مالک الاشتر کا اعتراف
حضرت مولا علی کا گورنر مالک الاشتر کا اعتراف کے ہم نے اس بوڑھے (حصرت عثمان) کو شہید کروایا اور حضرت امام عائشہ کی مالک الاشتر کی مذمت
ازقلم اسد الطحاوی
سیدہ عائشہؓ نے فرمایا:لَا سَلَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ , إِنَّهُ لَيْسَ بِابْنِي
ترجمہ: الله اُس(مالک الاشتر) پر کبھی سلامتی نہ کرے، وہ میرا بیٹا ہے ہی نہیں۔
اسی روایت کے مطابق اس نے اپنے قتل کا اعتراف بھی کیا کہ ہم نے مدینہ کے اس بوڑھے کو قتل کیا
(مصنف ابن أبي شيبة، جلد ۷، صفحہ نمبر ۵۳۲)
اس روایت پر کمزور اعتراضات کا تحقیقی جائزہ
از قلم : اسد الطحاوی الحنفی
متعرض روایت کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
۳۔ اس کے علاوہ ایک روایت ہے کہ سیدہ عائشہؓ نے فرمایا:
لَا سَلَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ , إِنَّهُ لَيْسَ بِابْنِي
ترجمہ: الله اُس پر کبھی سلامتی نہ کرے، وہ میرا بیٹا ہے ہی نہیں۔
[مصنف ابن أبي شيبة، جلد ۷، صفحہ نمبر ۵۳۲]
اسی روایت کے مطابق اس نے اپنے قتل کا اعتراف بھی کیا کہ ہم نے مدینہ کے اس بوڑھے کو قتل کیا۔ یہ بھی ضعیف ہے، اس کا راوی علاء بن منہاج مجہول ہے۔ امام ذہبیؒ نے فرمایا:
العلاء بن المنهال: والد قطبة، عن هشام بن عروة، فيه جهالة
ترجمہ: علاء بن منہال، یہ قطبہ کے والد تھے، ہشام بن عروہ سے روایت کرتے تھے، ان میں جہالت ہے (یعنی یہ مجہول ہیں)۔
[ديوان الضعفاء، صفحہ نمبر ۲۸۰، رقم: ۲۸۹۲]
امام عقلی رحمہ اللہ نے فرمایا:
الْعَلَاءُ بْنُ الْمِنْهَالِ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، لَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ
ترجمہ: علاء من منہال، یہ ہشام بن عروہ سے روایت کرتے تھے، اور ان کی روایات کی کوئی متابعت نہیں (یعنی منفرد و عجیب روایات بیان کرتے تھے)۔
[الضعفاء الكبير للعقيلي، جلد ۳، صفحہ نمبع ۳۴۳، رقم: ۱۷۳۲]
یاد رہے کہ یہ جرح ہے۔
اس کی توثیق کی غلط فہمی بہت سے علماء کو امام ابو زرعہ کی توثیق کی وجہ سے ہوئی کہ امام ابو زرعہؒ نے فرمایا:
العلاء بن المنهال والد قطبة ثقة
ترجمہ: علاء من منہال، قطبہ کا والد ثقہ ہے۔
[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، جلد ۶، صفحہ نمبر ۳۶۱]
یہ قول ثابت ہی نہیں، بلاسند منقول ہے۔ اس کے علاوہ امام عجلیؒ نے اس کو ثقہ کہا ہے مگر امام عجلیؒ متساہل ہیں۔ [الثقات للعجلي ط الدار، جلد ۵، صفحہ نمبر ۴۶۸] متساہل کی توثیق معبر نہیں، لہذا شبہ جہالت بھی ہے اور توثیق کا محکم اثبات بھی نہیں۔
اس کے علاوہ اس روایت کا راوی عبد الله بن يونس الأندلسي بھی ثقہ نہیں۔ اس کی کوئی توثیق نہیں ہے۔ ابنِ عماد الحنبلی نے صرف اتنا کہا:
عبد الله بن يونس القبري الأندلسي صاحب بقي بن مخلد، وكان كثير الحديث مقبولا
ترجمہ: عبد اللہ بن یونس القبری الاندلسی بقی بن مخلد کا شاگرد تھا، کثرت سے حدیث بیان کرنے والا مشہور آدمی ہے۔
[شذرات الذهب في أخبار من ذهب، جلد ۴، صفحہ نمبر ۱۷۱]
