جانور اگر بھاگ جائے تو اسے گولی مار کر ذبح کرنا کیسا ہے؟
جانور اگر بھاگ جائے تو اسے گولی مار کر ذبح کرنا کیسا ہے؟
الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
اگر گائے یا اونٹ بھاگ جائیں اور پکڑ میں نہ آسکیں تو اس کو کسی کو دھاری دار چیز مثلا نیزہ، تیر، چاقو وغیرہ مارنا جائز ہے اور جانور حلال ہوگا اس کو زکاۃ اضطراری کہتے ہیں
البتہ اگر گولی، پتھر وغیرہ کسی ایسی چیز سے مارا جو دھاری دھار نہ ہو اور جانور ذبح کرنے سے پہلے ہی مرگیا تو اس کو کھانا جائز نہیں
اور بکری کا حکم یہ ہے کہ اگرآبادی میں بھاگ گئی تو اس کے لیے ذبح اضطراری نہیں ہے کہ بکری پکڑی جاسکتی ہے اور میدان میں بھاگ گئی تو ذبح اضطراری ہوسکتا ہے
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
نَدَّ بَعِيرٌ مِنْ أَوَائِلِ القَوْمِ، وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ خَيْلٌ، فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ اللَّهُ، فَقَالَ: «إِنَّ لِهَذِهِ البَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الوَحْشِ، فَمَا فَعَلَ مِنْهَا هَذَا فَافْعَلُوا مِثْلَ هَذَا
ترجمہ:
(قافلہ میں) آگے کے لوگوں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا ۔ لوگوں کے پاس گھوڑے نہیں تھے پھر ایک شخص نے اس اونٹ پر تیر مار ا اور اللہ تعالیٰ نے اسے روک لیا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ یہ جانور بھی کبھی وحشی جانوروں کی طرح بدکنے لگتے ہیں ۔ اس لیے جب ان میں سے کوئی ایسا کرے تو تم بھی ان کے ساتھ ایسا ہی کرو ۔
[البخاري، صحيح البخاري، ٩٨/٧]
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معراض(بغیر پر کے تیر جس کا درمیانی حصہ موٹا ہو) کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِذَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، فَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَقَتَلَ فَإِنَّهُ وَقِيذٌ
ترجمہ:
جب جانور اس کی دھار سے زخمی ہو تو اس کو کھالو اور جب جانور کو اس کی چوڑائی کی جانب سے تیر لگے تو مت کھاؤ کہ یہ وقیذ(چوٹ سے مرا ہوا) ہے
[البخاري، صحيح البخاري، ٨٦/٧]
مصنف عبد الرزاق میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوابا فرمایا:
«لَا تَأْكُلْ مِنْهُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتَ»
ترجمہ:
اس سے نہ کھاؤ مگر جس کو تم نے (مرنے سے پہلے) ذبح کردیا
[عبد الرزاق الصنعاني، مصنف، ٤٧٧/٤]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
الْمَقْتُولَةِ بِالْبُنْدُقَةِ: «تِلْكَ الْمَوْقُوذَةُ»
ترجمہ:
غُلہ(چھوٹا پتھر) مارنے سے جو جانور مر گیا وہ موقوذہ ہے(یعنی اُس کا کھانا حرام ہے)
[البخاري، صحيح البخاري، ٨٥/٧]
علامہ ابن عابدين شامی رحمہ اللہ رحمہ اللہ (م1252ھ) معراض کی وضاحت کرتے ہوئے ہیں:
سَهْمٌ بِلَا رِيشٍ، دَقِيقُ الطَّرَفَيْنِ، غَلِيظُ الْوَسَطِ يُصِيبُ بِعَرْضِهِ
ترجمہ:
وہ تیر جس کا پر نہ ہو دونوں اطراف (سائیدز) سے باریک ہو اور درمیانی حصہ موٹا ہو اور شکار کو چوڑائی میں لگے
[ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٤٧١/٦]
امام ابو الفتح مطرزی رحمہ اللہ (م610ھ) بندقة کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
طِينَةٌ مُدَوَّرَةٌ يُرْمَى بِهَا
ترجمہ:
گول پتھر جس سے (کسی کو) مارا جاتا ہے
[المطرزي، المغرب في ترتيب المعرب، ٥١]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“إذا استَوحَشَتِ الإنسيَّةُ وتَمَنَّعَت فإِنَّه يُحِلُّها ما يحِلُّ الوَحشيَّةَ،
ترجمہ:
جب گھریلو جانور وحشی ہوجائے(بدک جائے) اور منع کرے(دوسروں کو قریب نہ آنے دے) تو اس کو وہ چیز حلال کرے گی جو وحشی جانور کو حلال کرتی ہے
[أبو بكر البيهقي، السنن الكبرى، ٢٠٥/١٩]
علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمہ اللہ (م1088ھ)فرماتے ہیں:
(وكفى جرح نعم).. (توحش) فيجرح كصيد (أو تعذر ذبحه) كأن تردى في بئر أو ند أو صال، حتى لو قتله المصول عليه مريدا ذكاته حل.
