فروعی مسائل میں اختلاف رحمت ہے
فروعی مسائل میں اختلاف رحمت ہے
دورے حاضر کے بعض شدت پسند حضرات ماضی قریب و دورے حاضر کے اکابرین علما کے ما بین علمی و فروعی اختلافات کو عوام میں نشر کر کے فتنہ برپا کرنے کا کام خوب بہتر انداز میں انجام دے رہے ہیں
بعض فروعی مسائل کو موضوع بحث بناکر کسی مسئلے میں حرمت و حلت کے تعلق سے صرف ایک بزرگ کا موقف پڑھ کر دوسرے پر لعن طعن یہاں تک کہ گمراہ و کافر کہنے سے بھی خوف نہیں کھاتے شدت پسند حضرات اس فعل کا ارتکاب تین وجہوں سے کرتے ہیں اول محبت دوم عداوت سوم جہالت یہ فتنہ ہند و پاک میں کچھ زیادہ ہی عام ہے صلح کلیت حقیقت میں اسی شدت پسندی کے فتنہ کی وجہ سے عروج پکڑ رہی ہے جب کہ اس کے بر خلاف ہمارے بزرگوں کا رویہ کچھ اور رہا ہے ہمارے بزرگوں نے اکابرین کے علمی و فروعی اختلافت میں مطابقت پیدا کرنے کی سعی کی ہے خود مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمت اللہ علیہ نے سابقہ اکابرین کے بے شمار اختلافی مسائل میں تطبیق کی صورت نکالی ہے میں یہاں صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں پھر اس کے بعد حدیث رسول و علما کے اقوال سے واضح کروںگا کہ فروع میں اختلاف رحمت ہے
مسئلہ اسراف فی الوضو
اسراف فی الوضو کے مسئلے پر فقہا کی عبارتوں میں کثیر الجہات اختلاف پایا جاتا ہے علامہ حلبی رحمت اللہ علیہ نے غنیہ میں اور علامہ طحطحاوی رحمت اللہ علیہ نے شرح در مختار میں بلا سبب پانی خرچ کرنے کو حرام قرار دیا ہے مدفق علائی رحمت اللہ علیہ کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے صاحب بحر الرائق نے اسے مکروہ تنزیہی قرار دیا ہے جب کہ امام ابن ھمام رحمت اللہ علیہ نے فتح القدیر میں اس کے خلاف اولی ہونے کا فتوی دیا ہے ان اقوال کو پڑھ کر عام قاری پریشان ہو جاتا تھا جب یہ چارون فتاوی جدا جدا موجود تھے مگر تطبیق بین الاقوال کے لئے کوئی نظم اور اصول ان مقامات پر مندرج نہ تھا اعلی حضرت رحمت اللہ علیہ کی نظر جب اس اختلاف میں پڑی تو بریلی کے امام امام احمد رضا خان رحمت اللہ علیہ نے اسراف فی الوضو کے مسئلے میں جلیل القدر اکابر علما کے مابین اختلاف میں ایک تطبیق کی صورت نکالی اور تحریر فرماتے ہیں
( ١ ) اگر اسراف فی الوضو بہ اعتقاد سنت ہو یعنی سنت سمجھ کر پانی زیادہ صرف کیا جائے اور پانی کا ضیاع بھی ہو تو یہ حرام ہے ( اس حکم کے اطلاق کا محل بیان نہ ہوا تھا وہ بیان کر دیا )
( ٢ ) اگر اسراف فی الوضو بلا اعتقاد سنت ہو یعنی سنت سمجھے بغیر اسراف کیا جائے مگر پانی کا ضیاع ہو تو یہ مکروہ تحریمی ہے
( ٣ ) اگر اسراف فی الوضو بلا اعتقاد سنت ہو اور پانی کا ضیاع بھی نہ ہو لیکن پانی زائد از ضرورت خرچ ہو جائے تو یہ مکروہ تنزیہی ہے
( ۴ ) اگر بلا اعتقاد سنت اسراف ہو پانی بھی زائد خرچ نہ ہو عادت بھی نہ ہو مگر اتفاقاً زائد خرچ ہو جائے تو یہ خلاف اولی ہے
( اعلی حضرت کا علمی نظم صفحہ ٢۴ / ٢۵ )
( مقالات سعیدی صفحہ ۵٧٧ / ۵٧٨ مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز )
ماشاء اللہ سبحان اللہ اعلی حضرت کی مزکورہ بالا تطبیق کو پڑھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے اور اھل سنت میں اتحاد کا جزبہ پیدا ہوتا ہے اور اس سے اعلی حضرت کی شان فقاہت بھی معلوم ہوتی ہے
فروع میں اختلاف رحمت ہے
