امام ابو حنیفہ اور امام سفیان الثوری کا ایک دوسرے کے لیے دفاع کرنا
امام ابو حنیفہ اور امام سفیان الثوری کا ایک دوسرے کے لیے دفاع کرنا
ازقلم:اسد الطحاوی الحنفی
امام خطیب بغدادی ایک روایت بیان کرتے ہیں اپنی سند صحیح سے
حدثني أحمد بن أحمد القصري، حدثنا محمد بن أحمد بن سفيان، حدثنا ابن سعيد، حدثنا عبد الله بن أسامة الكلبي، حدثنا محمد بن عبد العزيز بن أبي رزمة قال: سمعت أبي يقول:
جاء رجل إلى أبي حنيفة فقال: ألا ترى ما روى سفيان؟ فقال أبو حنيفة: أتأمرني أن أقول إن سفيان يكذب في الحديث؟، لو أن سفيان كان في عهد إبراهيم لاحتاج الناس إليه في الحديث.
عبدالعزیز بن ابی زرمہ کہتے ہیں :
ایک شخص امام ابو حنیفہ کے اس گیا اور کہا کہ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ سفیان کیا بیان کرتا ہے ؟ (آدمی کی مراد تھی کہ ابو حنیفہ سفیان کے بارے کچھ منفی بولیں )
تو امام ابو حنیفہ نے کہا کیا تم مجھے یہ کہنا چاہتے ہو کہ سفیان ثوری حدیث میں غلط بیانی کرتا ہے ؟
اگر سفیان ثوری ابراہیم (النخعی) کے زمانہ میں بھی ہوتے تو لوگ انکی بیان کردہ احادیث کے محتاج ہوتے
سند کے رجال کا مختصر تعارف!!!!
پہلا راوی : – أحمد بن أحمد بن محمد بن علي بن الحسن أبو عبد الله القصري المعروف بابن السيبي
امام خطیب فرماتے ہیں اسکے بارے :
كتبت عنه، وكان صالحا فاضلا صادقا
(تاریخ بغداد ، برقم:1851)
دوسرا راوی: محمد بن أحمد بن سفيان، أبو عبد الله البزاز الترمذي
امام خطیب فرماتے ہیں
وکان ثقة
(تاریخ بغداد ، برقم ۱۸)
تیسرا راوی: أحمد بن مُحَمد بن سَعِيد أبو العباس الهمداني.
امام ابن عدی انکے بارے فرماتے ہیں :
يعرف بابن عقدة، كان صاحب معرفة وحفظ، ومقدم في هذه الصناعة
یہ ابن عقدہ کے نام سے جانے جاتے ہیں یہ ٓحافظے والے اور صاحب معفرت تھے اور اپنے اس فن میں مقدم تھے
(الکامل ابن عدی ، برقم :۵۳)
چوتھا راوی: عبد الله بن أسامة بن زيد، أبو أسامة الكلبيُّ الكُوفيُّ
امام ذھبی انکے بارے لکھتے ہیں :
وكان ثقة صاحب حديث.