ترجمہ:
چوپائے اگر وحشی ہوجائیں تو ان کو شکار کی طرح زخم لگانا کافی ہے یا اس (جانور) کا ذبح کرنا دشوار ہوجائے کہ وہ کسی کنویں میں گرجائے یا بدک جائے یا وہ حملہ کردے یہاں تک کہ جس پر (جانور) نے حملہ کیا اگر اس نے جانور کو قربانی کی نیت قتل کردیا تو وہ حلال ہوا
[علاء الدين الحصكفي، الدر المختار شرح تنوير الأبصار ٦٤١]
امام شمس الائمہ سرخسی رحمہ اللہ(م483ھ)فرماتے ہیں:
مَا توحش من الأهليات يحل بِمَا يحل بِهِ الصَّيْد من الرمي
ترجمہ:
گھریلو جانوروں میں سے جو وحشی ہوجائیں تو وہ اس سے حلال ہوں گے جس سے شکار حلال ہوتا ہے جیسا کہ تیر مارنا
[السرخسي، المبسوط، ٢٥٣/١١]
علامہ ابن شحنہ حلبی رحمہ اللہ (م882) فرماتے ہیں:
لَو ند الْبَعِير أَو الْبَقَرَة فَرَمَاهُ بِآلَة جارحة..فَمَاتَ مِنْهَا حل
ترجمہ:
اگر گائے یا اونٹ اگر بدک جائے تو اس نے کسی الہ جارحہ سے مارا اور وہ مرگیا تو حلال ہے
[ابن الشِّحْنَة، لسان الدين، لسان الحكام،٣٨٠]
امام بدر الدین عینی رحمہ اللہ (م855ھ) نقل فرماتے ہیں:
ولا يحل صيد البندقة والحجر والمعراض والعصي، وما أشبه ذلك
ترجمہ:
بندقہ پتھر اور معراض اور اس کے مشابہ چیزوں کا شکار حلال نہیں
[بدر الدين العيني، البناية شرح الهداية، ٤٤٩/١٢]
منلا خسرو رحمہ اللہ (م885ھ) فرماتے ہیں:
(الشَّاةُ إذَا نَدَّتْ خَارِجَ الْمِصْرِ تَحِلُّ بِالْعُقْرِ، وَ) إذَا نَدَّتْ (فِي الْمِصْرِ لَا) تَحِلُّ بِهِ؛
ترجمہ:
بکری جب شہر سے باہر (صحراء وغیرہ) میں بدک کر بھاگ جائے تو ذبح (اضطراری) سے حلال ہوجائے گی
اور اگر شہر کے اندر بھاگی تو ذبح (اضطراری) سے حلال نہیں ہوگی
[منلا خسرو، درر الحكام شرح غرر الأحكام، ٢٨٠/١]
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ (م1367ھ)فرماتے ہیں :
اگر گھریلو جانور وحشی کی طرح ہو جائے کہ قابو میں نہ آئے تو اس کا ذبح اضطراری ہے کہ جس طرح ممکن ہو ذبح کرسکتے ہیں
یوہیں اگر چوپایہ کوئیں میں پڑا کہ اوسے باقاعدہ ذبح نہ کرسکتے ہوں تو جس طرح ممکن ہو ذبح کرسکتے ہیں ۔
(بہار شریعت ||ج3||ح17||ص318)
بہار شریعت میں ہے:
بندوق کا شکار مرجائے یہ بھی حرام ہے کہ گولی یا چھَرا بھی آلۂ جارحہ نہیں بلکہ اپنی قوت مدافعت کی وجہ سے توڑا کرتا ہے۔
(بہار شریعت||ج3||ح17||ص695)
مفتی قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ حرام جانور گنواتے ہوئے فرماتے ہیں:
وہ جانور جو لاٹھی پتھر ،ڈھیلے، گولی چھرے یعنی بغیر دھار دار چیز سے مارا گیا ہو
(تفسیر صراط الجنان|| تحت سورہ مائدہ||آیۃ 3)
بہار شریعت میں ہے:
آبادی میں اگر بکری بھاگ گئی تو اس کے لیے ذبح اضطراری نہیں ہے کہ بکری پکڑی جاسکتی ہے اور میدان میں بھاگ گئی تو ذبح اضطراری ہوسکتا ہے اور گائے، بیل، اونٹ اگر بھاگ جائیں تو آبادی اور جنگل دونوں کا ان کے لیے یکساں حکم ہے ہوسکتا ہے کہ آبادی میں بھی ان کے پکڑنے پر قدرت نہ ہو
(بہار شریعت||ج3||ح17||ص321)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم
کتبہ:
زبیراحمد جمالوی
05/07/2021ء
نظرثانی:
مفی انس صاحب دام ظلھم