حدیث رسولﷺ جسکا میں مولا اسکا علیؓ مولا
حدیث رسولﷺ جسکا میں مولا اسکا علیؓ مولا
اس روایت پر ایک غیر مقلد بنام فہد حارث کے اعتراضات کا جواب
ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی
یہ شخص پہلے اپنے مضمون کی شروعات اس سے کرتا ہے کہ مولا علیؓ کے فضائل پر متفقہ علیہ کچھ روایات بیان کر کے یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم مولا علیؓ کی شان کے قائل ہیں اور جب ہم مولا علی کی فضیلت میں کسی روایت کا انکار کریں تو ہم پر ناصبیت کی جرح کر دی جاتی ہے فلاں فلاں ۔۔۔۔
اس کے بعد مذکوہ روایت پر اپنا دعویٰ باطل پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے :
”یہ و ضاحتی نوٹ اس لئے جاری کرنا پڑا کہ تلخ تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ جہاں کسی انسان نے سیدنا علی ؓ کی فضیلت سے متعلق کسی ضعیف سے ضعیف روایت پر بھی کلام کیا، تو یار لوگوں نے اس کے دلائل سنے بغیر اس پر ناصبیت کی پھبتی کس کر اسکو سائیڈ لائن لگادیا۔ سو اسی لئے سیدنا علی ؓ سے متعلق روایت من کنت مولاہ فعلی مولاہ پر کلام کرنے سے پہلے مناسب سمجھا کہ لوگوں کو سیدنا علیؓ سے متعلق اپنے موقف پر آگاہ کردیا جائے تاکہ ہم اس الزام سے بچ سکیں اور لوگوں کو نبی ﷺ کی طرف ایک گھڑی ہوئی روایت کی نسبت کرنے سے متنبہ کر سکیں ۔
”
اس کے دعویٰ میں صریح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اس نے مشہور حدیث متواتر کو گھڑی ہوئی روایت قرار دیا ہے اور خود پر یہ لازم کیا کہ اس روایت کی اصلیت (بقول اسکے) لوگوں پر واضح کر کے اس امر سے بچ سکیں کہ جنہوں نے اس گھڑی ہوئی روایت کی نسبت رسولﷺ کی طرف کر دی تو یہ بندہ اسکی حقیقت بیان کرنے بیٹھا ہے ۔
چونکہ اس نے تحریر بہت مختصر لکھی ہے تو ہم بھی اسکی مختصر تحریر کا مختصر جواب دینگے ۔لیکن مدلل دینگے
اس روایت پر پہلا اعتراض اس نے ابن ماجہ کی روایت پر کیا جسکی سند درج زیل ہے :
حدثنا علي بن محمد، حدثنا أبو الحسين، أخبرني حماد بن سلمة، عن علي بن زيد بن جدعان، عن عدي بن ثابت
عن البراء بن عازب، الخ۔۔۔
[برقم: 116]
اس روایت پر ایک اعتراض اسکا یہ تھا کہ علی بن زید بن جدعان مختلف فیہ ہم کو بھی اس سے انکار نہیں ہم بھی اسکی ضعیف ہی شمار کرتے ہیں لیکن یہ راوی متعابعت و شواہد میں قبول ہے کیونکہ امام بخاری نے اسکو متابعت و شواہد میں لیا ہے
اب آتے ہیں اسکے دوسرے اعتراض کی طرف جو کہ درج زیل ہے!!
