بلھے شاہ، امرجلیل اور خدا۔

مشہور کالم نگار وسعت اللہ خان بی بی سی اردو سروس کے کالم نگاروں میں سے ہیں۔آپ کبھی ان کی آواز میں اِن کا لکھا ہوا کالم سنیں اگر آپ اردو ادب سے واقفیت رکھتے ہیں تو آپ یقیناً اِن کو داد بغیر نہیں رہ پائیں گے۔۔

ایّامِ جاھلیت میں بی بی سی اردو سروس کا پروگرام سیربین میرے پسندیدہ پروگراموں میں سے ہوا کرتا تھا ایک وقت تھا کہ جب ہر پیر کو رات 8 بجے آواز سنائی دیتی تھی خبروں، تجزیوں، تبصروں اور حالاتِ حاضرہ پر مشتمل پروگرام سیربین کے ساتھ میں ہوں آپ کا میزبان شفیع نقی جامعی اور پھر اسی پیر والے پروگرام میں وسعت اللہ خان کی آواز میں کالم “بات سے بات” سنتا تو ایسا لگتا کہ ریڈیو کے سیلوں کا پورے ہفتے کا خرچہ وصول ہوگیا ہے ۔۔

خیر جب سکول کا زمانہ ختم ہوا ہم کالجیئن بن گئے ابھی فرسٹ ائیر ہی میں تھے کہ کسی مسجد میں ایک کتاب رکھی دیکھی جلی حروف میں لکھا ہوا تھا “فیضانِ سُنّت ” ۔۔

اخبارجہاں پڑھنے کے شوقین چھوکرے نے زندگی میں پہلی بار کسی عالم دین کے کتاب کو چھوا۔۔۔۔۔۔۔نہ جانے کیا کشش تھی کہ فیضانِ سنت روز پڑھنے کا معمول بن گیا بس پھر کیا تھا ہم پڑھتے گئے اور دل بدلتا گیا ۔۔

سُنی صحیح العقیدہ تو شروع سے ہی تھے الحمدلله۔ابا حضور پڑھے لکھے تو نہیں تھے البتہ کبھی کبھی اتنا ضرور بتاتے تھے کہ ہم لوٹا ہاتھ میں پکڑ کر بوریا بستر کندھوں پر رکھنے والے تبلیغی نہیں ہیں ۔۔

ہمارے گاؤں میں مشہور تھا جو اِن کے ساتھ چِلّے پر جاتا ہے اُس کے ساتھ غبنِ فاحش کیا جاتا تھا ۔جس دن تبلیغیوں کی کسی جماعت کاگزر گاؤں ہوتا ہم بچے لوگ ڈر کے مارے گھر سے نہیں نکلتے ۔۔۔۔۔

گائے بکریاں چرانے والے ہم بلوچی تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ یہ فیضانِ سنت لکھنے والی جماعت کون سی بلا ہیں لیکن کتاب پڑھ کر بہرحال ہمیں اپنے افعال وکردار میں مثبت تبدیلی محسوس ہوئی اور پھر ہم نے آکر عطرِ سُنت بانٹنے والے کی غلامی کا پٹا بھی گلے میں ڈال لیا ۔

جب سے کسی کے غلام بنے سیربین بھی چھوٹ گئ، اخبارِ جہاں بھی چھوٹ گیا، وسعت اللہ خان اور شفعی نقی جامعی مخلصینِ اسلام نہیں ہیں اس کی بھی تمیز آگئ الحمدلله ۔۔

دعا ہے اللہ کریم تادمِ آخر غلامانِ اعلیٰ حضرت کی صحبتِ فیضِ اثر سے فیضیاب رکھے آمین ۔۔

لگتا ہے ماضی کے دریچے میں جھانکتے جھانکتے میں بہت دور نکل چکا ہوں قلم کی باگ کو واپس اصل مقصد کی طرف موڑتا ہوں لبرل کالم نگار وسعت اللہ خان نے وتایو فقیر، امر جلیل اور خدا ،،،،،،کے عنوان سے اپنی کالم بات سے بات میں بےسند باتیں ذکر کرکے امرجلیل کے کالک کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرنے کی خوب کوشش کی ہے لیکن موصوف شاید بھول گئے تھے کہ کالے کوئلے سے ہاتھ صاف نہیں ہوتے ،،مزید کالے ہوجاتے ہیں ۔۔

