سوال: اس حدیث کا کیا معنی ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں ہے

جواب:

اللہ تعالی نے محسن خان سلفی سے اس حدیث کا یوں ترجمہ کروایا:

مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ

ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوی ایسی چیز ایجاد کرتا ہے “جو ہمارے دین کے اصولوں سے ہم آہنگی نہیں رکھتی” تو وہ مردود ہے۔ (صحیح البخاری انگریزی ، ج 3، حدیث 861)

ہمارا بھی بدعت پر یہی نظریہ ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ جو بدعت شریعت کے اصولوں سے ہم اہنگی نہیں رکھتی تو صرف وہ مردود ہے لیکن دوسری نہیں۔

الحمد للہ تمام وہ بدعات حسنہ جو دین کے اصولوں سے ہم آہنگی رکھتی ہیں ان کو رد نہیں کیا جائے گا نا وہ مذموم ہوں گی۔

سلفی یہ حدیث پیش کرتے ہیں:

بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ زندگی ہے اور ( دین میں ) بد ترین کام وہ ہیں جو خود نکالے گئے ہوں اور ہر نیا نکالا ہوا کا م گمراہی ہے

(صحیح مسلم # 1885 آن لائن انگریزی ورزن)

اور سنن نسائی میں اضافہ ہے:۔۔۔اور ہر گمراہی جہنم میں ہے

سلفی اور متشدد لوگ ان احادیث کو استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ ہر بدعت بری ہے۔ اگر ہم ان احادیث کو ظاہر پر لیں تو قرآن و حدیث میں تضاد لازم آیے گا جو کے نا ممکن ہے۔ اس لیے عظیم علماء جیسے امام ابن حجر مکی رحمہ اللہ نے ان احادیث کے بارے کہا:

وفي الحديث “كل بدْعة ضلالة وكل ضلالة في النار” وهو محمول على المحرمة لا غي

ترجمہ: یہ جو حدیث میں مروی ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں ہے۔ یہ صرف حرام بدعات پر لاگو ہو گا (دوسری نہیں)

فتاوی حدیثیہ 1/109، طبع دار الفکر، بیروت، لبنان

اس حدیث کو دوسری حدیث سے سمجھا جائے گا جو کہتی ہے:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ ‏ “‏ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كَانَ لَهُ أَجْرُهَا وَمِثْلُ أُجُورِهِمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ سَنَّ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ وَمِثْلُ أَوْزَارِهِمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا ‏

ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا اور اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور عمل کرنے والوں کے برابر بھی اجر ملے گا، اور عمل کرنے والوں کے ثواب سے کچھ بھی کمی نہ ہو گی، اور جس نے کوئی غلط طریقہ جاری کیا، اور اس کے بعد اس پر لوگوں نے عمل کیا تو اس پر اس کا گناہ ہو گا، اور عمل کرنے والوں کے مثل بھی گناہ ہو گا، اس سے عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کچھ بھی کمی نہ ہو گی ۔

سنن ابن ماجہ # 207، سلفی دار السلام والوں نے اسے صحیح کہا۔ یہ حصہ مسلم شریف کی لمبی حدیث میں بھی موجود ہے:

اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے صحیح مسلم کے بہترین شارح امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

قوله صلى الله عليه وسلم : ( من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها ) إلى آخره ، فيه : الحث على الابتداء بالخيرات وسن السنن الحسنات ، والتحذير من اختراع الأباطيل والمستقبحات ، وسبب هذا الكلام في هذا الحديث أنه قال في أوله : ( فجاء رجل بصرة كادت كفه تعجز عنها ، فتتابع الناس ) وكان الفضل العظيم للبادي بهذا الخير ، والفاتح لباب هذا الإحسان . وفي هذا الحديث تخصيص قوله صلى الله عليه وسلم : كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة ، وأن المراد به المحدثات الباطلة والبدع المذمومة ، وقد سبق بيان هذا في كتاب صلاة الجمعة ، وذكرنا هناك أن البدع خمسة أقسام : واجبة ومندوبة ومحرمة ومكروهة ومباحة .

ترجمہ: ںبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان (جس شخص نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا اس کو اس کا اجر ملے گا) حدیث کے آخر تک۔ “اس حدیث میں اس بات پر زور ہے کہ (دین) میں اچھے کام جاری کرو۔۔۔اس حدیث سے دوسری حدیث کی تخصیص ہو جاتی ہے جس میں ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (یہ اگلی) حدیث صرف باطل اور بری بدعات کے بارے ہے۔ صلاة جمعہ کے باب میں ہم پہلے اس پر بات کر چکے ہیں۔ وہاں ہم نے بتایا کہ بدعت کی 5 اقسام ہیں۔ 1۔ واجب، 2۔ مندوب، 3۔حرام، 4۔ مکروہ، 5۔ مباح

شرح صحیح مسلم تحت حدیث # 2351

اس موضوع پر کثیر علماء کو نقل کیا جا سکتا ہے جو بدعت کو حسنہ اور ضلالہ میں تقسیم کرتے ہیں