کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 17 رکوع 3 سورہ الانبیاء آیت نمبر 30 تا 41
اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَاؕ-وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّؕ-اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ(۳۰)
کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ آسمان اور زمین بند تھے تو ہم نے انہیں کھولا (ف۵۶) اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی (ف۵۷) تو کیا وہ ایمان نہ لا ئیں گے
(ف56)
بند ہونا یا تو یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملا ہوا تھا ان میں فصل پیدا کر کے انہیں کھولا یا یہ معنی ہیں کہ آسمان بند تھا بایں معنٰی کہ اس سے بارش نہیں ہوتی تھی ، زمین بند تھی بایں معنی کہ اس سے روئیدگی پیدا نہیں ہوتی تھی تو آسمان کا کھولنا یہ ہے کہ اس سے بارش ہونے لگی اور زمین کا کھولنا یہ ہے کہ اس سے سبزہ پیدا ہونے لگا ۔
(ف57)
یعنی پانی کو جاندار وں کی حیات کا سبب کیا ۔ بعض مفسِّرین نے کہا معنٰی یہ ہیں کہ ہر جاندار پانی سے پیدا کیا ہوا ہے اور بعضوں نے کہا اس سے نطفہ مراد ہے ۔
وَ جَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِهِمْ وَ جَعَلْنَا فِیْهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ(۳۱)
اور زمین میں ہم نے لنگر ڈالے (ف۵۸) کہ اُنھیں لے کر نہ کانپے اور ہم نے اس میں کشادہ راہیں رکھیں کہ کہیں وہ راہ پائیں (ف۵۹)
(ف58)
مضبوط پہاڑوں کے ۔
(ف59)
اپنے سفروں میں اور جن مقامات کا قصد کریں وہاں تک پہنچ سکیں ۔
وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ۚۖ-وَّ هُمْ عَنْ اٰیٰتِهَا مُعْرِضُوْنَ(۳۲)
اور ہم نے آسمان کو چھت بنایا نگاہ رکھی گئی (ف۶۰) اور وہ (ف۶۱) اس کی نشانیوں سے روگرداں ہیں (ف۶۲)
(ف60)
گرنے سے ۔
(ف61)
یعنی کُفّار ۔
(ف62)
یعنی آسمانی کائنات سورج ، چاند ، ستارے اور اپنے اپنے افلاک میں ان کی حرکتوں کی کیفیّت اور اپنے اپنے مطالع سے ان کے طلوع اور غروب اور ان کے عجائبِ احوال جو صانعِ عالَم کے وجود اور اس کی وحدت اور اس کے کمالِ قدرت و حکمت پر دلالت کرتے ہیں ، کُفّار ان سب سے اعراض کرتے ہیں اور ان دلائل سے فائدہ نہیں اٹھاتے ۔
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَؕ-كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ(۳۳)
اور وہی ہے جس نے بنائے رات (ف۶۳) اور دن (ف۶۴) اور سورج اور چاند ہر ایک ایک گھیرے میں پَیر(تیر)رہا ہے(ف۶۵)
(ف63)
تاریک کہ اس میں آرام کریں ۔
(ف64)
روشن کہ اس میں معاش وغیرہ کے کام انجام دیں ۔
(ف65)
جس طرح کہ تیراک پانی میں ۔
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَؕ-اَفَاۡىٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ(۳۴)
اور ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کے لیے دنیا میں ہمیشگی نہ بنائی (ف۶۶) تو کیا اگر تم انتقال فرماؤ تو یہ ہمیشہ رہیں گے (ف۶۷)
(ف66)
شانِ نُزول : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن اپنے ضلال و عناد سے کہتے تھے کہ ہم حوادثِ زمانہ کا انتظار کر رہے ہیں عنقریب ایسا وقت آنے والا ہے کہ حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہو جائے گی ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ دشمنانِ رسول کے لئے یہ کوئی خوشی کی بات نہیں ہم نے دنیا میں کسی آدمی کے لئے ہمیشگی نہیں رکھی ۔
(ف67)
اور انہیں موت کے پنجے سے رہائی مل جائے گی جب ایسا نہیں ہے تو پھر خوش کس بات پر ہوتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةًؕ-وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(۳۵)
ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تمہاری آزمائش کرتے ہیں بُرائی اور بھلائی سے (ف۶۸) جانچنے کو (ف۶۹) اور ہماری ہی طرف تمہیں لوٹ کر آنا ہے(ف۷۰)
(ف68)
یعنی راحت و تکلیف و تندرستی و بیماری ، دولت مندی و ناداری نفع اور نقصان سے ۔
(ف69)
تاکہ ظاہر ہو جائے کہ صبر و شکر میں تمہارا کیا درجہ ہے ۔
(ف70)
ہم تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دیں گے ۔
وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًاؕ-اَهٰذَا الَّذِیْ یَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْۚ-وَ هُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ(۳۶)
اور جب کافر تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہیں نہیں ٹھہراتے مگر ٹھٹھا(مذاق) (ف۷۱) کیا یہ ہیں وہ جو تمہارے خداؤں کو برا کہتے ہیں اور وہ (ف۷۲) رحمٰن ہی کی یاد سے منکر ہیں (ف۷۳)
(ف71)
شانِ نُزول : یہ آیت ابوجہل کے حق میں نازِل ہوئی ، حضور تشریف لئے جاتے تھے وہ آپ کو دیکھ کر ہنسا اور کہنے لگا کہ یہ بنی عبدِ مناف کے نبی ہیں اورآپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے ۔
(ف72)
کُفّار ۔
(ف73)
کہتے ہیں کہ ہم رحمٰن کو جانتے ہی نہیں ، اس جہل و ضلال میں مبتلا ہونے کے باوجود آپ کے ساتھ تمسخُر کرتے ہیں اور نہیں دیکھتے کہ ہنسی کے قابل خود ان کا اپنا حال ہے ۔
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍؕ-سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ(۳۷)
آدمی جلد باز بنایا گیا اب میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا مجھ سے جلدی نہ کرو (ف۷۴)
(ف74)
شانِ نُزول : یہ آیت نضر بن حارث کے حق میں نازِل ہوئی جو کہتا تھا کہ جلد عذاب نازِل کرائیے ۔ اس آیت میں فرمایا گیا کہ اب میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا یعنی جو وعدے عذاب کے دیئے گئے ہیں ان کا وقت قریب آ گیا ہے چنانچہ روزِ بدر وہ منظر ان کی نظر کے سامنے آ گیا ۔
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۸)
اور کہتے ہیں کب ہوگا یہ وعدہ (ف۷۵) اگر تم سچے ہو
(ف75)
عذاب کا یا قیامت کا یہ ان کے استعجال کا بیان ہے ۔
لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا حِیْنَ لَا یَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَ لَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ وَ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ(۳۹)
کسی طرح جانتے کافر اس وقت کو جب نہ روک سکیں گے اپنے مونہوں سے آ گ (ف۷۶) اور نہ اپنی پیٹھوں سے اور نہ ان کی مدد ہو(ف۷۷)
(ف76)
دوزخ کی ۔
(ف77)
اگر وہ یہ جانتے ہوتے تو کُفر پر قائم نہ رہتے اور عذاب میں جلد ی نہ کرتے ۔
بَلْ تَاْتِیْهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ رَدَّهَا وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ(۴۰)
بلکہ وہ ان پر اچانک آپڑے گی (ف۷۸) تو انہیں بے حواس کردے گی پھر نہ وہ اسے پھیرسکیں گے اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی(ف۷۹)
(ف78)
قیامت ۔
(ف79)
توبہ و معذرت کی ۔
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠(۴۱)
اور بےشک تم سے اگلے رسولوں کے ساتھ ٹھٹھا کیا گیا (ف۸۰) تو مسخرگی(ٹھٹھا) کرنے والوں کا ٹھٹھا انہی کو لے بیٹھا (ف۸۱)
(ف80)
اے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
(ف81)
اور وہ اپنے اِستِہزاء اور مسخرگی کے وبال و عذاب میں گرفتار ہوئے ، اس میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تسلّی فرمائی گئی کہ آپ کے ساتھ اِستِہزاء کرنے والوں کا بھی یہی انجام ہونا ہے ۔