مولا کا معنی حدیث اور علماء کے اقوال کی روشنی میں
حدیث ولا سے خلافت کو ثابت کرنا محض خام خیالی ہے.
مولا کا معنی حدیث اور علماء کے اقوال کی روشنی میں
حدیث: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ۔جس کا میں مولا اس کا علی مولا.
(ترمذی)
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔جمیع صحابہ عشرہ مبشرہ ،شہدا بدر احد و تمام مومنین کے مولا ہیں۔مولا کا معنی دوست پیارا اور محبوب وغیرہ ہیں۔اس میں شک کرنے والا ناصبی اور خارجی ہی ہو سکتا ہے ۔لیکن اس حدیث سے تفضیلیوں کا یہ کہنا کہ اس کا معنی آقا ہے اور اس سے پتا چلا کہ آپ ابوبکر و عمر کے بھی آقا ہیں اور ابوبکر و عمر سےافضل ہیں اسی طرح زندیق رافضیوں مرتدوں کا کہنا کہ آپ سارے نبیوں کے آقا ہیں باطل اور غلط ہے۔
اس حدیث پر مختلف طرح سے کلام کیا گیا ہے ۔
1:اس حدیث کے شان ورود کے بارے میں:
آقا کریم ﷺ کے صحابہ کرام میں جب بھی کسی جلیل القدر صحابی پرکوئی دوسرے صحابی اعتراض یا طعن کرتے تو آقا کریمﷺ اپنے صحابی کا بڑے اہتمام سے دفاع کرتے تھے ۔
*حضرت عباس کی مخالفت ہوئی آقا کریمﷺ نے منبر پر تشریف لے جا کر خطبہ دیا اور فرمایا ۔عباس مجھ سے ہے میں عباس سے ہوں ۔(احمد2734)
*حضرت اسامہ بن زیدکی امارت کی مخالفت ہوئی آقا کریمﷺ کھڑے ہوگئے اور دفاع کیا اور فرمایا اس کا باپ اور یہ (زید) امارت کے حق دار ہیں اور مجھے سب لوگوں سے زیادہ پیارے ہیں ۔ملخصاً(بخاری 4250)
*حضرت عمر اور حضرت ابوبکر کا اختلاف ہو گیا آقا کریم ﷺ جلال میں آگئے اور بار بار فرمایا کیا تم میرے لیے میرے ساتھی کو چھوڑتے ہو؟؟میں نے کہا تھا اےلوگوں! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں تم سب نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو ۔ابوبکر نے کہا ا: آپ نے سچ کہا۔ملخصا(بخاری4640)
*اسی طرح جب یمن کے کچھ لوگوں نے بار بار سرکار ﷺ کی بارگاہ میں آکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو آپ ﷺ جلال میں آگئے اور حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :من کنت ولیہ فعلی ولیہ ۔۔جس کا میں ولی ہوں علی بھی اس کا ولی ہے ۔ترمذی3713 ۔۔رضی اللہ عنہم اجمعین۔
چاروں واقعات کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صرف مولا علی نہیں بلکہ کسی بھی جلیل القدر صحابی کی ناموس کا مسئلہ ہوتا تو آقا کریمﷺ اہتمام کے ساتھ دفاع کرتے تھے۔یہاں سے تفضیلیوں کی خیانت بھی پاش پاش ہوجاتی کہ خم غدیر میں یوں اہتمام حضرت علی کا خاصہ نہیں بلکہ کئی اصحاب کے ساتھ آقا کریم ﷺ نے محبت کا اظہار فرمایااور دفاع کیا ۔لیکن کیا کیا جائے یہودیوں کے پیدا کردہ رافضیوں کی شاخ تفضیلیت میں افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض کااثر تو موجود ہونا ہی تھا۔ایک کاذکر کرتے اور دوسرا؟؟؟
2: اس حدیث کے معنی کے اعتبار سے ۔
رافضی تفضیلی کہتے ہیں مولا کا یہاں معنی آقا ہے جبکہ حدیث کا تقاضا ہے کہ یہاں معنی دوست پیارا اور محبوب ہونا چاہیے کہ دوسری روایت میں فرمایا ۔اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ ۔اے اللہ جو علی کو دوست رکھے توں بھی اسے دوست رکھ اور جو علی کو دشمن سمجھے توں بھی اسے دشمن رکھ.
اب تفضیلی ذرا اس حدیث میں آقا کا معنی کر کے دیکھائے۔
دشمن کے مقابلے میں دوست آتا ہے آقا نہیں۔اب چلیے اقوال علماء کی طرف۔۔
1:امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حدیث مولاہ اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے (گویا کہ آپ کے نزدیک صحیح نہیں) تو بھی اس میں یہ دلیل نہیں کہ حضرت علی کی ولایت حضور کے بعد ہے(پھر شان ورودبیان کیا جو اوپر ذکر ہوا اور فرمایا)نبی کریمﷺ نےارادہ فرمایا :کہ آپ کی خصوصیت اور آپ سے محبت بیان کی جائے اور ابھارہ جائے لوگوں کو کہ آپ سے محبت رکھے اور دشمنی چھوڑ دیں.
اس حدیث میں ولا سے مراد اسلامی بھائی چارہ اور محبت ہے۔مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کریں۔ایک دوسرے سے دشمنی نہ رکھیں۔
(الاعتقاد صفحہ 497)
2:امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اس حدیث کا معنی معتمد علماء کی معتمد تحقیق کے مطابق ہے: جس کا میں مولا ،ناصر ،تعلق والا ،پیارااور دلی دوست ہوں تو علی بھی ایسا ہی ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:نبی کریمﷺ نے اس حدیث سے اسلامی محبت و بھائی چارہ مراد لیا ہے ۔
(فتاوی نوویہ 252)
3:ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اس کا معنی ہے جس کو میں ولی بناوں علی بھی اس کو ولی بنائے گا ۔ولی دشمن کی ضد ہے (دشمن کی ضد دوست ہوتی ہے آقا نہیں)۔یعنی جس کو میں پیار کرتا ہوں علی بھی اس سے پیار کرتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے اس کا معنی: جومجھے دوست رکھے گا علی بھی اس کو دوست رکھے گا ۔
(مرقاہ جلد11 صفحہ 247)
4:شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ولی کا معنی دوست،محب اور مددگار ہے۔(اشعہ للمعات شرح مشکوہ ص 454 جلد7)
چند صفحات بعد حدیث مولاہ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ابن حجر فرماتے ہیں کہ ہم تسلیم نہیں کرتے کہ مولا کا معنی حاکم اور والی ہے بلکہ اس کا معنی محبوب اور مددگار ہے کیونکہ لفظ مولیٰ کئی معنی میں مشترک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بعض معانی کو دلیل کے بغیر معین کرنا ناقابل اعتبار ہے (جیسا کہ تفضیلی کرتے ہیں)۔جلد 7 صفحہ 462
5:خواجہ غلام فریدرحمہ اللہ اس کا معنی بیان کرتے ہیں جس کا میں مولا اور محبوب ہوں علی بھی اس کا مولا اور دوست ہے (اور کے عطف سے مولی کا معنی بیان کر دیا)
مقابیس المجالس صفحہ 918
6:خواجہ قمرالدین سیالوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یعنی جس کا میں دوست ہوں علی بھی ان کا دوست ہے ظاہر ہے کہ قرآن میں مولی بمعنی دوست ہے دیکھوآیت کریمہ قال ان اللہ ھو مولاہ وجبریل و صالح المومنین ۔
اب مولا کا معنی حاکم یا امام یا امیر کرنا صراحتہً قرآن کریم کی مخالفت ہے اور تفسیر بالرائے ہے اور کون مسلمان یہ نہیں مانتا کہ حضرت سیدنا علی مرتضی رسول اللہ ﷺ کے دوستوں کے دوست ہیں۔
مذہب شیعہ از خواجہ قمرالدین سیالوی رحمہ اللہ
7:پیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھے ہیں:خم غدیر کے واقعہ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺکا ارشاد عالی من کنت مولاہ فعلی مولاہ بریدہ کی شکایت کی وجہ سے تھاجس کا مطلب یہ ہے علی سے دوستی اور محبت رسول اللہ ﷺ سے دوستی ہے ۔
تصفیہ مابین سنی و شیعہ صفحہ 33
(بطورِ الزام) 8:ڈاکٹر طاہر القادری لکھتے ہیں:مولی اسما مشترکہ میں سے ہے کبھی اس سے مراد ولی ہوتا ہے اور کبھی اس سے مراد مددگار ہوتا ہےیہی اس لفظ کے معانی میں سے سب سے زیادہ واضح ہے۔اور کبھی اس سے آزاد کرنے والا مراد لیا جاتا ہے۔حدیث کا معنی یہ ہے کہ جس کامیں ولی ہوں علی اس کا ولی ہے اور جس کا میں حبیب ہوں علی اس کا حبیب ہے اور جس کا میں مددگار ہوں علی اس کا مدد گار ہے ۔
عظمت صحابیت اور حقیقت خلافت صفحۃ 316
مولا علی پاک بے شک ہمارے آقا اور سردار ہیں لیکن من کنت مولاہ سے آقا کا معنی لے کر تمام صحابہ سے افضل سوائے افترا کے اور کچھ نہیں…
فتدبر
فرحان رفیق قادری عفی عنہ
نشرر مکرر