فروع میں اختلاف رحمت ہے سے میری مراد وہ اختلاف نہیں جو فرقوں کے درمیان ہے یعنی عقائد میں اختلاف بلکہ وہ اختلاف مراد ہے جو علمائے اھل سنت کے درمیان ہے یعنی فروعی مسائل کا اختلاف فرقوں کے درمیان جو اختلاف ہیں وہ عقائد کے ہیں جو کہ مذموم ہے لیکن علما کے درمیان جو فروعی مسائل میں اختلاف ہیں وہ مذموم نہیں بلکہ فرمان مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق امت کے لئے رحمت ہیں حدیث پاک میں ہے” اختلاف امتی رحمت ” یعنی میری امت کا اختلاف رحمت ہے
( انظر الجامع الصغیر للسیوطی جلد اول صفحہ نمبر ٢۴ حدیث نمبر ٢٨٨ دار الکتب العلمیہ بیروت بحوالہ فتاوی رضویہ )
حضرت علامہ صاوی رحمت اللہ علیہ اختلافات کے متعلق لکھتے ہیں
التفریق المذموم انما ھو فی العقائد لا فی الفروع فانه رحمة للعباد
ترجمہ :- اختلاف مذموم صرف وہ ہے جو عقائد میں ہے فروع میں مذموم نہیں یہ بندوں کے لئے رحمت ہے
( صاوی جلد اول صفحہ ۵٢ بحوالہ اسلام اور چاند کا سفر )
فائدہ:- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ میری امت کے فروعی مسائل میں اختلاف کا ہونا رحمت ہے یہ بھی حکمت سے خالی نہیں اس حدیث پاک میں حکمتیں تو بہت ہیں لیکن مجھے ایک حکمت سمجھ آئی ہے کہ جب علمی معاملات میں اختلاف ہوتا ہے تو اس سے تحقیق جستجو اور علم کی ترغیب ملتی ہے
ماضی قریب کے علمائے اھل سنت کے درمیان بعض فروعی مسائل میں اختلافات کی اجمالی بحث
( ١ ) خلیفہ حضور مفتی اعظم ھند شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمت اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ صدر الافاضل فخر الاماثل حضرت علامہ مولانا الحاج الشاہ نعیم الدین مرادآبادی صاحب قدس سرہ نے بعض مسائل میں امام اھل سنت اعلی حضرت قدس سرہ سے اختلاف کیا ہے مثلاً قنوت نازلہ میں دعائے قنوت قبل رکوع ہے یا بعد رکوع ؟ اعلی حضرت قدس سرہ کا فتوی ہے کہ قبل رکوع اور صدر الافاضل قدس سرہ کا فتوی ہے بعد رکوع
( ٢ ) اعلی حضرت قدس سرہ کا فتوی ہے کہ سیپ کا چونا کھانا حرام ہے مگر علمائے بہار سیپ کا چونا حلال جانتے ہیں اور بعض حضرات نے اس کی حلت کا فتوی تحریر فرمایا ہے
( ٣ ) اعلی حضرت قدس سرہ کا فتوی ہے کہ مزامیر کے ساتھ قوالی مطلقًا ناجائز ہے مگر ہمارے اکابر اھل سنت کا ایک طبقہ اسے جائز جانتا ہے نہ صرف جائز جانتا ہے بلکہ اسے سنتا بھی ہے اور سناتا بھی ہے جس میں امام المناطقہ حضرت عطا محمد بندیالوی رحمت اللہ علیہ نے مع مزامیر قوالی سماعت کرنے کے تعلق سے جواز کا موقف پیش کیا ہے اور اس مسئلہ پر ” قوالی کی شرعی حیثیت” نامی کتاب تحریر فرمائی مگر یہ سب و شتم کا باعث نہ ہوئے بلکہ تمام امت شاہد ہے کہ اس قسم کے اختلافات کے باوجود آپس میں محبت و مودت بلکہ عقیدت کے روابط ہمیشہ باقی رہے ہیں اور ان شاء اللہ رہیں گے ہاں اگر اختلاف رائے بلا دلیل محض نفسانیت کی بنا پر ہو تو ضرور یہ مذموم و لائق ملامت ہے
( اسلام اور چاند کا سفر صفحہ ٢٠ ‘ ٢١ مطبوعہ مکتبہ بہارے شریعت دربار مارکیٹ لاہور )
شہزادئے اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند رحمت اللہ تعالی علیہ نے اپنے ایک فتوی میں مزامیر کے ساتھ قوالی سننے والی عوام سے حکم فسق کی نفی فرمائی چنانچہ تحریر فرماتے ہیں
قوالی مع مزامیر ہمارے نزدیک ضرور حرام و ناجائز و گناہ اور سجدہ تعظیمی بھی ایسا ہی – ان دونوں مسئلوں میں بعض صاحبوں نے اختلاف کیا ہے اگرچہ وہ لائق التفات نہیں مگر اس نے ان مبتلاوں کو حکم فسق سے بچا دیا ہے جو ان مخالفین کے قول پر اعتماد کرتے اور جائز سمجھ کر مرتکب ہوتے ہیں اگرچہ شرعًا ان پر اب دہرا الزام ہے ایک ارتکاب حرام کا دوسرا اسے جائز سمجھنے خلاف قول صحیح جمہور چلنے کا
