قبر رسولﷺ پر حاضری دینے کے بارے میں ابن قیم کا عقیدہ
قبر رسولﷺ پر حاضری دینے کے بارے میں ابن قیم کا عقیدہ
ابن تیمیہ کامشہور شاگرد ابن قیم جوزیہ اپنی تصنیف متن القصيدة النونية میں روضہ رسولﷺ پر حاضری کے اداب کو قصیدہ کی صورت میں لکھتا ہے :
فإذا أتينا المسجد النبوي … صلينا التحية أولا ثنتان
جب مسجد نبوی ﷺ میں حاضر ہوں تو سب سے پہلے دو رکعت نماز تحیتہ المسجد ادا کریں
ثم انثنينا للزيارة نقصد القبـ … ـر الشريف ولو على الأجفان
پھر روضہ انور کی زیارت کا قصد کریں ، چاہے پلکوں پر چل کر ہی حاضری کا شرف کیوں نہ حاصل کرنا پڑے
فنقوم دون القبر وقفة خاضع … متذلل في السر والإعلان
پھر باطنا و ظاہرا انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ قبر انور کے پاس کھڑے ہوں
فكأنه في القبر حيّ ناطق … فالواقفون نواكس الأذقان
یہ احساس دل میں جا گزریں رہے کہ حضورﷺ اپنی قبر انور میں زندہ ہیں
اور کلام فرماتے ہیں پس کھڑے ہونے والوں کا سر جھکا رہے
ملكتهم تلك المهابة فاعترت … تلك القوائم كثرة الرجفان
بارگاہ نبویﷺ میں یوں کھڑے ہوں کہ رعب مصطفی ﷺ سے پاوں تھر تھر کانپ رہے ہوں
لم يرفع الأصوات حول ضريحه … كلا ولم يسجد على الأذقان
حضورﷺ کی قبر انور کے قریب آواز بھی بلند نہ کرے ، خبردار! اور نہ ہی سجد ہ ریزہو
من أفضل الأعمال هاتيك الزيا … رة وهي يوم الحشر في الميزان
یہی زیارت افضل اعمال میں سے ہے اور روز حشر اسے میزان حسنات میں لکھا جائے گا
[متن القصيدة النونية، ص 254[
اس سے یہ ثابت ہوا کہ وابیوں کا سیکینڈ ہینڈ شیخ الاسلام ابن قیم جوزیہ بھی صوفی قسم کا ہی تھا اور نبی اکرمﷺ کی قبر میں میں حیات کا قائل تھا جیسا کہ ابن تیمیہ بھی اس بات کے قائل تھے کہ مردہ قبر میں دیکھ سکتا ہے ، سن سکتا ہے پہچان بھی سکتا ہے
دعاگو: اسد الطحاوی الحنفی