محمد عبدالوہاب کا مختصر تعارف
محمد عبدالوہاب کا مختصر تعارف
شیخ نجدی کے بھائی
شیخ نجدی کے بھائی سلیمان بن عبد الوہاب متوفی 1208 ھ اپنے والد کے مسلک کے حامل تھے اور اسلاف کے معمولات کو عقیدت سے لگائے ہوئے تھے ، ان کا تعارف کراتے ہوئے طنطناوی نے لکھا ہے :
وکان لعبد الوھاب ولد ان محمد و سلیمان اما سلیمان فکان عالما فقیھا ، وقد خلف اباہ فی قضاء حریملۃ وکان لہ ولدان عبد اللہ و عبد العزیز وکانا فی الورع والعبادۃ ایۃ من الایات ۔
( محمد بن عبد الوہاب نجدی مصنف شیخ علی طنطناوی جوہری مصری متوفی 1335 ھ صفحہ 13 )
ترجمہ : شیخ عبدالوہاب کے دو بیٹے تھے محمد اور سلیمان ، شیخ سلیمان بہت بڑے عالم اور فقیہہ تھے اور حریملہ میں اپنے والد کے بعد قاضی مقرر ہوئے ، ان کے دو لڑکے تھے عبد اللہ اور عبد العزیز وہ بھی عالم تھے اور عبادت اور تقوٰی میں اللہ تعالٰی کی آیات میں سے ایک آیت تھے ۔
شیخ سلیمان بن عبد الوہاب تمام زندگی شیخ نجدی سے عقائد کی جنگ لڑتے رہے ۔
(بحوالہ الدررالسنیۃ مصنف سید احمد بن زینی دحلان مکی شافعی متوفی 1304 ھ صفحہ 47 )
انہوں نے شیخ نجدی کے عقائد کے رَد میں ایک انتہائی مفید اور مدلل رسالہ الصواعق الالٰہیہ تصنیف کیا جس کو عوام و خواص میں انتہائی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ، موجودہ دور کے نجدی علماء کہتے ہیں کہ شیخ سلیمان نے اخیر عمر میں اپنے عقیدہ سے رجوع کرکے شیخ نجدی سے اتفاق کرلیا تھا لیکن یہ دعوٰی بلا دلیل ہے ، اس دعوٰی کے ثبوت پر نہ کوئی تاریخی شھادت ہے اور نہ شیخ سلیمان رحمۃ اللہ علیہ نے الصواعق الالٰہیہ کے بعد کوئی ایسی کتاب لکھی جس نے الصواعق الالٰہیہ میں مذکور دلائل پر خط نسخ کھینچ دیاہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد عبدالوہاب کا مختصر تعارف
جناب شوکت صدیقی 14 تا 21 مئی 1976ء کے الفتح میں لکھتے ہیں۔ اہلسنت اور وہابیوں کے اختلاف لگ بھگ ڈھائی سو سال پرانے ہیں۔ ان اختلافات کا آغاز تحریک وہابیت سے ہوا جس کے بانی محمد ابن عبدالوہاب نجدی تھے وہ 1703ء میں اعلینہ کے مقام پر پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم بصرہ اور مدینہ منورہ میں حاصل کی عربوں نے اس وقت کے مسلم معاشرہ کی اصلاح کے لئے آواز بلند کی اور اتحاد اور اصلاح کے نام پر دل آزاری اور گستاخی کی حد تک سخت تنقید کی اور ان کے پیرو نے مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا محمد ابن عبدالوہاب نجدی نے جوش خطابت میں احادیث کو “خرافات کا پلندہ“ بتایا اپنے رسالوں اور اپنی تصانیف میں اسوہ رسول کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش کی اور برملا ایسی باتیں کہیں جن سے تکفیر کی بُو آتی تھی چنانچہ وہ حکام کی خفگی اور عتاب کے مورد بنے انہیں جلاد وطن کر دیا گیا آخر انہیں “داریہ نجد“ کے ہمسایہ حکمران امیر محمد ابن مسعود کے دربار میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ رفتہ رفتہ وہ امیر سعود کی حکومت کے دینی پیشوا اور نگران بن گئے۔ دونوں نے مل کر ترکوں کے خلاف جنگ کی اور 1765ء تک نجد کا ایک بڑا حصہ فتح کر لیا اس سال امیر محمد مسعود کا انتقال ہوا اور ان کا بیٹا عبدالعزیز ان کا جانشین ہوا امیر عبدالعزیز کے عہد میں نظام حکومت براہ راست محمد ابن عبدالوہاب نجدی کی نگرانی میں آگیا 1792ء میں ابن عبدالوہاب کا انتقال ہوا مگر جب تک وہ زندہ رہے نجد کی حکومت اور ان کے حکمران ان کے زیر نگرانی رہے انہوں نے نجد کے لوگوں کو اپنے عقائد میں اس طرح ڈھالا کہ مسلمانوں میں ایک نیا فرقہ وجود میں آیا جو وہابی کہلایا ابن عبدالوہاب کے انتقال کے بعد بھی وہابیوں کی سلطنت کی توسیع کا سلسلہ جاری رہا حتٰی کہ پورا نجد ان کے قبضے میں آ گیا وہابیوں نے اپنے عقائد کی توسیع و ترویج میں انتہا پسندی سے کام لیا انہوں نے مسلمانوں پر ہر قسم کا ظلم و تشدد ڈھایا حتٰی کہ دیوبند کے ممتاز عالم مولانا حسین احمد مدنی کو بھی جو اپنے عقائد کے اعتبار سے وہابیوں سے قریب نظر آتے تھے وہابیوں کے جورستم کا اعتراف کرتے ہوئے محمد ابن عبدالوہاب نجدی اور اس کے مقلدین کے بارے میں یہ کہنا پڑا۔
صاحبو ! محمد ابن عبدالوہاب نجدی ابتداً تیرہویں صدی ہجری میں نجد سے ظاہر ہوا اور چونکہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا اس لئے اس نے اہلسنت و الجماعت سے قتل و قتال کیا ان کے اموال کو غنیمت کا مال اور حلال سمجھا گیا ان کے قتل کرنے کو باعث ثواب و رحمت شمار کرتا رہا اہل عرب کو خصوصاً اہل حجاز کو عموماً اس نے تکلیف شاقہ پہنچائیں سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت گستاخی اور بے ادبی کے الفاظ استعمال کئے بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کی تکلیف شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ چھوڑنا پڑا۔ ہزاروں آدمی اس کے اور اس کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے دراصل وہ ایک ظالم، باغی، خونخوار اور فاسق شخص تھا۔ (الشہاب الثاقب ص 42)
یہ عبارت حسین احمد مدنی کی ہے تو پھر یہی بات حسین احمد مدنی کے کہنے کے باوجود محترم و مقدس رہے آپ کے نزدیک صاحب کمال قرار دئیے گئے اور جب یہی لفظ بلکہ اس سے بھی کمتر ہم کہتے ہیں تو دیوبند کا سارا خانوادہ کیوں برہم اور سیخ پا ہو جاتا ہے۔ (اس کا جواب عوام دیوبندیوں سے لینا چاہئیے۔)
مکہ و مدینہ پر قبضہ
مکہ معظمہ پر قبضہ کے کچھ ہی عرصہ بعد امیر عبدالعزیز کو ایک ایرانی نے قتل کر دیا اور اس کا بیٹا سعود ابن عبدالعزیز اس کا جانشین ہوا۔ 1806ء میں اس نے مکہ اور مدینہ پر جو وہابیوں کے ہاتھوں سے نکل گئے تھے ایک بار پھر ترکوں سے چھین کر قبضہ کرلیا امیر سعود نے اس کے بعد حجاز میں اپنی طاقت مستحکم کی اور وہابیوں کے دائرہ اثر کو شام اور عراق اور خلیج تک وسیع کرنے کی کوشش کی۔ نجدی وہابیوں کو اپنی اس جدوجہد میں جو خلافت عثمانیہ اور عرب ممالک پر تسلط کے خلاف تھی انگریزوں کی پشت پناہی حاصل تھی انگریز اور دوسری یورپی طاقتیں سلطنت عثمانیہ کی یورپی عرب اور افریقی مقبوضات پر عرصہ سے دانت لگانے اور قبضہ کرنے کی سخت کوشش میں تھے کہ ترکوں کو مذہبی خلفشار میں مبتلا کرکے فائدہ اٹھایا جائے وہابیوں نے ان کے اس منصوبے کو کامیاب بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
وہابیوں نجدیوں کا قبضہ کیسا