”عدی بن ثابت کے ثقہ و حجت ہونے پر کوئی اشکال ہے ہی نہیں سو اس بابت بات کرنا بیکار ہے۔ ہم کو اصل اشکال اس کے شیعہ ہونے سے ہے اور محدثین کا یہ اصلول ہے کہ اگر کوئی صادق اللہجہ صاحب مسلک ایسی روایت بیان کرے جس سے اس کے بدعتی مسلک کی تائید ہوتی تو وہ روایت راوی کے ثقہ ہونے کے باوجود قابل قبول نہیں لہٰذا عدی بن ثابت کی شیعیت اس روایت کے مردود ہونے پر دلالت کرتی ہے اور یہی وجہ ہوئی کہ عدی بن ثابت کے بخاری و مسلم کا راوی ہونے کے باوجود امام بخاری و مسلم نے عدی بن ثابت کی اس روایت کو اپنی صحیح میں جگہ نہیں دی”
اس نے مذکورہ روایت کے بنیادی راوی عدی بن ثابت پر بڑا زور دیا کہ یہ شیعہ تھا شیعہ تھا اور شیعہ کی روایت اپنے مذہب کی تائید میں قبول نہیں ہوتی ہے باقی یہ ثقہ راوی ہے اس پر اسکو بھی اختلاف نہیں
الجواب :
عرض ہے یہ تو ہم کو معلوم ہے کہ موصوف مختصر رد کر رہا ہے اس روایت کا لیکن مختصر رد میں موصوف اصول بھی مختصر یعنی ادھورے بیان کر رہا ہے تاکہ اپنا موقف صحیح سے تھوپ سکیں ۔
عرض ہے عدی بن ثابت راوی جو کہ کبیر تابعین میں سے ہیں اور رمی بالتشیع ہیں امام مسلم نے اپنی صحیح میں ان سے ایک روایت لی ہے جس میں اسکا تفرد ہے
کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا مولا علی سے سوائے مومن کے کوئی بغض نہیں رکھے گا
اب تو انکے اصول کے مطابق یہ روایت بھی باطل ہونی چاہیے کیونکہ اس میں شیعہ راوی کا تفرد ہے اور روایت بھی اسکے مذہب کی تائید میں معلوم ہو رہی ہے
جیسا کہ امام مسلم اسکی روایت کی اسناد درج زیل بیان کی ہیں؛
حدثني زهير بن حرب، قال: حدثني معاذ بن معاذ، ح
وحدثنا عبيد الله بن معاذ، واللفظ له، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن عدي بن ثابت، قال: سمعت البراء يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال في الأنصار: «لا يحبهم إلا مؤمن، ولا يبغضهم إلا منافق، من أحبهم أحبه الله ومن أبغضهم أبغضه الله»
قال شعبة: قلت لعدي: سمعته من البراء؟، قال: إياي حدث
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، وأبو معاوية، عن الأعمش، ح
وحدثنا يحيى بن يحيى، واللفظ له، أخبرنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن عدي بن ثابت، عن زر، قال: قال علي: والذي فلق الحبة، وبرأ النسمة، إنه لعهد النبي الأمي صلى الله عليه وسلم إلي: «أن لا يحبني إلا مؤمن، ولا يبغضني إلا منافق»
]صحیح مسلم برقم : 131،129]
اب اس اصول سے یہ روایت بھی اڑ جانی چاہیے کیونکہ اس روایت کی سند میں عدی بن ثابت منفرد ہے تو پھر اجماع صحیحین پر بھی اڑ جائے گا
اب ہم بیان کرتے ہیں محدثین اصول کیا ہے شیعہ راوی کے بارے
محدثین کا اصول ہے کہ شیعہ راوی جب ایسی روایت میں منفرد ہو جو اسکے مذہب کے موافق ہو تو وہ روایت رد ہوگی
تو کیا اہلسنت کے نزدیک مولا علی سے بغض رکھنے والا سنی ہو سکتا ہے ؟ بالکل نہیں تو جب یہ متفقہ علیہ ہے ہے مولا علی سے بغض سوائے منافق کے کوئی نہیں رکھ سکتا تو یہ روایت جیسے رد نہیں ہوگی
ویسے ہی مولا علی کے فضائل میں روایت من کنت مولا فعلی مولاہ کیسے رد ہوسکتی ہے ؟ کیا اہلسنت کا یہ عقیدہ نہیں کہ نبی کریمﷺ جس کے مولا یعنی دوست ہونگے مولا علیؓ بھی اسکے مولا یعنی دوست ہونگے
اور جسکے مولا یعنی رفیق نبی کریمﷺ نہ ہونگے تو مولا علیؓ بھی اسکے دوست نہ ہونگے
تو اس روایت میں شیعہ راوی کا ہونا نہ ہونا کیا اہمیت رکھتا ہے ؟
اگر کسی ناصبی مجہولیے کا یہ اعتراض ہو کہ شیعہ اس روایت کو اس لیے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ سے کسی اور کے بارے مولا الفاظ مروی نہیں تو یہ بھی جہالت ہے
امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت بیان کی ہے جس میں حدیث رسولﷺ ہے درج زیل الفاظ کے ساتھ :
وقال لزید : انت اخونا و مولانا
اور نبی کریمﷺ نے حضرت زید ؓ سے کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا (رفیق) بھی ہو
[صحیح البخاری برقم : 2699]
تو جب ہم سنی راویان سے حضرت زید کے بارے مولا کے لفظ قبول کرتے ہیں تو شیعہ ثقہ ثبت کبیر تابعی مولا علی کے بارے مولا کی روایت بیان کرے تو یہ کیسے مردود ہوگی ؟
پھر تو سنی راوی کی روایت بھی رد ہوجانی چاہیے کہ سنی کی گواہی حضرت زید کے بارے ہے یہ تو پھر فتنہ ہوگا
جبکہ یہ راوی رمی بتشیع ہے اور متقدمین میں شیعہ جسکو کہا جاتا ہے یہ بھی تفصیل طلب ہے موصوف نے رافضی اور تشیع میں فرق کو ملہوظ خاطر نہیں رکھا شاید
الغرض موصوف نے یہاں ڈنڈی ماری ہے کیونکہ نہ ہی یہ روایت ایسے متن پر مشتمل ہے کہ جو دیگر صحیح روایات کے خلاف ہو اور نہ ہی یہ روایت فقط ایسے متن میں ہے کہ وہ فقط شیعہ کا عقیدہ ہو اور ہمارا نہ ہو ۔۔۔۔
کیا اسکی کوئی روایت سندا صحیح بھی ہے ؟ جی بالکل ہے
امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں روایت بیان کرتے ہیں :
حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق قال: سمعت سعيد بن وهب قال: نشد علي الناس، فقام خمسة أو ستة من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فشهدوا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” من كنت مولاه فعلي مولاه
[مسند احمد برقم : 23107]
اس روایت پر امام ذھبیؒ علیہ رحمہ نے مکمل رسالہ بھی لکھا ہے اور اہلسنت کے جید محدثین کے نزدیک یہ روایت متواتر ہے اور یہ محکک(نہ کہ محقق) میاں اپنا فرض ادائیگی میں لگا ہوا ہے کہ لوگ اس گھڑی ہوئی روایت سے دور رہے
امام ذھبیؒ نے اپنے رسالے میں اس روایت کو جب نقل کیا تو درج ذیل حکم لگایا :
-
غندر، ثنا شعبة، عن أبي إسحاق، سمعت سعيد بن وهب يقول: نشد علي الناس، فقام خمسة أو ستة من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فشهدوا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من كنت مولاه فعلي مولاه.
هذا الحديث على شرط مسلم، فإن سعيدا ثقة.
-
وكذا رواه إسرائيل عن أبي إسحاق.
[رسالة طرق حديث من كنت مولاه فعلي مولاه برقم : (22) (23)]
(نوٹ: امام ذھبی نے اس رسالہ میں 125 طریق جمع کیے ہیں جن میں معمولی اور کثیر ضعف ہے انکی نشاندہی کی ہے اور جو حسن الاسناد اور صحیح الاسناد روایات ہیں انکی علیحدہ نشاندہی کی ہے اور متعدد روایات پر حسن کا حکم بھی لگایا ہے)
امام ذھبی کہتے ہیں اس سند سے مروی اس روایت کی سند صحیح مسلم کی شرط پر ہے اگر سعید ثقہ ہے تو
اور یہی روایت امام اسرائیل (صحیحین کے راوی ) نے ابی اسحاق(صحیحین پر مدلس )راوی سے بیان کی ہے
اب سعید کے بارے امام ذھبی سے تصریح :
سعيد بن وهب الهمداني الخيواني الكوفي
من كبراء شيعة علي.
حدث عن: علي، وابن مسعود، ومعاذ بن جبل، وخباب.
أسلم في حياة النبي -صلى الله عليه وسلم- ولزم عليا -رضي الله عنه- حتى كان يقال له: القراد؛ للزومه إياه.
وروى عن: سلمان، وابن عمر، والقاضي شريح.
روى عنه: أبو إسحاق، وولده؛ يونس بن أبي إسحاق، وطائفة.
یہ حضرت علی کے بڑے ساتھیوں میں سے تھے
یہ حضرت علی ، حضرت ابن مسعود ، حضرت معاذ اور حضرت خباب سے روایت کرنے والے ہیں
یہ نبی کریمﷺ کی زندگی میں اسلام قبول کیا تھا ۔ اور پھر انہوں نے حضرت علیؓ کی صحبت باقائدگی سے اختیار کی
اور یہ سلمان ، ابن عمر ، اور قاضی شریح سے بھی روایت کرتا ہے
اور ان سے ابو اسحاق وغیرہم روایت کرتے ہیں
وثقه: يحيى بن معين.
