شب برات میں قبرستان جانےکےدوام پر اعتراض کاجواب
شب برات میں قبرستان جانےکےدوام پراعتراض کاجواب۔
(ایک سالہ پرانی تحریر مع اضافات)
مشہور دیوبندی عالم تقی عثمانی صاحب، شب برات کو قبرستان جانے کے متعلق لکھتا ہے؛ ساری حیات طیبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ قبرستان جانا مروی ہے کہ آپ شب برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاو تو ٹھیک ہے لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا، اس کو ضروری سمجھنا اور اس کو شب برات کی ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہ ہوئی، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔ الخ۔
جواب: موصوف کو صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم زندگی میں ایک بار تشریف لے گئے ہیں لہذا ہم کو بھی زندگی میں ایک بار جانا چایئے؟؟؟؟
موصوف کو “مستحب” کی تعریف میں دوام اور عدم دوام کی قید سے مغالطہ ہوا ہے۔کیونکہ مستحب کی تعریف میں عدم دوام و دوام داخل ہے۔ مستحب کی تعریف میں یہ دوام اور عدم دوا بنسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہے۔امت کی نسبت سے نہیں۔کیونکہ فعل کی تقسیم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ہوتی ہے۔امتی کے فعل سے نہیں۔ امتی اگر مستحب کے اوپر ہمیشگی کرے تو وہ مستحب ہی رہے گا سنت یا واجب نہیں بنے گا اور فاعل کو ثواب ملے گا۔۔
لہذا اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شب برأت میں قبرستان جانا صرف ایک ہی بار ثابت ہے تاہم امت کے لئے یہ کام ہر شب برات میں مستحب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مبارک رات میں قبرستان جانا ثواب کا باعث ہے اور نہ جانا گناہ نہیں۔ اسی طرح نہ جانے والے کو ملامت کرنا بھی منع ہے ۔ کیونکہ فقھاء کرام نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ جو کام نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے صرف ایک یا دو بار ثابت ہو وہ مستحب ہوتا ہے ۔
جیسا کہ البحرالرائق (101/1)میں ہے :
وَالْمَنْدُوبُ مَا فَعَلَهُ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ وَتَرَكَهُ تَعْلِيمًا لِلْجَوَازِ كَذَا فِي شَرْحِ النُّقَايَةِ۔۔
مفھوم: مندوب (مستحب) وہ عمل جس کو (حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے) ایک یا دو بار کیا ہو اور تعلیم جواز کے لئے ترک فرمایا ہو۔
اس کے لئے اس کے ابن حجر ثانی انور شاہ صاحب کشمیری کا حوالہ ہی کافی ہے۔
کشمیری صاحب فرض نمازوں کے بعد دعا کرنے اور دعا میں ہاتھ اٹھانے کے متعلق لکھتا ہے: لا ريبَ أن الأدعيةَ دُبُر الصلوات قد تواترت تواتراً لا يُنْكَرُ. أمَّا رفعُ الأيدي، فثبت بعد النافلة مرَّةً، أو مرَّتين، فألحق بها الفقهاءُ المكتوبةَ أيضاً. وذهب ابن تَيْمِيَة، وابن القيِّم إلى كونه بدعةً. بقي أن المواظبةَ على أمرٍ لم يَثْبُت عن النبيِّ صلى الله عليه وسلّم إلاَّ مرَّةً، أو مرَّتين، كيف هي؟ فتلك هي الشاكلةُ في جميع المستحَبَّات، فإنها تَثْبُتُ طوراً فطوراً، ثم الأمةُ تواظبُ عليها. نعم نَحْكُمُ بكونها بدعةً إذا أفضى الأمرُ إلى النكير على من تَرَكَهَا
(فیض الباری جلد 6 ص 125)
مفھوم: نمازوں کے بعد دعا کرنا ایسے تواتر سے ثابت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ باقی ہاتھوں کا دعا میں اٹھانا تو نفل کے بعد ایک یا دو بار ثابت ہے فقہاء نے اسی قیاس پر فرض نمازوں کے بعد بھی ہاتھ اٹھانے کو ملحق کیا ہے۔ابن تیمیہ اور ابن قیم اسے بدعت قرار دیتے ہیں۔ رہا یہ مسئلہ کہ جو عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک یا دو بار ثابت ہے اس پر دوام کرنا کیسا ہے؟ تو تو معلوم ہونا چاہئے کہ تمام مستحبات کے اثبات کا یہی طریقہ ہے کہ ان کا ثبوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی کبھی ہوتا ہے پھر امت اس پر مواظبت کرتی ہے ہاں اگر مستحبات کے تارک پر اگر نکیر ہوجائے تو اس بدعت کہا جائیگا۔
تو معلوم ہوا کہ مستحب کی تعریف میں دوام یا عدم دوام کا تعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے امت سے نہیں۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ جو عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یا دو بار فرمایا ہو اس پر دوام بالکل جائز بلکہ مستحسن ہے۔ اسے بدعت نہیں کہہ سکتے۔اگر کوئی ترک کرے تو اس پر کوئی انکار نہیں کرتا۔البتہ جو دوام سے کرے اس پر انکار کرنے والے کو جواب ضرور دیتے ہیں۔
چند دیگر اکابرین دیوبند کے حوالہ جات