(تاریخ الاسلام الذھبی ، برقم :۲۷۴)
پانچواں راوی : محمد بن عبد العزيز بن أبي رزمة،
امام ابن حجر انکے بارے لکھتے ہیں :
ثقة، من العاشرة
(تقریب التہذیب ، برقم : ۶۰۹۲)
چھٹا راوی: (انکے والد ):عبد العزيز بن أبي رزمة، بكسر الراء وسكون الزاي،
امام ابن حجر عسقلانی انکے بارے فرماتے ہیں :
ثقة، من الرابعة
(تقریب التہذیب برقم : ۴۰۹۵)
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ امام سفیان ثوری کو حدیث کے علم میں بہت اہمیت دیتے تھے
اور ان سے احادیث بیان بھی کرتے تھے اس اعتبار سے امام ابو حنیفہ امام سفیان ثوری کے شاگرد بھی ہیں
جسکو امام ابن معین نے بیان کیا ہے جسکو الدوری نے بھی روایت کیا ہے
اسی طرح امام ابن عبدالبر اپنی سند صحیح الانتقاء میں روایت لاتے ہیں :
ونا عبد الوارث(ثقہ) قال نا قاسم (ثقہ) قال نا أحمد بن زهير(ثقہ ثبت) قال نا يحيى ابن معين(الامام حجتہ) قال نا عبد الله بن ابى قرة(ثقہ) عن يحيى بن ضريس(ثقہ)
قال قال ابو حنيفة إذا لم يكن في كتاب الله ولا في سنة رسول الله نظرت فى اقاويل اصحابه ولا أخرج عن قولهم إلى قول غيرهم فإذا انتهى الامر أوجاء الامر الى ابراهيم والشعبى وابن سيرين والحسن وعطاء وسعيد بن جبير وعدد رجالا فقوم اجتهدوا فاجتهد كما اجتهدوا قال فسكت سفيان طويلا ثم قال كلمات ما بقى أحد فى المجلس الاكتبهن نستمع الشديد من الحديث فنخافه ونستمع اللين فنرجو ولا تحاسب الاحياء ولا يقضى على الأموات نسلم ما سمعنا ونكل ما لم نعلم إلى عالمه ونتهم رأينا لرأيهم
(وسند جید )
امام یحییٰ بن صریس بیان کرتے ہیں :
میں سفیان الثوری کے پاس موجود تھا ، ایک شخص ان کے پاس آیا جو علم اور عبادت میں کچھ حیثیت رکھتا تھا ، اس نے ان(سفیان) سے کہا اے ابو عبداللہ! آپ ابو حنیفہ پر (اب) تنقید کیوں نہیں کرتے ہیں ؟
انہوں (سفیان) نے دریافت کیا کہ کیوں کیا ہوا؟ اس نے کہا : میں نے انہیں ایک بات کہتے سنا ہے جس میں انصاف اور حجت پائے جاتے ہیں
(ابو حنیفہ ) کہتے ہیں جب مجھے اللہ کی کتاب میں (مسلہ کا جواب) مل جائے گا تو مٰں اللہ کی کتاب کے مطابق فتویٰ دونگا ، ار وہ مجھے اس میں نہیں ملتا تو میں اللہ کے رسولﷺ کی سنت اور آپ سے منقول مستند آثار کے مطابق فتویٰ دونگا ، جو ثقہ راویوں کے حوالے سے منقول ہو کر ثقہ راویوں کے درمیان پھیلے ہیں ، اگر مجھے اللہ کی کتاب میں اور سنت رسولﷺ میں (مسلے کا جواب) نہیں ملتا ، و میں نبی اکرمﷺ کے اصحاب (میں سے کسی کے) قول کے مطابق فتویٰ دونگا ، جس کے قول کو چاہوں گا اسے ترک کر دونگا ، اور جس کےقول کو چاہونگا اس کو اختیار کر لونگا ،
لیکن میں صحابہ کرام کے اقوال میں سے نکل کر کس دوسرے کے قول کی طرف نہیں جاونگا ، جب معاملہ (تابعین) ابراہیم نخعی ، شعبی ، حسن بصری ، عطاء بن ابی رباح ، ابن سیرین ، سعید بن مسیب انہوں (ابو حنیفہ ) نے اسکے علاوہ بھی متعدد لوگوں کے نام لیے ، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اجتیہاد کیا تھا ، جب معاملہ ان تک پہنچے گا تو میں بھی اسی طرح اجتیہاد کرونگا ، جس طرح انہوں نے اجتیہاد کیا تھا ،
راوی بیان کرتے ہیں تو سفیان الثوری خاصی دیر خاموش رہے ، پھر انہوں نے اپنی رائے پر متشتمل کلمات ارشاد فرمائے ، محفل میں موجود ہر شخص نے انہیں نوٹ کر لیا
سفیان الثوری نےفرمایا :
ہم کو احادیث میں شدت والی احادیث بھی سننے کو ملتی ہیں ، اور ہم ان سے ڈر کے رہتے ہیں ،،، اور ہمیں نرمی کے متعلق بھی روایات سننے کو ملتی ہیں ، تو ہم اس کی امید رکھتے ہیں
ہم زندہ لوگوں کا محاسبہ نہیں کرتے ہیں اور مرحومین کے خلاف فیصلہ نہیں دیتے ہیں ، جو روایات ہم نے سنی ہیں انہیں تسلیم کرتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں علم نہیں (کہ ان سے کونسے مسائل کا استنباط ہوگا ) ہم ان کا علم اس شخص کے سپرد کرتے ہیں جو ان سے واقفیت رکھتا ہو (جو ان روایات کی معرفت کو پہچان سکے کہ روایات میں کن کن مسائل کا استنباط موجود ہے ) اور ہم اپنی رائے کا الزام ان کی رائے پر عائد کرتے ہیں
(یعنی ہم انکے اجتیہاد کے مطابق فتویٰ دے دیتے ہیں اور ہمارے فتویٰ میں کوئی کمی بیشی ہوئی تو ہم نے اپنے سے پہلے بزرگوں کی پیروی میں ہی فتویٰ دیا )
(الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء ابن عبدالبر ، ص ۱۴۴)
اس پوری روایت سے یہ ثابت ہوا کہ امام سفیان ثوری جن مسائل میں تابعین کے اقوال کی پیروی کرتے تھے اور ان سے آگے اجتیہاد نہ کرتے تھے اور انکو جب بیان کیا گیا کہ ان تابعین کے مقابل امام ابو حنیفہ بھی اجتیہاد کرتے ہیں تو انہوں نے یہی بات کہی ہم کو جس بات کا علم نہیں ہم اسکو اسکے حق دار کی طرف لٹا دیتے ہیں اور جو خود اجتیہاد کا مقام رکھتے ہیں تو ہم کو ان سے اختلاف نہیں
یہی وجہ ہے کہ امام سفیان ثوری کو جب امام ابو حنیفہ کی رائے پر مختلف مسائل میں مطلع ہوتے تو اجتیہاد میں امام ابو حنیفہ سے استفادہ کرتےتھے
جیسا کہ امام ابن عبدالبر اپنی سند صحیح سے بیان کی ہے ایک روایت :
ونا عبد الوارث قال نا قاسم قال نا أحمد بن زهير قال نا يحيى ابن معين قال نا عبد الله بن ابى قرة عن يحيى بن ضريس قال قال ابو حنيفة إذا لم يكن في كتاب الله ولا في سنة رسول الله نظرت فى اقاويل اصحابه ولا أخرج عن قولهم إلى قول غيرهم فإذا انتهى الامر أوجاء الامر الى ابراهيم والشعبى وابن سيرين والحسن وعطاء وسعيد بن جبير وعدد رجالا فقوم اجتهدوا فاجتهد كما اجتهدوا قال فسكت سفيان طويلا ثم قال كلمات ما بقى أحد فى المجلس الاكتبهن نستمع الشديد من الحديث فنخافه ونستمع اللين فنرجو ولا تحاسب الاحياء ولا يقضى على الأموات نسلم ما سمعنا ونكل ما لم نعلم إلى عالمه ونتهم رأينا لرأيهم
(وسند جید )
امام یحییٰ بن صریس بیان کرتے ہیں :
میں سفیان الثوری کے پاس موجود تھا ، ایک شخص ان کے پاس آیا جو علم اور عبادت میں کچھ حیثیت رکھتا تھا ، اس نے ان(سفیان) سے کہا اے ابو عبداللہ! آپ ابو حنیفہ پر (اب) تنقید کیوں نہیں کرتے ہیں ؟
انہوں (سفیان) نے دریافت کیا کہ کیوں کیا ہوا؟ اس نے کہا : میں نے انہیں ایک بات کہتے سنا ہے جس میں انصاف اور حجت پائے جاتے ہیں
(ابو حنیفہ ) کہتے ہیں جب مجھے اللہ کی کتاب میں (مسلہ کا جواب) مل جائے گا تو مٰں اللہ کی کتاب کے مطابق فتویٰ دونگا ، ار وہ مجھے اس میں نہیں ملتا تو میں اللہ کے رسولﷺ کی سنت اور آپ سے منقول مستند آثار کے مطابق فتویٰ دونگا ، جو ثقہ راویوں کے حوالے سے منقول ہو کر ثقہ راویوں کے درمیان پھیلے ہیں ، اگر مجھے اللہ کی کتاب میں اور سنت رسولﷺ میں (مسلے کا جواب) نہیں ملتا ، و میں نبی اکرمﷺ کے اصحاب (میں سے کسی کے) قول کے مطابق فتویٰ دونگا ، جس کے قول کو چاہوں گا اسے ترک کر دونگا ، اور جس کےقول کو چاہونگا اس کو اختیار کر لونگا ،
لیکن میں صحابہ کرام کے اقوال میں سے نکل کر کس دوسرے کے قول کی طرف نہیں جاونگا ، جب معاملہ (تابعین) ابراہیم نخعی ، شعبی ، حسن بصری ، عطاء بن ابی رباح ، ابن سیرین ، سعید بن مسیب انہوں (ابو حنیفہ ) نے اسکے علاوہ بھی متعدد لوگوں کے نام لیے ، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اجتیہاد کیا تھا ، جب معاملہ ان تک پہنچے گا تو میں بھی اسی طرح اجتیہاد کرونگا ، جس طرح انہوں نے اجتیہاد کیا تھا ،
راوی بیان کرتے ہیں تو سفیان الثوری خاصی دیر خاموش رہے ، پھر انہوں نے اپنی رائے پر متشتمل کلمات ارشاد فرمائے ، محفل میں موجود ہر شخص نے انہیں نوٹ کر لیا
سفیان الثوری نےفرمایا :
ہم کو احادیث میں شدت والی احادیث بھی سننے کو ملتی ہیں ، اور ہم ان سے ڈر کے رہتے ہیں ،،، اور ہمیں نرمی کے متعلق بھی روایات سننے کو ملتی ہیں ، تو ہم اس کی امید رکھتے ہیں
ہم زندہ لوگوں کا محاسبہ نہیں کرتے ہیں (اب) اور مرحومین کے خلاف فیصلہ نہیں دیتے ہیں ، جو روایات ہم نے سنی ہیں انہیں تسلیم کرتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں علم نہیں (کہ ان سے کونسے مسائل کا استنباط ہوگا ) ہم ان کا علم اس شخص کے سپرد کرتے ہیں جو ان سے واقفیت رکھتا ہو (جو ان روایات کی معرفت کو پہچان سکے کہ روایات میں کن کن مسائل کا استنباط موجود ہے ) اور ہم اپنی رائے کا الزام ان کی رائے پر عائد کرتے ہیں
(یعنی ہم انکے اجتیہاد کے مطابق فتویٰ دے دیتے ہیں اور ہمارے فتویٰ میں کوئی کمی بیشی ہوئی تو ہم نے اپنے سے پہلے بزرگوں کی پیروی میں ہی فتویٰ دیا )
(الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء ابن عبدالبر ، ص ۱۴۴)
اس پوری روایت سے یہ ثابت ہوا کہ امام سفیان ثوری جن مسائل میں تابعین کے اقوال کی پیروی کرتے تھے اور ان سے آگے اجتیہاد نہ کرتے تھے اور انکو جب بیان کیا گیا کہ ان تابعین کے مقابل امام ابو حنیفہ بھی اجتیہاد کرتے ہیں تو انہوں نے یہی بات کہی ہم کو جس بات کا علم نہیں ہم اسکو اسکے حق دار کی طرف لٹا دیتے ہیں اور جو خود اجتیہاد کا مقام رکھتے ہیں تو ہم کو ان سے اختلاف نہیں
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو شروعاتی دور میں امام ابو حنیفہ پر امام سفیان ثوری کا کلام تھا اس سے رجوع کر گئے تھے
جیسا کہ امام سبط ابن جوزی نے بھی امام سفیان الثوری کے رجوع کا ذکر کیا ہے اور تحقیقا بھی یہ ثابت ہے
تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی