیالکوٹی صاحب جرابوں پر مسح کی بحث کر کے آخر میں لکھتے ہیں ۔ پس ثابت ہوا کہ جورب پاؤں کے لفافے یا لباس کو کہتے ہیں وہ لباس خواہ چرمی ہو ، خواہ سوتی یا اونی وغیرہ ہم اس پر مسح کر سکتے ہیں ۔ (صلوۃ رسول ص111)
دوسرا نظریہ : دوسرا نظریہ ہے کہ پتلی جرابوں پر مسح کرنا درست نہیں ہے چناچہ ایک سوال کے جواب میں مولوی ابوالبرکات غیرمقلد لکھتے ہیں جس کی تصدیق محدث گوندلوی مرحوم نے کی ہے ۔ جرابوں پر مسح والی حدیث ضعیف ہے جس سے قرآن کی تخصیص درست نہیں لہٰزا ہم شرط لگاتے ہیں کہ جرابیں موٹی ہونے کی صورت میں مسح جائز ہے ۔ اگر موٹی نہیں تو پھر جائز نہیں ۔ (فتاوی برکاتیہ صفحہ نمبر 224)
ایک سوال کے جواب میں مبارکپوری صاحب لکھتے ہیں : المسح علی الجوربۃ لیس بجائز لانہ لم یقم علا جوازہ دلیل صحیح ۔ ( فتاوی ثنائیہ ج1 ص243}
ترجمہ : جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے اس لیئے کہ اس کے جواز پر کوئی صحیح دلیل نہیں ہے ۔
ایک سوال ہو کہ اونی جرابوں پر مسح جائز ہے یا نہیں ؟
تو جواب دیا گیا مزکورہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے ۔ ( فتاوی نذیریہ ج1 ص337}
محترم قارئینِ کرام : فیصلہ آپ خود فرما لیں ایک صاحب فرما رہیے ہیں کہ جرابوں پر مسح جائز ہے اور دوسرے حضرت فرما رہے ہیں کہ جائز نہیں ۔
محدث کبیر امام ابن منذر حضرت حسن بصری علیہما لرّحمہ سے نقل فرماتے ہیں : حدثنی سبعون من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم انہ مسح علی الخفین ۔ (الاوسط لابن المنذر ج1ص430)
ترجمہ : حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ میں نے ستر صحابہ سے سنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے موزوں پر مسح فرمایا ۔
قد صرح جمع من الحفاظ بان المسح علی الخفین متواتروجمع بعضھم رواتہ فجاوزالثمانین ومنھم العشرة(فتح الباری کتاب الوضوء، باب المسح علی الخفین)
ترجمہ : حدیث کے حفاظ کی ایک بڑی جماعت نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ خفین پر مسح کا حکم متواتر ہے۔ بعض حضرات نے خفین کے مسح کی روایت کرنے والے صحابہ کرام کی تعداد کو جمع کیا تو ان کی تعداد 80سے بھی زیادہ تھی، جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل تھے۔
حضرت ملاعلی قاری مشکوٰة کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:قال الحسن البصری ادرکت سبعین نفراًمن الصحابة یرون المسح علی الخفین ولٰہذا قال ابوحنیفة ماقلت بالمسح حتیٰ جاءنی فیہ مثل ضوءالنھار ۔ (المرقاة ج2ص77)
ترجمہ : حضرت حسن بصری نے فرمایا میں نے ستر ایسے صحابہ کو پایا جو خفین پر مسح کے قائل تھے ۔ امام ابوحنیفہ نے اسی وجہ سے فرمایا کہ میں خفین پر مسح کا اس وقت تک قائل نہ ہواجب تک میرے پاس اس کے دلائل اس حد تک واضح وروشن نہ ہوئے جس طرح دن کی روشنی ہوتی ہے ۔
موزوں پر مسح کے جواز اورعدم جواز کے اعتبار سے اصولی طورپر اس کی تین قسمیں بنتی ہیں ۔
حقیقی خفین : (چمڑے کے موزے) ان پر باِجماع امت مسح کرنا جائز ہے۔
حکمی خفین : (وہ موزے جو چمڑے کے نہ ہوں لیکن موٹے ہونے کی بناء پر ان میں اوصاف چمڑے کے موزوں ہوں) ایسے موزوں پر مسح کے بارے میں فقہاءکا اختلاف ہے ، جمہور فقہاءکافتوی انہی موزوں پر جواز کا ہے ۔
غیر حقیقی غیرحکمی خفین : (مروجہ اونی ، سوتی یانائیلون کی جرابیں) ایسی جرابوں کے بارے میں جمہور امت کا اتفاق ہے کہ مسح جائز نہیں ۔
ملک العلماءامام علاءالدین ابوبکر بن سعودالکاسانی الحنفی تحریر فرماتے ہیں : فان کانا رقیقن یشفان الماء لایجوز المسح علیھا باجماع ۔ (بدائع الصنائع جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 83 کتابُ الطہارة۔چشتی)