اوّل تو ابنِ عماد کوئی ناقدِ حدیث نہیں اور یہ کوئی توثیق نہیں۔
الجواب:
اس روایت پر متعرض نے دو بنیادی اعتراضات کیے ہیں
۱۔ اس روایت کا بنیادی راوی العلاء بن منھال مجہول ہے
۲۔ اس روایت کا راوی عبداللہ بن یونس الاندلسی مجہول ہے
ہم سب سے پہلے اعتراض پر آتے ہیں اور پہلا قول جناب نے امام ذھبی کا نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ذہبیؒ نے فرمایا:
العلاء بن المنهال: والد قطبة، عن هشام بن عروة، فيه جهالة
ترجمہ: علاء بن منہال، یہ قطبہ کے والد تھے، ہشام بن عروہ سے روایت کرتے تھے، ان میں جہالت ہے (یعنی یہ مجہول ہیں)۔
[ديوان الضعفاء، صفحہ نمبر ۲۸۰، رقم: ۲۸۹۲]
عرض ہے یہ قول امام ذھبی کا اپنا نہیں بلکہ عقیلی کا نقل کیا ہے اور دیوان الضعفاء میں امام ذھبی کا یہ منہج ہے کہ وہ بغیر ناقد کا نام لکھے وہ جرح فقط نقل کر دیتے ہیں
سب سے پہلے امام ذھبی سے ثبوت کہ یہ قول انکا نہیں بلکہ عقیلی کا ہے
امام ذھبی اپنی دوسری تصنیف المغنی میں اسکا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
-
الْعَلَاء بن الْمنْهَال وَالِد قُطْبَة عَن هِشَام بن عُرْوَة فِيهِ جَهَالَة ذكره الْعقيلِيّ
علاء بن منھال جو کہ ھشام سے روایت کرتے ہیں ان میں جہالت ذکر کی ہے عقیلی نے
(المغنی فی الضعفاء، برقم: 4192)
اور عقیلی کا کلام پڑھیں تو وہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے
العلاء بن المنهال عن هشام بن عروة، لا يتابع عليه، ولا يعرف إلا به
علاء بن منھال جو کہ ہشام بن عروہ سے بیان کرتے ہیں انکی متابعت نہیں ہوتی ، اور میں سوائے اسکے کچھ نہیں جانتا (اسکے بارے)
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ، برقم : 1372)
اور العلاء بن منھال کی صریح توثیق کے سامنے عقیلی کی جرح لا یتابع علیہ کو دلیل بنانا یقینن علم رجال سے شغف نہ رکھنے والا ہو سکتا اور کوئی نہیں
کیونکہ محدثین نے امام عقیلی کی لا یتابع علیہ جرح غیر مستند قرار دیا ہے کیونکہ عقیلی کی عادت ہے وہ ثقہ سے ثقہ راوی پر بھی یہی جرح کر دیتے تھے
یہاں تک کہ غیر مقلدین کے بقول معتدل محقق عبدالحئ لکھنووی جو کہ عقیلی کی لا یتابع علیہ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
كثيرا مَا تَجِد فِي الْمِيزَان وَغَيره من كتب اهل الشَّأْن فِي الْجرْح الْمَنْقُول عَن الْعقيلِيّ بانه لَا يُتَابع عليهوقد رد عَلَيْهِ الْعلمَاء فِي كثير
من الْمَوَاضِع على جرحه بقوله لَا يُتَابع عَلَيْهِ وَلَا تجاسره فِي الْكَلَام فِي الثِّقَات الاثبات
والذهبي وان اكثر عَنهُ النَّقْل فِي كتبه لكنه شدّ النكير عَلَيْهِ فِي تَرْجَمَة
اور کثیر کتب جیسا کہ میزان وغیرہ میں اہل شان راویان کے بارے یہ جرح منقول ہوئی ہے عقیلی کی کہ لا یتابع علیہ جسکا کثیر محدثین علماء نے رد کیا ہے
اور اس باب میں انکی جرح لا یتابع علیہ ثقات راویان کے بارے قبول نہیں ہوگی
اور اسی طرح امام ذھبی نے اکثر راویان کے بارے عقیلی سے یہ الفاظ نقل کر کے شدید رد کیا عقیلی کا