تاریخ شاہد ہے کہ نورالدین و صلاح الدین ایوبی رحمہااللہ کے بعد ترکوں نے انگریزوں اور دوسرے دشمنان اسلام ترک کی قوت و طاقت سے لرزہ براندام تھے لیکن ترکوں کو بہر جانب جنگوں میں گھیر رکھا تھا ترک کی انہی دشمنوں میں مصروفیت سے وہابیوں نے فائدہ اٹھا کر حرمین طیبین پر قبضہ کرلیا۔ مگر ترک حکمران جلد ہی وہابیوں اور ان کے پشت پناہ انگریزوں کے بڑھتے ہوئے سیاسی خطرے سے باخبر ہوگئے اور انہوں نے وہابیوں کی سرکوبی کے لئے مصر کے محمد علی پاشا سے مدد مانگی محمد علی پاشا نے 1816ء میں اپنے بیٹے ابراہیم پاشا کی زیر کمان ایک فوجی مہم وہابیوں کے خلاف روانہ کی اس وقت امیر سعود کا بیٹا ان کے انتقال کے بعد برسر اقتدار آیا تھا 1818ء میں ابراہیم پاشا نے اسے شکست دی اور گرفتار کرکے قسطنطینہ بھیج دیا جہاں اسے قتل کر دیا گیا مصری فوجوں نے وہابیوں کا دارالحکومت لوٹ لیا اور اسے آگ لگادی اس طرح وہابیوں کی سیاسی قوت کا قلع قمع کر دیا گیا۔ مگر پہلی عالمی جنگ کے دوران وہابیوں نے خلافت عثمانیہ کے اقتدار کو حجاز اور دوسرے ممالک سے ختم کرنے کے لئے ایک بار پھر انگریزوں کی امداد و حمایت سے اپنی فہم کا آغاز کیا 1918ء میں ترکوں کی شکست کے بعد وہ دوبارہ برسر اقتدار آگئے مگر ان کی سلطنت آزاد نہ تھی ان کی حیثیت انگریزوں کی نو آبادی سے زیادہ نہ تھی۔
انگریز کی تمنا
“دنیائے اسلام پر دو بڑے کٹھن وقت آئے۔ ایک وہ جب تاتاریوں نے مسلم ممالک کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک روند ڈالا دوسرا جب پہلی عالمی جنگ کے بعد یورپی اقوام نے سارے مسلم ممالک پر تسلط جمالیا تھا اس جنگ میں جرمن اور ترک شکست کھا گئے تھے ان دنوں برطانیہ بہت طاقتور تھا آج امریکہ کو بھی وہ اقتدار حاصل نہیں: برطانوی وزیر اعظم اس بات پر تُلا ہوا تھا کہ ترکی نام کا کوئی ملک روئے زمین پر باقی نہ رہے بظاہر اس کی خواہش کے راستہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی مگر اللہ تعالٰی کی مدد سے اتاترک نے موجودہ ترکی بچا لیا۔ (نوائے وقت 24 جولائی 1989ء )
انگریزوں کا پروردہ
انگریز کی آرزو اور ترکوں کی شکست محمد بن عبدالوہاب کی تحریک وہابیت کا دوسرا نام ہے اور یہ بدبخت انسان ازلی شقاوت سے باپ حضرت مولانا عبدالوہاب رحمہ اللہ تعالٰی کی بد دعاء کا نتیجہ ہے اس کی ابتدائی تحریک میں وہ زندہ تھے اور وہ خود آبائی سنی مسلک تھے آپ کا تمام خاندان اسلاف صالحین کے عقائد و معمولات کے پابند تھے صرف یہی ایک بدبخت انسان نہ صرف ان کے مسلک کے خلاف تھا بلکہ تحریک چلا کر رسوائے زمانہ ہوا بالآخر ایک آپ اس کی شرارت سے تنگ ہوکر اپنے اصل وطن عینیہ کی سکونت ترک کرکے اس علاقہ کے ایک دوسرے شہر حریملا میں سکونت اختیار کر لی تھی کیونکہ عینیہ شیخ (نجدی) کی تحریک کا مرکز بن گیا تھا۔ اور وہ یہاں پر 1153ء میں وفات پاگئے۔ (تاریخ نجد و حجاز ص 26)
نبوی دعاء
علامہ عینی شارح بخاری و علامہ قسطلانی و مُلا علی قاری و دیگر محققین نے زور دار دلائل سے ثابت کیا کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ہر دعا مستجاب ہے اور احادیث مبارکہ شاہد ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو کفار و مشرکین نے شکست وغیرہ کی مجلسیں مشارہ قائم کیں ان میں ابلیس شیخ نجدی کی صورت میں شامل ہوتا آخر اس میں کچھ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد بن عبدالوہاب نجدی کا اصلی چہرہ
یہ ازلی شقی نجد کے اسی علاقہ میں پیدا ہوا جس علاقہ کا مسیلمۃ الکذاب تھا اور تعلیم بھی ان اساتذہ پر اثر انداز ہوئی جو اب تیمیہ کے عاشق زار تھے یعنی ابن سلیف اور حیات سندھی علی طلنطاوی وہبی نجدی اس کے متعلق لکھتا ہے۔