( فتاوی مصطفویہ صفحہ ۴۵٦ کتاب الحظر و الاباحة)
تنبیہ :- دورے حاضر میں مع مزامیر قوالی سماعت کرنے کی بھی دو قسمیں ہو گئیں ہیں اول یہ کہ اکابرین بزرگ جس طرح مع مزامیر قوالی سماعت کرتے تھے اور دوسری اس سے بلکل مختلف یعنی جو دور حاضر میں دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مرد و زن کا مقابلہ کرانا فاسق معلن قوالوں سے قوالی پڑھوانا مخلوط محافل قائم کرنا گانوں کی ترز پر پڑھنا و پڑھوانا مقصد لہو لعب کا ہونا حواس میں رہتے ہوئے رقص کرنا وغیرہ اس طرح قوالی کرنے اور کرانے والوں کو فاسق و فاجر کہنا بلکل جائز ہے وہ اکابر بزرگ جو مع مزامیر قوالی کے جواز کے قائل ہیں ان کا مقصد لہو لعب نہیں تھا بلکہ قرب الہی مقصد تھا اور آج ان کے بر خلاف ہے لھذا جو لوگ لہو لعب اور حرام افعال کے ارتکاب کے لئے بزرگوں کی روایات کو آڑ بناکر فریب دیتے ہیں ان کی فریب کاریوں میں بلکل مت آئیں
( ۴ ) اعلی حضرت رحمت اللہ علیہ کا فتوی ہے کہ عورتوں کو لکھنا سکھانا جائز نہیں اعلی حضرت قدس سرہ فتاوی رضویہ شریف میں تحریر فرماتے ہیں کہ عورتوں کو لکھنا سکھانا شرعًا ممنوع و سنت نصاری و فتح باب ہزاران فتنہ اور مستان سرشار کے ہاتھ میں تلوار دینا ہے
( فتاوی رضویہ جلد ٢٣ صفحہ ٦۵۴ مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور )
لیکن اس کے بر خلاف حضرت مفتی وقار الدین رحمت اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ دینی تعلیم کا مرد و عورت پر بقدر ضرورت حاصل کرنا فرض ہے اور دنیاوی تعلیم حاصل کرنا جائز ہے اس لئے لڑکیوں کا اسکول قائم کرنا بھی جائز ہے بشرطیکہ تعلیم دینے کے لئے عورتیں مقرر کی جائیں ہاں چھوٹی بچیوں کو مرد بھی پڑھا سکتے ہیں لکھنا سکھانے کے بارے میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے جس میں فرمایا
لا تعلمو عن الکتابة ولا تسکنو فی الغرف
ترجمہ:- یعنی عورتوں کو لکھنا نہ سکھاو اور نہ انہیں بالا منزلوں میں ٹہراو
اس حدیث سے بظاہر عورتوں کو لکھنا سکھانے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے مگر ضرورت زمانہ اور ابتلاء عام کی وجہ سے مناسب یہ ہے کہ حدیث کو نھی تنزیہی پر محمول کیا جائے یعنی عورتوں کو کتابت سکھانا اچھی بات نہیں
( وقار الفتاوی جلد سوم صفحہ ۴٣۵ )
( ۵ ) لاوڈ اسپیکر میں نماز کے تعلق سے علمائے اھل سنت میں اختلاف ہے کسی نے کہا کہ لاوڈ اسپیکر سے مسموع آواز پر اقتدا درست ہے نماز صحیح ہوگی جیسے مبلغ اسلام حضرت علامہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی رحمت اللہ علیہ کسی نے جائز خلاف اولی کہا جیسے حضرت صدر العلما مولانا غلام جیلانی میرٹھی رحمت اللہ علیہ کسی نے مکروہ کہا جیسے حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمت اللہ علیہ کسی نے فاسد بتایا جیسے حضور مفتی اعظم ھند رحمت اللہ علیہ ‘ حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمت اللہ علیہ کے اس سلسلے میں دو متضاد فتوے ہیں ایک میں نماز کو جائز کہا ہے ایک میں فاسد پھر ان دونوں میں کون مقدم اور کوم متاخر یہ بھی مختلف فیہ ہے حضور مفتی اعظم ھند رحمت اللہ علیہ کے فتووں میں بھی اختلاف تھا ایک روایت کے مطابق آپ نے ابتداءً یہ صادر فرمایا تھا کہ لاوڈ اسپیکر سے مسموع آواز اگر بولنے والی کی ہے تو اس پر اقتدا صحیح ہے اور اگر اس کی آواز نہیں تو اقتدا صحیح نہیں حضرت حافظ ملت رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھے اس کی تحقیق نہیں احتیاط لازم ہے پاکستان کے بہت سے علما جواز کے قائل ہیں اور حضرت شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمت اللہ علیہ نے لاوڈ اسپیکر پر نماز کے عدم جوا پر کثیر فتوے صادر فرمائے