الرفع التکمیل ص ۴۰۶)
تو معلوم ہوا کہ عقیلی متشدد و متعنت تھے لا یتابع علیہ جرح کرنے میں کثیر ثقات کے بارے تو اس کا رد کیا گیا ہے اور متعرض کا ایک ثقہ ثبت راوی کے بارے عقیلی جیسے ناقد کے ان الفاظ کو دلیل بنانا بے فائدہ ہے
تو عقیلی کی جرح ساقط ہوئی صریح توثیق کے مقابل
اب چلتے ہیں دوسرے اعتراض کی طرف جسکو پڑھ کر میرا سر چکرا گیا کہ ایک رجال کا علم رکھنے والا بندہ یہ بات کیسے کر سکتا ہے ؟ یا ان سے بہت بڑی فحش خطاء ہوئی ہے
جیسا کہ وہ منھال کی صریح توثیق کا رد کرتے ہو ایک ایسی عجیب بات کہی جسکا مجھے سر پیر نہ مل سکتا چناچہ
موصوف لکھتے ہیں :
اس کی توثیق کی غلط فہمی بہت سے علماء کو امام ابو زرعہ کی توثیق کی وجہ سے ہوئی کہ امام ابو زرعہؒ نے فرمایا:
العلاء بن المنهال والد قطبة ثقة
ترجمہ: علاء من منہال، قطبہ کا والد ثقہ ہے۔
[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، جلد ۶، صفحہ نمبر ۳۶۱]
یہ قول ثابت ہی نہیں، بلاسند منقول ہے۔ اس کے علاوہ امام عجلیؒ نے اس کو ثقہ کہا ہے مگر امام عجلیؒ متساہل ہیں۔ [الثقات للعجلي ط الدار، جلد ۵، صفحہ نمبر ۴۶۸] متساہل کی توثیق معبر نہیں، لہذا شبہ جہالت بھی ہے اور توثیق کا محکم اثبات بھی نہیں۔
الجواب :
عرض ہے کہ امام ابو زرعہ تو امام ابن ابی حاتم کے شیخ ہیں جیسا کہ انکے والد امام ابو حاتم شیخ ہیں امام ابن ابی حاتم کے تو جب وہ امام ابو زرعہ کا قول نقل کرتے ہیں تو انکا سماع براہ راست امام ابو زرعہ سے ہوتا ہے
اس میں سند کا رولا متعرض نے کس اصول سے لگایا ہے ؟ جو خود امام ابو زرعہ کا شاگرد ہے وہ سند کیسے بیا ن کریگا ؟
اگر یہ کتاب الجرح والتعدیل میں نظر کرتے تو دیکھ لیتے کہ امام ابو زرعہ سے تو امام ابن ابی حاتم کا سماع ثابت ہے اور آج تک مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے یہ اعتراض کیا ہو جیسا کہ کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے
اگر انکے علم میں یہ نہیں کہ اما م ابن ابی حاتم کا سماع امام ابو زرعہ سے ہے یا نہیں تو اسکے دلائل اسی کتاب میں ہیں :
حدثنا عبد الرحمن نا أبو زرعة الخ۔۔۔
حدثنا عبد الرحمن نا أبو زرعة عبد الرحمن بن عمرو الدمشقي
حدثنا عبد الرحمن نا أبو زرعة
(الجرح والتعدیل )
اور جہاں تک مجھے لگتا ہے کہ شاید انہوں نے سمجھا ہوگا کہ امام ابن ابی حاتم عبدالرحمن سے ابو زرعہ سے بیان کرتے ہیں
جبکہ یہ عبد الرحمن خود امام ابن ابی حاتم ہیں اور یہ ابو زرعہ سے بیان کرتے ہیں اور یہ کتاب الجرح والتعدیل امام ابن ابی حاتم کے شاگرد نے نقل کی ہے تو وہ پہلے امام ابن ابی حاتم کا نام لیتے ہیں اور پھر انکا امام ابو زعہ سے قول نقل کرتے ہیں
اب امام ابن ابی حاتم کا مکمل کلام درج ذیل ہے :
العلاء بن المنهال الغنوى سمع عاصم بن كليب وهشام بن عروة ومهندا القيسي روى عنه ابن إدريس وأبو اسامة وزيد بن الحباب وابنه قطبة بن العلاء وأحمد بن عبد الله بن يونس سمعت أبي يقول ذلك، قال أبو زرعة العلاء بن المنهال والد قطبة ثقة.