ترجمہ : اگر موزے اتنے پتلے ہوں کہ ان میں سے پانی چھن جاتا ہو تو ان پر بالاجماع مسح جائز نہیں ۔
امام ابو محمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ المقدسی الحنبلی نے اپنی کتاب ”المغنی“میں مسئلہ”مسح علی الجوربین“کے تحت فرمایا ہے:لایجوز المسح علیہ الا ان یکون مما یثبت بنفسہ ویمکن متابعة المشی فیہ واما الرقیق فلیس بساتر ۔ (المغنی لابن قدامہ ج1ص377مسئلہ85)
ترجمہ : کپڑے کے موزے پر مسح جائز نہیں ۔ ہاں اگر موزے اتنے مضبوط ہوں کہ پنڈلی پر خود سے ٹھہرے رہیں اور ان کو پہن کر مسلسل اور غیرمعمولی چلنا ممکن ہو ۔ جہاں تک پتلے موزوں کا معاملہ ہے (جن میں مذکورہ شرائط نہ ہوں) تو وہ پاؤں کے لئے ساتر نہیں۔
ہر مسئلے کی طرح غیرمقلدین نے جمہور امت کے اجماع اور تعامل سے ہٹ کر اپنا ایک نیا اور امتیازی موقف اختیار کیا ہے ۔اور مروجہ اونی ،سوتی یا نائیلون وغیرہ کی جرابوں کو موزوں کی مماثل قرار دے کر ان پر بھی مسح کو جائز کہا ۔ (نماز نبوی صفحہ 77)
اپنے اس موقف پر چند ان ضعیف روایات کا سہارا لیا جواصول جرح وتعدیل کے اعتبار سے قابل استدلال نہیں ۔
جرابوں پر مسح کے قائلین کے مستدلات اور ان کا جائزہ
عن مغیرة بن شعبة قال توضاالنبی ﷺ ومسح علی الجوربین والنعلین
(سنن ابی داود جلد 1 صفحہ 33 باب المسح علی الجوربین)
اس حدیث کے ذیل میں غیرمقلد عالم مولوی عبدالرحمان مبارک پوری نے مختلف ائمہ کے اقوال نقل کرکے اس کو ضعیف اور ناقابل استدلال ٹھہرایا ہے ۔چنانچہ لکھا ہے ۔
(۱) ضعفہ کثیر من ائمة الحدیث ترجمہ: حدیث کے کافی سارے اماموں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔
(۲) امام مسلم بن الحجاج فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی ابوقیس اودی اور ہزیل بن شرحبیل نے حدیث کے بقیہ تمام راویوں کی مخالفت کی ہے باقی رواة نے موزوں پر مسح کو نقل کیا ہے ۔لہذا ابوقیس اور ہذیل جیسے راویوں کی وجہ سے قرآن کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔(تحفة الاحوذی ج1ص 346, 347 باب ماجاءفی المسح علی الجوربین)
(۳) امام بیہقی نے اس حدیث کو منکر کہا ہے (سنن البیہقی جلد 1 صفحہ 290 کتاب الطہارة ،باب کیف المسح علی الخفین)
عبدالرحمن مبارکپوری حدیث کے ضعف پر ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال نقل کرنے کے بعد حدیث کے بارے میں اپنا موقف سناتے ہیں کہ ”میرے نزدیک اس حدیث کا ضعیف قرار دینا مقدم ہے امام ترمذی کے حسن صحیح کہنے پر ۔
(تحفة الاحوذی ج1ص347)
دوسری دلیل:عن ابی موسیٰ ان رسول اللہ ﷺ توضا ومسح علی الجوربین والنعلین۔
(ابن ماجہ جلد 1 صفحہ 186 کتاب الطہارة باب ماجاءفی المسح علی الجوربین والنعلین)
یہ حدیث بھی غیرمقلدین کے لئے حجت نہیں بنتی ۔ اس لئے کہ اس کی سند پر آئمہ جرح وتعدیل نے کافی بحث کی ہے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں امام یحییٰ بن معین کا قول نقل کیا ہے کہ اس حدیث کا راوی عیسیٰ بن سنان ضعیف الحدیث ہے ۔ (تہذیب التہذیب ج8ص212)
امام الجرح والتعدیل حافظ شمس الدین الذہبی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں عیسیٰ بن سنان کے متعلق لکھتے ہیں کہ اما م احمد بن حنبل نے اس کے متعلق فرمایا کہ وہ ضعیف ہے ۔ (میزان الاعتدال ج5ص376)
مشہور غیرمقلد عالم عبدالرحمن مبارکپوری نے اپنی کتاب تحفۃ الاحوذی میں اس حدیث کی سند پر کلام کرتے ہوئے امام ابوداود کا قول نقل کیا ہے کہ ”یہ حدیث نہ متصل ہے اور نہ قوی ہے“ابوحازم نے حدیث کے راوی سفیان کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے حدیث لکھی تو ہیں لیکن بطور استدلال پیش نہیں کی جاسکتیں ۔
تیسری دلیل : عن بلال ان رسول اللہ ﷺ یمسح علی الخفین والجوربین.