اور انکو امام یحییٰ بن معین نے ثقہ قراور دیا ہے
[سیر اعلام النبلاء برقم : 70]
تو معلوم ہوا امام ذھبی کے مطابق یہ سند صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے
اسکے علاوہ اپنے رسالہ میں اس روایت پر متعدد مقام پر حسن کا حکم بھی لگایا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں یہ بھی بیان کر دیں کہ موصوف نے جو آخری روایت کا ضعف بیان کرنے کے لیے اصول حدیث کا خون کیا ہے اسکا عیاں کرنا بھی لازم ہے کے موصوف خود سے پاکستانی علل کے اموم بننے کی کوشش بھی کرتے ہیں
موصوف لکھتا ہے :
” ترمذی نے اس روایت کی سند میں شک کا اظہار فرمایا ہے کہ شعبہ کو اس روایت میں شک ہے یعنی پہلا شک تو یہ ہے جیسا کہ سند کے آخر میں مروی ہے کہ آیا یہ روایت ابو سریحہ ؓ سے ہے یا پھر زید بن ارقم ؓ سے۔ دوم یہ کہ شعبہ نے یہ روایت سلمۃ بن کہیل سے سنی ہے یا میمون ابو عبداللہ سے۔ البتہ امام ترمذی نے میمون ابوعبداللہ سے سننے کی تصریح کی ہے۔۔ اس طرح سے اس روایت کی سند میں اضطراب پایا جاتا ہے جو کہ اس روایت کو مضطرب بناتی ہے اور مضطرب روایت محدثین کے نزدیک سخت ضعیف ہوتی ہے۔”
سب سے پہلے امام سنن ترمذی سے مذکوہ روایت نقل کرتے ہیں اور امام ترمذی کا قول بھی :
حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد بن جعفر، قال: حدثنا شعبة، عن سلمة بن كهيل، قال: سمعت أبا الطفيل يحدث، عن أبي سريحة، أو زيد بن أرقم، شك شعبة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من كنت مولاه فعلي مولاه.
هذا حديث حسن غريب.
وقد روى شعبة، هذا الحديث، عن ميمون أبي عبد الله، عن زيد بن أرقم، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.
وأبو سريحة هو: حذيفة بن أسيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم.
ابوسریحہ یا زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبداللہ سے اور میمون نے زید بن ارقم سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور ابوسریحہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن اسید غفاری ہیں۔
[سنن الترمذي برقم : 3713]
امام ترمذی کا مطلب ہے کہ یہ روایت (اسی متن سے ) امام شعبہ سے میمون سے زید بن ارقم کے طریق سے بھی کیی ہے
یعنی
وہ روایت اور ہے اور یہ روایت اور ہے
جیسا کہ امام احمد نے امام شعبہ کی حضرت زید بن ارقم سے روایت نقل کی ہے وہ یوں ہے :
-
حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن ميمون أبي عبد الله، قال: كنت عند زيد بن أرقم، فجاء رجل من أقصى الفسطاط: فسأله عن ذا، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” ألست أولى بالمؤمنين من أنفسهم؟ ” قالوا: بلى، قال: ” من كنت مولاه فعلي مولاه ” قال ميمون: فحدثني بعض القوم، عن زيد، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه “
[مسند احمد برقم: 19328]
اس مذکورہ سند کی روایت میں ضعف ہے کیونکہ اس میں میمون بن ابی عبداللہ ضعیف ہے
اور شعبہ کو اس روایت میں کوئی وھم نہیں تو یہ غلطی ان سے اوپر والے راوی یعنی شیخ کی ہے کیونکہ اسکا حافظہ ضعیف تھا ۔
جیسا کہ امام ذھبی اس راوی پر جروحات نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ميمون ، مولى عبد الرحمن بن سمرة.
قال علي: كان يحيى القطان لا يحدث عن ميمون أبي عبد الله، وقال أحمد : أحاديثه مناكير.
وقال ابن معين: لا شئ.