علاء بن منھال جنہوں نے سماع کیا ہے عاصم سے اور ہشام سے اور القیسی سے ، اور ان سے بیان کرنے والے ابن ادریس ، ابو سلمہ ، زید بن حباب اور قطبہ بن علاء (انکے بیٹے) اور احمد بن عبداللہ بن یونس الاندلسی ہیں
یہی میں نے اپنے والد (ابو حاتم) سے سنا
اور ابو زرعہ کہتے ہیں کہ علاء یہ قطبہ کے والد ہیں اور ثقہ ہیں
(الجرح والتعدیل ، برقمُ: 1992)
حد ہے اس میں کونسی سند درکار ہے اور کیسی سند درکار ہے ؟؟؟؟؟؟
خود اتنی بڑی فحش خطاء کرنا اور پھر علماء کثیر پر یہ دعویٰ کرنا کہ :
” اس کی توثیق کی غلط فہمی بہت سے علماء کو امام ابو زرعہ کی توثیق کی وجہ سے ہوئی”
اب اس بات پر ہنسا جائے یا رویا جائے امید ہے اپنی اصلاح کرینگے عکاشہ صاحب ۔
باقی امام عجلی کی صریح توثیق اور امام ابن حبان کی بھی صریح توثیق جو کہ معروف راوی کے بارے ہے انکو فقط مجہول کہہ کر ہضم جو کرنے کی کوشش کی وہ بھی باطل ہوئی انکے ساتھ امام ابو زرعہ ہیں تو یہ راوی متفقہ علیہ ثقہ ہے
اب آتے ہیں تیسرے اعتراض کی طرف جو اس سے بھی زیادہ فحش ہے
چونکہ متعرض لکھتے ہیں :
اس کے علاوہ اس روایت کا راوی عبد الله بن يونس الأندلسي بھی ثقہ نہیں۔ اس کی کوئی توثیق نہیں ہے۔ ابنِ عماد الحنبلی نے صرف اتنا کہا:
عبد الله بن يونس القبري الأندلسي صاحب بقي بن مخلد، وكان كثير الحديث مقبولا
ترجمہ: عبد اللہ بن یونس القبری الاندلسی بقی بن مخلد کا شاگرد تھا، کثرت سے حدیث بیان کرنے والا مشہور آدمی ہے۔
[شذرات الذهب في أخبار من ذهب، جلد ۴، صفحہ نمبر ۱۷۱]
اوّل تو ابنِ عماد کوئی ناقدِ حدیث نہیں اور یہ کوئی توثیق نہیں۔
الجواب :
عرض ہے یہاں متعرض کو بہت بڑی خطاء ہوئی ہے اصل میں یہ جو راوی ہے
عبداللہ بن یونس المرادی الاندلسی یہ اس جزوی روایت کا راوی نہیں ہے بلکہ یہ امام ابن ابی شیبہ کی کتاب الجمل کا راوی ہے اور امام ابو بکر ابن ابی شیبہ کے شاگرد بقی بن مخلد کا خاص شاگرد تھے
اور مصنف یہ ایسی کتاب حدیث اور اثار صحابہ کے اثار کی اس قسم کی کتاب ہوتی ہے جس میں فتاویٰ اور انکے اقوال کو فقہی ترتیب سے لکھا جا تا ہے اور امام ابن ابی شیبہ کی المصنف کا جز کتاب الجمل جو ہے اسکی متصل سند امام ابو بکر ابن ابی شیبہ تک متفقہ علیہ ہے اور اس سند میں عبداللہ بن یونس ہے جیسا کہ اسکی آگے تفصیل آئے گی
تو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن یونس المرادی الاندلسی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ کتاب جمل کا راوی نہ کہ جزوی روایت کا ساری کتاب الجمل اسی راوی ہی سے مروی ہیں