بات کو مزید طول دینے کی بجائے مختصراً عرض کردوں کہ انسان دو چیزوں جسم وروح کا مُرَکّبْ ہے ۔

انسانی روح کو عقل اور نفس سے بھی تعبیر کیاجاتا ہے ۔تخلیقِ روح کے وقت خالقِ لَمْ یَزل نے انسانی روح میں تین چیزیں رکھیں (عقل کی طاقت )(غضب کی طاقت) (شہوت کی طاقت) ۔۔۔۔

جب انسانی روح جسمانی کثافت سے آزاد تھی ،عقل کی طاقت اُس پر غالب تھی تو خالقِ کائنات جلّ وعلا نے عالَمِ ارواح میں تمام روحوں کو جمع فرما کر ارشاد فرمایا “اَلَسْتُ بِرَبّکُمْ” ؟

کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟

سب نے جواب دیا “قالوا بَلٰی ” کیوں نہیں یعنی بے شک آپ ہی ہمارے رب ہیں ۔۔

عالَمْ اجساد میں جسمانی کثافتوں، شہوات کی جال یا پھر بُرے ماحول کی وجہ سے کوئی کافر ہوگیا تو کوئی سکھ، کوئی پارسی بن گیا تو کوئی لبرل، کوئی اثناعشری بن گیا تو کوئی چلے کاٹنے والا گنجا ۔۔۔

اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت اور عالَمْ ارواح میں اقرارِ ربّوبیت والی بات یاد دلانے کےلئے انسانوں کی طرف کم وبیش 124000 انبیائے کرام علیھم السلام بھیجے، آسمانی صحیفے نازل کئے، چار آسمانی کتابیں اتاریں ۔سب سے آخر میں اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا ۔

اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت ہی آخری ہدایت اور آپ پر نازل ہونے کتاب ہی راہِ نجات بتانے والی ہے ۔۔

قرآنِ کریم ہداہت ہے ۔اس کتابِ ہدایت سے ہدایت پانے کے لئے دل ودماغ کا پاک ہونا ضروری ہے جو لوگ ظاہری یا باطنی ناپاکیوں کا شکار ہوتے ہیں وہ قرآن کے اسرار رموز کو کبھی نہیں جان سکتے کیونکہ خود قرآن میں اللہ پاک نے فرمایا ہے “لایمسہ الاالمطھرون “۔

انسانوں کا خیرالقرن کے زمانہ سے بُعد(دوری) جیسے جیسے بڑھتا گیا اور بڑھتا جارہا ہے ویسے ویسے لوگ اپنے مقصدِ حیات اور عالم ارواح میں کی جانے والی اقرار کو بھی بھولتے گئے اور بھول رہے ہیں ۔۔۔

نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے اب کوئی بھی نیا نبی نہیں آئے گا اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ ہیں ۔۔

اب انسانوں کی ہدایت کےلئے عالم اولیائے کرام ہر صدی میں پیدا ہوتے رہیں گے جو خود پاک نفس ہوں گے اور انسانوں کی تربیت کرکے اُنہیں اُن کا وعدہ واقرار یاد دلائیں گے ۔۔

رب العزت جلّ جلالہ ارشاد فرماتا ہے “وماخلقتُ الجن والانسان الّا لیعبدون”

میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کےلئے پیدا کےلئے پیدا کیا ۔۔

عابد جس کی عبادت کرے گا کماحقہ اس کی ذات سے کچھ نہ کچھ واقفیت ہونا ضروری ہے کہ میں کس کی عبادت کررہا ہوں؟

کیوں کررہا ہوں؟

اس کے معبود کےلئے کیا واجب، اور کیا محال ہے؟

لہذا ازروئے قرآن وسنت احکامُ اللہ، افعالُ اللہ ،اسماءُ اللہ، صفاتُ اللہ، ذاتُ اللہ کی معرفت لازم ہوئ وگرنہ اِن سب کے بغیر عابد کی عبادت محض بےذوق ہوکر رہ جائے گی ۔۔

احکامُ اللہ سے لے کر ذاتُ اللہ تک پہنچنے کے دو راستے ہیں جن میں ایک راستہ سلوکِ فرضی ہے اور دوسرا سلوکِ نفلی ۔۔

عابد جب سلوک فرضی کے جملہ مدارج طے کرچکتا ہے تو اُس کے دل میں اپنے معبودِ حقیقی کی محبت پیدا ہوتی ہے ۔۔