وزعم شعبة فيما نقل عنه أنه كان فسلا
امام ابن مدینی کہتے ہیں کہ امام یحییٰ بن سعید القطان اس سے حدیث روایت نہ کرتے تھے ۔ اور امام احمد کہتے ہیں کہ اسکی روایات میں مناکیر ہوتی ہیں
ابن معین کہتے ہیں کہ یہ راوی کوئی شہ بھی نہیں ہے
اور امام شعبہ سے انکے بارے مروی ہے کہ یہ کمینہ شخص تھا
[میزان الاعتدال برقم: 8971]
اور مذکورہ روایت کو امام ذھبی اور امام ابن عدی نے اسکی مناکیر میں بیان کیا ہے
کیونکہ امام شعبہ اور امام عون جب اس سے روایت کرتے ہیں تو یہ متن میں بہت تبدیلی سے بیان کرتا ہے
دوسری بات یہ ہے موصوف کو اتنا تو علوم حدیث سے شغف ہونا چاہیے کہ اضطراب ثابت کرنے کے لیے کم از کم اصول تو پورے پڑھ رکھے ہوتے تاکہ اس روایت کو اضطراب کے قوائد پر پورا اتراتا
جیسا کہ مضطرب کی تعریف کی شرح میں ڈاکٹر طحان مصری لکھتا ہے:
“تفصیل اس تعریف کی یہ ہے کہ وہ حدیث جو کئی مختلف سندوں اور متون سے مروی ہو مگر ان میں ایسا تعارض ہو کہ کسی طرح مطابقت نہ دی جا سکے۔ اور ساتھ ہی یہ تمام اسانید و متون قوت و مرتبہ میں ایک دوسرے کے برابر ہوں اور کسی بھی اعتبار سے ان میں ترجیح ممکن نہ ہو۔”
[تیسیر مصطلح الحدیث اردو ترجمہ تیسیر اصول حدیث ص 133]
تو مذکورہ دو اسناد میں ایک ضعیف ہے اور جبکہ دوسری اعلیٰ درجہ کی ہے جس میں امام شعبہ سلمہ بن کھیل سے روایت کرتے ہیں جو کہ ثقہ امام ہیں
اس میں امام شعبہ کو یہ یقین ہے کہ اس روایت کو فقط حضرت زید ارقم کے طریق سے یا حضرت ابوسریحہ صحابی رسول سنی ہے
لیکن یہ شک ہے کہ ان دونوں میں سے کون سے راویکے طریق سے سنی ہے اور دونوں جب صحابی رسولﷺ ہیں تو ہم کو مسلہ نہیں کہ ان دونوں میں سے جس بھی صحابی کے طریق سے سنی ہو روایت تو صحیح رہے گی
اس لیے اس روایت پر محدثین و محققین نے کبھی اضطراب کی جرح نہیں کی یہ الہام ان پاکستانی غیر مقلدین علل کے اموموں پر اترتا ہے
اس لیے سنن ترمذی کی اس مذکورہ رویات کو نہ ہی
علامہ شعیب الارنووط نے اور نہ ہی انکے محقق البانی صاحب اور نہ ہی زبیر زئی نے مضطرب کہا بلکہ صحیح قرار دیا ہے اس روایت کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد موصوف نے اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے
ابن حزم
ابن تیمیہ
علامہ زیلعی الحنفی سے تضعیف کی جرح دے کر چھٹی کی
پھر آخر میں اس روایت پر موصوف موضوع یا مردود کے دعویٰ سے ہٹ کر شدید ضعیف کے حکم پر آگئے جیسا کہ لکھتا ہے
” المختصر یہ کہ یہ حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ کثرت طرق کے باوجود شدید ضعیف ہے اور اسکو سیدنا علیؓ کی منقبت میں پیش کرنا چنداں مناسب نہیں۔ سیدنا علیؓ کی فضیلت میں وارد صحیح احادیث ہی ہمارے لئے کافی ہیں جیسا کہ ہم نے اس تحریر کے شروع میں تصریح کردی تھی۔اس تحریر کا مقصد کچھ نہیں سوائے ایک ضعیف روایت کا ابطال اور اللہ کے نبی ﷺ کی طرف غلط بات کی نسبت نہ کرنے سے آگاہ کرنا ہے۔”
الجواب :
مجھے تو یہ شخص خود مضطرب لگتا ہے کبھی کیا دعویٰ کرتا ہے کبھی کیا اس حدیث میں ایسا کیا ہے جو غلط ہے جسکو نبی کریمﷺ کی طرف منسوب کرنے میں اسکو تکلیف ہے ؟
ابن حزم کو تو ہم ناقددین میں ہی شمار نہیں کرتے کسی کھاتے میں تو اسکی تصحیح و تضعیف کسی کام کی نہیں کیونکہ خود غیر مقلدین بھی اسکی تصحیح و تضعیف کو حجت نہیں سمجھتے