تو گویا جناب نے اس راوی پر اعتراض کر کے پوری مصنف ابن ابی شیبہ کی کتاب الجمل کا ہی رد کر دیا ہے انجانے میں
اگر جناب سند پر غور کرتے تو انکو یہ بات عیاں ہو جاتی جیسا کہ اس روایت کی سند یوں ہے مصنف میں :
38 – كتاب الجمل
وصلى الله على سيدنا محمد النبي وآله
في مسير عائشة وعلي وطلحة والزبير
حدثنا
37757 – عبد الله بن يونس، قال: حدثنا بقي بن مخلد، قال: حدثنا أبو بكر، قال حدثنا أبو أسامة، قال: حدثني العلاء بن المنهال، قال حدثنا عاصم بن كليب الجرمي، قال: حدثني أبي قال
یہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ حدثنا کے بعد عبداللہ بن یونس ہے وہ کہتے ہیں مجھے بیان کی بقی بن مخلد نے وہ کہتے ہیں مجھے بیان کیا ابو بکر ابن ابی شیبہ نے
اور چونکہ یہ کتاب تو امام ابن ابی شیبہ کی ہے اصل سند اب ابو سلمہ سے شروع ہوتی ہے جس میں آگے علاء راوی ہے جسکی جید توثیق اوپر ثابت ہو چکی ہے
جبکہ عبداللہ بن یونس تو مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الجمل کا راوی ہے
اب مذکورہ روایت کے بار باقی تمام کتاب کی اگلی روایات امام ابن ابی شیبہ کے بعد شروع ہوتی ہیں کیونکہ کتاب جمل کی سند پہلی بار فقط نقل ہوتی ہے نسخہ میں
اب چونکہ عبداللہ بن یونس بھی کوئی عام راوی نہیں اور نہ ہی مجہول بلکہ انکی اتنی توثیق ثابت ہے جتنی ایک کتاب بیان کرنے والے راوی کے لیے درکار ہوتی ہے اور نہ بھی ہوتی تو مصنف ابن ابی شیبہ تو متواتر سے علماء میں ثابت ہے تو اسکے کتاب کے سند کے راوی پر اعتراض کرنا لا علمی کے علاوہ کچھ نہیں
امام عبداللہ بن یونس الاندلسی کا تعارف !
الاندلس کے مشہور ناقد و مورخ امام ابن الفرضی بیان کرتے ہیں تاریخ الاندلس میں :
عبد الله بن يُونُس بن مُحمد بن عُبيْد الله بن عبّاد بن زِياد بن يَزيد ابن أبي يَحيى المُرادِيّ: يُعرَف؛ بالقَبري. أصْله منْ قَبْرَة، وسَكن قُرطُبة؛ يُكنّى: أبا محمد.
سَمِعَ: من بَقيّ بن مخْلَد كثيراً وصَحبِه. وكانَ: هو والحسَن بن سَعْد آخر مَن حدّث عنْهُ. وَسَمعَ: مِن محمد بن عبْد السّلام الخُشنيّ، وأحمد بن مَيسر الطُرطوشي، وسَعيد بن عُثْمان الأعناقِيّ وغيرِهم. وسَمع منهُ النّاس كثيراً.
حدّثنا عنهُ جماعة وقالَ لِي أبو مُحمَد الباجيّ. تُوفّي (رحمه الله) : في شَهْرَ رَمضان سنةَ ثلاثين وثلاثِ مائةٍ.