ان الشیخ کان یغلو فی الانکار علٰی فاعلھا حتی یصل الٰی تکفیرھم و تطبیق الایات التی نزلت فی المشرکین علیھم وقد بنہ محمد الٰی ما یصنع بعض زور اقبر الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقال لہ اترٰی ھٰولاء لان ھؤلاء متبرکاً ھم فیہ وباطل ما کانوا یعملون ویظھی ان ما انکروہ علی ابن عبدالوہاب من تکفیر الناس کان اللہ من آثار ھذا الشیخ الھتدی محمد عبدالوہاب (کی تاریخ از طنطاوی ص 16، 17، تاریخ نجد و حجاز ص 35)
ہمفرے کے اعتراضات
یہ ایک انگریز حکومت کے جاسوس ہمفرے نامی کی آپ بیتی ہے (انگریری زبان میں) اب اردو میں بھی چھپ چکی ہے یہ جاسوس خود لکھتا ہے مجھے ترکوں کے خلاف جاسوسی کے لئے چھوٹی عمر میں بھیجا گیا وہاں مسلمان بن کر قرآن مجید اور اسلامی کتابیں ترکوں کے ایک بڑے معتمد علیہ عالم دین سے پڑھیں ترکوں کے مخالفین کی تاک میں رہا علماء میں محمد بن عبدالوہاب نجدی خوب انسان ملا اس سے دوستی جوڑی اور انگریز سربراہوں سے ملاقاتیں کرائیں انہوں نے اسے خوب تیار کیا اور ہر طرح کی تربیت کے بعد ترکوں کے خلاف استعمال کیا یہاں تک کہ وہ ترکوں کی شکست میں اسی تحریک وہابیت سے کامیاب ہوا گھر کی ایک اور تصدیق ملاحظہ ہو۔
انگلیڈ کی تصدیق
انگلینڈ (برطانیہ) سے شائع ہونے والا ماہنامہ دعوت الحق (اپریل) 1980ء میں ہے کہ حکومت ترکی کے ساتھ پاکستان کا گہرا تعلق رہا ہے 1014ء کی جنگ میں حالانکہ پاکستان نہیں بنا تھا یہ ہندوستان تھا اور برطانیہ کا غلام تھا لیکن پھر بھی مسلمانوں نے ترکی کا ساتھ دیا۔ یورپ و برطانیہ دونوں نے شریف حسین شاہ حسین جارڈن کے دارا کو بلا کر نجدی وہابی تحریک کی مدد کی ترکوں کو مکہ مدینہ سے نکال کر دم لیا۔ پانچ سو سال تک ترکوں نے تمام یورپ کے عیسائیوں کا مقابلہ کیا جب یورپ والے ترکوں کو فتح نہ کر سکے تو پھر مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا۔ مکہ مدینہ سے ترکوں کو نکالا اور وہابی بن کر ان کی مدد کرائی جب نجدی وہابیوں کی مدد کر چکے تو ترک عرب سے نکل گئے پھر ہندوستان میں نجدی وہابیوں کے خلاف ایک جماعت باندی کہ تم وہابیوں کے خلاف ایک جماعت بنا دی کہ تم وہابیوں کے خلاف بغاوت کرو مرزا غلام احمق قادیانی کو کھڑا کر دیا کہ تم تمام مسلمانوں کے خلاف بغاوت کرو، جنگ لڑو، نبوت کا دعوٰی کرو پوری پوری مدد مرزا قادیانی کی برطانیہ نے فرمائی، آج ترکی حکومت میں لڑائی جھگڑا ہو رہا ہے مارشل لاء لگایا ہوا ہے اس بڑے جھگڑے میں یورپ والوں کا ہاتھ ہے۔
پانچوں انگلیاں گھی میں
سب کو معلوم ہے کہ جس فرقہ کو انگریز بہادر کی سرپرستی نصیب ہوئی وہ عوام کی نظروں میں کتنا ذلیل و حقیر ہو وہ آسمان سے باتیں کرتا ہے اپنے ملک میں دیکھ لیجئے کہ قادیانی، وہابی، دیوبندی فرقے کیسے ترقی پذید ہوئے دور حاضرہ تک یہی کیفیت جاری و ساری ہے کہ جس فرقہ کو امریکہ یا کوئی دشمن ملک و ملت گلے لگا لیتا ہے وہ ملک میں کتنا جلدی چھا جاتا ہے یہی حالت محمد بن عبدالوہاب کی ہے اس کا ایک نام لیوا خود لکھتا ہے۔
شیخ الاسلام (محمد بن عبدالوہاب) کے تجدیدی مساعی کی روشنی میں اب بھی پورے زور و شور کے کام ہو رہا ہے کروڑوں روپیہ صرف کیا جا رہا ہے۔ (تاریخ نجدوحجاز ص52 ازعطار کی تصنیف ص 128 )
طوفان برپا