سید احمد رضا بجنوری “انوار الباری” میں، ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کے متعلق لکھتا ہے؛ اور ہاتھ اٹھا کر مانگنا بھی مستحب ہے۔ پھر رہا سوال مواظبت کا تو تمام مستحبات میں ہوتی ہے کہ کوئی بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک یا دو بار ثابت ہوئی ہو تو امت اس پر مواظبت اختیار کر لیتی ہے شرعا اس میں کوئی حرج نہیں۔ باقی ایسا التزام کہ اس کے تارک کو منسوب بہ بدعت کریں یا ملامت کریں تو یہ بدعت ہوگا۔ (تارک پر ایسا حکم کوئی نہیں لگاتا۔)
(انوار الباری جلد 17 صفحہ 18 تالیفات اشرفیہ)
ایک اور مقام پر لکھتا ہے؛ جو متشددین ہر فعل کو بدعت اور ہر بدعت کو شرک کے درجہ تک پہنچانا ضروری خیال کرتے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو فعل حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک یا دو بار ثابت ہوا، اس پر موافقت اور مداومت کرنا بھی بدعت ہے، تو کوئی ان سے کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عتبان کے گھر جا کر کتنی بار نمازیں پڑھی تھی؟ اور جب انہوں نے صرف ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھنے کی جگہ کو اپنے لئے مستقل طور سے مصلی اور مسجد بنا لیا تو کیا ان کی یہ مواظبت اور مداومت بدعت نہ تھی۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کیوں نہ فرما دیا تھا کہ اس جگہ کا التزام ہمیشہ کے لئے نہ کرلینا۔کہ اس طرح سے تمہارا یہ فعل غیر مشروع ہوجائے گا ۔۔۔الی ان قال۔۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دو بار کی اقتداء بطریق مواظبت و مداومت کو بدعت و غیر مشروع کہا جائے گا تو امت کے پاس عمل خیر کی مقدار رہ ہی کیا جائے گی؟
(انوار الباری جلد 17 صفحہ 9، 10)
ڈاکٹر عبدالحی عارفی دیوبندی کہتا ہے : مستحب کی تعریف: مستحب وہ عمل ہوگا۔ جس پر پابندی کے ساتھ عمل کرنے بندہ اللہ کا محبوب ہوجائے گا۔
نوٹ: مستحب کی تعریف میں “پابندی کے ساتھ عمل” پر غور کریں کہ امر مستحب پر پابندی اس کے مستحب ہونے کی منافی نہیں۔ پابندی کے باوجود وہ مستحب ہی رہے گا۔
نیز آگے لکھتا ہے؛” کسی بھی مستحب کو چھوڑنا نہ چاہیئے کہ اس سے محرومی کا اندیشہ ہے ” مزید آگے لکھتا ہے : ” بزرگوں کا قول ہے کہ مستحبات ترک کرنے والا رفتہ رفتہ سنتوں کو ترک کر بیٹھتا ہے “(یادگار باتیں، ص ١٣٣ )
درجہ بالا عبارات کا خلاصہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دو بار کی اقتداء بطریق مواظبت و مداومت بدعت و غیر مشروع نہیں ہے۔
موصوف کا یہ کہنا کہ التزام کرنا، اس کو ضروری سمجھنا اور اس کو شب برات کی ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہ ہوئی۔۔۔ تو شاید یا تو موصوف کو التزام و دوام کا فرق معلوم نہیں یا جان بوجھ کر انجان بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوام اور التزام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
التزام اور دوام کا فرق
ایک ہے التزام۔ ایک ہے دوام۔ کسی غیر لازم عمل کو عملا یا اعتقادا لازم کر لیا جائے تو یہ غلط ہے۔ لیکن خیر العمل ما دیم علیہ کے تحت اچھا عمل وہی ہے جو دواما کیا جائے۔
لہذا اب ترک کا ایسا التزام کر لینا کہ کبھی قبرستان ہی نہ جائے اور چلے جانے والوں پر نکیر کی جائے۔ ایک خیر سے خود کو اور دوسروں کو محروم کرنا ہے جو التزام لا یلزم سے بڑھ کر منکر ہے۔
امر مستحب پر دوام تو خود شریعت کو مطلوب ہے۔
دوام سے التزام یا ضروری سمجھنا لازم نہیں آتا بلکہ دوام تو خود شریعت کا مطلوب ہے۔
حدیث میں ہے۔۔۔۔ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ مَا دَامَ، وَإِنْ قَلَّ (بخاری كِتَابٌ : اللِّبَاسُ | بَابُ الْجُلُوسِ عَلَى الْحَصِيرِ وَنَحْوِهِ.) دوسری روایت میں ہے کہ مسروق نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا” أَيُّ الْعَمَلِ كَانَ أَحَبَّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتِ : الدَّائِمُ.۔۔۔۔کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کونسا عمل پسند تو فرمایا: دوام والا۔۔۔۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: وفي هذا الحديث الحث على المداومة على العمل، وإن قل
امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:فيه الحث على القصد في العبادة، وأنه ينبغي للإنسان ألا يحتمل من العبادة إلا ما يطيق الدوام عليه ثم يحافظ عليه.
خلاصہ کلام یہ کہ التزام ما لا یلزم وہ غلط ہے۔۔۔۔ اگر کوئی ترک کرے تو اس کا رد کیا جائے اگر ایسا نہ ہو تو وہ ایسی مواظبت اور دوام ہے جو کہ شرعا مطلوب ہے۔۔۔۔اور یہ ایک امر مسلم ہے کہ مستحبات کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دو مرتبہ عمل کرلینا کافی ہے۔۔۔۔۔۔۔اور مستحب پر دوام کرنا ۔۔۔۔۔اس سے۔۔۔۔التزام ما لا یلزم لازم نہیں آتا۔۔
باقی یہ ایک بہتان اور تہمت ہے کہ ضروری سمجھنا اور اس کو شب برات کی ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہ ہوئی۔۔۔۔ورنہ هاتوا برهانكم ان كنتم صادقين و الا فلعنت الله علي الكاذبين.
ابوالحسن محمد شعیب خان (ترمیم و اضافہ)
8 مارچ 2020