عبداللہ بن یونس المرادی جو قرطبہ کے رہنے والے تھے اور انکی کنیت ابو محمد ہے اور یہ القبری سے معروف تھے
انہوں نے سماع کیا ہے بقی بن مخلد سے بہت زیادہ اور یہ انکے صحبت میں رہنے والے تھے ، اور احسن بن سعد وہ آخری شخص ہیں جو ان سے روایت کرنے والے ہیں
اور انہوں نے سماع کیا ہے محمد ب ن سلام، احمد بن میسر اور سعید بن عثمان وغیرہم سے
اور ان سے لوگوں کی کثیر تعداد نے سماع کیا ہے
(تاریخ الاندلس ابن الفرضی برقم: 680)
اور دوسرے اندلس کے محدث ابن الضبی بھی انکے بارے یوں بیان کرتے ہیں :
عبد الله بن يونس بن محمد بن عبيد الله بن عباد بن رماد المرادي
أندلسي يروى عن بقى بن مخلد، وكان من المكثرين عنه، مات بالأندلس سنة ثلاثين وثلاثمائة، روى عنه عبد بن نصر وخالد بن سعد وغير واحد اخبر أبو محمد علي بن أحمد قال: أخبرنا الكناني، أخبرنا أحمد بن خليل أخبرنا خالد بن سعد أخبرنا عبد الله بن يونس المرادي من كتابه، أخبرنا بقى بن مخلد قال: أخبرنا سحنون والحارث بن مسكين عن ابن القاسم عن مالك: أنه كان يكثر أن يقول: {إن نظن إلا ظناً وما نحن بمستيقنين} [
عبداللہ بن یونس المرادی الاندلسی یہ بقی بن مخلد سے روایت کرتے ہیں اور یہ ان سے سب سے زیادہ روایت کرنے والو ٰں میں سے تھے ۔
اور اس کے بعد امام الضبی اپنی سند سے انکی رویات بیان کرتے ہیں جس میں تصریح ہے کہ عبداللہ بن یونس نے کتاب سے بیان کیا ہے بقی بن مخلد سے
تو معلوم ہوا یہ صاحب کتب تھے اور اگر یہ جزوی روایت کے راوی بھی ہوتے تو کتاب سے بیان کرنے کی تصریح کے بعد انکے ضبط کی دلیل کی بھی ضرورت نہ ہوتی
(بغية الملتمس في تاريخ رجال أهل الأندلس ،أبو جعفر الضبي برقم: 961-)
اسی طرح امام ذھبی ایک راوی کے ترجمہ میں انکی مصنف عبدالرزاق بیان کرنے کو لکھتے ہیں :
ابن الباجي أحمد بن عبد الله بن محمد اللخمي *
انکے ترجمہ میں امام ذھبی لکھتے ہیں :
ع من: والده جميع ما عنده، من ذلك (مصنف ابن أبي شيبة) بروايته ، عن القبري ، عن بقي بن مخلد، عنه.
انہوں نے سماع کیا ہے والد سے اور جمع کیا جس میں ایک مصنف بن ابی شیبہ بھی جو بروایت القبری (عبداللہ بن یونس الندلسی) اور وہ بقی بن مخلد کےطریق سے انکو بیان کی
(سیر اعلام النبلاء، برقم:۴۱)
اسی طرح ایک مقام پر انکو محدث کا لقب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
وصاحب بقي بن مخلد المحدث عبد الله بن يونس القبري
اور صاحب بقی بن مخلد محدث عبداللہ بن یونس القبری
(سیر اعلام النبلاء)
تو ایک کتاب کے راوی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس سے جماعت بیان کرنے والی تھی اور یہ بقی بن مخلد کے خاص تلامذہ تھے اور انہی سے مصنف ابن ابی شیبہ روایت کرتے تھے جو کہ متفقہ علیہ ہے
تو پس یہ روایت ثابت ہوئی جس میں یہ خود تصریح کرتا ہے حضرت عثمان کے قتل کی جوکہ متعرض نے بھی مانا ہے :
سیدہ عائشہؓ نے فرمایا:
لَا سَلَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ , إِنَّهُ لَيْسَ بِابْنِي
ترجمہ: الله اُس پر کبھی سلامتی نہ کرے، وہ میرا بیٹا ہے ہی نہیں۔
[مصنف ابن أبي شيبة، جلد ۷، صفحہ نمبر ۵۳۲]
اسی روایت کے مطابق اس نے اپنے قتل کا اعتراف بھی کیا کہ ہم نے مدینہ کے اس بوڑھے کو قتل کی
اس صریح اور سند جید سے روایت کو رد کرنا ایک فضول بات ہوگی اتنے صریح دلائل پر مطلع ہونے کے بعد
اس سے ثابت ہوا کہ بظاہر وہ لوگ جو قتل خلیفہ سوم مین ملوث تھے وہ مولا علی کے ساتھی بنے ہوئے تھے جسکی وجہ سے حضرت امیر معاویہ زمینی حقائق میں اس طرح اجتیہاد میں اپنے اعتبار سے اجتیہاد پر تھے کہ مولا علی انکو ہمارے حوالے کریں جبکہ مولا علی نے کسی حکمت کی وجہ سے انکو حوالے نہ کیا ۔
تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی