والدہ کی خدمت کا صلہ

حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سخت ترین سردی کی راتوں میں ایک رات میری والدہ ماجدہ نے پانی طلب کیا جب پانی لایا تو والدہ ماجدہ سو چکی تھیں میں نے ادبا ً جگانا پسند نہ کیا اور بیداری کے انتظار میں کھڑا رہا جب بیدار ہوئیں تو انھوں نے پانی مانگا میں نے پیالہ پیش کردیا میری انگلی پر ایک قطرہ پانی گرا اور سردی کی شدت سے وہ جم گیا، میں نے اتارنا چاہا تو ماس اکھڑ پڑا اور خون جاری ہو گیا۔ والدہ ماجدہ نے دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے ؟ میں نے تمام ماجرا بیان کردیا آپ دعا فرمانے لگیں الٰہی میں اس پر راضی ہوں تو بھی راضی رہ۔ آپ جب اپنی والدہ کے شکم ِ مبارک میں تھے تو انھوں نے کبھی مشتبہ کھانا نہ کھایا۔

حضرت بایزید بسطامی مزید فرماتے ہیں کہ میں بیس برس کا تھا کہ والدہ ماجدہ نے مجھے بلایا اور اپنے ساتھ سُلایا میں نے بطور تکیہ والدہ کے سر کے نیچے ہاتھ رکھ دیا جو سُن ہو گیا، میں نے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہاتھ کو نکا لنا مناسب نہ سمجھا تاکہ والدہ کی نیند اور آرام میں خلل واقع نہ ہو، اُس دوران میں سورئہ اخلاص کا وظیفہ کرتا رہا یہاں تک کہ دس ہزار مرتبہ میں نے ’’قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘‘ پڑھا اور والدہ کے حق کی محافظت کے لئے اپنے ہاتھ سے بے نیاز ہوگیا ( یعنی پھرمیں اس ہا تھ کے مفلوج ہونے کے باعث کام نہ لے سکا ) آپ کے وصال کے بعد کسی دوست نے خواب میں دیکھا کہ آپ جنت میں بڑے مزے سے ٹہل رہے ہیںاور اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں محوِ پرواز ہیں، پوچھا گیا آپ کو یہ مقام کیسے نصیب ہوا ؟ فرمایا والدین کے ساتھ حسن سلوک، خدمت گزاری اور ان کی سخت باتوں پر صبر و استقامت کی وجہ سے کیو نکہ نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے والدین اور ربُّ العلمین کا فرمانبردار ہوگا اس کا مقام اعلیٰ علیین میں ہے۔ (نزھۃ المجالس )