خرید وفروخت اورکاروبار سے متعلق مسائل
{خرید وفروخت اور کاروبار سے متعلق مسائل }
مسئلہ : جاوید کا سرمایہ ہے سلیم اس کا کارندہ ہے تیسرا آدمی سونے کے زیورات بناتا اوردوکاندار وں کو بیچتا ہے جاوید کا سرمایہ ہوگا وہ براہِ راست نہیں بلکہ اپنے کارندے سلیم کے ذریعہ مشترکہ کاروبار میں عملاً شریک رہے گا تیسرے آدمی کی محنت ، تجربہ اورمہارت ہوگی ۔ طے شدہ منافع پر نہیں بلکہ نفع ونقصان میں شراکت کی بنیاد پر کاروبار ہے یہ کاروبار ی شراکت جائز ہے بشرطیکہ :
(1) خدانخواستہ نقصان کی صورت میں نقصان کاسارا بار سرمایہ لگانے والے فریق جاوید پر ہو۔
(2) منافع کی صورت میں جاوید اورتیسرے آدمی کے درمیان تقسیم منافع کا تناسب پہلے سے طے ہو۔
(3) سلیم جو کہ جاوید کے ایجنٹ کے طور پر شراکتی کاروبار تیسرے آدمی کے درمیان مصروفِ عمل ہے ۔
جاوید اورسلیم کاباہمی معاملہ ہے کہ وہ مقرر تنخواہ پر کام کرے گا یا جاوید کے حصّہ منافع میں سے ایک مقررہ حصّہ لے گا۔ (تفہیم المسائل)
{سونے کے کاروبار میں شراکت}
سوال : ’’الف‘‘ کا سرمایہ ہے ’’ب‘‘ ا س کاکارندہ ہے ’’ج‘‘ ، سونے کے زیورات بناتااور دکانداروں کو بیچتاہے ۔ ’’الف‘‘ ، کاسرمایہ ہوگا، وہ براہِ راست نہیںبلکہ اپنے کارندے ’’ب‘‘ ، کے ذریعے مشترکہ کاروبار میں عملاً شریک رہے گا۔’’ج‘‘ کی محنت ،تجربہ اورمہارت ہوگی ۔ طے شدہ منافع پر نہیں بلکہ نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر ، کیا یہ کاروباری شراکت جائز ہے ۔
جواب: مذکورہ بالا صورت میں کاروباری شراکت جائز ہے ۔ بشرطیکہ (۱) خدانخواستہ نقصان کی صورت میں نقصان کاسارا بار سرمایہ لگانے والے فریق ’’الف‘‘ پر ہو۔ (۲) منافع کی صورت میں ’’الف‘‘ ، اور ’’ج‘‘ کے درمیان تقسیم منافع کا تناسب پہلے سے طے ہو۔ (۳) ’’ب‘‘ جو ’’الف‘‘ کے وکیل یا ایجنٹ کے طور پر شراکتی کاروبار’’ج‘‘ کے درمیان مصروف عمل ہے ۔ ’’الف‘‘ اور’’ب‘‘ کا باہمی معاملہ ہے کہ وہ مقرر تنخواہ پر کام کرے گا یا’’الف‘‘ کے حصّہ منافع میں سے ایک مقررہ حصّہ لے گا۔(تفہیم المسائل)
{اسلام میں نیلام عام}
سوال : بعض احادیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺنے ’’بیع علی البیع‘‘ یعنی ’’دوسرے کے سودے پر سودا کرنے ‘‘ اور’’سوم علی السوم‘‘ دوسرے کے نرخ پر نرخ بڑھانے سے منع فرمایا ہے اور ’’نجش‘‘ سے منع فرمایا ہے ’’نجش‘‘ سے کیا مراد ہے ۔ ان احادیث کی روشنی میں اسلام میں’’نیلام عام ‘‘ کی کہاں تک گنجائش ہے ؟
جواب: ’’بیع علی البیع‘‘ سے مراد یہ ہے کہ فریقین میں ایک چیز کا سودا طے پاگیا اورباہمی رضامندی سے قیمت بھی طے پاگئی اور انہوں نے مزید غور وفکر کے لئے تین دن یااس سے کم کی مہلت مقررر کردی ، جس کی شریعت میںاجازت اورگنجائش ہے ، اسے ’’خیار شرط‘‘ کہتے ہیں ۔اب اس ’’مدت خیار‘‘ کے دوران کوئی شخص بائع (فروخت کنندہ) سے کہے کہ آپ یہ سودا منسوخ کردیں، میں آپ کو اس سے زیادہ قیمت دلادوں گایا دے دوں گا یا کوئی شخص خریدار سے کہے کہ آپ یہ سودا فسخ کردیں، میں اس سے کم رقم میں یہ چیز آپ کو دلادوں گا، یہ دونوں صورتیں شرعاً ناجائز اورحرام ہیں۔
