(بعد از نماز جنازہ دعا کے حوالے سے دیوبندی فتوے کا رد بلیغ)

نماز جنازہ کے بعد دعا کے حوالے سے اک دیوبندی فتوی گردش کر رہا ہے جس میں اس دعا کو بدعت,غیر ثابت اور واجب الترک قرار دیا گیا,

آئیےاس نام نہاد فتوے کے اٹھائے گئے پوائنٹس کے فردًا فردًا جوابات ملاحظہ فرمائیں,

سب سے پہلے یہ سمجھیں کہ: “ہمارے نزدیک یہ دعا فرض یا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب و مستحسن اور شرعاً محبوب ہے جو صفیں توڑ کر مختصر طور پہ کی جاتی ہے”

دیوبندی فتوے کے پوائنٹس اور انکے جوابات:

1= نماز جنازہ خود دعا ہے( لہذا اسکے بعد دعا نہیں کر سکتے)

الجواب:

یہ کہاں لکھا ہے کہ اک بار دعا کر لینے کے بعد دوبارہ مانگنا ناجائز ہے؟

اگر دوبارہ دعا کرنا ناجائز ہوتا تو پنج وقتہ,استخارہ,کسوف و استسقاء وغیرہ نمازوں کے بھی جائز نہ ہوتا کیونکہ دعا تو انکے اندر بھی ہوچکی ہوتی ہے( جیسے فاتحہ اور رَبِّ اجْعَلْنِی)

2= یہ قرونِ اولٰی سے ثابت نہیں

الجواب:

بلکل ثابت ہے ملاحظہ ہو,

سرکار اقدس ﷺ فرماتے ہیں:

اذا صلیتم علی اللمیت فاخلصوا لہ الدعا

جب تم میت پہ نماز پڑھ چکو تو اسکے لیے اخلاص کے ساتھ دعا مانگو,

(ابو داؤد ج 2 ص 102, ابن ماجہ ص 107 وغیرہا)

3 = “یہ بدعت ہے”

اولا تو بدعت ہرگز نہیں ہے بلکہ شریعت سے ثابت ہے جیسا کہ ابھی حدیث گزری,

ثانیا بر سبیل تنزل کے اگر یہ بدعت ہوتی بھی تو بدعتِ سیئہ( وہ نیا کام جو دلائل شرعیہ کے مخالف ہو) نہ ہوتی بلکہ یہ مثل تراویح وغیرہ کے بدعت حسنہ ( وہ نیا کام جو دلائل شرعیہ سے مستنبط اور انکے موافق ہو) ہوتی,

4= یہ نماز جنازہ میں اضافے کے مشابہ ہے

الجواب:

یہ دعا صفیں توڑ کر ہاتھ اٹھا کر کی جاتی ہے, جبکہ نماز جنازہ صفیں باندھ کر مخصوص حالت مخصوص شرائط وغیرہ کے ساتھ ادا کی جاتی ہے,اس لیے یہ زیادة علی الصلوة کے مشابہ ہرگز نہیں قرار پاتی,

5 = مرقاة میں ہے ولایدعوا——-

الجواب:

اس عبارت کا تعلق مطلقا ہر جنازہ کے ساتھ نہیں ہے,بلکہ اس صورت میں ہے کہ جب نمازی دو یا تین وغیرہ قلیل ہوں, جسکی دلیل یہ ہے کہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ نے جس حدیث کے تحت یہ فرمایا وہ حدیث یوں ہے:

فکان مالک اذا استقل اھل الجنازة جزاھم ثلاثة صفوف

حضرت مالک بن ھبیرہ رضی اللہ عنہ کا معمول یہ تھا کہ جنازہ پڑھنے والوں کو کم محسوس کرتے تو انہیں تین صفوں میں تقسیم کر دیتے تھے,

(مرقاة ج 4 ص 149)

ملا علی قاری “اذا استقل” کی شرح میں فرماتے ہیں:

ای عدھم قلیلا

یعنی جب آپ انکو قلیل شمار کرتے تو—-

(ایضا)

اس سے ثابت ہوا کہ نہ تو یہ مطلقا ہے اور نہ ہی تمام صحابہ کے عمل کو مستلزم, بلکہ آپکا یہ عمل صرف اور صرف نمازیوں کی قلت کے ساتھ خاص ہے,

نیز زیادت کا شبہ بھی نمازیوں کی قلت( جیسے دو یا تین ہونا) کی وجہ سے ہے,

دیوبندی مفتی کی خیانت و دھوکہ دہی :

مرقاة میں “وَلَا یَدْعُوْ لِلْمَیِّتِ ” کے الفاظ ہیں یعنی لَایَدْعُوْ صیغہِ واحد کے ساتھ ہے جبکہ دیوبندی مفتی نے دھوکہ دینے کے لیے “لَایَدْعُوْا” کے آخر میں اپنی طرف سے الف کا اضافہ کر کے جمع کا صیغہ لکھ کے شو کیا ہے تاکہ یہ ثابت کر سکے کہ یہ تمام صحابہ کا عمل تھا, حالانکہ اس سے قطعا یہ ثابت نہیں ہوتا,

ع

شرم تم کو مگر نہیں آتی,

نوٹ:

یاد رہے مرقاة کے جس نسخے کا ہم نے حوالہ دیا ہے یہ بھی دیوبندیوں کے “مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ” کا مطبوعہ ہے,

6= “البحر الرائق میں ہے لایدعوا بعد التسلیم”

الجواب:

اس سے صرف وہ دعا مراد ہے جو بغیر صفوں کے توڑنے کے ہو اور اتنی طویل ہو کہ تدفین میں تاخیر کا سبب بنے, اور اس کے ہم بھی قائل نہیں ہیں,

نیز اگر اس سے بعد نماز جنازہ و قبل تدفین والی دعا کی نفی ثابت کی جائے تو لازمی ٹھہرے گا کہ دعا بعدِ تدفین کی بھی نفی ہوجائے, کیونکہ اس عبارت میں کوئی ایک بھی لفظ ایسا نہیں ہے کہ جو قبلِ تدفین والی دعا سے تو نفی کر رہا ہو اور دعا بعدِ تدفین کو ثابت کر رہا ہو,

لہذا اس عبارت سے یا تو ان دونوں قسم کی دعاؤں کا ثبوت ہوگا یا کسی کا بھی نہیں ہوگا, حالانکہ دیوبندی حضرات خود بھی بعدِ تدفین والی دعا کے قائل ہیں,

ہمارے مؤقف کا ثبوت دیوبندی فتوے سے

دیوبندی مفتی, مفتی فرید لکھتا ہے:

“یہ منکرات ( یعنی زیادت بر صلوة کا شبہ وغیرہ) اس وقت لازم آتے ہیں جبکہ قیام کی حالت میں دعا کی جائے اور شکستگی صفوف کے بعد ہو یا بیٹھنے کے بعد تو کوئی منکر( یعنی اس دعا سے ممانعت کا سبب ) لازم نہیں آتا ہے”

( فتاوی فریدیہ ج 1 ص 574)

فائدہ:

دعا بعد از جنازہ کے ثبوت اور اس بابت منکرین کے ایسے اعتراضات و دلائل کے رد بلیغ پہ مشتمل فقیر کی کتاب “الحجج القاطعہ فی رد براھین الواضحہ” کا مطالعہ کیجیے,

جو 391 صفحات پہ مشتمل اور بفضلہ تعالی انتہائی مدلل ہے,

یہ اس کتاب کا pdf لنک ہے, ڈاؤن کیجیے

راقم الحروف سجاد علی فیضی

3/4 /2021