نوافل میں تنہائی مقصودو جماعت مکروہ تحریمی
موصوف نے “نوافل” کے متعلق جو تفصیل لکھی ہے اس میں دو باتوں پر زور دیا گیا ہے۔
اول۔ “نوافل میں تنہائی مقصود ہے”
دوم۔ نوافل کی جماعت مکروہ تحریمی ہے۔
ہم ان دونوں باتوں پر مختصرا بات کرتے ہیں۔
*پہلی بات* (نوافل میں تنہائی مقصود ہے) یہ بات بالکل اپنی جگہ درست ہے لیکن *نفل کی جماعت پر کراہت و عدم کراہت کا فتوی زمانہ اور ماحول کے اعتبار سے ہے* اس کی تفصیل کچھ یوں کہ شرعی نقطہ نظر سے نفل کی جماعت کا تعلق عبادات نافلہ سے ہے ان کی ادائیگی کے لئے علی العموم اخفاء اور پوشیدگی کو افضل قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ اس لئے ہے تاکہ ریا کاری پیدا نہ ہو۔ اور غالب یہ ہے کہ اسی بنیاد پر علماء کی ایک جماعت نے نوافل کو تنہا ادا کرنے پر زور دیا ہے اور باجماعت ادائیگی کو مکروہ قرار دیا ہے۔ تاکہ حتی الامکان پوشیدگی کا افضل ہونا ملحوظ رہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اس مسئلہ کی تفصیل اور تحقیق کچھ اس طرح ہے کہ *کسی بھی نفلی عبادت کو کھلا کھلم یا تنہا ادا کرنے میں افضلیت اور کراہت کا دارو مدار “ماحول” اور “زمانہ” پر ہے۔* نفل کی جماعت پر کراہت کا فتوی اس زمانہ اور ماحول کے اعتبار سے دیا گیا ہے جس میں حسن نیت، ذوق عبادت اور جذبہ خیر کا بہت غلبہ تھا۔ اس زمانے میں یہی افضل تھا کہ نوافل کو بلا جماعت ادا کیا جائے، تاکہ کسی کی باطنی کیفیت دوسرے پر منکشف نہ ہو۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ زمانہ اس خطرہ سے بھی پاک تھا کہ تنہائی میں لوگ عبادت نہیں کر پائیں گے اور سستی کا شکار ہوجائیں گے۔ جب کہ ہمارا زمانہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اب نہ لوگوں میں ذوق عبادت ہے، نہ جذبہ خیر ۔ بلکہ محض رسما کچھ عبادات کرلی جاتی ہیں۔ اس حالت میں اگر کسی موقع پر سال میں کبھی کبھار نوافل کی جماعت کا اہتمام کر لیا جائے تو اس میں شرعا کوئی قباحت اور کراہت نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے اس زوال پذیر معاشرے کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کو افضل اور مستحب قرار دیاجائے۔ کیونکہ فقہاء کرام فرماتے ہیں” ان الاحكام تختلف باختلاف الامكنة والازمنة” یعنی کئی احکام ایسے ہوتے ہیں جن میں جگہ اور وقت بدلنے سے تبدیلی آجاتی ہے۔ اور کتب فقہ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ورنہ نوافل کی جماعت شرعا جائز اور درست ہے قرآن و سنت میں میں کہیں اس سے منع نہیں فرمایا گیا بلکہ احادیث میں تو اس کا جواز موجود ہے۔
بخاری کی حدیث ہے۔ عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ فِي مَنْزِلِهِ، فَقَالَ : ” أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ لَكَ مِنْ بَيْتِكَ ؟ ” قَالَ : فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى مَكَانٍ، فَكَبَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفَفْنَا خَلْفَهُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ.
(صحيح البخاري | كِتَابٌ : الصَّلَاةُ | بَابٌ : إِذَا دَخَلَ بَيْتًا يُصَلِّي حَيْثُ شَاءَ.)