(طبرانی جلد 1 صفحہ 350 رقم1063)
یہ حدیث بھی بطور حجت پیش نہیں کی جاسکتی اس لئے کہ امام زیلعیؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں یزید بن زیاد ہے اور وہ ضعیف ہے ۔
(نصب الرایہ للزیلعی ج1ص185,186)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یزید ضعیف تھا، آخری عمر میں اس کی حالت بدل گئی تھی اور وہ شیعہ تھا۔(تقریب ج2ص365)
چوتھی دلیل:عن ثوبان قال بعث رسول اللہ ﷺ سریة فاصابھم البرد فامرھم ان یمسحوا علی العمائم والتساخین۔(ابوداود ج 1ص 19)
اس حدیث کے بارے میں عبدالرحمن مبارک پوری لکھتاہے کہ یہ حدیث منقطع ہے ۔امام ابن ابی حاتم کتاب المراسیل ص22پر امام احمدؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ حدیث کے راوی راشد بن سعد کا سماع ثوبان سے ثابت نہیں۔(تحفة الاحوذی ج1ص330)
تساخین کے لغت میں تین معانی کئے گئے ہیں۔(۱) ہانڈیاں (۲) موزے (۳) علماء کے سر پر ڈالنے کا کپڑا ۔ (المنجد ص474)
لہٰذا متعین طور پر اس کو صرف جرابوں پر حمل کرنا درست نہیں۔
مسح علی الجوربین کے بارے میں غیرمقلدین اکابرین کی رائے
غیر مقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی لکھتا ہے : مذکورہ (اونی یا سوتی) جرابوں پر مسح جائز نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں اور مجوزین نے جن چیزوں سے استدلال کیا ہے اس میں خدشات ہیں ۔(فتاویٰ نذیریہ از نذیرحسین دہلوی ج1ص327) دوسری جگہ لکھتا ہے ”خلاصہ یہ ہے کہ (باریک) جرابوں پر مسح کے جواز پر نہ قرآن سے کوئی دلیل ہے نہ سنت صحیحہ سے نہ قیاس سے ۔
مشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد عبد الرحمن مبارکپوری نے ترمذی کی مشہور شرح (تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی) میں باب ما جاء فی المسح علی الجوربین والنعلین کے تحت اس موضوع پر جو تفصیلی بحث فرمائی ہے اس کا خلاصۂ کلام یہ ہے : جرابوں (جیساکہ آجکل موزے استعمال ہوتے ہیں) پر مسح کی کوئی دلیل نہیں ہے ، نہ تو قرآن کریم سے نہ سنت سے نہ اجماع سے اور نہ قیاس صحیح سے ۔ (چمڑے کے) موزوں پر مسح کی بابت بہت سی احادیث منقول ہیں جن کے صحیح ہونے پر علماء کا اجماع ہے ۔ متواتر احادیث کی وجہ سے ظاہر قرآن کو چھوڑ کر ان پر بھی عمل کیا گیا ۔ جب کہ جرابوں (جیسا کہ آجکل موزے استعمال ہوتے ہیں) پر مسح کی بابت جو روایات منقول ہیں ان پر بہت زیادہ تنقیدیں ہوئی ہیں ، پس اس قسم کی ضعیف روایات کی وجہ سے ظاہر قرآن کو کیونکر چھوڑا جا سکتا ہے ۔ صحابۂ کرام کے موزوں کی طرح کی جرابوں پر آج کل کی باریک جرابوں کو قیاس کرنا قطعاً درست نہیں۔ ہاں اگر آج بھی موزوں کی طرح کی جرابوں کو کوئی استعمال کرتا ہے تو ان پر مسح کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔۔۔ تحفۃ الاحوذی ۔
غیرمقلدین کے مشہور عالم ابوسعید شرف الدین دہلوی کا جرابوں پر مسح کے بارے میں فتویٰ : ”پھر یہ مسئلہ (جرابوں پر مسح) نہ قرآن سے ثابت ہے نہ احادیث مرفوعہ صحیحہ سے نہ اجماع سے نہ قیاس سے نہ چند صحابہ کے فعل سے اور غسل رجلین قرآن سے ثابت ہے ۔ لہٰذا خف چرمی (موزوں) کے سوا جرابوں پر مسح ثابت نہیں ۔ “(زبیر علی زئی متروک مردود عند الجمہور نے اس مسئلہ پر اپنی فطرت سے مجبور ہو کر امت مسلمہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے جسے آئندہ شمارہ میں واضح کیا جائے گا۔) پتہ چلا کہ مسح علی الجوربین ایسا مسئلہ ہے جس کے جواز عدم جواز کے بارے میں غیرمقلدین کے خود آپس متفرق اقوال ہیں ۔ لہٰذا ان ضعیف روایات کے بل بوتے پر پوری امت سے ہٹ کر ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانا اورجمہور امت کے تعامل کو جو کہ قرآن وسنت وآثار صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم کے عین موافق ہے ، چھوڑنا ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)