باقی رہا پیچھے ابن تیمیہ تو وہ متفقہ علیہ اہل بیت کی فضائل کی روایات میں متعنت تھا موضوع و ضعیف کہنے میں
باقی امام زیلعی الحنفی جو کہ امام ذھبی کے شاگرد ہیں تو انکا مقام حدیث میں امام ذھبی سے بڑا نہیں جب کہ امام ذھبی کی موافقت کئی محدثین نے کر رکھی ہو تو انکی طرف نظر نہ کی جائے گی کیونکہ امام ذھبی کا اس روایت پر استقراء تھا کیونکہ انہوں نے باقائدہ رسالہ لکھا اور ۱۲۵ کے قریب اسکی اسناد کو جمع کیا جو کہ چھوٹی بات نہیں
۱۔ امام شافعی :
امام بیھقی نے اس روایت کی شرح امام شافعی علیہ رحمہ سے نقل کی ہے
أخبرنا أبو عبد الله السلمي، ثنا محمد بن محمد بن يعقوب الحجاجي، ثنا العباس بن يوسف الشكلي قال: سمعت الربيع بن سليمان يقول: سمعت الشافعي رحمه الله يقول في معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم لعلي بن أبي طالب رضي الله عنه: من كنت مولاه فعلي مولاه، يعني بذلك ولاء الإسلام
امام ربیع بن سلیمان فرماتے ہیں میں نے امام شافعی سے سنا کہ نبی اکرمﷺ کے اس قول کا معنی جو انہوں نے مولا علی سے کہا جسکا میں مولا علیؓ اسکا مولا اسے مولا سے مراد اسلامی بھائی چارہ ہے
[الاعتقاد وسند صحیح]
۲۔امام حاکم نے تصحیح کی ہے مستدرک میں اور امام ذھبی نے موافقت کی ہے
[المستدرک برقم: 6272]
۳۔ امام ترمذی نے تحسین کی ہے اور وہ منفرد بھی نہیں
۴۔امام ابو جعفر الطحاوی نے اس روایت کے متعدد طریق بیان کرکے اسکی شرح کی ہے
۵۔امام ابن حبان اپنی صحیح میں لائے ہیں اس روایت کو باسند حسن
۶۔ امام ابی عوانہ نےتخریج کی ہے
]
اس روایت کے متواتر ہونے کی تصریحات:
امام ذھبی کی تصریح :
هذا حديث حسن، عال جدا، ومتنه فمتواتر.
یہ حدیث حسن ہے نہایت علیٰ ہے اور اسکا متن متواتر ہے
[سیر اعلام النبلاء جلد 8 ص 334]
اور ایک مقام پر کہتے ہیں :
فأنكر عليه أصحاب الحديث ذلك، ولم يلتفتوا إلى قوله
اصحاب الحدیث نے اسکا انکار کیا ہے لیکن انکے قول کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی
[سیر اعلام النبلاء ترجمہ امام حاکم]
امام جلالد اللدین سیوطی نے بھی اس روایت کو متواتر احادیث میں شمار کیا ہے
[الأزهار المتناثرة في الأحاديث المتواترة ، برقم: 100]
نیز حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں اس روایت کے تحت فرماتے ہیں :
جمع مناقبه من الأحاديث الجياد النسائي في كتاب الخصائص وأما حديث من كنت مولاه فعلي مولاه فقد أخرجه الترمذي والنسائي وهو كثير الطرق جدا وقد استوعبها بن عقدة في كتاب مفرد وكثير من أسانيدها صحاح وحسان
مناقب کی احادیث کو جمع کیا ہے امام نسائی نے الخصائص میں اور حدیث میں مروی ہے میں اسکا مولا ہوں جسکا علی مولا ہے اسکی تخریج کی ہے امام ترمذی اور نسائی نے اسکے بہت زیادہ طریق (اسناد) ہیں اور ابن عقدہ اسکو اپنی کتاب میں جمع کیا ہے ۔ اور اسکی کثیر اسناد صحیح کے درجہ اور حسن درجہ کی ہیں
[فتح الباری شرح صحیح بخاری ، ج 7 ، ص 74]
ہم نے اپنی طرف سے پوری کشش کی ہے کہ مختصر رد کیا جائے اور بہت سےدلائل کو ہم نے چھوڑ دیا اتنا کافی رہے گا
اپنے کم علمی اور جہالت کی وجہ سے لوگ احدیث رسولﷺ کا انکار بے دردی سے کر دیتے ہیں جیسے وقت کے علل کے امامت ان پر اتری ہو
اللہ ہم کو محب صحابہؓ و اہلبیتؓ رکھے آمین
تحقیق : دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی