کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 17 رکوع 7 سورہ الانبیاء آیت نمبر 94 تا 112
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْیِهٖۚ-وَ اِنَّا لَهٗ كٰتِبُوْنَ(۹۴)
تو جو کچھ بھلے کام کرے اور ہو ایمان والا تو اس کی کوشش کی بے قدری نہیں اور ہم اسے لکھ رہے ہیں
وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ(۹۵)
اور حرام ہے اس بستی پر جسے ہم نے ہلاک کردیا کہ پھر لوٹ کر آئیں(ف۱۶۸)
(ف168)
دنیا کی طرف تلافیٔ اعمال و تدارکِ احوال کے لئے یعنی اس لئے کہ ان کا واپس آنا ناممکن ہے ۔ مفسِّرین نے اس کے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں کہ جس بستی والوں کو ہم نے ہلاک کیا ان کا شرک و کُفر سے واپس آنا محال ہے ، یہ معنی اس تقدیر پر ہیں جب کہ لا کو زائدہ قرار دیا جائے اور اگر لا زائدہ نہ ہو تو معنٰی یہ ہوں گے کہ دارِ آخرت میں ان کا حیات کی طرف نہ لوٹنا ناممکن ہے ۔ اس میں منکرینِ بَعث کا ابطال ہے اور اوپر جو کُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْن اور لَاکُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ فرمایا گیا اس کی تاکید ہے ۔ (تفسیرِ کبیر وغیرہ)
حَتّٰۤى اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ وَ هُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ(۹۶)
یہاں تک کہ جب کھولے جائیں گے یاجوج و ماجوج (ف۱۶۹)اور وہ ہر بلندی سے ڈھلکتے ہوں گے
(ف169)
قریبِ قیامت اور یاجوج ماجوج دو قبیلوں کے نام ہیں ۔
وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا هِیَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-یٰوَیْلَنَا قَدْ كُنَّا فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(۹۷)
اورقریب آیا سچا وعدہ (ف۱۷۰) تو جبھی آنکھیں پھٹ کر رہ جائیں گی کافروں کی (ف۱۷۱) کہ ہائے ہماری خرابی بےشک ہم (ف۱۷۲) اس سے غفلت میں تھے بلکہ ہم ظالم تھے (ف۱۷۳)
(ف170)
یعنی قیامت ۔
(ف171)
اس دن کے ہول اور دہشت سے اور کہیں گے ۔
(ف172)
دنیا کے اندر ۔
(ف173)
کہ رسولوں کی بات نہ مانتے تھے اور انہیں جھٹلاتے تھے ۔
اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَؕ-اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ(۹۸)
بےشک تم (ف۱۷۴) اور جو کچھ اللہ کے سوا تم پوجتے ہو (ف۱۷۵) سب جہنم کے ایندھن ہو تمہیں اس میں جانا
(ف174)
اے مشرکو ۔
(ف175)
یعنی تمہارے بُت ۔
لَوْ كَانَ هٰۤؤُلَآءِ اٰلِهَةً مَّا وَرَدُوْهَاؕ-وَ كُلٌّ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۹۹)
اگر یہ (ف۱۷۶) خدا ہوتے جہنم میں نہ جاتے اور ان سب کو ہمیشہ اس میں رہنا (ف۱۷۷)
(ف176)
بُت جیسا کہ تمہارا گمان ہے ۔
(ف177)
بُتوں کو بھی اور ان کے پُوجنے والوں کو بھی ۔
لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ هُمْ فِیْهَا لَا یَسْمَعُوْنَ(۱۰۰)
وہ اس میں رینکیں(چیخیں چِلّائیں) گے (ف۱۷۸) اور وہ اس میں کچھ نہ سنیں گے (ف۱۷۹)
(ف178)
اور عذاب کی شدّت سے چیخیں گے اور دھاڑیں گے ۔
(ف179)
جہنّم کے شدّتِ جوش کی وجہ سے ۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا جب جہنّم میں وہ لوگ رہ جائیں گے جنہیں اس میں ہمیشہ رہنا ہے تو وہ آ گ کے تابوتوں میں بند کئے جائیں گے ، وہ تابوت اور تابوتوں میں پھر وہ تابوت اور تابوتوں میں اور ان تابوتوں پر آ گ کی میخیں جڑ دی جائیں گی تو وہ کچھ نہ سُنیں گے اور نہ کوئی ان میں کسی کو دیکھے گا ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ(۱۰۱)
بےشک وہ جن کے لیے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا وہ جہنم سے دُور رکھے گئے ہیں(ف۱۸۰)
(ف180)
اس میں ایمان والوں کے لئے بشارت ہے ۔ حضرت علی مرتضٰی کرّم اللہ تعالٰی وجہَہ الکریم نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ میں انہیں میں سے ہوں اور ابوبکر اور عمر اور عثمان اورطلحٰہ اور زبیر اور سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف ۔
شانِ نُزول : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز کعبۂ معظّمہ میں داخل ہوئے اس وقت قریش کے سردار حطیم میں موجود تھے اور کعبہ شریف کے گرد تین سو ساٹھ بُت تھے ، نضر بن حارث سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آیا اور آ پ سے کلام کرنے لگا حضور نے اس کو جواب دے کر ساکت کر دیا اور یہ آیت تلاوت فرمائی اِنَّکُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ حَصَبُ جَھَنَّمَ کہ تم اور جو کچھ اللہ کے سوا پُوجتے ہو سب جہنم کے ایندھن ہیں یہ فرما کر حضور تشریف لے آئے پھر عبداللہ بن زبعری سہمی آیا اوراس کو ولید بن مغیرہ نے اس گفتگو کی خبر دی ، کہنے لگا کہ خدا کی قسم میں ہوتا تو ان سے مباحثہ کرتا اس پر لوگوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلایا ، ابنِ زبعری یہ کہنے لگا کہ آپ نے یہ فرمایا ہے کہ تم اور جو کچھ اللہ کے سوا تم پُوجتے ہیں سب جہنّم کے ایندھن ہیں ؟ حضور نے فرمایا کہ ہاں کہنے لگا یہود تو حضرت عزیر کو پُوجتے ہیں اورنصارٰی حضرت مسیح کو پُوجتے ہیں اور بنی ملیح فرشتوں کو پُوجتے ہیں ۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازِل فرمائی اور بیان فرما دیا کہ حضرت عزیر اور مسیح اور فرشتے وہ ہیں جن کے لئے بھلائی کا وعدہ ہو چکا اور وہ جہنّم سے دور رکھے گئے ہیں اور حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ درحقیقت یہود و نصارٰی وغیرہ شیطان کی پرستِش کرتے ہیں ۔ ان جوابوں کے بعد اس کو مجال دمِ زدن نہ رہی اور وہ ساکت رہ گیا اور درحقیقت اس کا اعتراض کمال عناد سے تھا کیونکہ جس آیت پر اس نے اعتراض کیا اس میں مَا تَعْبُدُوْنَ ہے اور مَا زبانِ عربی میں غیر ذوی العقول کے لئے بولا جاتا ہے ، یہ جانتے ہوئے اس نے اندھا بن کر اعتراض کیا ، یہ اعتراض تو اہلِ زبان کی نگاہوں میں کھلا ہوا باطل تھا مگر مزید بیان کے لئے اس آیت میں توضیح فرما دی گئی ۔
لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ-وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۲)
وہ اس کی بھنک (ہلکی سی آواز بھی)نہ سنیں گے (ف۱۸۱) اور وہ اپنی من مانتی خواہشوں میں (ف۱۸۲) ہمیشہ رہیں گے
(ف181)
اور اس کے جوش کی آواز بھی ان تک نہ پہنچے گی ، وہ منازلِ جنّت میں آرام فرما ہوں گے ۔
(ف182)
خداوندی نعمتوں اور کرامتوں میں ۔
لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕ-هٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(۱۰۳)
انہیں غم میں نہ ڈالے گی وہ سب سے بڑی گھبراہٹ (ف۱۸۳) اور فرشتے ان کی پیشوائی کوآئیں گے (ف۱۸۴) کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا
(ف183)
یعنی نفخۂ اخیرہ ۔
(ف184)
قبروں سے نکلتے وقت مبارک بادیں دیتے ، تہنیت پیش کرتے اور یہ کہتے ۔
یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ كَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِؕ-كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗؕ-وَعْدًا عَلَیْنَاؕ-اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ(۱۰۴)
جس دن ہم آسمان کو لپیٹیں گے جیسے سِجِل فرشتہ (ف۱۸۵) نامۂ اعمال کو لپیٹتا ہے ہم نے جیسے پہلے اسے بنایا تھا ویسے ہی پھر کردیں گے (ف۱۸۶) یہ وعدہ ہے ہمارے ذمہ ہم کو اس کا ضرور کرنا
(ف185)
جو کاتبِ اعمال ہے آدمی کی موت کے وقت اس کے ۔
(ف186)
یعنی ہم نے جیسے پہلے عدم سے بنایا تھا ویسے ہی پھر معدوم کرنے کے بعد پیدا کر دیں گے یا یہ معنی ہیں کہ جیسا ماں کے پیٹ سے برہنہ غیر مختون پیدا کیا تھا ایسا ہی مرنے کے بعد اٹھائیں گے ۔
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ(۱۰۵)
اور بےشک ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے (ف۱۸۷)
(ف187)
اس زمین سے مراد زمینِ جنّت ہے اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ کُفّار کی زمینیں مراد ہیں جن کو مسلمان فتح کریں گے اور ایک قول یہ ہے کہ زمینِ شام مراد ہے ۔
اِنَّ فِیْ هٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَؕ(۱۰۶)
بےشک یہ قرآن کافی ہے عبادت والوں کو (ف۱۸۸)
(ف188)
کہ جو اس کا اِتّباع کرے اور اس کے مطابق عمل کرے جنّت پائے اور مراد کو پہنچے اور عبادت والوں سے مؤمنین مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اُمّتِ محمّدیہ مراد ہے جو پانچوں نمازیں پڑھتے ہیں ، رمضان کے روزے رکھتے ہیں ، حج کرتے ہیں ۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)
اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے (ف۱۸۹)
(ف189)
کوئی ہو جن ہو یا انس مؤمن ہو یا کافِر ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ حضور کا رحمت ہونا عام ہے ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا ، مؤمن کے لئے تو آپ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے آپ دنیا میں رحمت ہیں کہ آپ کی بدولت تاخیرِ عذاب ہوئی اور خَسۡف و مَسۡخ اور اِستِیصال کے عذاب اٹھا دیئے گئے ۔ تفسیرِ روح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں اکابر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر رحمتِ مطلقہ تامّہ کاملہ عامہ شاملہ جامعہ محیطہ بہ جمیع مقیدات رحمتِ غیبیہ و شہادتِ علمیہ وعینیہ و وجود یہ و شہودیہ و سابقہ و لاحقہ و غیر ذلک تمام جہانوں کے لئے ، عالَمِ ارواح ہوں یا عالَمِ اجسام ، ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول اور جو تمام عالَموں کے لئے رحمت ہو لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو ۔
قُلْ اِنَّمَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۸)
تم فرماؤ مجھے تو یہی وحی ہوتی ہے کہ تمہارا خدا نہیں مگر ایک اللہ تو کیا تم مسلمان ہوتے ہو
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ اٰذَنْتُكُمْ عَلٰى سَوَآءٍؕ-وَ اِنْ اَدْرِیْۤ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ(۱۰۹)
پھر اگر وہ منہ پھیریں(ف۱۹۰) تو فرمادو میں نے تمہیں لڑائی کا اعلان کردیا برابری پر اور میں کیا جانوں (ف۱۹۱) کہ پاس ہے یا دور ہے وہ جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے (ف۱۹۲)
(ف190)
اور اسلام نہ لائیں ۔
(ف191)
بے خدا کے بتائے یعنی یہ بات عقل و قیاس سے جاننے کی نہیں ہے ۔ یہاں درایت کی نفی فرمائی گئی درایت کہتے ہیں اندازے اور قیاس سے جاننے کو جیسا کہ مفرداتِ راغب اور ر دُّالمحتار میں ہے اسی لئے اللہ تعالٰی کے واسطے لفظِ درایت استعمال نہیں کیا جاتا اور قرآنِ کریم کے اطلاقات اس پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ فرمایا ” مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتَابُ وَلَا الْاِیْمَانُ ” لہٰذا یہاں بے تعلیم الٰہی مَحض اپنے عقل و قیاس سے جاننے کی نفی ہے نہ کہ مطلق علم کی اور مطلق علم کی نفی کیسے ہو سکتی ہے جب کہ اسی رکوع کے اول میں آ چکا ہے ” وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ ” یعنی قریب آیا سچا وعدہ تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وعدے کا قُرب و بُعد کسی طرح معلوم نہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اپنے عقل و قیاس سے جاننے کی نفی ہے نہ کہ تعلیمِ الٰہی سے جاننے کی ۔
(ف192)
عذاب کا یا قیامت کا ۔
اِنَّهٗ یَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْتُمُوْنَ(۱۱۰)
بےشک اللہ جانتا ہے آواز کی بات (ف۱۹۳) اور جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو (ف۱۹۴)
(ف193)
جو اے کُفّار تم اعلان کے ساتھ اسلام پر بطریقِ طعن کہتے ہو ۔
(ف194)
اپنے دلوں میں یعنی نبی کی عداوت اور مسلمانوں سے حسد جو تمہارے دلوں میں پوشیدہ ہے اللہ اس کو بھی جانتا ہے سب کا بدلہ دے گا ۔
وَ اِنْ اَدْرِیْ لَعَلَّهٗ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(۱۱۱)
اور میں کیا جانوں شاید وہ (ف۱۹۵) تمہاری جانچ ہو (ف۱۹۶) اور ایک وقت تک برتوانا (ف۱۹۷)
(ف195)
یعنی دنیا میں عذاب کو مؤخَّر کرنا ۔
(ف196)
جس سے تمہارا حال ظاہر ہو جائے ۔
(ف197)
یعنی وقتِ موت تک ۔
قٰلَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّؕ-وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ۠(۱۱۲)
نبی نے عرض کی کہ اے میرے رب حق فیصلہ فرمادے (ف۱۹۸) اور ہمارے رب رحمٰن ہی کی مدد درکار ہے ان باتوں پر جو تم بتاتے ہو (ف۱۹۹)
(ف198)
میرے اور ان کے درمیان جو مجھے جھٹلاتے ہیں اس طرح کہ میری مدد کر اور ان پر عذاب نازِل فرما ۔ یہ دعا مستجاب ہوئی اور کُفّار بدر و احزاب و حُنَین وغیرہ میں مبتلائے عذاب ہوئے ۔
(ف199)
شرک و کُفر اور بے ایمانی کی ۔