علامہ عینی علیہ الرحمہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: *فيه جواز النوافل بالجماعة.*
(عمدة القاري ٤/٢٤٥ بيروت)
حافظ ابن حجر العسقلاني رحمه الله، بخاري رقم الحديث ٤٢٥ کے تحت فرماتے ہیں: وفي هذا الحديث من الفوائد:۔۔۔۔ *وصلاة النوافل جماعة۔*
علامہ سندھی “شرح نسائی” میں اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: *فعلم منه جواز النافلة بجماعة۔*
مسلم کی حدیث ہے۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ. ثُمَّ قَالَ : ” قُومُوا، فَأُصَلِّيَ لَكُمْ “. قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ : فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا قَدِ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ، فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ، فَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفَفْتُ أَنَا وَالْيَتِيمُ وَرَاءَهُ وَالْعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا، فَصَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ.
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : جَوَازُ الْجَمَاعَةِ فِي النَّافِلَةِ، وَالصَّلَاةُ عَلَى حَصِيرٍ)
امام نووی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: *فيه جواز النافلة جماعة*
امام خطابی فرماتے ہیں: *فيه من الفقه جواز صلاة الجماعة في التطوع* (معالم السنن)
وغیرہ ذالک کئی احادیث اور علماء کی عبارات نوافل کی جماعت کے جواز پر دال ہیں۔
*دوسری بات* نوافل کی جماعت مکروہ تحریمی ہے۔ اس بات سے ہمیں اتفاق نہیں۔ کیونکہ *نفل کی جماعت مکروہ تنزیہی ہے جو کہ گناہ نہیں* اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ نفل کی جماعت کراہت تنزیہی ہے یعنی خلاف اولی، کیونکہ یہ طریقہ توارث کے خلاف ہے نہ کہ تحریمی، کہ گناہ اور ممنوع ہو یعنی نوافل کی جماعت شرعا ممنوع نہیں ہے۔ اور علماء متاخرین نے کی ایک جماعت نے جائز ہونے پر لکھا ہے۔
علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: قلت: ويؤيده أيضا في البدائع من قوله: *إن الجماعة في التطوع ليست بسنة إلا في قيام رمضان ا ه. فإن نفي السنية لا يستلزم الكراهة،* نعم إن كان مع المواظبة كان بدعة فيكره.۔۔۔الی ان قال۔۔ *والنفل بالجماعة غير مستحب لأنه لم تفعله الصحابة في غير رمضان۔ وهو كالصريح في أنها كراهة تنزيه. تأمل*
آخری عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ نوافل کی جماعت مستحب نہیں ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے رمضان کے علاوہ وتر کی جماعت نہیں کرائی۔ یہ گویا *اس بات کی صراحت ہے کہ نوافل کی جماعت مکروہ تنزیہی ہے۔*
*بعض متاخرین نے اس کو جائز قرار دے دیا ہے*
نوافل کی جماعت کا مسئلہ علماء کے مابین مختلف فیہ ہے اور بہت اکابرین دین سے جماعت نوافل بالتداعی ثابت ہے اگرچہ متقدمین نے نوافل کی جماعت مکروہ قرار دیا ہے لیکن متاخرین علماء کی ایک جماعت نے اس کے جائز ہونے پر بھی لکھا ہے۔ بلکہ عوام فعل خیر سے منع نہ کئے جائیں گے علمائے امت وحکمائے ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے۔
*اس کی چند مثالیں*
(1) درمختارمیں ہے: اما العوام فلا یمنعون من تکبیر والتنفل اصلا لقلة رغبتھم فی الخیرات۔
عوام کو تکبیرات اور نوافل سے کبھی بھی منع نہ کیاجائے کیونکہ پہلے ہی نیکیوں میں ان کی رغبت کم ہوتی ہے۔
(درمختار باب العیدین مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی بھارت ۱ /۱۱۴)
اسی میں ہے:و لایمنع العامة من التکبیر فی الاسواق فی الایام العشر وبه ناخذ بحر و مجتبی وغیرہ.
عوام کو ان (ذوالحج کے) دس دنوں میں بازار میں تکبیرات پڑھنے سے منع نہ کیاجائے، اسی پر ہماراعمل ہے، بحر، مجتبی وغیرہ.
(درمختار باب العیدین مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی بھارت ۱ /۱۱۷)
(2) درمختار میں ہے : تحریما صلوۃ مع شروق الا العوام فلا یمنعون من فعلھا لانهم یترکونھا والاداء الجائز عندالبعض اولی من الترك کما فی القنیة وغیرھا.
سورج نکلتے وقت نماز مکروہِ تحریمی ہے مگر عوام کو اس سے منع نہ کیا جائےگا اس لئے کہ وہ نماز ہی ترک کردیں گے–جبکہ ترک سے وہ ادائیگی بہتر ہے جو بعض کے نزدیک جائز ہے جیسا کہ قنیہ وغیرہا میں ہے
(دُرمختار کتاب الصلٰوۃ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۶۱)
مقام غور ہے کہ ایسا عمل جسے علماء نے ناپسند قرار دیا بعض متاخرین علماء اسے جائز قرار دے رہے ہیں۔ صرف اس وجہ سے کہ اس عمل کا ناپسندیدہ ہونا زمانہ خیر کے اعتبار سے تھا اور اب جبکہ زمانہ کا طرز تبدیل ہوا تو وہی ناپسندیدہ عمل پسندیدہ قرار پایا۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نوافل کی جماعت مکروہ ہونا زمانہ خیر کے اعتبار سے تھا لیکن اب ہمارے زمانہ میں وہی مکروہ عمل جائز بلا کراہت قرار پائے گا۔
*عوام کو نوافل کی جماعت سے منع نہ کیا جائے*
حدیقہ ندیہ میں ہے: و من ھذا القبیل نھی الناس عن صلوۃ الرغائب بالجماعة وصلوۃ لیلة القدر ونحو ذلك وان صرح العلماء بالکراھة بالجماعة فیھا فلا یفتی بذلك العوام لئلا تقل رغبتھم فی الخیرات وقد اختلف العلماء فی ذلک فصنف فی جوازھا جماعة من المتاخرین وابقاء العوام راغبین فی الصلوۃ اولی من تنفیرھم۔
اسی قبیل سے نماز رغائب کا جماعت کے ساتھ ادا کرنا اور لیلۃ القدر کے موقع پر نماز وغیرہ بھی ہیں اگرچہ علماء نے ان کی جماعت کے بارے میں کراہت کی تصریح کی ہے مگر عوام میں یہ فتوی نہ دیاجائے تاکہ نیکیوں میں ان کی رغبت کم نہ ہو، علماء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے اور متاخرین میں سے بعض نے اس کے جواز پر لکھا بھی ہے، عوام کو نماز کی طرف راغب رکھنا انہیں نفرت دلانے سے کہیں بہتر ہوتا ہے۔
( الحدیقة الندیه الخلق الثامن والاربعون من الاخلاق الخ مطبوعہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۱۵۰)
اپنی تحریر “حاشیہ درر” کی عبارت پر ختم کرتا ہوں۔
من منع هذه الصلوة بالجماعة فقد اساء و اجترء علي تضليل الاسلاف الكرام والاخلاف الفخام فعلي الولاة منع المانعين و تعزير المعاندين.
جس نے نوافل کی جماعت سے منع کیا اس نے اپنے اسلاف کو گمراہ قرار دینے کی جرات کی۔ اس لئے حکام وقت پر لازم ہے کہ ان منع کرنے والوں پر پابندی عائد کریں اور اس کے مخالفین کو سزا دیں۔
(حاشیہ درر بحوالہ فتاوی مصطفویہ قدیم صفحہ 289)
نوٹ: مضمون میں فتاوی رضویہ، فتاوی مصطفویہ اور انوار الفتاوی سے استفادہ کیا ہے۔
ابو الحسن محمد شعیب خان
22 مارچ 2021