محمد بن عبدالوہاب انگریز کی نمکخواری میں ترکوں (اہلسنت) کے عقائد و معمولات کو شرک و بدعات کا نشانہ بنایا تو تمام عالم اسلام میں ایک طوفان برپا ہوگیا ہر طرف سے وہابیت پر لعنت لعنت کا غلغلہ سنائی دیا اس کے اپنے خاندان کے علاوہ ہزاروں علماء اسلام نے ہزاروں کی تعداد میں اس کے رَد میں کتابیں، رسالے لکھے لیکن کیا ہو سکتا تھا۔
جسے انگریز رکھے اسے کون چکھے
آج تک انگریز (امریکہ وغیرہ) کی سرپرستی میں جس طرح کا تحفظ نجدی حکومت کو حاصل ہے اسے عالم اسلام کا بچہ بچہ جانتا ہے۔
خوارج کا دوسرا نام وہابیت
اس کی تفصیل فقیر نے کتاب “ابلیس تا دیوبند“ میں لکھی ہے سردست امام شامی جن کے فتاوٰی ہمارے ملک (ہند و پاک) کے علاوہ ہر اسلامی ملک میں حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں وہ اپنی مشہور زمانہ تصنیف فتاوٰی شامی میں وہابیت اور بانیء وہابیت ابن عبدالوہاب نجدی اور اس کی ذریت کے متعلق فرماتے ہیں۔
کما وقع فی زماننا فی اتباع عبدالوہاب الذین حرجُو ومن مجد و تقلبوا علی الحرمین وکانوا ینتحلون مذھب الحنایا لکنھوا اعتقدوا انھوا المسلمون وان من خارج اعتقادھم مشرکون فاستباحوا بذالک قتل اھل السنۃ وقتل علماءھم حتی کسراللہ شوکنتھم وخرب بلادھم وظفر مبھم عساکر المسلمین عام ثلث و تلشین وماتین والف۔
جیسے کہ یہ لوگ نجد سے نکلے اور مکہ و مدینہ پر غلبہ کرلیا۔ اپنے آپ کو حنبلی کہلائے لیکن ان کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف ہم ہی مسلمان ہیں اور جو ہمارے عقائد کے خلاف ہے وہ مشرک ہیں اس لئے کہ انہوں نے اہلسنت و الجماعت کا قتل جائز سمجھا اور علماء اہلسنت کو قتل کیا یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے وہابیوں کی شوکت توڑ دی اور ان کے شہروں کو ویران کردیا اور اسلامی لشکروں کو ان پر فتح دی یہ 1233ھ کا واقعہ ہے۔
غیر مقلدین وہابی
(اپنے منہ میاں مٹھو بن کر یہ حضرات خود کو اہلحدیث بتاتے ہیں حالانکہ در حقیقت یہ لوگ بہت سی احادیث کے منکر ہیں فقیر نے کتاب شتر بے مہار میں لکھ دیا ہے یہ ایسے ہیں جیسے منکرین حدیث خود کو اہل قرآن بتاتے ہیں۔)
اسی خارجی اور خونخوار ظالم وہابی کے پیروکار ہی نہ صرف حرمین طیبین بلکہ پوری نجدی حکومت کی مساجد ادقاف میں امامت و خطابت سر انجام دیتے ہیں غیر مقلد وہابی اصولی لحاظ سے نجدی حکومت مشرک اور بدعتی ہے لیکن چونکہ محمد بن عبدالوہاب اور نجدی حکومت ترکوں سے جب برسر پیکار تھے تو ہند سے انہوں نے دست تعاون بڑھایا اسی لئے وہ یاری بشرط استواری کو نبھا رہے ہیں ورنہ ان کے فتاوٰی و عقائد کی روشنی میں نجدی حکومت مشرک اور بدعتی ہے اس لئے کہ نجدی حکومت مع تحریک وہابیت حنبلی ہیں نہ صرف زبانی جمع خرچ بلکہ اپنے تمام ملک میں عملاً حنبلیت (تقلید) پر زور دیتے ہیں اور ان کے بہت سے عملی امور ایسے ہیں جو بدعات ہی بدعات ہیں اور غیر مقلدین کے نزدیک بڑا مشرک اور بُرا بدعتی ہے۔
فیصلہ حبیب کبریا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
حدیث شریف میں ہے۔ ان رجلا ام قوما فبصق فی القبلۃ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ینظر قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حین فرغ لا یصلی لکم فاراد بعد ذلک ان یصلی لھم فمتعوہ واخبروہ بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فذکر ذالک لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نعم وحسبت انہ قال انک اذیت اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ (رواہ ابو داؤد ص 76 ج1)
اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے احمد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے روایت کی کہ ایک آدمی نے قوم کو جماعت کرائی اور قبلہ رُخ تھوک دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھ رہے تھے۔ جب فارغ ہوا تو آپ نے فرمایا اس کے بعد یہ شخص جماعت نہ کرائے اصحاب مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو منع کردیا اور اس شخص کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فیصلے سے متنبہ کردیا اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صورت حال عرض کی آپ نے فرمایا کہ تونے اللہ اور رسول کو اذیت تکلیف پہنچائی ہے۔
فائدہ :۔سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کے پرسار (عاشق) سے اپیل ہے کہ غور فرمائیں کہ صرف کعبہ مکرمہ کی طرف تھوکنے والے امام (صحابی) کو خود سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امامت سے ہٹا دیا بلکہ وہی امام دوبارہ امامت کی جراءت کرتا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اس کی امامت قبول نہیں کرتے۔ بتائیے اس امام کی نماز کس کھاتے میں جائے گی جو کعبہ کے آقا بلکہ کعبہ کے کعبہ حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گستاخ ہے اور وہ امام تو کعبہ کی سمت (جو مدینہ طیبہ سے تخمیناً تین سو میل دورہے) کو تھوکتا ہے تو امامت کے لائق نہیں یہاں تو کھلے بندوں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لاعلمی بے اختیار و دیگر بہت بُرے امور کا الزام لگاتا ہے اس کی امامت تم نے کس طرح برداشت کر رکھی ہے کیا بے غیرتی توسر نہیں ہوگی بے غیرت بنو یا غیرت مند اس سے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت میں کمی یا اضافہ نہ ہوگا البتہ یہ فیصلہ ابھی سے کرلیں کہ ایسے بے ادب گستاخ کے پیچھے تیری نماز برباد ہوگئی۔
امام نماز کو قتل کردیا
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک پیش امام ہمیشہ قراءت جہری میں سورۃ عبس و تولٰی کی تلاوت کرتا۔ مقتدیوں کی شکایت پر اسے طلب کیا گیا اور پوچھا کہ تم ہمیشہ یہی سورۃ تلاوت کیوں کرتے ہو۔ کہنے لگا، “مجھے خط آتا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھڑکا ہے۔“ اس پر اس کا سَر قلم کر دیا گیا۔
امام اسمٰعیل حنفی حقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں کہ “حضرت فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پتہ چلا کہ ایک امام ہمیشہ نماز میں اسی سورت (عبس و تولٰی) کی قراءت کرتا ہے تو آپ نے ایک آدمی بھیجا جس نے اس کا سر قلم کر دیا۔ چونکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبہ عالیہ کی تنقیص کے ارادے سے اس کی قراءت کیا کرتا کہ مقتدیوں کے دل میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کم ہو جائے اس لئے نگاہ فاروقی میں وہ مرتد تھا اور مرتد واجب القتل ہوتا ہے۔ (روح البیان سورۃ عبس پ30)
فائدہ :۔ کاش کوئی آج سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسا غیور بادشاہ یا حاکم وقت دُنیا میں پیدا ہوتا کہ ایسے گستاخ بے ادب ائمہ مساجد و مبلغین مُنہ پھٹ اور بے باک قسم کے خطیبوں پر تعزیرات فاروقی جاری فرمائے ورنہ کاغذی سزائیں تو ہم اپنے لیڈروں سے سُن سُن کر مایوس ہو چکے ہیں۔