کفرفقہی کے اقسام و احکام
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
کفرفقہی کے اقسام واحکام
(قسط اول)
کفر کلامی سے متعلق تفصیلی مباحث ماقبل کے مضامین میں مرقوم ہوئے۔حالیہ مضامین میں کفر فقہی کے اقسام واحکام مرقوم ہیں۔قارئین کو حسب ضرورت سوال کا اختیار ہے۔ہمارے تفصیلی دلائل ”البرکات النبویہ“میں مرقوم ہیں۔مضامین میں محض بعض مفاہیم کی توضیح وتشریح کی جاتی ہے۔امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے بہت سے کلامی فتاویٰ اور کلامی رسائل مفقود ہیں۔ان کی بھی تلاش وجستجو کی جائے۔وہ عظیم متکلم اسلام تھے۔
کفر کی دوقسمیں ہیں:کفر متعین اور کفر محتمل۔کفر متعین کا نام کفر کلامی ہے۔ اس کوکفر التزامی بھی کہا جاتا ہے۔کفر محتمل کا نام کفر فقہی ہے۔اس کوکفر لزومی بھی کہا جاتا ہے۔
کفرفقہی یعنی کفرلزومی کی تین قسمیں ہیں:کفر فقہی قطعی،کفر فقہی ظنی،کفر محتمل۔
اسلاف کرام کی کتابوں میں کفر فقہی کی تینوں قسموں کے احکام مرقوم ہیں۔
(1)ضروری دینی کا مفسر انکارکفر کلامی ہے۔اس کو کفر متعین اور کفر التزامی بھی کہا جاتا ہے۔ایسے کافر کے لیے ”من شک فی کفرہ فقد کفر“کا استعمال ہوتا ہے۔
بلفظ دیگر:ضروری دینی کا قطعی بالمعنی الاخص انکار ہو۔عدم انکار کا احتمال بلادلیل (احتمال بعید)بھی نہ ہوتو یہ کفر کلامی ہے۔متکلمین وفقہا ایسے منکر کو کا فر مانتے ہیں۔
کفر کلامی میں اجتہادجاری نہیں ہوتا۔یہ کفر قطعی بالمعنی الاخص ہوتاہے۔قطعی بالمعنی الاخص اور قطعی بالمعنی الاعم میں اجتہادجاری نہیں ہوتا۔ضروریات دین قطعی بالمعنی الاخص ہوتی ہیں۔ضروریات اہل سنت قطعی بالمعنی الاعم ہوتی ہیں۔یہ ضروریات دین کی قسم دوم ہے۔
عہد ماضی میں ضروریات اہل سنت کی اصطلاح مروج نہ تھی۔اسے ضروریات دین کی قسم دوم کہا جاتا تھا۔فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین ضروریات اہل سنت کے منکر پر بھی حکم کفر عائد کرتے ہیں۔متکلمین اور دیگر فقہائے کرام ضروریات اہل سنت کے انکار پر حکم ضلالت عائد کرتے ہیں۔خواہ انکار قطعی بالمعنی الاخص ہو، یا قطعی بالمعنی الاعم۔
(2)ضروری دینی کا بطریق نص انکار کفر فقہی قطعی ہے۔ اس کوکفر متبین کہا جاتا ہے۔فقہا کی اصطلاح میں کفر فقہی قطعی،کفر التزامی ہے۔فقہائے کرام ایسے کافر کے لیے ”من شک فی کفرہ فقد کفر“کا استعمال کرتے ہیں۔
بلفظ دیگر:ضروری دینی کا قطعی بالمعنی الاعم انکار ہو۔عدم انکار کا احتمال بلا دلیل (احتمال بعید)موجود ہوتو یہ کفر فقہی قطعی ہے۔فقہا ایسے منکر کو کافر فقہی کہتے ہیں۔متکلمین اسی کفر فقہی قطعی کو ضلالت سے تعبیر کرتے ہیں اور مجرم کو گمراہ کہتے ہیں۔یہ محض اصطلاح وتعبیرکا فرق ہے۔معنوی فرق نہیں۔فقہا کافر فقہی کے لیے کافر کلامی کا حکم ثابت نہیں مانتے۔
کفر فقہی قطعی میں اجتہادجاری نہیں ہوتا۔یہ کفر قطعی بالمعنی الاعم ہوتا ہے۔
(3)ضروری دینی کا ظنی انکار کفر فقہی ظنی ہے۔ اس میں فقہاکا اختلاف ہوتا ہے۔
اس میں کفر راجح ہوتا ہے،اورعدم کفر مرجوح ہوتا ہے۔جن فقہا کے یہاں عدم کفر راجح ہوتا ہے،وہ اسے کفرنہیں مانتے ہیں۔اس کفر میں اجتہادجاری ہوتا ہے،اسی لیے اس میں فقہائے کرام کااختلاف ہوتا ہے۔
(4)کسی کلام میں کفر مرجوح ہو۔ عدم کفر راجح ہوتو اسے اصطلاح میں کفر محتمل کہا جاتا ہے۔ احتمال جس قدر ضعیف ومرجوح ہوگا،اسی قدر حکم میں تخفیف ہوگی۔کبھی حرمت وعدم جواز کا حکم ہوگا۔ کبھی اسائت وخلاف اولیٰ کا حکم ہوگا۔کفر فقہی کی تینوں قسمیں کفر محتمل ہی ہیں،لیکن اصطلاح میں اسی آخری قسم کو کفر محتمل کہا جاتا ہے۔
کفرفقہی کی قسم اول کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ قسم دوم وقسم سوم کی تفصیل قسط مابعد میں مرقوم ہوگی۔ کفر فقہی سے متعلق دیگر معلومات بھی مندرج ہوں گی۔
قسم اول:کفر فقہی قطعی کی تفصیل:
اسماعیل دہلوی پر کفر فقہی قطعی کا حکم ہے۔کفر فقہی قطعی کو متکلمین ضلالت کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ محض لفظی اور تعبیری اختلاف ہے۔کفر فقہی قطعی میں عدم کفر کا احتمال بعید ہوتا ہے۔فقہائے کرام احتمال بعید کو قبول نہیں کرتے،اس لیے وہ حکم کفر عائد کرتے ہیں۔
متکلمین احتمال بعید کو قبول کرتے ہیں،اس لیے وہ مجرم کو کافر نہیں کہتے، کیوں کہ متکلمین کی اصلاح میں کافر وہ ہے جس کے ایمان کا احتمال بعیدبھی نہ ہو۔کفر فقہی قطعی میں عدم کفر کا احتمال بعید موجودہوتا ہے۔چوں کہ احتمال بعید پر کوئی دلیل نہیں ہوتی،اس لیے متکلمین ضلالت شدیدہ کا حکم عائد کرتے ہیں۔
ضلالت کے مختلف درجات ہیں۔
اسماعیل دہلوی کے کلام میں کفر فقہی قطعی پایا جاتا ہے،اسی لیے مذہب فقہا کے اعتبار سے اسے کافرکہا جائے گا،اور ”من شک فی کفرہ فقد کفر“کا استعمال بھی ہوگا،یعنی اسے کافرفقہی نہ ماننے والا بھی کافر فقہی ہے۔متکلمین دہلوی کو گمراہ کہیں گے،اورجو اسے گمراہ نہ مانے،اسے بھی گمراہ کہیں گے۔جب کفر فقہی قطعی میں اجتہاد جاری نہیں ہوتا توکوئی متکلم یا مجتہد اپنی تحقیق واجتہادکے ذریعہ اس کفرکا مطلق انکار نہیں کرسکتا۔متکلمین کا اختلاف محض تعبیری اور لفظی اختلا ف ہوتا ہے۔ متکلمین کی اصطلاح میں کافر وہ ہے جس کے ایمان کا احتمال بعید بھی نہ ہو۔ فقہاکی اصلاح میں کافر وہ ہے جس کے ایمان کا احتمال قریب نہ ہو۔ جس کے ایمان کا احتمال بعید ہو، وہ بھی فقہا کی اصطلاح میں کافر ہے۔اسی طرح جس کے ایمان کا بالکل کوئی احتمال ہی نہ ہو، وہ بھی فقہا کی اصطلاح میں کافر ہے۔
حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی قدس سرہ العزیزنے اسماعیل دہلوی کے بارے میں رقم فرمایا:””وجواب سوال سوم ایں است کہ: قائل ایں کلام لا طائل ازروئے شرع مبین بلاشبہ کافر وبے دین است۔ہر گز مومن ومسلمان نیست، وحکم اُو شرعاً قتل وتکفیر است، وہر کہ در کفر اُو شک آرد، یا تردد دارد، یا ایں استخفاف راسہل انگارد،کافر وبے دین ونا مسلمان ولعین است“۔ (تحقیق الفتویٰ قلمی نسخہ:سیف الجبار ص88-مطبوعہ کانپور)
کفر فقہی قطعی اورمتکلمین
امام احمدرضا قادری نے رقم فرمایا:”طوائف مذکورین وہابیہ ونیچریہ وقادیانیہ وغیر مقلدین ودیوبندیہ وچکڑالویہ خذلہم اللہ تعالیٰ اجمعین ان آیات کریمہ کے مصداق بالیقین اورقطعا یقینا کفار مرتدین ہیں۔ان میں ایک آدھ اگر چہ کافر فقہی تھا، اورصدہا کفر اس پر لازم تھے،جیسے ۲/ والا دہلوی، مگر اب اتباع واذناب میں اصلاً کوئی ایسا نہیں،جوقطعا یقینا اجماعا کافر کلامی نہ ہو،ایسا کہ من شک فی کفرہ فقد کفر،جو ان کے اقوال ملعونہ پر مطلع ہوکر ان کے کفر میں شک کرے،وہ بھی کافر ہے“۔(فتاویٰ رضویہ جلدششم:ص90-رضا اکیڈمی ممبئ)
توضیح: مذکورہ بالا عبارت میں امام احمدرضا قادری نے صراحت فرمائی کہ اسماعیل دہلوی کافر فقہی ہے۔الملفوظ کی عبارت سے بھی یہی واضح ہے کہ اسماعیل دہلوی کافر فقہی ہے اور چوں کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز باب تکفیر میں مذہب متکلمین پر تھے،اس لیے آپ نے اسماعیل دہلوی کو گمراہ کہا،کیوں کہ متکلمین اپنی اصطلاح میں کافر فقہی قطعی کوگمراہ کہتے ہیں۔ آپ نے دہلوی کے کافر کلامی ہونے کا انکار کیا،کیوں کہ وہ کافر کلامی نہیں۔
آپ نے اسماعیل دہلوی کے گمراہ ہونے کی صراحت فرمائی۔ گمراہ ماننے کا مفہوم یہ ہواکہ آپ نے اسماعیل دہلوی کے کفر فقہی قطعی کو تسلیم فرما یا،اور متکلمین کی اصطلاح کے مطابق اسے گمراہ کہا،کیوں کہ متکلمین کافر فقہی قطعی کو اپنی اصطلاح میں گمراہ کہتے ہیں۔
اسماعیل دہلوی کے بارے میں فتاویٰ رضویہ کا ایک سوال وجواب مندرجہ ذیل ہے۔
مسئلہ: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جوشخص اسمٰعیل دہلوی مصنف تقویۃ الایمان کو حق جانتا ہو،اُس کے پیچھے نماز پڑھنا چاہئے یا نہیں؟ بینواتوجروا
الجواب: اگر اس کے ضلالت وکفریات پرآگاہی ہو کر اُسے اہل حق جانتا ہو تو خود اُس کی مثل گمراہ بددین ہے،اور اُس کے پیچھے نماز کی اجازت نہیں۔اگر نادانستہ پڑھ لی ہو تو جب اطلاع ہو،اعادہ واجب ہے:کما ھوالحکم فی سائر اعداء الدین من المبتدعین الفسقۃ المرتدۃ المفسدین۔اوراگرآگاہ نہیں تو اُسے اس کے اقوال ضالہ دکھائے جائیں۔ اس کی گمراہی بتائی جائے۔رسالہ: الکوکبۃ الشہابیۃ بطورنمونہ مطالعہ کرایاجائے۔
اگر اب بعد اطلاع بھی اُسے اہل حق کہے تووہی حکم ہے، اور اگر توفیق پائے حق کی طرف،فاخوانکم فی الدین-واللّٰہ سبحٰنہ تعالٰی اعلم-وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔(فتاویٰ رضویہ:جلدسوم:ص189-رضا اکیڈمی ممبئ)
امام احمد رضا قادری نے اسماعیل دہلوی کے کافر فقہی ہونے کی تفصیلی بحث اپنے رسالہ:الکوکبۃ الشہابیہ اور سل السیوف الہندیہ میں رقم فرمائی ہے۔ان دونوں رسالوں میں آپ نے اسماعیل دہلوی کے کافر کلامی ہونے کا انکار کیا،اور کافرفقہی ہونے کا اقرار کیا۔ ان دونوں رسالوں کے علاوہ بھی اپنے فتاویٰ میں اسماعیل دہلوی کے کافر فقہی ہونے کا اقرار فرمایا۔
امام احمدرضا قادری علیہ الرحمۃ والرضوان نے اسماعیل دہلوی کے بارے میں رقم فرمایا کہ جو اس کی ضلالت وکفریات فقہیہ سے واقف ہوکر بھی اسے گمراہ نہ مانے،تووہ اسی کی طرح گمراہ ہے۔ متکلمین کافر فقہی قطعی کے بارے میں ایسا ہی کہتے ہیں۔اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز باب تکفیر میں مذہب متکلمین پرتھے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:29:جولائی 2021
٭٭٭٭٭
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
کفرفقہی کے اقسام واحکام
(قسط دوم)
کفر فقہی کی قسم اول:کفر فقہی قطعی کی توضیح وتشریح قسط اول میں مرقوم ہوئی۔قسط دوم میں کفرفقہی کی قسم دوم:کفر فقہی ظنی کی تفصیل مرقوم ہے۔دیگر امور کا بھی اجمالی تذکرہ ہے۔
-1باب تکفیر میں دومذہب ہیں:مذہب متکلمین اور مذہب فقہا۔
-2تکفیرکے دونوں طریقے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے منقول ہیں۔اس کی تفصیلی بحث،البرکات:رسالہ دوازدہم:باب نہم:فصل سوم میں ہے۔
-3باب اعتقادیات میں اہل سنت وجماعت کے دو طبقے ہیں:ماتریدیہ واشعریہ۔
امام اہل سنت حضرت ابومنصور ماتریدی (238-333ھ)باب فقہیات میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقلد ہیں۔ امام اہل سنت حضرت ابوالحسن اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ (260-324ھ)باب فقہیات میں حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقلد ہیں۔اس کی تفصیل:البرکات:رسالہ دوم:باب دوم میں ہے۔
قال السید مرتضٰی الحسینی البلکرامی:(ہذہ المسائل التی تلقاہا الامامان الاشعری والماتریدی ہی اصول الائمۃ رحمہم اللّٰہ تَعَالٰی فالاشعری بَنٰی کُتُبَہ عَلٰی مسائل من مذہب الامامین مالک والشافعی- اخذ ذٰلک بوسائط فَاَیَّدَہَا وَہَذَّبَہَا-والماتریدی کذلک اَخَذَہَا من نصوص الامام ابی حنیفۃ وہی فی خمسۃ کُتُبٍ(۱)الفقہ الاکبر (۲) والرسالۃ(۳) والفقہ الا بسط(۴)و کتاب العلم والمتعلم(۵)والوصیۃ)
(اتحاف السادۃ المتقین شرح احیاء علوم الدین جلددوم:ص13)
-4حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہما باب تکفیر میں اسی مذہب پر تھے،جس کو آج مذہب متکلمین کہا جاتا ہے،یعنی امام ماتریدی وامام اشعری اور دیگر متکلمین اسلام نے باب تکفیر میں مذکورہ مجتہدین اسلام کے طریق کارکو اختیار فرمایا۔
اس کی تفصیل:البرکات النبویہ:رسالہ دوم:باب دوم میں ہے۔