’’نرخ پر نرخ بڑھانے ‘‘ کی صورت یہ ہے کہ خریدار اورفروخت کنندہ ایک چیز کے لین دین پر باہم رضامند اورآمادہ ہوچکے ہوں، لیکن ابھی ’’عقدبیع‘‘ یعنی سود ا مکمل نہ ہوا ہو کہ ایک تیسرا شخص درمیان میں آکر بائع کو لالچ دے کہ میں تمہیں اس سے زیادہ قیمت دے دوں گا،یہ صورت بھی شرعاً حرام ہے ۔
’’نجش‘‘ کے لغوی معنی ہیں’’جوش دلانا‘‘ اصطلاحِ شریعت میں اس سے مراد یہ ہے کہ ایک آدمی چیز کو خریدنے کاارادہ تونہیں رکھتا ، لیکن دوسرے خریدار کو جوش دلانے اورانگیختہ کرنے کے لئے زیادہ قیمت لگائے ، یہ دوسرے کو ارادتاً نقصان پہنچانا ہے اورشرعاًحرام ہے ۔
{نیلام کا جواز}
بعض فقہاء کرام نے نجش کی ممانعت پرقیاس کرتے ہوئے نیلام کی بیع کو بھی مکروہ قرار دیا ہے ، کیونکہ نیلام میںبڑھ چڑھ کر بولی لگائی جاتی ہے لیکن جمہور فقہاء کرام اورائمہ نے نیلام کی بیع کو ’’جامع ترمذی‘‘ میں مروی حدیث کی روسے جائز قرار دیا ہے۔
حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول ا للہ ﷺنے ایک چادر اور ایک پیالہ بیچا اور فرمایا’’اس چادر اورپیالے کوکون خریدے گا؟‘‘ایک شخص نے عرض کیا کہ میں ان کوایک درہم کے بدلے میںخرید لوں گا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا ایک درہم سے زیادہ میں کون خریدے گا توایک شخص نے دودرہم دے دئیے، آپ نے وہ پیالہ اورچادر اس شخص کودے دئیے ۔امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے ۔
البتہ جو لوگ نیلام کی بیع کی ممانعت پر بخش سے استدلال کرتے ہیں ،ان کا جواب یہ ہے کہ زیادہ قیمت لگانا اس وقت منع ہے جب کسی شخص کاارادہ خریدنے کا نہ ہو بلکہ دھوکہ دے کر اور جوش دلا کر قیمت بڑھانا مقصود ہو، یہ امر بلا شبہ حرام ہے لیکن اگر بولی لگانے والے کاارادہ فی الواقع خریدنے کا ہو تو یہ منع نہیں ہے ۔ اسی لئے ائمہ اربعہ نے نیلام کی بیع کو جائز قرار دیا ہے۔
{ کیا ہنڈی کی بیع جائز ہے }
(Bill of Exchange)
سوال : کیا’’ہنڈی‘‘ کی بیع شرعاً جائز ہے ؟
جواب: ہنڈی سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص ’’الف‘‘ نے ’’ب‘‘ کو کچھ مال فروخت کیا اور ’’ب‘‘ نے رقم بعد میں ادا کرنے کا وعدہ کیا اور ’’الف‘‘ کو اس سلسلے میں ایک دستاویز لکھ کر دے دی کہ وہ اسے (مثلاً) چھ ماہ بعدایک لاکھ روپے ادا کرے گا تو اس دستاویز کو ’’ہنڈی‘‘ کہتے ہیں۔ اب ’’الف‘‘ اس دستاویز کو لے کرایک شخص یا بینک کے پاس جاتاہے کہ آپ ہنڈی کو مجھ سے مثلاً دس فیصد کمیشن پر خریدلیں اور اس طرح بینک اسے ایک لاکھ کی بجائے نوے ہزار روپے دے دے گا اورچھ ماہ بعد مقرر ہ تاریخ پر بینک ’’ب‘‘ سے ایک لاکھ روپے وصول کرلے گا۔ کمیشن کی مقدار کاانحصار اس مدت کی کمی بیشی پر ہوتا ہے جس کے بعد ہنڈی کی ادائیگی لازم ہوتی ہے ۔’’ہنڈی کی بیع‘‘ دراصل قرض کی بیع ہے اوراس میں ایک شخص اپنا واجب الاد ا قرض اس شخص یا ادارے کو بیچ رہا ہے ، جس پر اس کا قرض واجب نہیں ہے اوریہ ناجائز ہے ۔
اس بیع کے عدم جواز کا سبب یہ ہے کہ اس میں ’’غرور‘‘ (دھوکا) ہے کیونکہ ہوسکتاہے کہ مقروض دیوالیہ ہوجائے یااس کی جملہ املاک کسی حادثے کے نیچے میں تلف ہوجائیں تووہ دستاویز جس کی بیع ہوئی ہے اپنی قدر وقیمت کھوبیٹھے گی۔
بعض علماء نے ہنڈی کی بیع کواس بناء پر ناجائز قرار دیا ہے کہ یہ زیادتی اورتاخیر کے ساتھ نقود کا نقود سے تبادلہ ہے اور ’’ربو الفضل‘‘ کی حرمت کااس پر اطلاق ہوتاہے ۔
{ٹھیکے کے حصول اور بل کی وصولی کیلئے رشوت کا لین دین}
سوال : میں گورنمنٹ ٹھیکیدار ہوں ، ہمیں ٹھیکہ حاصل کرنے کے لئے رشوت دینی پڑتی ہے ، پھر ورک آرڈر لینے سے کام کی تکمیل تک مختلف مراحل میں متعلقہ افسران اورسرکاری اہلکاروں کو رشوت دینی پڑتی ہے ، بل کی وصولی بھی رشوت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ان حالات میں حکم شرعی کیا ہے ، ہمارے لئے دوسرا کام بھی دشوار ہے ؟
جواب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اورنہ ہی (رشوت کے طور پر ) وہ مال حاکموں تک پہنچاؤ، تاکہ تم لوگوں کے مال کا کچھ حصّہ گناہ کے ساتھ کھاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو (کہ یہ فعل ناجائز ہے ) ‘‘ (البقرہ: ۱۸۸) جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے رشوت دینے اورلینے والے (دونوں) پر لعنت فرمائی ہے ۔ اسلام میں فقہی اعتبار سے ایمان وعمل کے درجات ہیں۔ اعلیٰ درجے کو عزیمت کہتے ہیں ، یعنی ایمان وعمل کاکامل ترین درجہ، جو اہل عزیمت اوراولوالعزم اہل ایمان کاشعار ہے ۔ یعنی خواہ حالات کتنے ہی ناساز گار کیوں نہ ہوں ، لیکن بندئہ مومن ایمان وعمل کے جادئہ مستقیم سے سرِ موانحراف نہ کرے۔ اس مرتبۂ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کسی بھی صورت میں نہ رشوت لے اورنہ دے اور اس استقامتِ ایمانی کی راہ میں حائل ہر مشکل کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے لیکن ظاہر ہے کہ بعض بندے ضعیف الایمان اورکم ہمت بھی ہوتے ہیں ۔اسے فقہی طور پر رخصت یاحالت اضطرار واکراہ کانام دیا گیا ہے لہٰذا ان تمام احوال کو پیش نظر رکھ کر فقہا ء کرام نے رشوت کے جو تفصیلی احکام بیان فرمائے ہیں ، وہ یہ ہیں:
(۱) منصبِ قضاء حاصل کرنے کے لئے رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہیں بلکہ ایسا شخص منصبِ قضاء کااہل ہی نہیں ہے ۔
(۲) کسی شخص کاحاکم سے اپنے حق میں فیصلہ کرانے کے لئے رشوت دینا، ایسے امور میں رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہیں ، اگروہ رشوت دے کر اپنے حق میں ناجائز فیصلہ کرانا چاہتاہے تواس کا باطل اورحرام ہونا بالکل واضح ہے ، لیکن اگر وہ فیصلہ انصاف پر مبنی ہو اب بھی اس کے لئے کوئی تعذر، دشواری اوراضطرار نہیںہے جو رشوت کے جواز کاسبب قرار پائے ، البتہ کسی شخص پر ظلم ہورہا ہے ، ظلماً اس کی جان یا مال تلف کیا جارہا ہے ، رشوت دئیے بغیر اس کاحق روکا جارہا ہے ۔ جلد یا بد یر اس کے ملنے کی کوئی توقع نہیں ہے ، توایسی ناگزیر صورتحال میں فقہاء کرام نے اس کیلئے اپنی جان ومال اورآبرو کو ظلم سے بچانے کے لئے یااپنے غصب شدہ حق کوحاصل کرنے کے لئے ، اضطراری صورتحال میں صرف رشوت دینا جائز قرار دیا ہے ، لینا بہرحال حرام ہے۔اس مخصوص صورتِ حال میں بھی رشوت دینے کی اجازت رخصت شرعی کی بنا پر ہے ، کم ہمت صاحبانِ ایمان کے لئے ، ورنہ عزیمت یہی ہے کہ حرام سے ہر صورتِ حال میں بچا جائے۔ اِلاّیہ کہ جان کو خطرہ درپیش ہو۔
رشوت کے بارے میں یہ مسائل ممتاز فقہاء اسلام علامہ قاضی خان ، علامہ ابن ہمام ، علامہ ابن نجیم ،