( فتاوی شارح بخاری جلد اول صفحہ ٣٢ تا ٣۵ )
حضرت علامہ مفتی عبد المنان اعظمی رحمت اللہ علیہ سے جب لاوڈ اسپیکر پر نماز کے تعلق سے سوال پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے لھذا جو جواز کے قائل ہیں ان کی نماز لاوڈ اسپیکر پر درست ہے اور جو عدم جواز کے قائل ہیں ان کی درست نہیں
( فتاوی بحر العلوم جلد اول صفحہ ٣٢۵ )
( ٦ ) چین والی گھڑی پہن کر نماز پڑھنے کے تعلق سے بھی علما کے درمیان کے اختلاف ہے سیدی حضور مفتی اعظم ھند حضرت مولانا مفتی شاہ مصطفے رضا خاں رحمت اللہ علیہ کا فتوی یہ ہے کہ ناجائز ہے اور تقریبًا یہی موقف عامہ علمائے اھل سنت کا بھی ہے لیکن اس کے بر خلاف نائب مفتی اعظم ھند حضرت مفتی شریف الحق امجدی رحمت اللہ علیہ جواز کا موقف اختیار کرتے ہیں
( فتاوی شارح بخاری جلد اول صفحہ ٣٠ )
( ٧ ) ١٩٦٨ میں مشن اپولو ( Mission Apollo ) ہوا اور امریکہ نے چاند پر پہنچ جانے کا دعوی کیا تو یہ مسئلہ علمائے ھند و پاک کے درمیان میں بھی موضوع بحث بن گیا کہ شرعًا چاند پر پہنچنا ممکن ہے یا نہیں ؟ تو اس سلسلے میں حضرت شریف الحق امجد رحمت اللہ علیہ اور صدر العلما مولانا غلام جیلانی میرٹھی رحمت اللہ علیہ کے درمیان اختلاف ہو گیا حضرت شریف الحق امجدی قدس سرہ کا موقف تھا کہ چاند پر پہنچنا شرعًا ممکن ہے اور حضرت نے سب سے پہلے اس مسئلہ پر ایک مقالہ تحریر فرمایا لیکن جب حضرت غلام جیلانی میرٹھی رحمت اللہ علیہ نے اپنا موقف پیش کیا اور فرمایا کہ چاند پر پہنچنا شرعًا ممکن نہیں ہے تو پھر حضرت شریف الحق امجدی قدس سرہ نے اس مسئلہ پر تفصیلی تحقیقی ” اسلام اور چاند کا سفر “ نامی کتاب تحریر فرمائی —-
( تفصیل کے لئے ” اسلام اور چاند کا سفر ” نامی کتاب مطالعہ فرمائیں )
( ٨ ) غیر انبیاء کے اسمائے گرامی کے ساتھ علیہ السلام لکھنے کے تعلق سے علمائے اھل سنت میں اختلاف ہے صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمت اللہ علیہ فتاوی امجدیہ شریف میں تحریر فرماتے ہیں کہ علیہ السلام انبیاء کے اسمائے کرام کے ساتھ خاص ہے حضرت علامہ مفتی عبد المنان اعظمی رحمت اللہ علیہ سے اسی طرح کا سوال کیا گیا تو حضرت نے علیہ السلام کے تعلق سے دو مفصل فتوے تحریر کئے اور واضح کیا کہ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے اور اتنا سخت نہیں کہ اگر کسی سنی نے روافض کی تشبیہ کے لئے نہیں بلکہ محبت میں غیر انبیاء مثلًا حضرت حسین رضی اللہ عنہ یا دیگر بزرگوں کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا استعمال کیا تو کوئی بہت بڑا جرم نہیں ہو گیا اور اس قسم کے مسائل میں ہنگامہ بے سود بلکہ باعث فتنہ ہے جس سے رافضیوں اور خارجیوں کو تو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن اھل سنت کو نہیں
( فتاوی بحر العلوم جلد ۵ صفحہ ٣١٠ )
( ٩ ) ایمان ابو طالب کے مسئلہ میں بھی اختلاف ہے اعلی حضرت قدس سرہ کفر ابو طالب کے قائل ہیں اور اس موضوع پر تفصیلی و تحقیقی” شرح المطالب فی مبحث ابی طالب ” نامی کتاب تحریر فرمائی لیکن اس کے بر خلاف اھل سنت کے معتمد و معتبر بزرگ حضرت عطا محمد بندیالوی رحمت اللہ علیہ ایمان ابو طالب کے قائل ہیں اور انہوں نے بھی اس موضوع پر ” تحقیق ایمان ابو طالب ” نامی کتاب تحریر فرمائی اگرچہ ایمان ابو طالب کے قائل خاطی ہیں لیکن اھل سنت و الجماعت سے خارج نہیں اور ان پر لعن طعن کرنا بھی جائز نہیں
( ١٠ ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین مومن تھے یا مشرک ؟ یہ مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے جیسا کہ شارح بخاری قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ سلف سے لیکر خلف تک علما کے درمیان اختلاف رہا بہت سے حضرات اس کے قائل ہیں کہ ان میں کچھ مشرک و کافر بھی تھے جن میں حضور اقدس صلی اللی علیہ وسلم کے والدین کریمین اور حضرت عبد المطلب بھی ہیں ان لوگوں کا استدلال سنن نسائی شریف کی حدیث ہے حضرت امام نسائی کا مسلک یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کریمین مشرک و کافر تھے – دوسرے بہت سے حضرات کا مذھب یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ و حضرت آمنہ تک حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام آباو کرام و امہات عظام مومن یا کم از کم موحد ناجک تھے ان میں کوئی بھی کافر و مشرک نہیں تھا اور یہی صحیح ہے
( فتاوی شارح بخاری جلد اول صفحہ ٢٧٨ )
( ١١ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج اللہ عزوجل کا دیدار کیا یا نہیں ؟ یہ مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے اس بارے میں شارح بخاری قدس سرہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج رب تعالی کو دیکھا یا نہیں اس بارے میں اختلاف ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس سے انکار فرمایا مگر صحیح اور راجح یہی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ عزوجل کو چشم سر سے دیکھا
( مزید تفصیل کے لئے فتاوی شارح بخاری جلد اول صفحہ ٣٠٩ تا ٣١۴ مطالعہ فرمائیں )
( ١٢ ) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں تشریف لائیں گے یا صرف ان کی شبیہ پیش کیا جائے گی ؟ اس مسئلہ کے تعلق سے مفتی شریف الحق امجدی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ احادیث میں صرف اتنا ہے کہ نکیرین یہ سوال کریں گے ماتقول فی ھذا الرجل ظاہر ہے کہ یہ سوال حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے لیکن یہ نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود آئیں گے یا صرف ان کی شبیہ پیش کی جائے گی اس بارے میں شارحین حدیث میں اختلاف ہے اور سب نے مختلف توجیہیں کی ہیں مگر ان تمام توجیہوں میں کوئی قطعی نہیں کہ ان میں سے کسی کا انکار کرنے والا کافر و مرتد ہو واعظین اپنا بازار چمکانے کے لئے وعظوں میں تمام توجیہوں میں صرف ایک توجیہ یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریش لائیں گے کو اس زور و شور کے ساتھ بیان کرتے ہیں کل گویا یہی قطعی یقینی ہے
( فتاوی شارح بخاری جلد اول صفحہ ۴٠٦ )
( ١٣ ) دورے حاضر کا ایک بہت اہم مسئلہ ٹی وی اور مووی کی تصویر حرام ہے یا جائز ؟ اس میں بھی علمائے حق کے درمیان اختلاف ہے بعض علمائے حق جواز کے قائل ہیں اور بعض عدم جواز کے قائل ہیں جس میں سے رئیس المحققین شیخ الاسلام حضور مدنی میاں اشرفی جیلانی صاحب قبلہ جواز کا موقف پیش کرتے ہیں اور اپنے فتوے میں تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے ٹی وی اور مووی کے سلسلے میں بذات خود ویڈیو اور ٹی وی کے مسلم و غیر مسلم ماہرین سے رابطہ قائم کیا اور معلومات حاصل کیں تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ویڈیو کیسٹ میں کسی طرح کی کوئی تصویر نہیں چھپتی بلکہ اس کے ذریعہ اس کے سامنے والی چیزوں پر ریز ( Rays ) شعاعوں کرنوں کو ٹیپ کر لیا جاتا ہے ٹیپ ہو جانے کے باوجود جس طرح آواز کی کوئی صورت نہیں ہوتی بلکہ وہ غیر مرئی ( Invesible ) ہوتی ہیں اسی طرح ان ریز ( Rays ) کی بھی کوئی صورت نہیں ہوتی جنہیں دیکھا جا سکے لھذا جب ویڈیو کیمرے کے ذریعہ کسی طرح کی کوئی تصویر نہیں بنائی جاتی تو جاندار کی تصویر کشی کی حرمت اور ممانعت کے جو نصوص ہیں اس کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا اس لئے علمائے کرام کی تقاریر نیز دینی و مذھبی پروگرام کی نشر و اشاعت کے لئے ویڈیو کا استعمال جائز ہے
( ویڈیو اور ٹی وی کا شرعی استعمال صفحہ ٧ تا ١٠ )
اس کے بر خلاف سلطان الفقہا فخر ازھر جانشین اعلی حضرت حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خان ازہری رحمت اللہ علیہ عدم جواز کا موقف پیش کرتے ہیں اور اس مسئلہ پر ایک تحقیقی ” ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن ” نامی رسالہ تحریر فرماتے ہیں
لھذا جب ٹی وی اور مووی کی تصویر پر ہمارے اکابر بزرگوں کے درمیان اختلاف ہے تو ہم کو چاہئے کہ ہم آپس میں سب و شتم سے اجتناب کریں اور جو حضرات مدنی میان کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے ویڈیو کی تصویر کو جائز جانتے ہیں ان پر لعن طعن کرنے سے پرہیز کریں اور جو حضرات حضور تاج الشریعہ قدس سرہ کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے عدم جواز کے قائل ہیں ان پر بھی لعن طعن کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے
اسی طرح کے سوال کے جواب میں شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ویڈیو کے بارے میں علما کا اختلاف ہے اور جو جواز کے قائل ہیں وہ بھی صرف اسی حد تک کہ جو منظر فی نفسہ جائز ہو مثلًا مرد خبر سنا رہا ہے تقریر کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ اگر عورت کا عکس ہو تو مطلقًا ناجائز اگرچہ وہ قرآن مجید کی تلاوت کر رہی ہو نعت پڑھ رہی ہو اسی طرح ناچ گانا باجہ وغیرہ کا دیکھنا سننا حرام و گناہ ہے خلاصہ یہ ہے کہ اصل جس کا جائز اس کا عکس بھی دیکھنا جائز ہوگا اور اصل حرام تو عکس بھی حرام یہی تفصیل سننے میں بھی ہے وہ بھی انہیں علما کے نزدیک جو ویڈیو کیسٹ میں تصویر نہیں مانتے ورنہ مطلقًا ناجائز خواہ مرد ہی کا عکس ہو وہ دینی تقریر کر رہا ہو خواہ کسی حاکم کسی پیر کا عکس ہو
( ویڈیو اور ٹی وی کا شرعی استعمال صفحہ ١٢ تا ١٣ )
( ١۴ ) دورے حاضر کا ایک اور اہم مسئلہ چلتی ٹرین میں پڑھی گئی فرض و واجب نماز کے اعادہ کے تعلق سے ماضی قریب میں علما کے درمیان اختلاف ہو گیا جس میں مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ کا فیصلہ ہوا کہ چلتی ٹرین میں پڑھی گئی فرض و واجب نماز کا اعادہ نہیں اس کے بر خلاف سلطان الفقہا فخر ازھر جانشین اعلی حضرت حضور تاج شریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خان ازہرک رحمت اللہ علیہ نے اس فیصلے کا سختی سے رد فرمایا اور اس مسئلہ پر تفصیلی و تحقیقی ” چلتی ٹرین پر فرض و واجب نمازوں کی ادائگی کا حکم ” نامی کتاب تحریر فرمائی جس میں منع من جہة العباد کا صحیح مفہوم سمجھایا – اگرچہ اس مسئلہ میں مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ کا فیصلہ خطا پر ہے لیکن پھر بھی ان کو گمراہ فاسق و فاجر کہنا جائز نہیں
( مزید تفصیل کے لئے چلتی ٹرین پر فرض و واجب نمازوں کی ادائگی کا حکم نامی کتاب اور مفتی نظام الدیں مصباحی کی کتاب فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت نامی کتاب مطالعہ فرمائیں )
( ١۵ ) عالمی وبا ( کووڈ COVID- 19 ) کے خوف زدہ ماحول میں سماجی فاصلہ رکھنے اور بھیڑ بھاڑ سے بچنے کے لئے ٢۵ مارچ سے لاک ڈاون اور دفعہ ١۴۴ کے لگنے کے بعد نماز جمعہ کا مسئلہ علمائے اھل سنت کے درمیان موضوع بحث بن گیا کہ اب جمعہ کیسے ادا ہوگا دروازہ بند کرکے پانچ لوگ جمعہ کی نماز ادا کر سکتے ہیں یا نہیں جس میں اذن عام کو لیکر علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہو گیا بعض نے کہا کہ اذن عام کی شرط مفقود ہے لھذا نماز جمعہ صحیح نہیں ہوگی جس میں کنز العلما ڈاکٹر اشرف جلالی (پاکستان) اور بعض علما کا مزکورہ بالا موقف سامنے آیا لیکن اس کے بر خلاف بعض علما نے کہا کہ مسجد کا دروازہ بند کر کے پانچ لوگوں میں نماز جمعہ ہو جائے گی جس میں محقق مسائل جدیدہ حضرت مفتی نظام الدین مصباحی صاحب قبلہ پرنسپل جامعہ اشرفیہ کا موقف سامنے آیا کہ جمعہ کے وقت دروازہ کچھ کھلا رہ سکے تو بہتر ہے ورنہ دفع ضرر کے لئے بند بھی کر سکتے ہیں اور جمعہ صحیح ہوگا اور دلیل یہ پیش کی کہ مسجد سے ممانعت کی بنیاد نماز یا جماعت نماز ہو تو یہ اذن عام کے منافی ہوگی اور اگر اس کی بنیاد فتنے یا دشمن سے ضرر کا اندیشہ ہو تو وہ اذن عام کے منافی نہ ہوگی لھذا جمعہ صحیح ہوگا —–
( مزید تفصیل کے لئے مفتی نظام الدین مصباحی صاحب قبلہ کا ١٦ صفحات پر مشتمل مدلل و مفصل فتوی مطالعہ فرمائیں )
بظاہر اختلاف ہے لیکن اختلاف نہیں ہے
مذکورہ بالا پندرہ اختلافی مسائل کا اجمالی خاکہ پیش کرنے کے بعد بعض وہ مسائل جن میں بظاہر تو اختلاف نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں ان میں اختلاف ہوتا نہیں فقط فہم اور مطابقت کی ضرورت در پیش ہوتی ہے
( ١ )اعلی حضرت رحمت اللہ علیہ نے سیپ کا چونا کھانا فتاوی رضویہ اور فوائد رضویہ میں حرام لکھا ہے اور اس کے بر خلاف علمائے بہار سیپ کا چونا حلال جانتے ہیں، بعض حضرات نے اس کی حلت کا فتوی تحریر فرمایا ہے
مذکورہ بالا دونوں موقف میں بظاہر تو اختلاف نظر آ رہا ہے کیوں کہ ایک فتوے میں حرمت کا قول اور دوسرے فتوے میں حلت کا قول ہے حقیقت میں ان میں اختلاف نہیں ہے صرف عمیقانہ فہم کی ضرورت ہے
سیپ جنس ارض سے ہے اس لئے اعلی حضرت رحمت اللہ علیہ نے اسے حرام فرمایا مگر بہار چمپارن اور اس کے آس پاس کے یوپی کے لوگ سیپ کو آگ میں جلاکر راکھ کو پانی میں ملاکر چونا بناتے اور پان وغیرہ کے ساتھ اسے کھاتے تھے اور اس میں ان علاقوں کے عوام و خواص سبھی مبتلا تھے تو عموم بلویٰ کی وجہ سے ان علاقوں میں حکم میں نرمی و تخفیف ہو گئی مگر بلاد اترپردیش میں اس وقت عموم بلویٰ قطعًا نہ تھا اس لئے یہاں حکم وہی تھا جو فتاوی رضویہ میں مرقوم ہے کہ سیپ کا چونا حرام ہے
( فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت ٦۵ )
( ٢ ) پیشاب کی بہت باریک چھینٹیں کپڑے پر پڑ جائیں تو کپڑا ناپاک نہ ہوگا لیکن وہ کپڑا تھوڑے پانی میں گر جائے تو پانی ناپاک ہوگا یا نہیں اس بارے میں اعلی حضرت قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ناپاک ہو جائے گا – اس کے بعد صدر الشریعہ قدس سرہ نے بہارء شریعت میں یہ موقف اختیار کیا کہ ناپاک نہیں ہوگا
( بہارے شریعت جلد دوم حصہ دوم صفحہ ٣٩٢ مطوبعہ مکتبة المدینہ )
مذکورہ بالا دونوں موقف میں بظاہر تو اختلاف ہے لیکن حقیقت میں اختلاف نہیں صرف عمیقانہ فہم کی ضرورت ہے
واقعہ یہ ہے کہ سوئی کی نوک برابر پیشاب کی چھینٹوں سے آلودہ ہونے میں عموم بلویٰ ہے مگر ایسے کپڑے کے پانی میں گرنے میں عموم بلویٰ نہیں ، اس لئے اعلی حضرت قدس سرہ نے پہلی صورت میں کپڑے کو پاک اور دوسری صورت میں پانی کو ناپاک بتایا مگر کچھ عرصہ بعد صدر الشریعہ قدس سرہ نے احوال ناس پر نگاہ ڈالی اور یہ محسوس کیا کہ دوسری صورت میں بھی عموم بلویٰ ہو چکا ہے کیوں کہ لوگ ایسے کپڑے عام طور پر دھونے کے لئے پانی میں ڈال دیتے ہیں اور پانی کی ناپاکی کا انہیں کوئی خیال بھی نہیں آتا اس لئے آپ نے اسے بھی عفو کے کھانے میں رکھتے ہوئے اس پانی اور کپڑے کے پاک ہونے کا حکم دیا—
( فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت صفحہ ٦٨ ‘ ٦٩ )
خـــــاتـــــمہ
یہ مضمون لکھنے کا مقصد صرف اتحاد اہل سنت کا قیام اور عام فہم زبان میں لوگوں کو سمجھانا ہے کہ آپسی فروعی مسائل کو موضوع بحث بنا کر ایک دوسرے پر لعن طعن نفرت و شدت کا بازار گرم کرنے کی بجائے عقائد میں اختلاف کرنے والے بدعقیدہ رافضی ، نیم رافضی ، دیابنہ ، وہابیہ ،قیادنہ ، نیچریہ ، چکڑالویہ ، منہاجیہ ، نام نہاد اھل حدیث سلفی غیر مقلدین کا رد بلیغ اور ان پر شدت کی جائے اور یہی ذات باری تعالی کا فرمان بھی ہے اللہ عزوجل قرآن مجید فرقان حمید میں فرماتا ہے
وَالَّذِینَ مَعَه اَشِدَّاءُ عَلَی الکُفَّارِ رحَمَاءُ بَینَھُم
ترجمہ:- اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ، آپس میں نرم دل ہیں
( سورة الفتح آیت ٢٩ ترجمہ کنز الایمان )
یعنی کفار پر شدت اور آپس میں نرم دلی مومنین کی پہچان ہے —
اس مضمون میں فقیر کا اپنا کچھ نہیں ہے فقط اکابرین کی کتب و رسائل کے خرمن سے خوشہ چینی کی گئی ہے جن حضرات کو اس مضمون میں لفظی معنوی کسی بھی قسم کی کوئی خطا یا کمی نظر آئے تو وہ ضرور آگاہ و اصلاح فرمائیں آپ کا متشکر ہوں گا – اللہ عزوجل اہل حق اہل سنت والجماعت میں اتحاد و اتفاق فرمائے —-
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
حــــوالہ جـــاتـــــ
( ١ ) قرآن مجید فرقان حمید
( ٢ ) فتاوی رضویہ شریف
( ٣ ) فتاوی مصطفویہ
( ۴ ) فتاوی امجدیہ
( ۵ ) فتاوی شارح بخاری
( ٦ ) فتاوی بحر العلوم
( ٧ ) وقار الفتاوی
( ٨ ) بہارے شریعت
( ٩ ) اسلام اور چاند کا سفر
( ١٠ ) شرح المطالب فی مبحث ابی طالب
( ١١ ) تحقیق ایمان ابو طالب
( ١٢ ) قوالی کی شرعی حیثیت
( ١٣ ) ویڈیو اور ٹی وی کا شرعی استعمال
( ١۴ ) چلتی ٹرین پر فرض و واجب نمازوں کی ادائگی کا حکم
( ١۵ ) فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت
( ١٦ ) اعلی حضرت قدس سرہ کا علمی نظم
( ١٧ ) مقالات سعیدی ( علامہ غلام رسول سعیدی )
( ١٨ ) لاک ڈاون میں جمعہ والے فتوی کے دلائل مضمرات اور درخشاں جلوے ( از محقق مسائل جدیدہ مفتی محمد نظام الدین مصباحی صاحب قبلہ پرنسپل جامعہ اشرفیہ )
طالب دعا
محمد توصیف رضا
📱 9682473113