قال الامام ابن الہمام الحنفی:(اِنَّ الحُکمَ بِکُفرِ مَن ذَکَرنَا مِن اَہلِ الاہواء-مَعَ مَا ثَبَتَ عَن اَبِی حنیفۃ والشافعی رحمہم اللّٰہ من عدم تکفیر اہل القبلۃ من المبتدعۃ کلہم-محملہ ان ذلک المعتقد نفسہ کُفرٌ- فَالقَاءِلُ بِہٖ قَاءِلٌ بِمَا ہُوَ کُفرٌ-وَاِن لَم یُکَفَّر بِنَاءً عَلٰی کَونِ قَولہ ذلک عن استفراغ وسعہ مُجتَہِدًا فی طلب الحق)(فتح القدیر جلداول:ص304)
-5باب تکفیر میں تقلید کا حکم نہیں۔باب فقہیات کے ظنی واجتہادی امور میں تقلید شخصی واجب ہے۔باب تکفیرمیں مذہب متکلمین ومذہب فقہا میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی اجازت ہے۔اس کی بحث،البرکات النبویہ:رسالہ دوازدہم:باب نہم:فصل اول میں ہے۔
-6 فقہائے احناف اوران کے مؤیدین ضروریات دین کی قسم دوم یعنی ضروریات اہل سنت کے انکار پر بھی حکم کفرعائد کرتے ہیں۔حضرات ائمہ مجتہدین میں سے حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے۔آپ خلق قرآن کے قائلین کی تکفیر فرماتے تھے،حالاں کہ قرآن مقدس کے غیر مخلوق ہونے کا مسئلہ ضروریات دین میں سے نہیں ہے۔متکلمین ضروریات اہل سنت کے منکر کو گمراہ قرار دیتے ہیں۔
معتزلہ اور جہمیہ وغیرہ قرآن مجید کومخلوق مانتے تھے،اس سبب سے ان لوگوں پر کفر فقہی کا حکم عائدکیا گیا۔ حضرت امام احمد حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے عہد کے بہت سے فقہائے اسلام وعلمائے اہل سنت نے خلق قرآن کے قائلین کو کافر قرار دیا۔ کافرفقہی کے لیے ”من شک فی کفرہ فقدکفر“کی اصطلاح بھی استعمال فرماتے تھے۔ہمارے رسالہ: مناظراتی مباحث اورعقائد ونظریات:بحث دوم:فصل دوم میں تفصیل ہے۔
(الف)امام احمد بن حنبل نے نقل فرمایا:(قال ابوبکر بن عیاش:
من قال:القرآن مخلوق فہوکافر-ومن شک فی کفرہ فہوکافر)
(الورع للامام احمد بن حنبل:جلد اول ص88-مکتبہ شاملہ)
(ب)امام مسددبن مسرہد بصری نے معتزلہ،جہمیہ وغیرہ کے فتنوں کے زمانے میں حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چند سوالات کیے۔امام احمدبن حنبل نے جواب میں ایک رسالہ تصنیف فرمایاجو”العقیدہ“کے نام سے مشہور ہے۔آپ نے رقم فرمایا:
(وآمرکم أن لا تؤثروا علی القرآن شیئا-فإنہ کلام اللّٰہ وما تکلم اللّٰہ بہ فلیس بمخلوق-وما أخبر بہ عن القرون الماضیۃ فلیس بمخلوق- وما فی اللوح المحفوظ وما فی المصحف وتلاوۃ الناس وکیفما وصف فہو کلام اللّٰہ غیر مخلوق-فمن قال مخلوق فہو کافر باللّٰہ العظیم-ومن لم یکفرہ فہو کافر)
(العثیدۃ للامام احمدبن حنبل -روایت محدث خلال حنبلی-ص60-مکتبہ شاملہ)
-7ضروریات اہل سنت کے منکر کی تکفیر کا مسئلہ بھی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے منقول ہے۔ضروریات دین قطعی بالمعنی الاخص امور ہیں اور ضروریات اہل سنت قطعی بالمعنی الاعم امور ہیں۔دونوں قطعیات میں سے ہیں۔
قال الامام احمد رضا القادری:(وَقَد تَوَاتَرَعن الصحابۃ والتابعین العظام والمجتہدین الاعلام علیہم الرضوان التام-اِکفَارُ القَاءِلِ بِخَلق الکلام کَمَا نَقَلنَا نُصُوصًا کَثِیرًامنہم فی(سبحٰن السبوح عن عیب کذب مقبوح)وَہُمُ القُدوَۃُ لِلفُقَہَاءِ الکِرَامِ فِی اِکفَارِکُلِّ مَن اَنکَرَ قَطعِیًّا- وَالمُتَکَلِّمُونَ خَصُّوہُ بالضروری-وہوالاحوط) (المعتمد المستند: ص50)
قسم دوم:کفر فقہی ظنی کی تفصیل:
ضروری دینی کا ظنی انکار کفر فقہی ظنی ہے۔ اس میں فقہاکا اختلاف ہوتا ہے۔
اس میں کفر راجح ہوتا ہے،اورعدم کفر مرجوح ہوتا ہے۔جن فقہا کے یہاں عدم کفر راجح ہوتا ہے،وہ اسے کفرنہیں مانتے ہیں۔اس کفر میں اجتہادجاری ہوتا ہے،اسی لیے اس میں فقہائے کرام کاباہمی اختلاف بھی ہوتا ہے۔یہ فقہا کے یہاں بھی کفر لزومی ہے۔
کوئی ایسا کلام جو کسی ضروری دینی کے انکار میں صریح نہ ہو، نہ صریح متعین ہو، نہ صریح متبین ہو،بلکہ اس کلام کی بعض تاویل کے سبب کسی ضروری دینی کا انکار لازم آتا ہو تو فقہائے کرام ایسے قول پر بھی حکم کفر عائد کرتے ہیں،کیوں کہ وہ قول ترتیب مقدمات کے بعد کسی ضروری دینی کے انکار کی طرف منجر ہوتا ہے۔ یہ کفر ظنی لزومی ہے۔ اس میں اجتہاد جاری ہوتا ہے۔ بعض فقہا کی تحقیق میں لزوم کفر راجح ہوتا ہے،بعض کی تحقیق میں مر جوح۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اورحضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایسے کلام کے قائلین کو کافر نہیں کہتے،لیکن دونوں مجتہدین کے جومقلدین باب تکفیر میں فقہائے کرام کے مذہب پر ہیں،وہ قائل کی تکفیر کرتے ہیں۔یہ تکفیر فقہی ہے،تکفیر کلامی نہیں۔
ظنی واجتہادی مکفرات امام اعظم سے منقول نہیں
قال ابن نجیم:(ان ہذا الفروع المنقولۃ من الخلاصۃ وغیرہا بصریح التکفیر،لَم تُنقَل عَن اَبِی حَنِیفَۃَ-وانما ہی مِن تَفرِیعَاتِ المَشَاءِخِِ کَاَلفَاظِ التَّکفِیرِالمنقولۃ فی الفتاوٰی-وَاللّٰہُ سُبحَانَہٗ ہُوَ المُوَفِّقُ)
(البحر الرائق:جلد اول:ص613)
قال الامام ابن ہمام:(نعم یقع فی کلام اہل المذاہب تکفیرٌ کَثِیرٌ- ولکن لیس من کلام الفقہاء الذین ہم المجتہدون بل من غیرہم- وَلَاعِبرَۃَ بِغَیرِ الفُقَہَاءِ-وَالمَنقُولُ عن المجتہدین ما ذکرنا)
(فتح القد یر: جلدششم:ص100)
توضیح:کفر فقہی ظنی کی صورتیں جو فقہی کتابوں میں مرقوم ہیں۔وہ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول نہیں۔بعد کے فقہا ئے کرام نے حسب ضرورت بیان وہ صورتیں فرمائیں۔ جب ایسے مسائل وحوادث درپیش ہوئے توفقہا نے شرعی دلائل میں غوروفکر کے بعد جواب دیا۔ان میں جو صورتیں کفر کلامی وکفر فقہی قطعی کی ہیں، وہ ظنیات واجتہادیات سے خارج ہیں۔ کفر فقہی ظنی میں اجتہاد جاری ہوتا ہے۔ کفر ظنی میں صریح کفر نہیں پایا جاتا،بلکہ اس کلام کی تاویل کے سبب کفر لازم آ تا ہے۔وہ کسی ضروری دینی کے انکار کی طرف منجر ہوتا ہے۔ اس کوکفر لزومی کہا جاتا ہے۔
ظنی واجتہادی مکفرات میں ایک مذہب کے فقہاکااختلاف
قال الحصکفی عن الفاظ الکفر:(والفاظہ تُعرَفُ فِی الفَتَاوٰی-بَل اَفرَدتُ بِالتَّالِیفِ-مَعَ اَنَّہٗ لَا یُفتٰی بِالکُفرِ بِشَیءٍ مِنہَا اِلَّا فِیمَا اِتَّفَقَ المَشَاءِخُ عَلَیہِ)(الدرالمختار ج۴ص۸۰۴)
توضیح:(لا یفتی بالکفربشیء منہاالا فیما اتفق المشائخ علیہ)سے واضح ہے کہ کفر فقہی ظنی میں ایک فقہی مذہب کے فقہا کا بھی باہمی اختلاف ہوتا ہے۔
قال ابن نجیم:(وَالَّذِی تَحَرَّرَ اَنَّہٗ لَا یُفتٰی بِتَکفِیرِ مُسلِمٍ اَمکَنَ حَملُ کَلَامِہٖ عَلٰی مَحمَلٍ حَسَنٍ-اَوکَانَ فِی کُفرِہٖ اِختِلَافٌ وَلَو رِوَایَۃٌ ضَعِیفَۃٌ- فعلٰی ہذا فَاَکثَرُ اَلفَاظِ التَّکفِیرِ المَذکُورَۃِ لَایُفتٰی بِالتَّکفِیرِ بِہَا-وَلَقَد اَلزَمتُ نَفسِی اَن لَا اُفتِیَ بِشَیءٍ مِنہَا)(البحر الرائق جلددوم:ص210)
توضیح:(او کان فی کفرہ اختلاف ولو روایۃ ضعیفۃ)سے واضح ہے کہ کفر فقہی ظنی میں ایک فقہی مذہب کے فقہا کا بھی باہمی اختلاف ہوتا ہے۔
قال ابن نجیم:(الکفر تکذیب محمد صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی شئ مما جاء من الدین ضرورۃ-ولا یکفر احد من اہل القبلۃ الا بجحود ما ادخلہ فیہ-وحاصل ما ذکرہ اصحابنا رحمہم اللّٰہ تعالی فی الفتاوی من الفاظ التکفیر،یرجع الی ذلک-وفیہ بعض اختلاف،لکن لا یفتی بما فیہ خلاف)(الاشباہ والنظائر:باب الردۃ ص190-دار الکتب العلمیہ بیروت)
توضیح:(وفیہ بعض خلاف لکن لایفتی بما فیہ خلاف)سے واضح ہے کہ کفر فقہی ظنی میں ایک مذہب کے فقہا کا بھی باہمی اختلاف ہوتا ہے۔
کفر فقہی ظنی کے مرتکب کا حکم
کفرفقہی ظنی کے صدور پر مرتکب کوکافر قراردینے سے متعلق دوقول ہیں:
(۱)ایک قول یہ ہے کہ اس امر کے کفر ہونے پر مذاہب اربعہ کے فقہا متفق ہوں۔ کسی فقہی مذہب کے فقیہ کااس میں اختلاف نہ ہو،تب قائل پر حکم کفر عائد ہوگا۔
(۲)دوسرا قول یہ ہے کہ اس خاص فقہی مذہب کے مشائخ اس قول کے کفریہ ہونے پر متفق ہوں،تب قائل حکم کفر عائد ہوگا۔
مذہب اول کا بیان:
قال الحصکفی:((و)اعلم اَنَّہٗ(لَا یُفتٰی بِکُفرِ مُسلِمٍ اَمکَنَ حَملُ کَلَامِہٖ عَلٰی مَحمَلٍ حَسَنٍ-اَو کَانَ فِی کُفرِہٖ خِلَافٌ ولو)کَانَ ذٰلِکَ(روایۃ ضعیفۃ)کَمَا حَرَّرَہٗ فِی البَحرِ)(الدرالمختار جلدچہارم:ص415)
قال الشامی:(قولہ (ولو روایۃ ضعیفۃ) قال الخیرالرملی-اقول: ولوکانت الروایۃ لِغَیرِ اَہلِ مَذہَبِنَا وَیَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ اشتراط کون ما یوجب الکفر مُجمَعًا عَلَیہِ) (رد المحتار جلدچہارم:ص415)
قال ابن نجیم المصری:(وفی الفتاوی الصغرٰی:الکفر شَیءٌ عَظِیمٌ- فَلَا اَجعَلُ المُؤمِنَ کَافِرًا-مَتٰی وُجِدَت رِوَایَۃٌ اَنَّہٗ لَا یَکفُرُ)
(البحرالرائق:جلدپنجم:ص 210)
علامہ شامی نے اس قول کو ردالمحتارمیں نقل فرمایا۔(رد المحتار:جلد چہارم:ص408)
قال الشیخ محمد بن سلیمان اَفَندِی(م ۸۷۰۱ھ)ناقلًا عن البحر الرائق:(ثم اذا کان فی المسئلۃ وجوہٌ ووجہٌ واحدٌ یمنعہ،یمیل العالم الٰی ما یمنع من الکفر ولا ترجح الوجوہُ علی الوجہ-وفی البحر:والحاصل ان من تکلم بکلمۃ الکفر ہَازِلًا اَو لَاعِبًا کَفَرَ عند الکل،ولا اعتبار باعتقادہ-ومن تَکَلَّمَ بِہَا خَطَاءً اَو مُکرَہًا لَا یَکفُرُ عند الکل-ومن تکلم بہا عَالِمًا عَامِدًا کَفَرَ عند الکل وَمَن تَکَلَّمَ بِہَا اِختِیَارًا جَاہِلًا بِاَنَّہَا کُفرٌ ففیہ اختلاف-والذی تَحَرَّرَ انہ لایفتی بتکفیر مسلم مہما امکن حمل کلامہ علی محمل حسن اوکان فی کفرہ اختلافٌ ولو روایۃً ضعیفۃً فعلٰی ہذا فاکثرالفاظ الکفر المذکورۃ لایفتٰی بالتکفیر فیہا-وَلَقَد اَلزَمتُ نَفسِی اَن لَا اُفتِیَ بِشَیءٍ مِنہَا:انتہی)(مجمع الانہرشرح ملتقی الابحر: ص688)
مذہب دوم کابیان:
ایک شکل یہ ہے کہ جس قول کے کفر ہونے پر تمام فقہی مذاہب کے فقہا متفق ہوں، صرف اس قول کے قائل پر کفر کاحکم عائدکیا جائے۔دوسری شکل یہ کہ اس فقہی مذہب کے مشائخ اس قول کے کفر ہونے پر متفق ہوں،تب حکم کفر عائد کیا جائے۔اگر اسی مذہب کے فقہاکا اختلاف ہوتو حکم کفر جاری نہ کیا جائے۔جب کفر کا حکم نہ ہوتو وہاں حرمت وعدم جواز وغیرہ کا جوحکم ہو، وہ بیان کیا جائے،تاکہ قائل توبہ کرکے جرم سے پاک ہوجائے۔
قال الحصکفی عن الفاظ الکفر:(والفاظہ تُعرَفُ فِی الفَتَاوٰی-بَل اَفرَدتُ بِالتَّالِیفِ-مَعَ اَنَّہٗ لَا یُفتٰی بِالکُفرِ بِشَیءٍ مِنہَا اِلَّا فِیمَا اِتَّفَقَ المَشَاءِخُ عَلَیہِ)(الدرالمختار جلد چہارم:ص408)
قاضی مقلد ومفتی مقلدکے احکام
حکم کفر جاری کرنے سے متعلق قاضی مقلد اور مفتی مقلددونوں کے لیے جداگانہ حکم ہیں۔ قاضی مقلدکواپنے فقہی مذہب کے مفتی بہ اور معتمد وراجح قول کے مطابق کفروعدم کفر کافیصلہ کرنا ہے۔وہ مسئلہ تکفیر میں بھی اپنے فقہی مذہب کے مطابق فیصلہ جاری کرے گا۔ مفتی مقلد سے متعلق دومذہب ماقبل میں مذکور ہوئے۔قاضی مقلد کا حکم مندرجہ ذیل ہے۔
(۱) قال الہیتمی ناقلًا عن الرافعی:(فَاِن کَانَ مَدلُولُ لَفظِہٖ کُفرًا مُجمَعًا عَلَیہِ-حُکِمَ بِرِدَّتِہٖ-فَیُقتَلُ اِن لَم یَتُب-وَاِن کَانَ فِی مَحَلِّ الخِلَافِ -نظرفی الراجح من الادلۃ ان تأہل-والا اخذ بالراجح عند اکثر المحققین من اہل النظر-فَاِن تَعَادَلَ الخِلَافُ اُخِذَ بِالاَحوَطِ-وَہُوَ عَدَمُ التَّکفِیرِ-بَلِ الَّذِی اَمِیلُ اِلَیہِ اذا اُختُلِفَ فِی التَّکفِیرِ-وَقفُ حالہ وَتَرکُ الاَمرِ فِیہِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی-انتہٰی)(الفتاوی الحدیثیہ:ص222-دارالفکر بیرو ت)
توضیح:مجمع علیہ قول کواختیار کرنے اوراحتیاط کرنے کا حکم مفتی مقلدکے لیے ہے۔ قاضی مقلد اپنے مذہب فقہی کے مطابق فیصلہ کرے گا۔اگر چہ اس امر کے کفر ہونے میں دیگر مذاہب کے فقہا کا اختلاف ہو۔قاضی مقلد اپنے فقہی مذہب کے مطابق فیصلہ کرے گا۔
(۲)قال الہیتمی فی تشریح قول الرافعی:(وقولہ:وان کان فی محل الخلاف،الخ:محلہ فی غیر قاض مقلد رفع الیہ امرہ-وَاِلَّا لَزِمَہُ الحُکمُ بما یقتضیہ مذہبہ-اِن اِنحَصَرَالاَمرُ فِیہِ سَوَاءٌ وَافَقَ الاِحتِیَاطَ اَم لَا)
(الفتاوی الحدیثیہ ص222-دارالفکربیروت)
توضیح:علامہ ہیتمی کا قول (اِن اِنحَصَرَالاَمرُ فِیہ)سے مراد یہ ہے کہ قاضی مقلد کے مذہب میں ایسے قائل کی تکفیر سے متعلق کوئی اختلاف نہ ہو،بلکہ معاملہ تکفیر میں منحصر ہو، اوراس مذہب کے فقہا کے درمیان ایسے قائل کی تکفیرمتفق علیہ ہوتو کفرکا حکم دے گا۔دیگر مذاہب کے فقہا کااس کی تکفیر میں اختلاف ہوتو قاضی مقلد کوان کے قول پرعمل کا حکم نہیں۔
کفرفقہی ظنی میں کب حکم کفرہوگا؟
فقہا نے جن ظنی کفریات کوکفر بتایا ہے،ان کفریات کا قائل جب وہی معنی مراد لے،جس بنا پر فقہا نے ان کلمات کو کفر کہاہے،تب قائل پرحکم کفر جاری ہوگا۔اگر قائل نے غیر کفری معنی مراد لیا ہے توحکم کفر جاری نہیں ہوگا۔یہ کیفیت محتمل کلام میں ہوگی،یعنی جہاں متعدد معانی کا احتمال ہو، اسی طرح کفر لزومی میں بھی یہ کیفیت پائی جائے گی، یعنی بعض تاویل قریب کے مطابق کسی ضروری دینی کا انکار لازم آتا ہو، اور بعض تاویل قریب کے مطابق ضروری دینی کا انکار لازم نہ آتا ہو، تب یہ حکم ہے کہ فقہا نے جس معنی کوکفر قراردیا ہے، قائل کی وہی مراد ہے تو حکم کفر عائد ہوگا۔اگر ضرور ی دینی کا انکار لزوم بین کے طورپر ہوتو فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں حکم کفر عائد ہوگا۔اسی طرح اگر تاویل بعید کے اعتبار سے حکم کفر لازم نہیں آتا ہے تو فقہا کے یہاں تاویل بعید کا لحا ظ نہیں ہوگا اور حکم کفر عائد ہوگا۔
قال النابلسی:(جمیع ما وقع فی کتب الفتاوٰی من کلمات الکفر التی صرح المصنفون فیہا بالجزم بالکفر یکون الکفر فیہا محمولًا علٰی ارادۃ قائلہا المعنی عللوا بہ الکفر-واذا لم تکن ارادۃ قائلہا ذلک فلا کفر)
(الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیہ: جلد اول:ص304-مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد:پاکستان)
وضاحت: جس کفرفقہی ظنی کے کفرہونے پر تمام مذاہب فقہیہ کے فقہا کا اجماع ہو، اس اجماعی کفر فقہی ظنی کے قائل پر متکلمین بدعت وضلالت کا حکم نافذکریں گے۔جس کفر فقہی ظنی میں فقہائے کرام کے درمیان اختلاف ہو،پس اختلاف کرنے والے فقہائے کرام اگر ایسے قول کو ناجائزوحرام کہتے ہوں تو متکلمین بھی اس قائل کوگنہ گار قرار دیں گے۔
ان شاء اللہ تعالیٰ مستقل قسط میں تفصیل مرقوم ہوگی:واللہ الہادی والموفق وہو المستعان::والصلوٰۃوالسلام علیٰ حبیب الرحمن وعلیٰ آلہ واصحابہ ذوی الفضل والاحسان۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:یکم اگست 2021
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
کفرفقہی کے اقسام واحکام
(قسط سوم)
کفر فقہی کی تیسری قسم کفر احتمالی ہے۔ اس میں کفر کا احتمال مرجوح ہوتا ہے اور عدم کفر کا احتمال راجح ہوتا ہے۔ ایسے قول پر کفر کا حکم نہیں دیا جاتا ہے،بلکہ ایسا قول کرنے کوحرام و ناجائز،خلاف اولیٰ وغیرہ بتایا جاتا ہے۔ احتمال کفر جس قدر مرجوح وضعیف ہوگا،اسی قدر حکم میں تخفیف ہوگی۔جب کفر ثابت نہ ہو، لیکن گناہ ثابت ہوتو توبہ کا حکم ہوگا۔
کفرفقہی کی قسم سوم:کفر احتمالی
بعض الفاظ میں مختلف معانی کا احتمال ہوتا ہے۔بعض کفریہ معانی ہوتے ہیں اور بعض معانی غیرکفر یہ ہوتے ہیں۔ایسے محتمل اور موہم الفاظ وکلمات میں گر احتمال کفر مرجوح ہو، اورحرمت وعدم جواز کاحکم عائد ہوتوقائل کو توبہ ورجوع کا حکم دیاجاتاہے۔ تجدید ایما ن وتجدید نکاح کا حکم نہیں دیا جاتا۔ محض توبہ کا حکم اس وقت ہے جب قائل نے کفری معنی مراد نہ لیا ہو۔اگر کفری معنی مراد لیا،یا کسی معتبرذریعہ سے کفری معنی ثابت ہو گیا تو پھر کفر فقہی یاکفر کلامی جو بھی ثابت ہوگا، اسی کا حکم نافذ ہوگا۔
کفر کلامی وکفر فقہی پر توبہ،تجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم
کفر کلامی کوکفر اتفاقی کہا جاتا ہے،کیوں کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہوتا،یعنی ایسا شخص متکلمین اور فقہا دونوں کے اصول کے مطابق بھی کافر قرارپاتا ہے۔
اگر کوئی متکلم وفقیہ تمام ضروری حقائق سے واقف وآشنا ہوکر اور تمام لازمی امور کے ثبوت شرعی کے تحقق کے بعد بھی کافر کلامی کو مومن مانتا ہے تو اس پر حکم کفر عائد ہوگا۔
کفر فقہی میں متکلمین کا لفظی اختلاف ہوتا ہے۔وہ کافر فقہی کوگمراہ وبدعتی کہتے ہیں۔
یہ محض تعبیری اور اصطلاحی اختلاف ہے۔ موجودہ قسطوں میں کفر فقہی کی تفصیل مرقوم ہے۔چوں کہ کفرفقہی کی متعددصورتیں ہیں۔ کون سے کافر فقہی کے لیے متکلمین کا کیا حکم ہے، اس کی تفصیل موجودہ قسطوں میں مرقوم ہے۔کفر کلامی وکفر فقہی دونوں میں توبہ،تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا حکم ہے۔
کفر احتمالی میں صرف توبہ واستغفارکا حکم ہے۔ اسی طرح غلطی سے کفریہ کلام زبان سے نکل جائے،تب بھی صرف توبہ واستغفار کا حکم ہے۔
(1)قال الحصکفی:(فی شرح الوھبانیۃ للشرنبلالی:مَا یَکُونُ کُفرًا اِتِّفَاقاً،یبطل العَمَلَ وَالنِّکَاحَ وَاَولَادُہٗ اَولَادُ زِنَا-وما فیہ خلافٌ،یُومَرُ بالاستغفاروالتوبۃ وتجدیدِ النکاح) (الدرالمختار:جلدچہارم:ص432)
(2)قال فی الفتاوی الہندیۃ:(ما کان فی کونہ کُفرًا اِختِلَافٌ-فان قائلہ یومربتجدید النکاح وبالتوبۃ و الرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط)
(فتا وٰی عالمگیری:جلددوم:ص283)
(3)قال الشیخ محمد بن سلیمان اَ فندی:(وَمَا کَانَ فی کونہ کفرًا اِختِلَافٌ،یومر قائلہ بتجدید النکاح وبالتوبۃ والرجوع عن ذلک احتیاطًا)
(مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر: ص688)
توضیح:کفریہ کلمات کی چار صورتوں کے احکام مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)کفر کلامی کوکفر اتفاقی کہا جاتا ہے۔ اس میں متکلمین وفقہا میں سے کسی کا اختلاف نہیں ہوتا۔کفر اتفاقی میں نکاح باطل ہوجاتا ہے۔اس میں توبہ،تجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم دیا جاتا ہے۔اگر بیوی اس کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو اسے اختیار ہے۔کفر کلامی میں اعمال سابقہ بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔ان شاء اللہ تعالیٰ اس کے مفصل احکام مرقوم ہوں گے۔
(2)کفر فقہی کوکفر اختلافی کہا جاتا ہے۔ اس میں متکلمین کا اختلاف ہوتا ہے۔وہ کفر فقہی قطعی کو ضلالت کہتے ہیں،اور کفر فقہی ظنی اگر تمام فقہا کے یہاں اجماعی ہوتو اس کوبھی ضلالت وبدعت کہتے ہیں۔ کفر فقہی میں توبہ،تجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم دیا جاتا ہے۔
(3)اگر غلطی سے کفریہ کلام زبان سے نکل جائے تو کفر کاحکم عائد نہیں ہوتا۔ صرف توبہ واستغفار کا حکم ہوتاہے۔
(4)کفر احتمالی میں بھی صرف توبہ واستفا رکا حکم دیا جاتا ہے۔
غلطی سے کفریہ الفاظ زبان سے نکلنے پر توبہ کا حکم
غلطی سے کفریہ الفاظ زبان سے صادرہوجائیں تو قائل پر کفرکا حکم عائد نہیں ہوتا۔ صرف توبہ،استغفار اوررجوع کا حکم دیا جاتاہے۔مندرجہ ذیل عبارتوں میں تفصیل ہے۔
(1) قال الشامی:(قولہ(وَاَولَادُہ اَولَادُ زِنَا)کذا فی فصول العمادی -لکن ذکر فی”نور العین“-وَیُجَدَّدُ بَینَہُمَا النِّکَاحُ اِن رَضِیَت زَوجَتُہ بالعود الیہ وَ اِلَّا فَلَا تُجبَرُ-والمولود بینہما قبل تجدید النکاح بالوطیء بعد الردۃ، یثبت نسبُہ منہ-لکن یکون زنا-الخ-قلتُ:وَلَعَلَّ ثبوتَ النَّسَبِ لِشُبہَۃِ الخِلَافِ-فَاِنَّہَا عند الشافعی-لَا تَبِینُ مِنہُ-تأمل۔
قولہ(والتوبۃ)ای تجدید الاسلام-قولہ (وتجدید النکاح)اَی اِحتِیَاطًا کَمَا فی الفصول العمادیۃ۔
وَزَادَ فِیہَا قِسمًا ثَالِثًا-فَقَالَ:وما کان خطأ من الالفاظ ولایوجب الکفر فقائلہ یقرّ علٰی حَالِہ ولایومر بتجدید النکاح-ولکن یومر بالاستغفار والرجوع من ذلک)(ردالمحتار جلدچہارم:ص432)
توضیح: (وزاد فیہا قسما ثالثا)سے مراد یہ ہے کہ ”فصول عمادیہ“ میں کفر کی ایک تیسری قسم بیان کی گئی ہے۔ تیسری قسم یہ ہے کہ غلطی سے کفریہ کلام زبان پر جاری ہوجائے تو کفر کا حکم عائد نہیں ہوگا،لیکن توبہ واستغفار اوراس کفریہ کلام سے رجوع کا حکم ہوگا۔
(2)قال اخی یوسف الرومی الحنفی:(وفی الفاظٍ تَکَلَّمَ بِہَا خَطَاءً نَحوَ اِن اَرَادَ اَن یَقُولَ:لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَجَرٰی عَلٰی لِسَانِہ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ-اَو جَرٰی بَدلَ شَکَرتُ”کَفَرتُ“ لَا یَکفُرُ فِیہِ قَطعًا فَضلًا عن لزوم النکاح-لکن یؤمر بالاستغفار والرجوع)(ہدیۃ المہدیین:ص15)
(3)قال الشیخ عبد الرحمن بن محمد بن سلیمان اَفَندِی:(لکن فی الدرر:وَاِن لَم یَعتَقِد اَولَم یَعلَم اَنَّہَا لَفظَۃُ الکُفرِ وَلٰکِن اَتٰی بِہَا عَن اِختِیَارٍ -فَقَد کَفَرَ عند عامۃ العلماء ولا یعذر بالجہل-وَاِن لَم یقصد فی ذلک بِاَن اَرَادَ اَن یَتَلَفَّظَ بِلَفظٍ اٰخَرَ فَجَرٰی عَلٰی لِسَانِہ لَفظُ الکُفرِ فَلَا یَکفُرُ)
(مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر: ص688)
(4)قال الشیخ عبد الرحمن بن محمد بن سلیمان اَفَندِی:(وَمَا کَانَ خَطَاءً من الالفاظ لَا یُوجِبُ الکُفرَ فَقَاءِلُہ مُومِنٌ عَلٰی حَالِہ لایومر بتجدید النکاح-ولکن یومربالاستغفار والرجوع عن ذلک)
(مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر: ص688)
توضیح:منقولہ بالاعبارات میں بتایا گیا کہ غلطی سے کفریہ کلام زبان سے نکل جائے تو کفر کا حکم نہیں ہوگا۔جب کفرکا حکم نہیں تو تجدید ایمان اورتجدید نکاح کا حکم نہیں۔صرف توبہ کا حکم دیا جائے گا اور اس کفریہ کلام سے رجوع کا حکم دیا جائے گا۔
کفر احتمالی میں توبہ کا حکم
مذکورہ بالا تیسری قسم ہی کی طرح ایک قسم کفر احتمالی ہے۔ اس میں کفر کااحتمال ضعیف ومرجوح ہوتاہے،لیکن چوں کہ وہاں عدم کفر کا قوی وراجح احتمال ہوتا ہے،لہٰذا وہاں کفر کا حکم نہیں دیا جاتا ہے۔ کبھی حرمت وعدم جواز کا حکم دیا جاتا ہے۔ کبھی خلاف اولیٰ وغیر ہ کا حکم دیا جاتا ہے۔احتمال کفر جس قدر کمزور ہوتا ہے،اسی قدر حکم میں تخفیف ہوتی ہے۔
(1)قال الحصکفی:(لا یفتی بتکفیر مسلم کان فی کفرہ خلاف ولو روایۃ ضعیفۃ-ثم ہوکبیرۃ لوعامدا مختارا عالما بالحرمۃ-لا جاہلا او مکرہا او ناسیا فتلزمہ التوبۃ)(الدرالمختار:جلد اول:ص321-المکتبۃ الشاملہ)
توضیح:کوئی ایسا احتمالی کفر ہے جس کے کفر ہونے میں فقہا کے درمیان ہے توایسا احتمالی کفریہ کلام کہنا حرام وناجائز ہے۔اگر کسی کوایسے مختلف فیہ کفریہ کلام کی حرمت کا علم ہے، اس کے باوجودوہ اپنے قصد واختیار کے ساتھ اس کفریہ کلام کوکہا تو یہ گناہ کبیرہ ہے،اوراسے توبہ کا حکم دیا جائے گا۔اگر لاعلمی کی حالت یا جبرواکراہ کی حالت میں یا بھول کر ایسا کلام کہا تو توبہ کا حکم نہیں۔
کفر احتمالی کی ایک قسم یہ ہے کہ کلام میں کفرکا احتمال مرجوح ہو،اورایسا کلام کہنا ناجائز وگناہ ہوتو اس کے قائل پر حکم کفرعائد نہیں ہوگا۔ قائل کو صرف توبہ کاحکم دیا جائے گا۔ تجدید ایمان وتجدیدنکاح کاحکم نہیں۔
اگر احتمال کفر ایسا سخت مرجوح وشدید ضعیف ہوکہ حرمت وعدم جواز کاحکم نہ ہو، گناہ بھی نہ ہوتو یہاں توبہ کا حکم نہیں،لیکن اس سے احتراز کا حکم دیا جائے گا۔ اس سے متعلق فتاویٰ رضویہ کے چند سوالات وجوابات مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)سوال:
زید نے ایک تصنیف کی ہے،جس کے شروع میں عربی عبارت اس طرح لکھا ہے:
”بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم:الٰہنا محمد وہومعبود جل شانہ وعز برہانہ ورسولنا محمد وہومحمود صلی اللّٰہ علیہ وسلم“:
ان الفاظ کی کوئی تاویل ہو سکتی ہے،یا نہیں۔اگر نہیں توایسے لکھنے والے پر شرعا کیا حکم ہے؟ اوراس سے میل جول رکھنا اوراس کے پیچھے نماز پڑھنا اورایسے اعتقاد والے سے نکاح وغیرہ پڑھوانا شرعاً کیساہے؟بینوا توجروا۔جواب مع عبارات تحریر فرمائیں۔
جواب:ہمارے ائمہ کرام نے حکم دیا ہے کہ اگر کسی کلام میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک اسلام کا تو واجب ہے کہ اسلام پر محمول کیا جائے،جب تک اس کا خلاف ثابت نہ ہو۔پہلے جملہ میں محمد بفتح میم کیوں پڑھا جائے؟محمدبکسر میم کہا جائے،یعنی حضور سید عالم صلی اللہ تعاعلیہ وسلم محمد ہیں: صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، بار بار بکثرت حمد وثنا کیے گئے اور ان کا رب عزوجل ان کا محمد ہے،باربار بکثرت ان کی مدح وتعریف فرمانے والا۔یہ معنی صحیح ہوگئے اورلفظ بالکل کفر سے نکل گیااور اگر بفتح میم ہی پڑھیں اورلغوی معنی مراد لیں،یعنی ہمارا رب عزوجل باربار بکثرت حمد کیا گیا ہے۔جب بھی عند اللہ کفر نہ ہوگا،مگر اب صرف نیت کافرق ہوگا۔بہر حال ناجائز ہونے میں شبہہ نہیں۔
ردالمحتار میں ہے:”مجرد ایہام المعنی المحال کاف فی المنع“۔مصنف کو توبہ چاہئے، اوراسے متنبہ کیا جائے۔اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں،مگر یہ کہ کوئی حالت خاصہ داعی ہو: واللہ تعالیٰ اعلم (فتاویٰ رضویہ جلد ششم: ص115-114-رضا اکیڈمی ممبئ)
(2)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ:
ہمارے سرور عالم کا رتبہ کوئی جانے خدا سے ملنا چاہے تومحمد کوخدا جانے
یہ شعر عام طورپر حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محفل میلاد شریف میں پڑھنا درست ہے یانہیں؟
الجواب: اس شعر کا ظاہر صریح کفر ہے،اور اس کا پڑھنا حرام ہے،اور جو اس کے ظاہر مضمون کا معتقد ہو،یقینا کافر ہے۔ہاں، اگر بقرینہ مصرعہ اولیٰ یہ تاویل کرے کہ خدا سے ملنا چاہے تویوں سمجھے کہ محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مرتبہ کو اللہ ہی جانتا ہے تو یہ معنی صحیح ہیں، مگر ایسا موہم لفظ بولنا جائز نہیں۔رد المحتار میں ہے:مجر د ایہام المعنی المحال کاف فی المنع:واللہ تعالیٰ اعلم (فتاویٰ رضویہ: جلدششم: ص 208-رضا اکیڈمی ممبئ)
(3)اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز سے سوال ہواکہ اللہ تعالیٰ کو حاضروناظر کہنا کیسا ہے؟آپ نے جواب میں تحریر فرمایا:
”اللہ عزوجل شہید وبصیر ہے۔اسے حاضر وناظر نہ کہنا چاہئے،یہاں تک کہ بعض علما نے اس کی تکفیر کا خیال فرمایا اوراکابر کو اس کی نفی کی حاجت ہوئی۔مجموعہ ابن وہبان میں ہے: (ویا حاضر ویا ناظرلیس بکفر) جو ایسا کہتا ہے،خطاکرتا ہے،بچنا چاہئے:واللہ اعلم‘‘۔
(فتاویٰ رضویہ: جلد ششم: ص 157-رضا اکیڈمی ممبئ)
توضیح:در مختارکی عبارت میں ایسے محتمل کلام کا حکم بیان کیا گیا،جس کے کفر ہونے میں فقہاکااختلاف ہو۔ایسا کلام کرنے کو گناہ کبیرہ بتایا گیا اور توبہ کا حکم دیا گیا۔فقہا کے اختلاف کے سبب ایسے محتمل کلام پرگر چہ حکم کفر نہیں،لیکن ایسا کلام کہنا گناہ کبیرہ ہے۔ عہد حاضر میں دیکھا جاتا ہے کہ کسی کلام کی کوئی تاویل مل گئی،بس ملزم کو بری الذمہ قراردے دیا جاتا ہے، حالاں کہ وہاں اگر حرمت وعدم جواز کا حکم نافذہوتا ہے توقائل کوتوبہ کا حکم دینا ہو گا۔
فتاویٰ رضویہ کے منقولہ بالا فتاویٰ میں ایسے محتمل کلام کا حکم بیان کیا گیا ہے جس میں احتمال کفر مر جوح ہو، اور عدم کفرکا احتمال راجح ہو۔پہلے دوفتویٰ میں محتمل کلام پر عدم جواز کا حکم دیا گیا،اورقائل کو توبہ کا حکم دیا گیا،کیوں کہ احتمال کفرگرچہ مرجوح وضعیف تھا،لیکن شدید مرجوح وشدیدضعیف نہیں تھا،لہٰذا ایساکلام کہنا ناجائز وگناہ ہے،اور گناہ سے توبہ کا حکم ہے۔
تیسرے فتویٰ میں صرف احتراز کا حکم ہے۔توبہ کا حکم نہیں، کیوں کہ احتمال کفر شدید مرجوح وشدیدضعیف ہے، پس ایسا کلام حرام وناجائز اورگناہ نہیں۔ جب گناہ نہیں تو توبہ کا حکم نہیں دیا گیا۔بعض امور شرعاًناپسندیدہ ہوتے ہیں،لیکن گناہ نہیں۔ان سے پرہیز کا حکم ہے۔اب ذیل میں ان کلمات کا حکم مرقوم ہے،جس میں کفروعدم کفر کا احتمال مساوی ہو۔
محتمل الفاظ جن میں احتمالات مساوی ہوں
کفر کلامی,کفر متعین کا نام ہے۔اس میں متعدد احتمالات نہیں ہوتے,بلکہ ایک متعین معنی ہوتا ہے۔کفر فقہی قطعی میں احتمال بعید ہوتا ہے۔احتمال بعید کو فقہا قبول نہیں کرتے۔اور حکم کفر جاری کرتے ہیں۔کفر کلامی کی طرح یہ بھی فقہا کے یہاں کفر کفر قطعی التزامی ہے۔
ظنی کلام میں احتمال راجح واحتمال مرجوح ہوتا ہے۔احتمال راجح کو ظنی کہا جاتا ہے,اور احتمال مرجوح کو وہمی۔اسی طرح کوئی کلام محتمل ہوتا ہے۔اس میں متعدد معانی کااحتمال ہوتا ہے۔جیسے مشترک لفظ متعدد معانی کے درمیان مشترک ہوتا ہے۔
جس کلام میں کفری احتمال اورغیر کفری احتمال مساوی ہو،اس کا حکم یہ ہے کہ مفتی اس کوغیر کفری معنی پر محمول کرے۔ اگر قائل کی نیت بھی غیر کفری معنی ہے تو وہ مومن ہے،اوراگر قائل کی نیت کفری معنی ہے تووہ عند اللہ کافر ہے،گرچہ مفتی نے اس کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا۔ ایسی صورت میں لازم ہے کہ قائل توبہ وتجدید ایمان وتجدید نکاح کرکے عنداللہ بری الذمہ ہوجائے۔مفتی کے عدم کفر کا فتویٰ اس کے حق میں مفید نہیں۔مفتی کا حکم مندرجہ ذیل ہے۔
(1)قال الحصکفی:((و)اعلم انہ(لایفتی بکفر مسلمٍ اَمکَنَ حَملُ کَلَامِہ عَلٰی مَحمَلٍ حَسَنٍ اَو کَانَ فی کفرہ خلاف ولو)کان ذلک(روایۃً ضعیفۃً)کما حررہ فی البحر وعزاہ فی الاشباہ الی الصغرٰی وفی الدرر وغیرہا-اذا کان فی المسئلۃ وجوہٌ توجب الکفر وَوَاحِدٌ یَمنَعُہ-فَعَلَی المُفتِی المیل لِمَا یَمنَعُہ-ثم لَونِیَّتُہ ذلک فَمُسلِمٌ وَاِلَّا لَم یَنفَعہ حَملُ المُفِتی عَلٰی خِلَافِہ)(الدرالمختار: جلد چہارم:ص414)
(2)قال الشامی فی توضیح العبارۃ المذکورۃ:(قولہ(ولوروایۃً ضعیفۃً)قال الخیر الرملی:اقول:ولوکانت الروایۃُ لِغَیرِ اَہلِ مَذہَبِنَا-ویدل علٰی ذلک اشتراط کون ما یُوجِب الکُفرَ مُجمَعًا عَلَیہِ-الخ قولہ(کَمَا حَرَّرَہ فی البحر)قَدَّمنَا عِبَارَتَہ قبیل قولہ-وشرائط صحتہا-قولہ(وجوہٌ)ای احتمالاتٌ کَمَا مَرَّ فی عبارۃ البحر عن التتار خانیۃ-اَنَّہ لَا یُکَفَّرُ بِالمُحتَمِلِ)
(ردالمحتار:جلدچہارم:ص415-مکتبہ شاملہ)
(3)قال فی الفتاوی الہندیۃ:(اذا کان فی المسئلۃ وجوہٌ توجب الکفر ووجہٌ واحدٌ یمنع- فَعَلَی المفتی اَن یَمیل الیٰ ذٰلک الوجہ-کذا فی الخلاصۃ-فی البزازیۃ،الا اذا صَرَّحَ بارادۃٍ تُوجِبُ الکُفرَ فَلَا یَنفَعُہُ التَّاویل حِینَءِذٍ-کذا فی البحرالرائق)
(فتاویٰ عالمگیری:جلد دوم:ص283-البحرالرائق جلد پنجم:ص210)
(4)قال الفقیہ الحنفی ابن عابدین الشامی نَاقِلًا عن البحرالرائق:
(وفی الخلاصۃ وغیرھا-اذا کان فی المسئلۃ وجوہٌ توجب التکفیر ووجہٌ واحدٌ یمنعہ-فعلی المفتی ان یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیر تَحسِینًا لِلظَّنِّ بِالمُسلِمِ-زاد فی البزازیۃ-اِلَّا اِذَا صَرَّحَ بِاِرَادَۃِ مُوجِبِ الکُفرِ-فلا ینفعہ التاویل حٍٍ-و فی التتارخانیۃ-لَا یَکفُرُ بِالمُحتَمِلِ-لان الکفرَ نھایۃ فی العقوبۃ فیستدعی نھایۃً فی الجنایۃ-ومع الاحتمال لا نھایۃ)(ردالمحتار: جلدچہارم:ص 408-البحرالرائق: جلدپنجم:ص210)
(5)قال الملاعلی القاری:(قَد ذَ کَرُوا اَنَّ المسئلۃ المتعلقۃ بالکفر اِذَا کَانَ لَھَا تِسعٌ وَتِسعُونَ اِحتِمَالًا لِلکُفرِ واحتمالٌ واحدٌ فی نفیہ-فَالاَولٰی لِلمُفتِی والقاضی ان یعمل بالاحتمال النافی)(شرح الفقہ الاکبر: ص199)
توضیح:منقولہ بالا عبارتوں میں بتایا گیا کہ محتمل الفاظ میں مفتی عدم تکفیر کی طرف مائل ہو،جب کفروعدم کفر کا احتمال مساوی درجے کا ہو۔اگرقائل صراحت کردے کہ ہماری مراد کفری معنی ہے تو مفتی نے جس احتمال کے سبب عدم کفر کافتویٰ دیا ہے،وہ فتویٰ قائل کے حق میں مفید نہیں ہوگا۔اس پرلازم ہے کہ خود توبہ وتجدیدایمان وتجدید نکاح کرلے۔
محتمل الفاظ میں قائل سے سوال کا حکم
جب مفتی سے کسی محتمل لفظ کے بارے میں سوال ہو، جس میں کفر وعدم کفر دونوں کا احتمال مساوی ہوتو فتویٰ دینے سے قبل قائل کی مراد دریافت کرلے۔قائل جواپنی مراد بتائے، اسی کے اعتبارسے مفتی شرعی حکم بیان فرمائے۔
اگر قائل کی مراد معلوم نہ ہو سکے تو اپنی جانب سے عدم کفر کا حکم دے۔جس کا ذکر ماقبل کی بحث میں گزرا۔
(1)قال الہیتمی:(ومنہا مَا صَرَّحَ بِہٖ اَءِمَّتُنَا کالرافعی فی”العزیز“ والنووی فی”الروضۃ والمجموع“ وغیرہما-مِن اَنَّ المُفتِیَ اذا سُءِلَ عَن لَفظٍ یَحتَمِلُ الکُفرَ وَغَیرَہٗ-لَا یَقُول ہو مہدر الدم اومباحہ اویقتل او نحو ذلک-بل یقول:یُسءَلُ عَن مُرَادِہٖ-فَاِن فَسَّرَہٗ بِشَیءٍ،عُمِلَ بِہٖ)
(الفتاوی الحدیثیہ:ص38-دارالفکربیروت)
(2)قال الہیتمی:(سُءِلَ نَفَعَ اللّٰہُ بِہٖ-بِمَا لَفظُہٗ:
مَن قَالَ اِنَّ المؤمن یعلم الغیب-ہل یکفر لقولہ تعالٰی(قُل لَا یَعلَمُ مَن فِی السَّمٰوَاتِ وَالاَرضِ الغَیبَ اِلَّا اللّٰہُ)وقولہ(عَالِمُ الغَیبِ فَلَایُظہِرَ عَلٰی غَیبِہٖ اَحَدًا)-اَو یُستَفصَلُ لِجَوَازِ العِلمِ بِجُزءِیَّاتٍ مِنَ الغَیبِ۔
فَاَجَابَ بِقَولہ رحمہ اللّٰہُ وَنَفَعَنَا بِہٖ-آمین:
لَا یُطلَقُ القول بکفرہ- لِاِحتِمَالِ کَلَامِہٖ-وَمَن تَکَلَّمَ بِمَا یَحتَمِلُ الکُفرَ وَغَیرَہٗ-وَجَبَ اِستِفصَالُہٗ کما فی الروضۃ وغیرہا۔
ثم قال الرافعی:ینبغی اذا نُقِلَ عَن اَحَدٍ لَفظٌ ظَاہِرُہُ الکُفرُ،اَن یُتَاَمَّلَ وَیُمعَنَ النَّظرُ فیہ-فَاِن اِحتَمَلَ مَا یُخرِجُ اللَّفظُ عَن ظاہرہ-مِن اِرَادَۃِ تَخصِیصٍ اَومَجَازٍ اَو نَحوِہِمَا-سُءِلَ اللَّافِظُ عَن مُرَادِہ-وَاِن کَانَ الاَصلُ فِی الکَلَامِ الحَقِیقَۃُ وَالعُمُومُ وَعَدَمُ الاِضمَارِ-لِاَنَّ الضَّرُورَۃَ مَاسَّۃٌ اِلَی الاِحتِیَاطِ فِی ہٰذَا الاَمرِ-وَاللَّفظُ مُحتَمِلٌ-فَاِن ذَکَرَمَا ینفی عنہ الکفر مما یَحتَمِلُہُ اللَّفظُ،تُرِکَ-وَاِن لَم یَحتَمِلُ اللَّفظُ خِلَافَ ظَاہِرِہٖ-اَوذَکَرَغَیرَمَا یَحتَمِلُ -اَولَم یَذکُر شَیءًا اُستُتِیبَ-فَاِن تَابَ قُبِلَت تَوبَتُہٗ-وَاِلَّا فَاِن کَانَ مَدلُولُ لَفظِہٖ کُفرًا مُجمَعًا عَلَیہِ -حُکِمَ بِرِدَّتِہٖ فَیُقتَلُ اِن لَم یَتُب۔
وان کان فی محل الخلاف-نَظَرَ فی الراجح من الادلۃ اِن تَاَہَّلَ- وَاِلَّا اَخَذَ بالراجح عند اکثر المحققین من اہل النظر-فَاِن تَعَادَلَ الخِلَافُ -اَخَذَ بِالاَحوَطِ-وہوعدم التکفیر-بل الذی امیل الیہ اذا اُختُلِفَ فِی التَّکفِیرِ،وَقفُ حَالِہٖ وَتَرکُ الامر فیہ الی اللّٰہ تَعَالٰی-انتہٰی کلامہ
وقولہ:وان کان فی محل الخلاف الخ محلہ فی غیر قاض مقلد رُفِعَ الیہ امرہ-وَاِلَّا لَزِمَہُ الحُکمُ بِمَا یَقتَضِیہِ مَذہَبُہٗ ان انحصر فیہ-سواء وافق الاحتیاطَ اَم لَا۔