علامہ شامی رحمہم اللہ اجمعین کی کتب سے ماخوذ ہیں۔ (بحوالہ شرح صحیح مسلم) ۔اب جو صورت مسئلہ دریافت کی گئی ہے اس اصولی گفتگو کے بعد اس کا جواب یہ ہے :
(۱) ٹھیکہ لینے کے لئے رشوت دینا ناجائز اورحرام ہے کیونکہ ٹھیکہ لینا آپ کا حق نہیں ہے ۔
(ب) اگر کام ٹھیکے کے معاہدے میں طے شدہ شرائط کے مطابق انجام نہیں دیا، میٹریل ناقص ہے ، کوالٹی مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں ہے تواسے رشوت دے کر پاس کرانا اور کلیرنس سر ٹیفکیٹ یاکمپلیشن سر ٹیفکیٹ لینا ناجائز اورحرام ہے ۔
(ج) اگر کام طے شدہ شرائط اورمطلوبہ معیار کے مطابق انجام دے دیا ہے لیکن افسر مجازبل کو روکے ہوئے ہے، ادائیگی سے انکار کررہا ہے ، مگر افسران بالا سے یا عدالت سے اپیل کرنے پر اس کا حق مل سکتاہے تورشوت نہ دے اورحق طلبی کے لئے یہ طریقۂ کار اختیار کرے۔ لیکن اگر رشوت کا چینل اوپر تک ہے اورافسران بالا سے یا عدالت سے رجوع کرنے اور اپیل کرنے سے حق ملنے کے امکانات مزید معدوم ہوجاتے ہیں تو پھر بصورت مجبوری واضطرار رشوت دے کراپنا حق وصول کرلے اوراپنے اس فعل پراللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور رزق حلال کے حصول کی جستجو کرتارہے ۔ بعض اوقات لوگ رشوت اس لئے دیتے ہیں کہ انہیں ان کے استحقاق سے زیادہ مل جائے ، وقت مقررہ سے پہلے مل جائے ، توان مقاصد کے لئے رشوت دینا ناجائز ہے ۔
{لائسنسوں کی خریدو فروخت}
سوال : بعض لوگ اپنے سیاسی اثرورسوخ کی بناء پر حکومت سے امپورٹ لائسنس یا ٹرانسپورٹ کا ’’روٹ پرمٹ‘‘ اپنے نام لے لیتے ہیں اورآج کل حکومتیں سیاسی رشوت کے طور پر ایسی نوازشات کرتی رہتی ہیں اورپھر یہ لوگ ان ’’لائسنسوں‘‘ یا ’’پرمٹوں‘‘ کو بالترتیب پیشہ ور تاجروں یا ٹرانسپورٹروں کو بیچ دیتے ہیں ایسی بیع شرعاً جائز ہے یانہیں؟
جواب : اگر یہ لائسنس یا پرمٹ کسی خاص آدمی کے نام پر جاری کئے گئے ہیں اورقابل منتقلی نہیںہیں، توان کا دوسرے شخص کو فروخت کرنا شرعاً ناجائز ہے ، کیونکہ یہ جھوٹ اوردھوکا دہی پر مبنی ہے ، لیکن اگر یہ لائسنس یا پرمٹ کسی خاص شخص کے نام پر نہیں ہے بلکہ ان کی حیثیت ایک ایسی دستاویز کی ہے کہ جو اس کا حامل ہو، اس کے ذریعے مال بیرون ملک سے درآمد کرسکتاہے یا ٹرانسپورٹ متعلقہ روٹوں پر چلا سکتاہے توپھر ان کی حیثیت ڈاک کے ٹکٹوں کی سی ہوگی اوران کی بیع جائز ہے ۔
{فلیٹ اور دُوکان کی پگڑی}
سوال: ہمارے ملک کے بڑے شہروں اورتجارتی مراکز میں یہ طریقۂ کارعام ہے کہ فلیٹ اوردکانیں کرائے پر دی جاتی ہیں، کرایہ اگرچہ معمولی ہوتاہے لیکن بھاری رقم بطور پگڑی وصول کی جاتی ہے اورایک کرایہ دار جب فلیٹ یا دکان دوسرے کرایہ دار کو منتقل کرتاہے اورقبضہ دیتاہے توپگڑی وصول کرتاہے ۔ موقع ومحل کے اعتبار سے پگڑی کی شرح مقرر ہوتی ہے ۔کیا یہ پگڑی کا لین دین شرعاً جائز ہے ؟
جواب: چونکہ قبضہ کوئی حسی یا عین چیز نہیں ہے، اس لئے یہ بیع باطل ہے ۔ بعض لوگوں نے اس کے جواز کا یہ حل تجویز کیا ہے کہ دکان اورفلیٹ میںکچھ چیزیں اورقسم فرنیچر وسامان وغیرہ رکھ دی جائیں اور پگڑی کی مالیت کے برابر ان کی قیمت مقرر کرکے لی جائے ۔ گویا یہ ’’اونٹ کے گلے میںبلی‘‘ والی بات ہے ۔ لیکن ظاہر ہے کہ فقہی یا قانونی حیلہ اوربات ہے اورخداوند علیم وخبیر کے سامنے سرخروہونا اور بات ہے ، وہ ظاہر وباطن اورنیتوں کا حال جانتاہے ۔
{ شرعاً منافع کی زیادہ سے زیادہ مقدار کیا ہے؟}
سوال : شرعاً منافع کی زیادہ سے زیادہ مقدار کیا ہے ؟
جواب: (۱) بنیادی طور پر بیع وشراء اورکاروبار کا مقصد نفع کا حصول ہے ۔ شرح منافع کی کمی بیشی کا مدار محض کسی کی خواہش پر نہیں بلکہ حالات اورطلب ورسد (Demand & Supply) کے معاشی اصولوں پر ہے ۔ شریعت نے کم از کم یا زیادہ سے زیادہ منافع کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی ۔ بس اتنا ضرور ملحوظ رہے کہ زیادہ سے زیادہ حصول نفع اور کثرت مال کی خواہش انسان کو سنگدل اورشقی القلب نہ بنادے، کسی کی مجبوری کاناجائز فائدہ نہ اٹھائے ۔ اسی لئے بیع وشراء کی وہ صورتیں جو استحصال کا سبب بنتی ہیں، شرعاً ممنوع ہیں۔ مثلاً احتکار (Hoarding)یعنی مال کی طلب کے باوجود اسے جمع کئے رکھنا اورمارکیٹ میں سپلائی نہ کرنا، محض اس لئے ذخیرہ اندوزی کرنا کہ مال کی طلب بڑھے اورلوگ بامجبوریٔ تجارت فطری اصولوں کے برعکس زیادہ سے زیادہ نفع دینے پر مجبور ہوجائیں ۔اسی طرح حدیث پاک میں ’’تلقی الجلب‘‘ کو بھی منع فرمایا، یعنی یہ کہ کوئی شخص مارکیٹ تک پہنچنے سے پہلے کھیت، کھلیان ، باغات میں یا گلے بانوں سے وہیں پر جاکر اس لئے مال خریدے کہ لاعلمی اورناتجربہ کاری کے سبب ایک جانب انہیں نقصان پہنچائے اور دوسری جانب شہری آبادی پر نہایت مہنگے داموں بیچے ، اوراگر کوئی نیک دل خداترس تاجر زیادہ منافع ملنے کے واضح امکان کے باوجود قناعت اورانسانیت کامظاہرہ کرتے ہوئے رضا کارانہ طورپر اپنے لئے ایک کم سے کم مقدار نفع مقرر کردیتاہے ، خواہ مارکیٹ کارجحان زیادہ ہی کیوں نہ ہوتوایسے تاجروں کے بارے میں ارشاد رسول ﷺہے ’’قیامت کے دن دیانت دار ، صداقت شعار تاجر کا حشر انبیاء وصالحین کے ساتھ ہوگا۔ ‘‘
{انعامی بانڈز پر انعام کی رقم لینا جائز ہے}
سوال: کیا انعامی بانڈز کا لین دین اوراس پر انعام کی رقم کالینا جائز ہے ؟
جواب: انعامی بانڈز حکومتِ پاکستان جاری کرتی ہے ، شیڈولڈ کمرشل بینکوں یا قومی بچت کے مراکز کے ذریعے درج قیمت پر انہیں فروخت کرتی ہے اوراسی قیمت پر خریدتی ہے ، اس میں کوئی رقم ڈوبتی ہے نہ ایسا کوئی خطرہ اس میں ہے اورنہ ہی اسے اس پر کوئی طے شدہ زائد رقم ملتی ہے ۔ ان بانڈز کااس طرح لین دین بغیر کسی شرعی قباحت کے جائز ہے اوراب سپریم کورٹ آف پاکستان کی شریعت اپیلٹ بنچ بھی اسے جائز قرار دے چکی ہے ۔ جن علماء نے اس کے عدم جواز کا فتویٰ دیا تھا ہمیں معلوم نہیں کہ وہ اب بھی اپنے فتویٰ پر قائم ہیں یا رجوع کرچکے ہیں۔ تاہم انہوں نے جو عدم جواز کی بنیادقائم کی ، وہ ان مفروضوں پر تھی کہ یہ قرض ہے جو بینک عوام سے لیتے ہیں اوراس کا سود سب پر مساوی تقسیم کرنے کے بجائے چند افراد کو انعام کی شکل میں دے دیتے ہیں اوران کے نزدیک چونکہ سود کی مجموعی رقم چند افراد کو مل جاتی ہے اور باقی محروم رہتے ہیں لہٰذا یہ قمار بھی ہے ، لیکن یہ سب مفروضے غلط ہیں ، کیونکہ یہ قرض نہیں ہے بلکہ خریدو فروخت ہے ، قرض کی واپسی کے لئے مدت متعین ہوتی ہے ، انعامی بانڈ میںکسی مدت کا تعین نہیں ہے بلکہ بانڈ کا حامل جب چاہے اسے حکومت کو فروخت کرکے اپنی پوری رقم لے سکتا ہے ۔ ان بانڈز کا اجراء حکومت پاکستان کرتی ہے ، بینک نہیں کرتے ، وہ صرف ان کی خرید وفروخت کے لئے ایجنٹ کاکام کرتے ہیں۔ اس میںکوئی سودی معاہدہ بھی نہیں ہے۔
{کروڑپتی ، مالا مال اور پرائز بانڈ کی اسکیمیں}
سوال : بینکوں کی کروڑپتی اسکیم ، مالا مال اسکیم اورپرائزبانڈ پر انعام کا کیاحکم ہے ؟
جواب: بینکوں کا سارا کاروبار سود پر قائم ہے ، کروڑپتی اسکیم ، مالا مال اسکیم یااس طرح کی اور ترغیبی اسکیمیں اور ان سے ملنے والی رقم ناجائز ہیں ، کیونکہ یہ حرام میں معاونت کرتی ہیں البتہ ’’پرائز بونڈ‘‘ کی مساوی قیمت پر ، یعنی بانڈ پر درج قیمت پر خریدوفروخت جائز ہے اوران پر ملنے والا انعام بھی جائز ہے ، علمائے اہلسنّت اسے پہلے بھی جائز قرار دیتے تھے اب ’’سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ‘‘ نے بھی اس کے جواز کافیصلہ صادر کردیا ہے البتہ ’’پرائز بانڈز ‘‘کی پرچیوں کا کاروبار ناجائز اور حرام ہے ۔
{انعامی بانڈز کی پرچیوں کاکاروبار کرنا کیسا ہے ؟}
سوال : (۱) مجھے ایک آدمی نے کچھ رقم دی ہے اورکہا کہ میرے پاس خرچہ ہوجائے گا تم اپنے پاس رکھو۔ میں نے رکھ لی میں نے وہ رقم اپنے کاروبار میںلگالی اوراس بندہ کو میں ماہانہ کچھ نہ کچھ خرچ اخراجات کے لئے دیتاہوں ، اس پر کچھ لوگ بولتے ہیں یہ سود ہے ، آپ فرمائیں یہ کیسا ہے ؟
(۲) جناب عالی ! میں پرائز بانڈ کی پرچیوں کاکام کرتاہوں اس کاروبار میںنفع و نقصان دونوں ہوتے ہیں یہ کاروبار کیسا ہے جائز ہے یا ناجائز؟
(۳) پرائز بانڈز رکھنا اوراس پر جو انعام ملتاہے ، اس کا کیا حکم ہے ؟ اس کاکاروبار کرسکتے ہیں یانہیں ؟
جواب: (۱) (الف) کسی بھی رقم پر ، جسے کاروبار میں لگایا گیا ہو یا بطور قرض لیاگیا ہو، طے شدہ شرح کے مطابق ماہانہ مقرر ہ رقم دینا اور لینا سودی لین دین ہے اور شرعاً حرام ہے ، البتہ اگر رقم شرعی مضاربت کے اصول پر کاروبار کے لئے دی گئی ہے ۔ نفع میں شرح مناسب سے کرلیا گیا ہو اورخدانخواستہ بصورت نقصان ، اس کی ذمہ داری قبول کی جائے توجائز ہے ۔
(ب) اگر رقم بطور امانت وحفاظت رکھنے کے لئے دی ہے توامین کااس میں تصرف کرنا اور استعمال میںلانا جائز نہیں ہے ورنہ بصورت اتلاف اس پر ضمان ہوگا۔
(۲) انعامی بانڈ کی پرچیوں کاکاروبار کرنا ناجائز اورحرام ہے ۔ کیونکہ ایسے ’’انعامی بانڈز‘‘ کا حامل ، بانڈز اپنی ملکیت اورقبضے میں رکھتا ہے اورایک شخص ایک مخصوص رقم کے عوض ’’انعامی بانڈز‘‘ کے کچھ نمبر زیاسیر یز لکھ دیتاہے اورطے یہ ہوتاہے کہ اگر اس پرچی پر درج سیریز میں سے کسی خاص نمبر پر انعام نکل آیا توبانڈز کا حامل اس پرچی کے خریدار کو انعام کی پوری رقم دے گا، یہ اس لئے حرام ہے کہ اس میں پرچی کے عوض خریدار کو بانڈز نہیں ملتے اوران نمبروں پرانعام نہ نکلنے کی صورت میں خریدار کی رقم ڈوب جاتی ہے ، لہٰذا یہ قمار کی ایک شکل ہے ۔
{کاروباری اداروں کی انعامی اسکیمیں}
سوال : آج کل عموماً بہت سے صنعتی اورکاروباری ادارے اپنی مصنوعات کی فروخت میں اضافے کے لئے انعامی اسکیموں کااعلان کرتے ہیں ۔ کیا شرعاً جائز ہیں؟
جواب : مصنوعات کی فروخت میں ترغیب اوراضافے کے لئے انعامی اسکیمیں جائز ہیں ، بشرطیکہ متعلقہ کمپنی دیانت داری سے انعام کی رقم ادا کرے ، ورنہ اس کے مالکان جھوٹ اوردھوکہ دہی کے مرتکب اورگناہ گارہوں گے اوراس حیلے سے حاصل کردہ مال میں ان کے لئے خیر اور برکت نہیںہوگی ۔
وہ انعام اپنی جانب سے یا اپنے منافع میں سے ادا کریں ، انعامی رقم کی کمی پورا کرنے کے لئے مال کی کوالٹی یامقررہ مقدار میں کمی نہ کریں ، ورنہ وہ خیانت کے مرتکب ہوں گے ۔
ایسا بھی نہ ہوکہ جس نمبر پر انعام نکالنا مقصود ہو، اسے کمپیوٹر میںپہلے سے فیڈ کردیا جائے اوراسے مارکیٹ میں سپلائی کرنے کے بجائے اپنے پاس رکھ لیا جائے یا اپنے کسی من پسند آدمی کو دے دیا جائے ، یہ بھی خیانت اورفراڈ ہے ۔یایہ کہ انعام کے لئے کسی مخصوص نمبر کو کمپیوٹر میں فیڈ کرنے کے بعد اسے تلف کردیا جائے تاکہ اس کا کوئی دعویدار ہی سامنے نہ آئے۔ یہ بھی جھوٹ ، فریب اورخیانت کے زمرے میں آئے گا اورایسے لوگ دنیا میں روحانی خیرو برکت سے محروم رہیں گے اوراخروی عذاب کے مستحق ہوں گے ۔
ہاں،اگر کوئی ترغیبی انعامی اسکیم ان معائب یا ان جیسے دیگر مفاسد سے پاک ہے ، اس میں ملاوٹ، مقدار میںکمی ، جھوٹ، خیانت اور فریب کاشائبہ نہیں ہے توشرعاً جائز ہے ۔
{قومی بچت اسکیمیں سود یا منافع}
سوال : قومی بچت اسکیموں کے ذریعے ملنے والی رقم کی شرعی حیثیت کیاہے ۔ کیا چیف ایگزیکٹیو جنرل پرویز مشرف سود کا خاتمہ کردیں گے ؟
جواب : قومی بچت اسکیموں پر منافع کے نام سے ملنے والی رقم سود ہے ۔ باقی رہا یہ سوال کہ چیف ایگزیکٹیو سود کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں یانہیں یااس میںکامیاب ہوسکیں گے یا نہیں ، توان کے عزائم اورپروگرام کا مجھے علم نہیں ہے ، نہ میں اس پوزیشن میں ہوں کہ ان سے رابطہ کرکے آپ کو آگاہ کرسکوں۔ہوسکے توآپ اس موضوع پر ان سے براہِ راست خط و کتابت کریں یا کسی ذمے دار سرکاری شخصیت سے رابطہ کریں۔
{بینک کی ملازمت}
سوال : (۱) کیا ازروئے شریعت بینک کی ملازمت حرام ہے ؟ (ب) کیا بیوٹی پارلر کا ، کاروبار اوراس کی آمدنی شرعاً جائز ہے ؟
جواب: (۱)ہمارے ہاں بینکوں میں چونکہ سارا کاروبار سودی ہے ، اس لئے اس کی ملازمت شرعاً ناجائز ہے ، کیونکہ یہ حرام میںمعاونت ہے ۔ البتہ جس شخص کے پاس گزر بسر اوراپنی اوراپنے زیر کفالت افراد کی بنیادی ضروریات کے لئے کوئی حلال ذریعہ روزی نہ ہوتو دلی کراہت اورناگواری کے ساتھ ملازمت کرے اوررزق حلال کے لئے جدوجہد کرتارہے ، جب روزی کا حلال ذریعہ مل جائے تواسے فوراً چھوڑ دے اوراللہ تعالیٰ پر توکل کرے ۔
(ب) ’’بیوٹی پارلر‘‘ میں اگر عورتیں ہی عورتوں کی تزئین اورسنگھار کاکام کرتی ہیں اور غیر مردوں کا کوئی عمل دخل نہ ہو تویہ جائز ہے ، بشرطیکہ عورتوں سے عورتوں کے ستر کے معاملے میں حدود شرع کی پاس داری ہو، البتہ عورتوں کا بالوں کی تراش اس طرح کرنا کہ مردوں سے مشابہت ہوتویہ ناجائز ہے اور ایسی عورتوں پر حضور ﷺنے لعنت فرمائی ہے ۔
{حصص(Shares)کا کاروبار کرنا کیسا ہے ؟}
سوال : حصص(Shares)کا کاروبار کرنا کیساہے ؟
جواب: حصص(Shares)کا روبار کرنا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ حصص(Shares)شیئرز ہولڈر کی کسی کاروبار میں حصّہ داری کانام ہے اورجو سر ٹیفکیٹ شیئرز ہولڈر کے پاس ہوتی ہے وہ اس کے حصّہ داری یا شراکت داری کی سر ٹیفکیٹ ہوتی ہے کوئی قابل فروخت شے نہیں ہوتی ، ہاں اگر منافع کے بغیر اس کوکسی کے حوالے کرکے قانونی طریقہ سے اپنی پارٹنر شپ سے علیٰحدہ ہوکر کسی دوسرے کو پارٹنر بنادے تواس میں حرج نہیں ۔
سوال : کیا ہر قسم کی کمپنی کے حصص خریدنا ناجائز ہے ؟
جواب : خصوصی طور پر ایسی کمپنیاں جن کا مقصد ہی حرام کاروبار ہو یعنی حرام اشیاء کی تیاری ، یا خرید وفروخت یا خرید وفروخت میں مدد یا سود لین دین یابعض معاملات میں سودی لین دین اورحصص خریدنے والے کو اس کا علم ہو کہ کمپنی سودی لین دین میںملوث ہے مسلمانوں کے لئے ایسے حصص خریدنا بالکل ناجائز ہیں ۔ چوں کہ ایسی کمپنیوں کے ڈائریکٹر اورکارندے حصّہ داروں کے نائب ہوتے ہی اورایسے کاموں کے لئے نائب کرنا جائز نہیں۔
سوال : کیا غیر سودی کام کرنے والی کمپنیوں کے حصص بھی نہیں خریدے جاسکتے؟
جواب : اگر کوئی کمپنی اپنے قیام کے وقت شیئرز مارکیٹ میں لاتی ہے اوروہ کاروبار کے اعتبار سے حرام بھی نہیں نہ کسی حرام کی معاونت کرتی ہے توا س کے ابتدائی حصص خریدنا دراصل اس کے اصل زر میں حصّہ دار بننا ہے جو شرعاً جائز ہے مگر اس میں شرط یہ ہے کہ اصل قیمت پر ہی ان حصص کی خرید و فروخت ہو۔
سوال : کیا حصص(Shares)کی فروخت قبل از وقت یعنی مالک بننے سے قبل کی جاسکتی ہے ؟
جواب : شیئرز کے کاروبار میں اہم مسئلہ حصص کی ملکیت کا ہے۔ شیئرز کی خریداری کے بعد شیئرز کی ملکیت خریدار کے نام ہونے میں دس دن تقریباً لگ جاتے ہیں ۔ فوری طور پر اگر رقم اد اکرکے
سر ٹیفکیٹ مل بھی جائے توا س کے نام پر نہیں ہوتی حالانکہ یہ رسیدیں ہیں حصّہ نہیں۔اوررسیدوں کی خرید وفروخت ویسے ہی کوئی معنی نہیں رکھتی اوراصل جو حصّہ ہے وہ کمپنی میں ہوتاہے اس پر قبضہ عملاً ناممکن ہے البتہ حکمی طور پر کہ اگر حصص کے خریدار پر کمپنی کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہوں توآگے فروخت کرسکتاہے ۔مگر محتاط طریقہ ملکیت کی وضاحت کے بعد فروخت کرنا ہے ۔
سوال: حصص مارکیٹ میں ’’بدلے کاکام ‘‘ ہوتاہے اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟
جواب: ’’بدلے کاکام‘‘ سے مراد اسٹاک ایکسچینج کی ایسی اصطلاح ہے جس میںکوئی حصص(Shares)کا مالک دوسرے شخص کے ہاتھ اپنے حصص کو اس طرح فروخت کرتاہے کہ خریدار نہ اس کا مالک بنتا ہے نہ آگے بیچ سکتاہے البتہ وہ بطور گروی رکھے ہوتے ہیں اورجب بیچنے والا اس کو مقررہ میعاد پر دوبارہ اُس سے اُسی رقم سے زائد رقم دے کر خرید لیتاہے یعنی اپنے حصص 10000/=کے بدلے کے کام کرنے والوں کے پاس رکھوائے اور20دن کی میعاد تک وہ دس ہزار استعمال کرتاہے پھر مقررہ مدت (مثلاً20دن)کے بعد دوبارہ اس سے 11000/=میں دس ہزار کی ملکیت جو گروی رکھی تھی خرید لیتا ہے ۔
یہ کام شرعی اعتبار سے اس لئے درست نہیں کہ اس میں خرید وفروخت کی نیت نہیں بلکہ وقتی طورپر ضرورت پوری کرنے کے لئے فوری رقم حاصل کرنا مقصود ہے اوراسی سے بناوٹی سود کی شکل بنتی ہے جو اسلامی اصولوں کے خلاف ہے اوریہ جائز نہیں ۔یک طرفہ کامل منافع اوریک طرفہ کامل نقصان کی صورت ہے ۔