سلوک فرضی کے جملہ مدارج طےکرچکنے کے بعد عابد پھر جیسے جیسے سلوک نفلی پر چل رہا ہوتا ہے تو اُس کی محبت میں مزید حدّت بڑھانے کےلئے درد پیدا ہوتا ہے پھر جیسے درد بڑھتا ہے ویسے ویسے عشق کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے پھر عشق کی تپش میں جل جل کر ایک مقام ایسا بھی آجاتا ہے کہ عابد کے گلے میں رسی ڈال کر تپتی ریت پر گھسیٹا جاتا ہے، سینے پر بھاری پتھر رکھ کر کوئلے کے گرم انگاروں پر ننگی پشت کے ساتھ لٹایا جاتا تب بھی وہ پکار پکار کر کہتا ہے” احد احد “

اللہ ایک ہے اللہ ایک ہے ۔

عشق کا یہ مقام ایسا ہے کہ عاشق جمالِ یار میں محو ہوکر سولی چڑھتے ہوئے بھی نہیں گھبراتا جیسے حضرت منصور حلاج کے ساتھ ہوا ۔

وصال یار کے شوق میں نمازیں پڑھنا ، اذانیں دینا ، سجدے کرنا اس کا مزہ ہی الگ ہے ۔۔

دردِ دِل کے ساتھ لقاءِ حق کی ملاقات کا شوق رکھ کر مَکّے میں اپنے عزیزوں، مال مویشی، تجارتی سامان اور گھر کے آنگن کوچھوڑ کر مدینے کی طرف رختِ سفر باندھنے کا ابھی اپنا ایک الگ مزہ ہے ۔

جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں؟۔

محبت، شوق، درد، لذت عشقِ حقیقی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خواجہ میردرد نے بھی کہاتھا

“دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرّ و بیاں “۔

سلوکِ فرضی طے کرچکنے کے بعد انسان کے دل میں جب حقیقی محبتِ الٰہی جنم لیتی ہے تو وہ بےباکی سے پاک ہوکر عاجزی کا پیکر بن جاتا ہے، وہ ہرزہ سرائیاں کرنے کی بجائے خوگرِ حمد بن جاتا ہے اُس کے خاشیہ خیال میں بھی کیوں کا لفظ نہیں آتا ۔۔

حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اِس حقیقت کی راز کو کھول کر بیان کیا اور قیامت تک پیدا ہونے امر جلیل جیسے پلیدوں کو بتادیا کہ اے پلیدو! اہلِ محبت، دردِ دل بیان ضرور کرتے ہیں، رب قدوس کی شان میں بےادبیاں نہیں کرتے ۔۔

آپ فرماتے ہیں

“جس دل وِچْ عشق نہ رچیا ،کتے اوس توں چنگے

مالک دے گھر راکھی دیندے، صابر بکھے ننگے

مالک دا در نہیں چھڈدے، پاویں مارے سوسو جتے

اٹھ بھلیا یار منالے، نئیں تے بازی لے گئے کتے ۔۔

قرباں جاواں حضرت بابا بھلے شاہ نوں ۔۔کیسی پیاری حقیقت بیان کی کہ انسانِ حقیقی کہ جس کے روح کی عقلی طاقت غالب ہو وہ اپنے مالکِ حقیقی کی نافرمانی کبھی نہیں کرتا بلکہ ہر گھڑی، ہرلحظہ احکاماتِ خدا کی پیروی کرتا ہے چاہے اُس پر کیسی ہی آفت آن پڑے ۔

وہ انسان حقیقی جس نے احکامُ اللہ کا علم پاکر اُن پر عمل پیرا بھی ہوا وہ اپنے مالک سے ہی لو لگائے رکھتا ہے چاہے اُس کا مالک اس پر کیسی ہی آزمائش کیوں نہ ڈال دے ۔

 

ایک طرف اللہ کے حقیقی عاشق بندے اور دوسرے طرف امرجلیل جیسے بداطوار جس کو نہ واجب کا پتا نہ محال کاعلم، نہ ذات کی معرفت، نہ صفات کی پہچان بس بیٹھے ہیں انتظار میں کہ کب موقع ملے اور ہم اپنی منہ سےغلاظت ہنگنا شروع کریں ۔

 

✍️ ابوحاتم

08/04/2021/بوقتِ شب 12:27