وَمَا اَشَارَ اِلَیہِ الرَّافِعِیُّ مِنَ الاِحتِیَاطِ فی اراقۃ الدماء ما امکن، وَجِیہٌ- فقد قال حجۃ الاسلام الغزالی-تَرکُ قتل الف نفس استحقوا القتلَ، اَہوَنُ من سفک محجم من دم مسلم بغیر حق-ومتٰی اُستُفصِلَ فَقَالَ: اَرَدتُ بقولی-”المؤمن یعلم الغیب“-اَنَّ بَعضَ الاَولِیَاءِ قَد یُعَلِّمُہُ اللّٰہُ بِبَعضِ المُغِیبَاتِ-قُبِلَ مِنہُ ذٰلِکَ-لانہ جائزٌ عَقلًا وَوَاقِعٌ نَقلًا-اذ ہو من جملۃ الکرامات الخارجۃ عن الحصر علٰی ممر الاعصار-فبعضہم یعلمہ بخطاب-و بعضہم یعلمہ بکشف حجاب-وبعضہم یکشف لہ عن اللوح المحفوظ حَتّٰی یَرَاہُ)(الفتاوی الحدیثیہ: ص222-مکتبہ شاملہ)
توضیح:کبھی ایک کلام میں متعدد معانی کا احتمال ہوتا ہے۔بعض معانی کفریہ ہوتے ہیں۔بعض غیرکفریہ۔
جب کلام متعدد معانی کا احتمال رکھے۔بعض معانی کفریہ ہوں،اوربعض معانی غیر کفریہ۔احتمالات مساوی ہون۔راجح ومرجوح نہ ہوں۔ایسی صورت میں حکم کی بنیاد قائل کی نیت پر ہوتی ہے،لہٰذا فتویٰ سے قبل قائل کی مراد دریافت کی جائے گی۔کلام میں متعدد احتمال ہونے کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)قال الھیتمی:(وما ذکرہ فی-اَنصِفِ اللّٰہَ یُنصِفُکَ یَومَ القِیَامَۃِ- من انہ کفرٌ-فیہ نظرٌ ظاھرٌ-لانہ ان اراد بہ-ان اطعتہ اَثَابَکَ فَوَاضحٌ انہ غیرکفر-وان اراد حقیقۃَ الانصاف المشعرۃ بالاحتیاج اِتَّجَہَ الکُفرُ-لان من اعتقد ان اللّٰہَ یَحتَاجُ الٰی اَحَدٍ من خلقہ فَلَا شَکَّ فی کفرہ-وَاِن اَطلَقَ -تَرَدَّدَ النظر فیہ-والظاھرانہ غیرکفر لان الانصاف لایستلزم ذلک)
(الاعلام بقواطع الاسلام:ص367)
(2)قال الھیتمی:(وَقَد ذَ کَرَالنووی عَفَا اللّٰہُ عَنہُ فی شرح المھذب -انہ یقال:قَصَدَ اللّٰہُ کَذَا-بِمَعنٰی اَرَاد َ-فَمَن قَالَ:لَیسَ لَہ نِیَّۃٌ اَی قَصدٌ-فَاِن اَرَادَ اَنَّہ لَیسَ لَہ قَصدٌ کَقَصدِنَا فَوَاضِحٌ-وکذا اِن اَطلَقَ-اَو اَرَادَ اَنَّہٗ لَا اِرَادَۃَ لَہٗ اَصلاً-فَاِن اَرَادَ المَعنَی الَّذِی یَقُولُہُ المُعتَزِلَۃِ فَلَا کُفرَاَیضًا-اَو اَرَادَ سَلبَھَا مُطلَقًا،لَابالمعنی الذی یقولنہ فھوکُفرٌ) (الاعلام بقواطع الاسلام: ص367)
توضح:جب رب تعالیٰ سے من کل الوجوہ ارادہ کا سلب کردے تویہ جبر مطلق ہے۔یہ فلاسفہ کا عقیدہ ہے۔فلاسفہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فاعل بالایجاب ہے،یعنی فاعل مختار نہیں کہ اپنی مرضی سے جوچاہے،کرے۔یہ عقیدہ کفر یہ ہے۔فلسفہ کی کتابوں میں فن الٰہیات میں اس کا تفصیلی ذکر موجود ہوتا ہے۔
(3)قال الامام فخرالد ین حسن بن منصورالاوزجندی المعروف بقاضی خاں:(رجل قال لغیرہ”صَلِّ المَکتُوبَۃَ“ فقال:”لا اصلیہا الیوم“- اختلفوا فیہ-ذکر الناطفی عن محمد رحمہما اللّٰہ تَعَالٰی انہ قال:قول الرجل:”لااصلی“ یحتمل وجوہًا اربعۃ۔
احدہا:لا اصلی،فقد صلیتہا-والثانی:لا اصلی بقولک،فَقَد اَمَرَنِی مَن ہُوَ خَیرٌ مِنکَ-والثالث: لا اصلی فسقا ومجانۃ-ففی ہذہ الوجوہ الثلث لا یکفر-والرابع:لا اصلی-فلیس تجب عَلَیَّ الصَّلٰوۃُ وَلَم اُومَر بِہَا یعنی جحودہا،یصیرکافرًا-قال الناطفی رحمہ اللّٰہ تعالٰی:فعلٰی ہذا اذا اطلق،وقال:”لا اصلی“لا یکفر،لان ہذا اللفظ محتمل)
(فتاوٰی قاضی خاں: جلدسوم:ص573-داراحیاء التراث العربی بیروت)
توضیح:منقولہ بالاعبارتوں میں بیان کیا گیا کہ بعض الفاظ وکلمات میں تین،چار معانی کا احتمال ہوتا ہے۔ ایسے محتمل الفاظ میں مفتی کو کامل تحقیق کے بعد ہی حکم نافذکرنا ہے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:03:اگست 2021
٭٭٭٭٭
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
کفرفقہی کے اقسام واحکام
(قسط چہارم)
ضروریات دین کی دوقسمیں ہیں۔ضروریات دین کی قسم اول کو ضروریات دین کہا جاتا ہے۔ضروریات دین کی قسم دوم کوضروریات اہل سنت کہا جاتا ہے۔ضروریات دین قسم اول کے انکار کی چار صورتیں ہیں۔ان چاروں صورتوں کا تفصیلی بیان مرقوم ہوچکا۔اجمالی تذکرہ مندرجہ ذیل ہے۔
(1)ضروریات دین کا مفسر انکار:اس کو کفرکلامی اور کفر متعین کہا جاتا ہے۔
(2)ضروریات دین کا بطورنص وظاہر انکار:اس کو کفر فقہی قطعی اور کفر متبین کہا جاتا ہے۔متکلمین اس کفر کوضلالت وگمرہی کہتے ہیں۔یہ تعبیری اوراصطلاحی اختلاف ہے۔
(۳)ضروریات دین کا ظنی انکار:اس کوکفر فقہی ظنی کہا جاتا ہے۔
(۴)ضروریات دین کا مرجوح انکار:اس کوکفر احتمالی کہا جاتا ہے۔اس صورت میں حکم کفر نہیں دیا جاتا۔
ضروریات اہل سنت کا انکار
ضروریات اہل سنت کا انکار فقہائے احناف اوران کے مؤیدین کے یہاں کفرفقہی ہے۔ متکلمین اس انکار کو ضلالت وگمرہی کہتے ہیں۔تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
ضروریات اہل سنت کے انکار پرکفر فقہی کا حکم عائد ہونے کی دوشرطیں ہیں:
(۱)منکر کو اس کے قطعی ہونے کا علم ہو۔(۲)تاویل فاسد کے سبب انکار کیا ہو۔
دیگر صورتیں مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱)اگر لاعلمی کی حالت میں ضروریات اہل سنت کا انکار کیا تونہ فقہائے احناف کے یہاں کفر فقہی کا حکم ہے،نہ ہی متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی کا حکم ہے۔
(۲)اگر منکر کواس کے قطعی ہونے اورضروریات اہل سنت میں سے ہونے کا علم ہے، اس صورت میں بلا تاویل انکارکرے تو یہ استخفاف بالدین او رکفر عنادی ہے۔اس صورت میں فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں منکر پر کفر کا حکم عائد ہوگا۔ یہ کفر کلامی ہے۔
ضروریات اہل سنت کے انکارکی صور تیں
ضروریات اہل سنت کا انکار،خواہ نص کے طریقے پر ہو،یا بطور مفسرہو، یعنی انکار صریح متبین ہو، یا صریح متعین ہو۔دونوں کاحکم ایک ہے۔ ضروریات اہل سنت کا انکار متکلمین کے یہاں گمرہی اور فقہائے احناف اوراس کے مؤیدین کے یہاں کفر فقہی ہے۔
انکار صریح کی دونوں قسموں میں اجتہاد جاری نہیں ہوگا۔انکار مفسر،یعنی انکار صریح متعین قطعی بالمعنی الاخص انکار ہوتاہے۔قطعی بالمعنی الاخص میں اجتہاد کی اجازت نہیں۔ایسا نہیں کہ بعض کے یہاں انکار ثابت ہو اور بعض کے یہاں انکار ثابت نہ ہو۔
انکار بطریق نص یعنی انکار صریح متبین,قطعی بالمعنی الاعم انکار ہوتاہے۔قطعی بالمعنی الاعم میں بھی اجتہاد کی اجازت نہیں۔ فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں انکار ثابت ہو گا اور انکار میں احتمال بعید ہو گا۔احتمال بعید فقہا کے یہاں معتبر نہیں۔
ضروریات اہل سنت کا لزومی انکار ہوتووہاں اجتہاد ہوگا۔بعض کے یہاں انکارلزومی ثابت ہوگا،بعض کے یہاں ثابت نہیں ہوگا۔اسی اعتبارسے منکر کے حکم میں بھی اختلاف ہو گا۔یہاں لزوم بین کی صورت میں متکلمین کے یہاں حکم ضلالت ثابت ہوگا۔
حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافت راشدہ کی حقانیت ضروریا ت اہل سنت میں سے ہے۔ضروریات دین میں سے نہیں۔(مطلع القمرین:ص 78)
کوئی کہے کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ بلا فصل ہیں تو اس نے صریح لفظوں میں حضرات خلفائے ثلاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافت کا انکار نہ کیا،لیکن خلیفہ چہارم خلیفہ بلا فصل اسی وقت ہوں گے جب ماقبل کے تینوں خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافت کوکالعدم قرار دیا جائے۔اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں۔
خلیفہ چہارم کوخلیفہ بلافصل ماننے سے ماقبل کے تینوں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کی خلافت کا کالعدم ہونا لزو م بین کے طورپر ثابت ہے۔ اسی طرح تاویل فاسد کے سبب وہ لوگ خلافت خلفائے ثلاثہ کا صریح انکار بھی کرتے ہیں۔خلفائے ثلاثہ کی خلافت کے انکار کے سبب ماقبل کے تبرائی شیعہ فقہا کے یہاں کافر اور متکلمین کے یہاں گمراہ ہیں۔
تیرہویں صدی ہجری سے روافض نے کفر کلامی کی راہ اختیارکرلی۔وہ قرآن مجید کو ناقص اورحضرات ائمہ اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کوحضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے افضل بتانے لگے۔یہ دونو ں امر کفر کلامی ہیں۔اسی سبب سے مابعد کے تبرائی روافض پر کفر کلامی کا حکم عائد ہوا۔ روافض میں فرقہ تفضیلیہ پر کفرکاحکم نہیں۔وہ گمراہ وبدعتی ہیں۔
فتاویٰ رضویہ سے ضروریات اہل سنت سے متعلق سوال وجواب مندرجہ ذیل ہے:
سوال:کیا شیعوں کے سب فرقے اورغیر مقلدین سب سے سب کافر ہیں؟
الجواب:ان میں ضروریات دین سے کسی شئ کا جومنکر ہے،یقینا کافر ہے،اور جو قطعیات کے منکر ہیں،ان پر بحکم فقہا لزوم کفر ہے،اور اگر کوئی غیر مقلد ایسا پایا جائے کہ صرف انھیں فرعی اعمال میں مخالف ہو،اورتمام عقائد قطعیہ میں اہل سنت کا موافق،یا وہ شیعی کہ صرف تفضیلی ہے توایسوں پر حکم تکفیر ناممکن ہے:واللہ تعالیٰ اعلم
(فتاویٰ رضویہ: جلد 14 ص281-جامعہ نظامیہ لاہور)
توضیح: منقولہ بالا عبارت میں قطعیات سے ضروریات اہل سنت مرادہیں،جو ضروریات دین کی قسم دوم ہے۔ قسم دوم کے انکارکو کفرفقہی بتایا گیا۔ قسم دوم کا مفسرانکار بھی متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی ہے۔ کفر کلامی کوکفر التزامی کہا جاتا ہے اورکفر فقہی کوکفر لزومی کہا جاتا ہے،حالاں کہ کفر فقہی میں بھی لزوم والتزام دونوں صورتیں ہوتی ہیں،لیکن کفر فقہی میں تاویل بعید موجود ہوتی ہے،لہٰذا متکلمین کے یہاں التزام کفر میں اس کا شمار نہیں کیا جاتا۔
ضروریات دین کا غیر مفسر انکار ہوتوانکارہی میں تاویل بعید موجود ہوگی۔
اگر ضروریات اہل سنت کا مفسر انکار ہوتو انکار میں تاویل بعید نہیں،لیکن ضروریات اہل سنت قطعی بالمعنی الاعم امور ہیں۔جن دلائل سے ان کا ثبوت ہوتا ہے۔ ان دلائل کے ثبوت یا دلالت میں تاویل بعید ہوتی ہے،مثلاًقرآن مجید کی آیت مقدسہ کسی مفہوم پربطور نص دلالت کرے،بطور مفسر دلالت نہ کرے تو دلالت میں تاویل بعید ہے۔آیت قرآنیہ کے ثبوت میں تاویل بعید نہیں،بلکہ تمام آیات قرآنیہ اور نظم قرآنی کے الفاظ وحروف متواتر لفظی ہیں اوران کا ثبوت قطعی بالمعنی الاخص کے طریقے پر ہے کہ تاویل وشبہہ کی کوئی گنجائش نہیں۔
اگر کوئی حدیث متواتر معنوی ہو،متواتر لفظی نہ ہو،اور کسی مفہوم پر بطور مفسر دلالت کرے تو دلالت قطعی بالمعنی الاخص ہے،لیکن ا س متواتر معنوی حدیث کا ثبوت قطعی بالمعنی الاعم ہے۔ اس کے ثبوت میں احتمال بعید ہے۔
ضروریات دین اورضروریات اہل سنت کی تشریح
ضروریات اہل سنت کا دونام ہے:(۱)قطعی غیرضروری (۲)ضروریات دین کی قسم دوم۔ضروری دینی کی قسم اول اورقسم دوم کا بیان مندرجہ ذیل عبارت میں ہے۔
قال الہیمتی الشافعی ناقلًا عن تقی الدین السبکی الشافعی:
(ثم المعلوم بالضرورۃ من الشرع قسمان-احدہما ما یعرفہ الخاصۃ والعامۃ-والثانی ما قد یخفی علٰی بعض العوام-ولا ینافی ہذا- قولنا انہ معلوم بالضرورۃ-لان المراد من مارس الشریعۃ-عَلِمَ مِنہَا ما یحصل بہ العلم الضروری بذلک-وہذا یحصل لبعض الناس دون بعض بحسب الممارسۃ وکثرتہا اوقلتہا اوعدمہا۔
فالقسم الاول من انکرہ من العوام والخواص فَقَد کَفَرَ-لانہ کَالمُکَذِّب لِلنَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی خبرہ-ومن ہذا القسم انکار وجوب الصلٰوۃ والصوم والزکاۃ والحج ونحوہا وتخصیص رسالتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ببعض الانس-فمن قال ذلک-فلا شک فی کفرہ وان اعترف بانہ رسول اللّٰہ-لان عموم رسالتہ الٰی جمیع الانس مما یعلمہ الخواص و العوام بالضرورۃ من الدین۔
والقسم الثانی من انکرہ من العوام الذین لم یحصل عندہم من ممارسۃ الشرع-ما یحصل بہ العلم الضروری،لم یکفر-وان کانت کثرۃ الممارسۃ توجب للعلماء العلم الضروری بہ)
(الفتاوی الحدیثیہ: ص144-دار الفکر بیروت)
توضیح:منقولہ بالاعبارت میں ضروریات دین کی دونوں قسم کا بیان ہے۔
ضروریات اہل سنت کے انکار پر کفرفقہی کا حکم
(1)قال الہیتمی:(وَلَا یَکفُرُ بانکار قطعی غیر ضروری کاستحقاق بنت الابن السدس مع بنت الصلب-
وظاہر کلام الحنفیۃ کُفرُہٗ-ویجب حملہ اَی بناءً علٰی قواعدہم علٰی مُنکِرٍ عَلِمَ اَنَّہٗ قَطعِیٌّ-وَاِلَّا فَلَا یَکفُرُ-اِلَّا اذا ذکر لہ اہل العلم انہ من الدین وانہ قطعی فتمادی فیما ہو علیہ عنادًا فَیَکفُرُلظہور التکذیب منہ حینئذ کما دل علیہ کلام امام الحرمین)
(الفتاوی الحدیثیہ ص141-دار الفکربیروت)
توضیح: (وظاہر کلام الحنفیۃ کفرہ)سے ثابت ہے کہ فقہائے احناف قطعی غیر ضروری (ضروریات اہل سنت)کے انکار پر حکم کفر جاری کرتے ہیں۔
(علم انہ قطعی)سے ثابت ہے کہ منکر کوضروریات اہل سنت کی قطعیت کا علم ہو۔
منقولہ بالا عبارت میں ضروری دینی کی قسم دوم کوقطعی غیر ضروری کہا گیا اور یہ بتایا گیا کہ حنفی فقہا قطعی غیرضروری کے انکار پر بھی کفر کا حکم عائد کرتے ہیں۔
فقہائے احناف کے یہاں ہرقطعی کے انکار پر حکم کفر عائد ہوگا۔خواہ وہ امرقطعی بالمعنی الاخص(ضروریات دین) ہو،یا قطعی بالمعنی الاعم (ضروریات اہل سنت)،جب کہ منکر کو معلوم ہوکہ یہ قطعی ہے۔ضروریات اہل سنت کے انکار پر کفر فقہی کا حکم عائدہوتا ہے۔
امام الحرمین عبد الملک بن ابومحمد جوینی شافعی (۹۱۴ھ-۸۷۴ھ) کے کلام سے واضح ہے کہ اگرکسی نے ضروریات اہل سنت میں سے کسی امر کا انکار لاعلمی کی حالت میں کیا، پھر اسے بتادیا گیاکہ یہ قطعی ہے،اس کے باوجود محض اپنی ہٹ دھرمی کے سبب انکار کیا تو یہ استخفاف بالدین وکفرعنادی ہے۔اس کے سبب متکلمین کے یہاں بھی کفر کا حکم عائدہو گا۔
اگر عناد وہٹ دھرمی کے سبب انکار نہیں کیا،بلکہ تاویل فاسد کے سبب انکارکیا تو متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی کاحکم ہے اور فقہائے احناف کے یہاں کفر کا حکم ہے۔
(2)قال الامام احمد رضا القادری:(اقول:تحقیق المقام اَنَّ اَکثَرَ الحَنفیۃ یُکَفِّرُونَ بانکارکل مقطوع بہ-کما ہومُصَرَّحٌ فی رد المحتار وغیرہ-وہم ومن وافقہم،ہم القائلون بانکارکل مجمع علیہ-بَعدَ مَا کَانَ الاِجمَاعُ قَطعِیًّا نَقلًا وَدَلَالَۃً-وَلَاحَاجَۃَ اِلٰی وجود النص-وَالمُحَقِّقُونَ لَا یُکَفِّرُونَ اِلَّا بانکارمَا عُلِمَ مِنَ الدِّینِ ضَرُورَۃً بحیث یشترک فی معرفتہ الخاص والعام المخالطون للخواص-فان کان المجمع عَلَیہِ ہکذا-کَفَرَ مُنکِرُہ-وَاِلَّا،لَا-وَلَا حَاجَۃَ عند ہم اَیضًا اِلٰی وجود نَصٍّ-فَاِنَّ کَثِیرًا مِن ضَرُورِیَاتِ الدِّین مِمَّا لَا نَصَّ عَلَیہِ کَمَا یَظہَرُبِمُرَاجَعَۃِ ”الاعلام”وغیرہ)
(المعتمد المستند ص195- المجمع الاسلامی مبارک پور)
توضیح: (تحقیق المقام ان اکثر الحنفیۃ یکفرون بانکارکل مقطوع بہ)سے ثابت ہے کہ اکثر فقہائے احناف ہر قطعی کے انکار پر حکم کفر جاری کرتے ہیں۔
قطعی کی دوقسم ہے:قطعی بالمعنی الاخص اور قطعی بالمعنی الاعم۔قطعی بالمعنی الاخص ضروریات دین ہیں اور قطعی بالمعنی الاعم ضروریات اہل سنت۔
فقہائے کرام اکبر ظن کو بھی قطعی بالمعنی الاعم کہتے ہیں۔وہ قطعی ملحق ہے۔
وہ متکلمین کے یہاں ظنی ہے۔
وہ اجماعی امر جومتکلمین کے یہاں قطعی بالمعنی الاعم ہو،وہ ضروریات اہل سنت میں سے ہے۔اس کے انکار پر فقہائے احناف حکم کفر جاری کرتے ہیں۔
(3)قال العلامۃ البدایونی:(وَاَمَّا مَا ثَبَتَ قَطعًا-وَلَم یَبلُغ حَدَّ الضَّرُورۃِ-کاستحقاق بنت الابن السدس مع البنت الصلبیۃ باجماع المسلمین-فظاہرکلام الحنفیۃ الاکفار بجحدہ-فانہم لَم یَشتَرِطُوا فی الاکفارسوی القطع فی الثبوت-لا بُلُوغ العلم بہ حَدَّ الضَّرورۃ-ویجب حملہ ما اذا عَلِمَ المُنکِرُثُبُوتَہٗ قَطعًا-لِاَنَّ مَنَاطَ التَّکفِیرِ-وہو التکذیب او الاستخفاف بالدین-اِنَّمَا یَکُونُ عِندَ ذلک-اَمَّا اِذَا لَم یَعلَم،فَلَا-اِلَّا اَن یَذکُرَ لَہٗ اَہلُ العِلمِ ذلک-اَی اَنَّ ذٰلِکَ الاَمرَ مِنَ الدِّینِ قَطعًا-فَیَتَمَادّٰی فِیمَا ہُوَ فِیہِ عِنَادًا-فَیُحکَمُ فِی ہٰذَا الحَالِ بِکُفرِہ لِظُہُورِ التَّکذِیبِ)
(المعتقدالمنتقد ص212-المجمع الاسلامی مبار ک پور)
توضیح: (ویجب حملہ علی ما اذا علم المنکرثبوتہ قطعا)سے ثابت ہے کہ منکر کوضروریات اہل سنت کی قطعیت کا علم ہو۔
(فانہم لم یشترطوا فی الاکفارسوی القطع فی الثبوت)سے ثابت ہے کہ فقہائے احناف ہرقطعی کے انکار پر حکم کفر نافذکرتے ہیں۔
(4)قال الامام احمد رضا القادری:(اقول وحق التحقیق ما اَشَرنَا اِلَیہِ مرارًا من الفرق بین الکفر والاکفار-فالکفریتحقق عند اللّٰہ تَعَالٰی بتحقیق التکذیب او الاستخفاف-ولا یشترط معہ ثبوت اصلًا-فضلاً عن القطع-فضلًاعن الضرورۃ-والاکفار لا یَجُوزُ اِلَّا اِذَا تَحَقَّقَ لَنَا قَطعًا اَنَّہ مُکَذِّبٌ اَو مُستَخِفٌّ-وَلَا قَطعَ اِلَّا فی الضروریات-لِاَنَّ فی غیرہا-لَہٗ اَن یَقُولَ:لَم یَثبُت عِندِی-اَمَّا اِذَا اَقَرَّ بالثبوت ثم جحد-فقد عُلِمَ التَّکذیب- وَلَا وَجہَ حِینَئذ لِلتَّوَقُّف فی الاکفار لِحُصُولِ العِلمِ بوجود المدار-فَالحَقُّ مع الحنفیۃ علٰی ہذا الوجہ الذی قَرَّرنَا-فاحفظ فانہ مُہِمٌّ)
(المعتمد المستندص212-المجمع الاسلامی مبارک پور)
توضیح:(اما اذا اقربالثبوت ثم جحد)سے ثابت ہے کہ منکر کوضروریات اہل سنت کی قطعیت کا علم ہو۔
منقولہ بالااقتباس میں امام احمدرضا قادری قدس سرہ العزیزنے فقہائے احناف کے مذہب کی خوبی بیان فرمائی، لیکن وہ باب تکفیر میں متکلمین کے مذہب پر ہیں۔فقہا کے مذہب پر نہیں۔کسی امر کی خوبی بیان کرنا الگ امر ہے، اور اسے اختیارکرنا الگ امرہے۔
(5)قال الشامی:(ولذا ذکر فی المسایرۃ-اَنَّ مَا ینفی الاستسلام او یوجب التکذیب فہوکُفرٌ-فما ینفی الاستسلام،کُلُّ مَا قَدَّمنَاہُ عَن الحنفیۃ -اَی مِمَّا یدل علی الاستخفاف وما ذکر قبلہ من قتل نبی-اذ الاستخفاف فیہ اظہر-وما یوجب التکذیب جَحدُ کُلِّ مَا ثَبَتَ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِدِّعَاءَہ ضرورۃً-واما ما لم یبلغ حد الضرورۃ کاستحقاق بنت الابن السدس مع البنت باجماع المسلمین فظاہر کلام الحنفیۃ الاکفار بجحدہ-فانہم لم یشرطوا سوی القطع فی الثبوت-ویجب حملہ علٰی ما اذا عَلِمَ المنکر ثبوتہ قَطعًا-لان مناط التکفیر وہو التکذیب اوالاستخفاف عند ذلک یکون-اما اذا لم یعلم فلا-الا ان یذکر لہ اہل العلم ذلک فیلج-الخ) (ردالمحتار جلد چہارم:ص407-دارالفکر بیروت)
توضیح: (ویجب حملہ علی ما اذا علم المنکرثبوتہ قطعا)سے ثابت ہے کہ منکر کوضروریات اہل سنت کی قطعیت کا علم ہو۔
(فانہم لم یشرطوا سوی القطع فی الثبوت)سے ثابت ہے کہ فقہائے احناف ہرقطعی کے انکار پر حکم کفر نافذکرتے ہیں۔
ضروریات اہل سنت کی قطعیت کا علم ہوجانے کے بعد تاویل کے ساتھ اس کا انکار فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین یہاں کفر فقہی ہے۔اگرضروریات اہل سنت کے علم قطعی کے بعد ضروریات اہل سنت کا بلا تاویل انکار کرے تو یہ استخفاف بالدین اورکفرعنادی ہے۔ اس صورت میں فقہا ومتکلمین سب کے یہاں حکم کفر عائد ہوگا۔
کسی نے لاعلمی کے سبب ضروریات اہل سنت کا انکار کیا توحکم کفر جاری نہیں ہوگا۔
(6)قال الحصکفی:(والکفرلغۃً-اَلتَّسَتُّرُ-وَشَرعًا-تکذیبہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی شیء مما جاء بہ من الدین ضرورۃ)
(الدرالمختارجلد چہارم:ص407)
(7)قال الشامی فی شرح قول الحصکفی:(وظاہر کلامہ تخصیص الکفر بجحد الضروری فقط-مَعَ اَنَّ الشرط عندنا ثبوتہ علٰی وجہ القطع -وان لم یکن ضروریًّا-بل قد یکون استخفافًا من قول او فِعلٍ کَمَا مَرَّ)
(ردالمحتار جلد چہارم:ص407-دارالفکر بیروت)
توضیح:(مع ان الشرط عند نا ثبوتہ علی وجہ القطع -وان لم یکن ضروریا)سے ثابت ہے کہ فقہائے احناف ہرقطعی کے انکار پر حکم کفر نافذکرتے ہیں۔
فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین ہر قطعی امر کے انکارپر حکم کفر جاری کرتے ہیں، خواہ وہ ضروریات دین میں سے ہو،یا ضروریات اہل سنت میں سے۔
کسی نے لاعلمی کے سبب ضروریات اہل سنت کا انکار کیا توحکم کفر جاری نہیں ہوگا۔
ضروریات اہل سنت کی قطعیت کاعلم ہونے کے باوجود تاویل فاسد کے سبب ضروریات اہل سنت کاانکار کرے توفقہائے احناف کفرفقہی کا حکم نافذکرتے ہیں۔
ضروریات اہل سنت کی قطعیت کاعلم ہونے کے باوجود بلاتاویل ضروریات اہل سنت کاانکار کرے تویہ استخفاف بالدین ہے۔اس صورت میں متکلمین بھی حکم کفر نافذکرتے ہیں۔یہ کفر کلامی ہے۔
فقہائے کرام کے یہاں جو ظنی ملحق بالقطعی ہے، یعنی قطعی کی قسم سوم، اس کے انکار پر فقہائے احناف حکم کفر جاری نہیں کرتے۔ان شاء اللہ تعالیٰ تفصیل مرقوم ہو گی۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:06:اگست 2021
٭٭٭٭٭
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
کفرفقہی کے اقسام واحکام
(قسط پنجم)
ضروریات اہل سنت کا تاویل کے ساتھ انکارکفر فقہی
(1)ضروریات اہل سنت کا انکار اگر لاعلمی کی حالت میں ہوتو متکلمین وفقہا کسی فریق کے یہاں حکم کفرعائد نہیں ہوگا۔
(2)اگر علم کی حالت میں بلاتاویل ضروریات اہل سنت کا انکار ہوتواستخفاف بالدین کے سبب فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں حکم کفرعائد ہوگا۔
متکلمین کے یہاں حکم کفر عائد ہونے کی شرط یہ ہوگی کہ انکار صریح متعین ہو،جیسا کہ ضروریات دین کاانکار صریح متعین (مفسر)ہو،تب حکم کفر عائد ہوتا ہے۔
فقہا کے یہاں صریح متبین اورصریح متعین وونوں قسم کے انکار پر حکم کفر ہوگا،بلکہ ظنی انکار پر بھی حکم کفر عائدہوگا،جیسے ضروریات دین کے ظنی انکار پرحکم کفر عائد ہوتا ہے اوراس میں فقہا کا باہمی اختلاف بھی ہوگا،جیسے ضروریات دین کے ظنی انکارمیں فقہا کا اختلاف ہوتا ہے۔فقہا ئے احناف اوران کے مؤیدین کے یہاں دونوں قطعیات کے انکار پر حکم کفر عائد ہوتا ہے۔قطعی کی قسم سوم یعنی ظنی ملحق بالقطعی کے انکار پر حکم ضلالت عائد ہوتا ہے۔
(3)اگرضروریات اہل سنت کا تاویل کے ساتھ انکار ہوتو فقہائے احناف اوران کے مؤیدین کے یہاں حکم کفر ہوگا اور متکلمین کے یہاں حکم ضلالت عائد ہوگا۔
ایک قطعی بالمعنی الاعم مسئلہ کے انکارکی بحث:
ماہواری کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کی حرمت قطعی بالمعنی الاعم ہے۔ اس کے انکار کی مختلف صورتیں اورمختلف احکام ہیں۔ اس کی دلیل منقوشہ ذیل آیت مقدسہ ہے۔
(ویسئلونک عن المحیض قل ہو اذی فاعتزلوا النساء فی المحیض ولا تقربوہن حتی یطہرن:الایۃ)(سورہ بقرہ:آیت 222)
قال التفتازانی:(ذکر الامام السرخسی فی کتاب الحیض:انہ لو استحل وطی امرأتہ الحا ئض یکفر-وفی النوادرعن محمد:انہ لا یکفر- ہو الصیحیح)(شرح العقائد النسفیہ: ص 168)
توضیح: اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کی حرمت قطعی بالمعنی الاخص نہیں،یعنی ضروریات دین میں سے نہیں،بلکہ قطعی بالمعنی الاعم ہے،یعنی ضروریات اہل سنت میں سے ہے۔ آیت قرآنیہ حرمت میں مفسر نہیں ہے،بلکہ یہاں اس بات کا احتمال بعید موجودہے کہ نہی کا ورود حالت حیض میں جماع کوقبیح بتانے (استقذار)کے لیے ہوا ہو۔یہ آیت حرمت بتانے کے لیے وارد نہ ہوئی ہو۔علامہ فرہاری نے یہی تاویل پیش کی ہے۔چو ں کہ مذکورہ احتمال پرکوئی دلیل نہیں،لہٰذا یہ احتمال بعید قرار پایا،اور حرمت قطعی بالمعنی الاعم قرار پائی۔
اگر قطعی بالمعنی الاعم امردینی کا انکار تاویل فاسدکے سبب ہوتو متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی کا حکم ہوگا،اور فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین کے یہاں کفر فقہی کا حکم ہو گا۔اگر قطعی بالمعنی الاعم کی قطعیت کا علم ہو، اور اس کا انکار بلاتاویل ہو تو یہ استخفاف بالدین اور کفر عنادی ہے۔ ایسی صورت میں کفر کلامی کا حکم عائد ہوگا،جب کہ انکار صریح متعین ہو۔
علامہ تفتازانی کی عبارت میں ہے کہ محرر مذہب حنفیہ حضرت امام محمد بن حسن شیبانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کوجو حلال سمجھے،وہ کافر نہیں۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو تاویل فاسد کے سبب حلال سمجھے،وہ کافر نہیں۔
امام سرخسی حنفی نے فرمایا کہ حالت حیض میں اپنی بیوی سے جماع کوحلال سمجھنے والا کافر ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس کواس کی حرمت کے قطعی ہونے کا علم ہے،وہ بلا تاویل اس کوحلال سمجھے تو استخفاف بالدین کے سبب وہ کافر ہے۔
مندرجہ ذیل دواقتباس میں مذکورہ بالامسئلہ کی تفصیل ہے۔
قال الفرہاروی:((لایکفر)لاحتمال ان یکون النہی للاستقذار،لا للتحریم-ویوافقہ قول الامام ابی یوسف فیمن حلف ان لایطاء امرأتہ حرامًا-فَجَامَعَہَا فی الحیض انہ لایحنث-وکذا قولہم ان الزوج الثانی اذا جامع المطلقۃ بالثلث فی الحیض،حلت للاول(وہوالصحیح)
وقال ابراہیم بن رستم احد ائمۃ الحنفیۃ-ان استحل علٰی زعم ان النہی لیس للتحریم لم یکفر-وان استحل مع العلم بان النہی یفید الحرمۃ کفر-وعندی ان ہذا القول اعدل)(النبراس شرح شرح العقائدالنسفیہ:ص340)
توضیح:علامہ تفتازانی کی عبارت میں منقول حضرت امام محمد بن حسن شیبانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول یعنی جو اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کوجو حلال سمجھے،وہ کافر نہیں۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو اس احتمال کے سبب حلال سمجھے کہ حالت حیض میں جماع سے منع فرمانا حرمت کے سبب نہیں،بلکہ پلیدی کے سبب ہے تو اس تاویل فاسد کے سبب حرمت کا انکار کرنے والا متکلمین کے یہاں کافر نہیں،کیوں کہ تاویل فاسد کے سبب قطعی بالمعنی الاعم کا انکار متکلمین کے یہاں کفر نہیں،بلکہ ضلالت وگمرہی ہے۔
اس کے قطعی بالمعنی الاعم ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت امام ابویوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ کسی نے قسم کھائی کہ وہ اپنی بیوی سے حرام طریقے پر جماع نہیں کرے گا، پھر اس نے حالت حیض میں اپنی بیوی سے جماع کیا تو قسم نہیں ٹوٹے گی،کیوں کہ حرام سے حرام قطعی (قطعی بالمعنی الاخص)مراد لیا جائے گا۔حالت حیض میں جماع کی حرمت قطعی بالمعنی الاعم ہے،لہٰذا حالت حیض میں اپنی بیوی سے جماع کے سبب وہ حانث نہیں ہوگا۔
اسی طرح کسی عورت کوتین طلاق دی گئی،پھر اس نے کسی مردسے نکاح کیا۔ شوہر دوم نے حالت حیض میں جماع کیا تو گرچہ اس حالت میں جماع حرام ہے،لیکن وہ عورت اس جماع کے سبب شوہر اول کے لیے حلال ہوجائے گی،کیوں کہ یہ جماع نکاح کے بعد ہوا ہے، گر چہ حالت حیض میں جماع حرام ہے،لیکن نکاح اورجماع دونوں پالیے گیے تو شوہر اول کے لیے حلت ثابت ہوگئی،گر چہ کسی سبب سے وہ جماع حرام ہو۔
عبارت مذکورہ بالا سے ثابت ہواکہ حالت حیض میں جماع کی حرمت قطعی بالمعنی الاعم ہے،اور قطعی بالمعنی الاعم کا تاویل کے ساتھ انکار متکلمین کے یہاں کفر نہیں،بلکہ ضلالت ہے۔ فقہائے احناف اوران کے مؤیدین کے یہاں تاویل کے ساتھ انکار کفر فقہی ہے۔
قال فخرالدین قاضی خان:(رجل استحل الجماع فی حالۃ الحیض -قال ابو بکر البلخی رحمہ اللّٰہ تَعَالٰی:استحلال الجماع فی الحیض کفر-وفی الاستبراء بدعۃ وضلا ل ولیس بکفر۔
وعن ابراہیم بن رستم ان استحل الجماع فی الحیض متأولًا اَنَّ النَّہیَ لیس للتحریم-او لم یعرف النہی،لایکفر-لانہ ان عرف ان النہی للتحریم-ومع ذلک استحل الجماع فیہ کان کافرا)
(فتاوٰی قاضی خان:جلدسوم:ص576-دار احیاء التراث العربی بیروت)
توضیح:اگر منکر نے یہ یقین کیا کہ آیت مقدسہ میں نہی کا ورود تحریم کے لیے ہے،اس کے باوجود اس نے حرمت کا انکار کیا تو کافر کلامی ہے، کیوں کہ یہ استخفاف بالدین ہے۔
اگر تاویل فاسدکے سبب مذکورہ حرمت کاانکار کیاتو متکلمین کے یہاں کافر نہیں،بلکہ گمراہ ہے۔فقہائے احناف کے یہاں تاویل کے ساتھ انکار کفر فقہی ہے۔
اسی طرح کسی نے حدیث موضوع کو حدیث نبوی یقین کیا،پھر اس کا انکار کیا تو یہ استخفاف بالدین ہے،اور منکر کافر ہوگا۔گرچہ حدیث موضوع کا حکم یہی ہے کہ اس کو تسلیم نہ کیا جائے،بلکہ اس کا انکار کیا جائے۔یہاں استخفاف بالدین کے سبب حکم کفر عائدہوا،نہ کہ حدیث موضوع کے انکار کے سبب۔
فقیہ ابراہیم بن رستم حنفی علیہ الرحمہ کے منقولہ بالاقول میں تین صورتوں کا بیان ہے-
(۱)علم کی حالت میں تاویل کے ساتھ انکار (۲)لاعلمی کی حالت میں انکار (۳)علم کی حالت میں بلا تاویل انکار۔پہلی دوصورتوں میں حکم کفر نہیں۔تیسری صورت میں حکم کفر ہے۔
متاخرین فقہائے احناف کے یہاں پہلی صورت میں کفر فقہی کا حکم ہوگا۔باب تکفیر میں متقدمین فقہائے احناف کا وہی مذہب ہے جسے مذہب متکلمین کہا جاتا ہے۔
ضروریات دین کا انکار کفر کلامی:تاویل کے ساتھ انکار ہویابلا تاویل
ضروریات دین کا مفسر انکار،یعنی صریح متعین انکار کفر کلامی ہے۔ خواہ تاویل کے ساتھ انکار ہو، یا بلا تاویل انکار ہو۔لاعلمی کی حالت میں انکار متکلمین کے یہاں کفر نہیں۔
قال النووی الشافعی:(فاما الیوم فقد شاع دینُ الاسلام واستفاض فی المسلمین عِلمُ وُجُوبِ الزَّکَاۃِ حَتّٰی عَرَفَہَا الخاص والعام واشتر ک فیہ العالمُ والجاہلُ فَلَا یُعذَرُ اَحَدٌ بتاویل یتأول فی انکارہا۔
وکذلک الامر فی کل من انکر شیءًا مما اجمعت الامۃ علیہ من امور الدین اذاکان علمہ منتشرًا کالصلوات الخمس وصوم شہررمضان والاغتسال من الجنابۃ وتحریم الزنا والخمر ونکاح ذوات المحارم ونحوہا من الاحکام-اِلَّا اَن یکون رَجُلًا حدیثَ عہد بالاسلام وَلَا یَعرِفُ حدودَہ فانہ اذا اَنکَرَ منہا شَیءًا جَہلًا بہ لم یَکفُر)
(شرح النووی علیٰ مسلم: جلد اول:ص39)
توضیح:لاعلمی کی حالت میں کسی ضروری دینی کا تاویل کے ساتھ یابلا تاویل انکار کر دے تومتکلمین کے یہاں حکم کفر نہیں،لیکن جب اس کویقین کے ساتھ معلوم ہوجائے کہ یہ ضروریات دین میں سے ہے،تواس پر اس کوماننا لازم ہے،ورنہ خارج اسلام قرار پائے گا۔
اسی طرح جو علم کی حالت میں کسی ضروری دینی کا مفسرانکار کرے تووہ متکلمین کے یہاں بھی کافر ہے۔خواہ تاویل کے ساتھ انکار کرے،یا بلاتاویل انکار کرے۔تاویل کا اعتبار ضروریات اہل سنت میں ہوتا ہے۔ضروریات دین میں تاویل کا اعتبار نہیں۔امام نووی کے قول (ُ فَلَا یُعذَرُ اَحَدٌ بتاویل یتأول فی انکارہا)کا یہی مفہوم ہے۔
قال الہیتمی:(ان انکار المجمع علیہ المعلوم من الدین بالضرورۃ کفر-کبیرۃ کان او صغیرۃ)(الاعلام بقواطع الاسلام: ص209-مکتبہ شاملہ)
توضیح: ضروری دینی کا انکار کفر ہے۔اگر کسی گناہ کبیرہ یا گناہ صغیر ہ کا گناہ ہونا ضروریات دین میں سے ہوتو اس کا منکر کافر ہے۔
قال التفتازانی:((واستحلالُ المعصیۃ)صَغِیرَۃً کَانَت اَو کَبِیرَۃً (کفرٌ)اِذَا ثَبَتَ کونُہَا مَعصیۃً بدلیل قطعی) (شرح العقائد النسفیہ: ص167)
توضیح:جس کا معصیت ہونا دلیل قطعی سے ثابت ہو، اس کا انکار کفر ہے۔ باب اعتقادیات میں دلیل قطعی کی دوقسمیں ہیں:قطعی بالمعنی الاخص اور قطعی بالمعنی الاعم۔
قطعی بالمعنی الاخص دلیل سے جو ثابت ہو، وہ ضروری دینی ہے۔اس کا انکارکفر کلامی ہے، خواہ تاویل کے ساتھ انکارہو، یا بلاتاویل انکار ہو۔قطعی بالمعنی الاعم دلیل سے جوثابت ہو، وہ ضروری اہل سنت ہے۔ اس کا انکار اگر تاویل کے ساتھ ہوتو متکلمین کے یہاں کفر نہیں۔اگر اس کے قطعی ہونے کا علم قطعی ہو، پھر بلا تاویل اس کا انکار کرے تویہ استخفاف بالدین اور کفر عنادی و کفر کلامی ہے۔علامہ تفتازانی کی عبارت پرعلامہ خیالی کا حاشیہ درج ذیل ہے۔
قال الخیالی:((قولہ اذا ثبت کونہا معصیۃً بدلیل قطعی)ولم یکن المُستَحِلُّ مُوَوِّلًا فی غیر ضروریا ت الدین-فتاویل الفلاسفۃ دلائلَ حدوثِ العَالَمِ ونحوہ لَا یَدفَعُ کُفرَہُم)(حاشیۃ الخیالی: ص149)
توضیح:علامہ خیالی کے قول (ولم یکن المستحل مؤولا فی غیر ضروریات الدین)کا مفہوم یہ ہے کہ دلیل قطعی سے ثابت ہونے والا امردینی اگر غیر ضروریات دین ہو تو تاویل کے ساتھ اس کا انکار کفر کلامی نہیں۔ اگر ضروریات دین میں سے ہوتو تاویل کے ساتھ انکار بھی کفر کلامی ہے، پس فلاسفہ جو حدوث عالم کے دلائل کی تاویل کرکے دنیا کوقدیم بتاتے ہیں تو اس تاویل کے باوجود وہ کافر ہیں،کیوں کہ دنیا کا حادث ہونا ضروریات دین سے ہے۔
قال الملا عبدالحکیم السیالکوتی:(قولہ:(ولم یکن المستحل- الخ)یعنی اَنَّ تَکفِیرَ ہٰذَا مُتَصَوَّرٌ بِوَجہَین -اَحَدُہُمَا اَن لَا یَکُونَ مُوَوِّلًا اَصلًا-اَو یَکُونُ مُوَوِّلًا ولکن فی ضروریات الدین-وعلٰی کِلَا التَّقدِیرَینِ یُکَفَّرُ)(حاشیۃ السیالکوتی علی الخیالی: ص225)
توضیح:علامہ خیالی کی عبارت پرعلامہ عبد الحکیم سیالکوٹی نے حاشیہ رقم فرمایاکہ دلیل قطعی سے ثابت شدہ امردینی کے انکار پرمتکلمین کے یہاں دو صورت میں کفرثابت ہوگا۔
(1)پہلی صورت یہ ہے کہ منکر بلا تاویل انکار کرے۔ ایسی صورت میں وہ امر ضروریات دین میں سے ہو، یا ضروریات اہل سنت میں سے،دونوں قسم کا انکار کفرکلامی ہے۔
ضروری دینی کا انکار اس لیے کفرہے کہ ضروری دینی کا انکار تکذیب نبوی ہے۔ضروری اہل سنت کے انکارپر حکم کفر اس لیے ہے کہ بلاتاویل انکار کے سبب استخفاف بالدین ثابت ہوتا ہے۔یہ متکلمین کا مذہب ہے۔ جوکافر کلامی ہوگا،فقہا بھی اسے کافر مانیں گے۔کافر کلامی کے کفر میں اختلاف نہیں ہوتا۔یہ کفر اتفاقی وکفر اجماعی ہے۔
(2)دوسری صورت یہ ہے کہ ضروریات دین کاانکارتاویل کے ساتھ ہو،پس یہ بھی کفر ہے،کیوں کہ ضروریات دین میں تاویل کی گنجائش ہی نہیں۔
قال السیالکوتی:(قولہ:(فتاویل الفلاسفۃ-الخ)ای اذا کان عدم الکفرمشروطًا بان لا یکون مستحلہ مُوَوِّلا فی غیر ضروریات الدین- فتاویلُ الفَلاسفۃ لدلائل حدوث العالم ونحوہ مثل الجنۃ والناروالتنعیم والتعذیب لایدفع کفرَہم-لان ذلک من ضروریات الدین-والتاویلُ فی ضروریات الدین لا یَدفَعُ الکُفرَ)(حاشیۃ السیالکوتی علی الخیالی:ص225)
توضیح: کفر کی شرط یہ ہے کہ منکر،غیرضروریات دین میں تاویل کرنے والا نہ ہو۔ اس کی دوصورتیں بتائی گئیں:(۱)ایک یہ کہ بالکل ہی تاویل نہ کرے
(۲)دوسری یہ کہ ضروریات دین میں تاویل کرے، پس دونوں صورتوں میں حکم کفر ہوگا۔
فلاسفہ ضروریات دین میں تاویل کر کے اس کا انکار کرتے ہیں،پس تاویل کے باوجود ان کی تکفیر ہوگی،کیوں کہ ضروریات دین کا انکار تاویل کے ساتھ ہو،یا بلا تاویل ہو، دونوں صورت میں حکم کفرعائد ہوگا۔
قال الامام احمد رضا القادری:(فان التاویل فی الضروری غیر مسموع)(المعتمد المستند: ص180-المجمع الاسلامی مبارک پور)
توضیح:ضروریات دین میں تاویل قبول نہیں کی جاتی ہے۔ضروری دینی کا انکار تاویل کے ساتھ ہویابلاتاویل،دونوں صورت میں حکم کفر عائد ہوگا۔
غیرضروریات میں تاویل متکلمین کے یہاں کفر نہیں
اگر غیر ضروریات دین میں تاویل کیا تو متکلمین کے یہاں کفر نہیں۔اب اس غیر ضروریات کا ثبوت جیسا ہوگا،اسی کے اعتبارسے حکم شرعی عائد ہوگا۔
ضروریات اہل سنت یعنی قطعی بالمعنی الاعم امور کا انکار تاویل کے ساتھ کیاتومتکلمین کے یہاں گمراہ اور فقہائے احناف اوراس کے مؤیدین کے نزدیک کافر فقہی ہوگا۔
اگر ضروریات اہل سنت کا بلاتاویل انکارکیا تویہ استخفاف بالدین ہے۔ استخفاف بالدین کے سبب متکلمین کے نزدیک بھی کفرثابت ہوتاہے،جب کہ یہ انکار قطعی بالمعنی الاخص ہو،اورتاویل بعید کی بھی گنجائش نہ ہو۔
قال الغزالی:(وَمِنَ النَّاس مَن یُبادراِلَی التَّاویل بِغلبۃ الظنون من غیر برہان قاطع-وَلَاینبغی اَن یُبَادَرَ اَیضًا اِلٰی تکفیرہ فی کل مقام-بل ینظر فیہ-فَاِن کَانَ تاویلہ فی امرٍلَا یَتَعَلَّقُ بِاُصُولِ العَقَاءِدِ وَمُہِمَّاتِ الدِّینِ فَلَا یُکَفَّرُ)(فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ: ص53)
توضیح:منقولہ بالاعبارت میں اصول دین سے ضروریات دین مراد ہیں۔اگر ضروریات دین میں تاویل کی گئی تو حکم کفر ہے۔ غیر ضروریات میں تاویل ہوتو کفر نہیں۔
تاویلات باطلہ کا حکم:
(1)ضروریات دین میں تاویل قبول نہیں۔ضروریات دین میں تاویل کے ذریعہ بھی انکار ہو، یامتواتر معنی کے علاوہ کوئی دوسرامفہوم مرادلیاجائے تویہ کفر ہے۔
ختم نبوت کا مسئلہ ضروریات دین میں سے ہے۔نانوتوی نے تاویل کے ذریعہ ختم نبو کے متواتر مفہوم کا انکار کیا،پس حکم کفر مستقر ہوگیا۔
(2) ضروریات اہل سنت میں تاویل کے ذریعہ اجماعی مسئلہ سے انحراف کرنا گمرہی ہے،اوراس کو امردینی قطعی اعتقادکرکے بلاتاویل انکارکرنا استخفاف بالدین ہے۔استخفاف کے سبب کفر کلامی کا حکم ہوگا۔
امام غزالی شافعی نے بعض تاویلات کا ذکر کرنے کے بعد رقم فرمایا:
(واما مایتعلق من ہذا الجنس(التاویلات)بِاُصُولِ العقائد المہمۃ- فَیَجِبُ تَکفیر من یُغَیِّرُ الظاہر بغیر برہان قاطع-کالذی ینکر حشرَ الاجساد وینکر العقوبات الحسیۃ فی الاٰخِرَۃ بظنون واوہام واستبعادات من غیر برہان قاطع فَیَجِبُ تکفیرہ قطعًا-اِذ لَابرہانَ علٰی استحالۃ رَدِّ الاَروَاحِ اِلَی الاجساد-وَذِکرُ ذلک عظیم الضرر فی الدین فجیب تکفیر کل من نطق بہ-وہو مذہب اکثر الفلاسفۃ۔
وکذلک یجب تکفیر مَن قَالَ مِنہُم:اَللّٰہُ تَعَالٰی لَا یَعلَمُ اِلَّانفسہ- وَاَنَّہ لَایعلم اِلَّاالکلیات-فَاَمَّا الامور الجزئیۃ المتعلقۃ بالاشخاص فَلَا یَعلَمُہَا-لان ذلک تکذیب للرسول صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قَطعًا۔
و لیس من قبیل الدرجات التی ذَکَرنَاہَا فی التاویل-اِذ اَدِلَّۃُ القُراٰنِ وَالاِخبَارِ عَلٰی تفہیم حشرالاجساد-وَتَفہِیمِ تعلق علم اللّٰہ بتفصیل کل ما یجری علی الاشخاص مجاوزٌ حَدًّا لَا یَقبَلُ التَّاوِیلُ)
(فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ: ص56)
توضیح:امام غزالی کا قول (من یُغَیِّرُ الظاہر بغیر برہان قاطع)محض تاکید کے لیے ہے،ورنہ ضروریات دین کے خلاف برہان قاطع کا وجود ہی نہیں۔یہ اسکات خصم کے لیے ہے،اسی لیے بعدمیں فرمایا:(بظنون واوہام واستبعادات من غیر برہان قاطع فَیَجِبُ تکفیرہ قطعًا)
قال الغزالی:(وَلَابُدَّ من التَّنَبُّہِ لِقَاعِدَۃٍ اُخرٰی-وہی اَنَّ المخالف قد یخالف متواترًا ویزعم انہ مُاَوِّلٌ-ولکن ذکرتاویلہ لا انقدَاحَ لَہ اَصلًا فی اللسان-لَاعَلٰی بُعدٍ وَلَاعَلٰی قُربٍ-فذلک کُفرٌ وصاحبہ مُکَذِّبٌ وان کان یزعم انہ مُاَوِّلٌ-وَمثَالہ مَارَأَیتُہ فی کلام بعض الباطنیۃ -اَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی وَاحِدٌ بمعنٰی انہ یعطی الوحدۃَ وَیَخلُقُہَا-وَعَالِمٌ بمَعنٰی اَنَّّہ یعطی العلمَ لِغَیرہ ویَخلُقُ-وَمَوجُودٌبمَعنٰی اَنَّہ یُوجِدُ غَیرَہ-وَاَمَّا اَن یَکُونَ وَاحِدًا فی نفسہ وَمَوجُودًا وَعَا لِمًا عَلٰی معنٰی اتِّصَافِہ بہ فَلَا-وَہٰذَا کُفرٌصُرَاحٌ-لِاَنَّ حَملَ الوَحدَۃِ عَلٰی اِیجَادِ الوَحدَۃِ لَیسَ مِنَ التاویل فی شَیءٍ-وَلَا تَحتَمِلُہ لُغَۃُ العَرَبِ اَصلًا-وَلَو کَانَ خَالِقٌ یُسَمّٰی وَاحِدًا لِخَلقِہِ الوَحدَۃِ لَسُمِّیَ ثَلَاثًا وَاَربَعًا لِاَنَّہ خَلَقَ الاَعدَادَ اَیضًا-فَاَمثِلَۃُ ہٰذہ المَقَالَاتِ تَکذِیبَاتٌ عَبَّرَ عَنہَا بِالتَّاویلَاتِ)(فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ: ص66)
توضیح:امام غزالی کے قول(اَنَّ المخالف قد یخالف متواترًا ویزعم انہ مُاَوِّلٌ،ولکن ذکرتاویلہ لا انقدَاحَ لَہ اَصلا)سے بالکل واضح ہوگیا کہ ضروریات دین میں تاویل کی گنجائش نہیں۔ضروریات دین حضوراقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام سے متواتر ہوتی ہیں۔تاویل کے ذریعہ کوئی دوسرا معنی بتانا کفر کلامی ہے۔
قال التفتازانی:(عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ مبعوثٌ الی الثقلین لَا اِلَی العَرَبِ خَاصَّۃً علٰی مَا زَعَمَ بعضُ الیہود والنصارٰی زعمًا منہم ان الاحتیاج الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم انما کان للعرب خاصۃً دون اہل الکتابین-وَرُدَّ بِِمَا مَرَّ مِن اِحتِیَاجِ الکُلِّ اِلٰی مَن یُجَدِّدُ اَمرَ الشَّریعۃ-بَل اِحتِیَاجُ الیہود والنصارٰی اَکثَرُ لِاِختِلَالِ دینہم بالتحریفات وانواع الضلالات مع ادعاۂم انہ من عند اللّٰہ تَعَالٰی-وَالدَّلیل عَلٰی عموم بعثتہ وکونہ خاتم النبیین لَا نَبِیَّ بَعدَہ وَلَا نَسخَ لِشَریعَتِہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،ہوانہ ادعٰی ذلک بحیث لایحتمل التاویلَ-وَاَظہَرَ المعجزَۃَ عَلٰی وَفقِہ-وَاَنَّ کِتَابَہُ المُعجِزَقَد شَہِدَ بِذٰلِکَ قَطعًا کقولہ تَعَالٰی:(وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلَّاکَافَّۃً لِّلنَّاسِ)-(قُل یَا ایہا الناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعًا)-(قل اوحی الی انہ استمع نفرٌ من الجن)الاٰیات-(وَلٰکِن رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ)-(لیظہرہ علی الدین کلہ)) (شرح المقاصد: جلددوم:ص 191)
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
کفرفقہی کے اقسام واحکام
(قسط ششم)
مبادی صفات الٰہی کا انکار
ضروریات دین وہ دینی امور ہیں جو حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ مروی ہوں۔تواتر کے ساتھ مروی امور قطعی بالمعنی الاخص ہوتے ہیں۔ان میں احتمال بعید کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔
ضروریات دین کا ثبوت اجماع شرعی سے نہیں ہوتا۔اجماع شرعی یا اجتہاد سے ثابت ہونے والا امر نظری ہوتا ہے۔ضروری وبدیہی نہیں ہوتا۔جب کہ ضروریات دین بدیہی امور ہیں۔
قطعی بالمعنی الاعم امور، ضروریات دین کی قسم دوم ہیں۔ان کو ضروریات اہل سنت کہا جاتا ہے۔ہمارے علم کے مطابق ضروریات اہل سنت میں تین قسم کے امور شامل ہیں:
(۱)وہ دینی امر جس پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع منصوص (اجماع قولی،غیر سکوتی)ہو،جیسے حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافت۔
جس امردینی پر حضرات صحابہ کرام کا اجماع منصوص ہو،اس پرکوئی قطعی بالمعنی الاعم دلیل ہو،یا ظنی دلیل ہو، یا قیاس کے ذریعہ کسی امر پر اجماع ہو، تینوں صورتوں میں وہ امر ضروریات اہل سنت میں سے ہے۔یہ صرف اجماع صحابہ کی خصوصیت ہے۔یہ اجماع شرعی ہے۔ضروریات دین میں اجماع متصل ہوتا ہے۔ ماقبل کے مضامین میں تفصیل مرقوم ہے۔
(۲)فرض اعتقادی یعنی وہ قطعی بالمعنی الاعم امردینی جس کی فرضیت پر مجتہدین غیر صحابہ کا اجماع ہو۔فرض قطعی یعنی جو فرض قطعی بالمعنی الاخص ہو، وہ ضروریات دین سے ہے۔
فرض اعتقادی کی دلیل قطعی بالمعنی الاعم ہوتی ہے،اسی لیے وہ ضروریات اہل سنت میں سے ہے۔اگر کسی امر کی دلیل قطعی بالمعنی الاعم نہ ہوتواس کی فر ضیت پر اجماع نہیں ہوگا۔
درحقیقت کسی امر کی فرضیت یاوجوب پر اجماع شرعی دلائل کی روشنی میں ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ حضرات ائمہ مجتہدین اپنی مرضی سے کسی امر کی فرضیت پر اتفاق کرلیتے ہیں۔
فرائض کے اقسام میں سے ایک فرض عملی ہے۔قرائن کے سبب اس کی دلیل کسی مجتہد کی نظر میں قطعی ہوجاتی ہے،پس وہ اسے فرض قرار دیتے ہیں،لیکن چوں کہ دلیل حقیقت میں قطعی بالمعنی الاعم نہیں ہے،بلکہ ظنی ہے تو دیگر مجتہدین اس کی فرضیت سے اختلاف کرتے ہیں،کیوں کہ ظنیات میں اجتہاد جاری ہوتا ہے۔
قطعی بالمعنی الاعم اورقطعی بالمعنی الاخص میں اجتہاد جاری نہیں ہوتا ہے۔ فرض اعتقادی کی دلیل قطعی بالمعنی الاعم ہوتی ہے،پس مجتہدین اس میں اجتہاد نہیں کرتے،بلکہ اس کی فرضیت پر اتفاق کرتے ہیں۔چوں کہ فرض اعتقادی کے تعین میں مجتہدین کے اتفاق کا دخل ہے،اسی لیے اس کی فرضیت حضرات ائمہ مجتہدین کے اجماع کی طرف منسوب ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کی فرضیت پر تمام مجتہدین کا اجماع ہوتا ہے۔
(۳) وہ امر دینی جوحضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے متواتر نہ ہو،لیکن اس کو نہ ماننے سے کسی ضروری دینی کا بطلان لازم آئے،پس ایسا امر ضروریات اہل سنت میں شمار ہوتا ہے۔خواہ ایسے امر کا ثبوت دلیل سمعی سے ہویا نہ ہو۔ ایسے امرکی حقانیت پراہل حق کا اجماع ہوتا ہے۔ایسے اجماعی امور ضروریات اہل سنت میں سے ہیں۔
صفات الٰہی کے مبادیات کا شمار ضروریات اہل سنت میں ہوتا ہے،کیوں کہ مبدا کے انکارسے صفت کا انکار لازم آتا ہے،لیکن اصحاب تاویل مبدا کا انکار کرتے ہیں اور صفت کا اقرار کرتے ہیں۔
چوں کہ مبادی صفات ضروریات اہل سنت میں سے ہیں،اس لیے تاویل کے ساتھ ان کا انکار متکلمین کے یہاں کفر نہیں،بلکہ ضلالت وگمرہی ہے۔
معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عالم ہے،لیکن صفت علم سے متصف نہیں۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے عالم ہونے کا انکار لازم آتا ہے،کیوں کہ جب کوئی صفت علم سے متصف نہ ہو تووہ عالم نہیں،لیکن معتزلہ تاویل فاسد کے سبب ایسا کہتے ہیں۔معتزلہ کا خیال ہے کہ ذات الٰہی بعینہ صفات الٰہی ہے،ورنہ متعددامور کا قدیم ہونا لازم آئے گا،پس معتزلہ نے صفت علم کا من کل الوجوہ انکار نہ کیا،نہ ہی اللہ تعالیٰ کے عالم ہونے کا انکار کیا۔
اہل سنت وجماعت کے یہاں صفات الٰہیہ بھی قدیم ہیں اور ذات الٰہی بھی قدیم، لیکن متعددذات کا قدیم ہونا محال ہے۔ذات قدیم کی صفات قدیم ہوں تو اس سے متعدد ذات کا قدیم ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
الحاصل اس قسم کی ضروریات اہل سنت کا انکار کفر لزومی کہلاتا ہے، کیوں کہ اس سے کسی ضروری دینی کا انکار لازم آتا ہے۔
جب اس لزوم کا التزام ہوجائے،تب کفر کلامی کا حکم عائدہوگا،لیکن اصحاب تاویل کسی تاویل کے سبب ضروریات اہل سنت کا انکارکرتے ہیں،وہ کسی ضروری دینی کا صریح انکار نہیں کرتے،اس لیے متکلمین ان پرکفرکا حکم عائدنہیں کرتے،بلکہ ایسے لوگوں کوگمراہ کہتے ہیں۔ فقہائے کرام ایسے امور کے انکار پر کفر فقہی کا حکم نافذکرتے ہیں۔
ضروریات اہل سنت کا انکاراورتضلیل وتکفیر:
(1)قال القاضی:(فَاَمَّا مَن اَثبََتَ الوصف ونفی الصفۃ فقال:اقول عالمٌ ولکن لاعلمَ لَہ ومتکلمٌ ولکن لَا کَلَامَ لَہٗ-وہکذا فی سائرالصفات علٰی مذہب المعتزلۃ-فَمَن قَالَ بالمَاٰلِ لِمَایؤدیہ الیہ قولُہ وَیَسُوقُہ اِلَیہِ مَذہَبُہ کَفَّرَہٗ-لانہ اذا نَفَی العِلمَ انتفی وصفُ عَالِمٍ،اِذ لَا یوصف بعالم الا من لہ عِلمٌ-فَکَاَنَّہُم صَرَّحُوا عندہ بما اَدّٰی اِلَیہِ قَولُہُم وہکذا عند ہذا سَاءِرُفرق اہل التاویل من المشَبِّہَۃِ وَالقَدرِیَّۃِ وغیرہم۔
وَمَن لَم یَرَ اَخذَہُم بِمَاٰلِ قَولِہِم ولا اَلزَمَہُم مُوجَبَ مَذہَبِہِم لَم یَرَ اِکفَارَہُم-قَالَ،لاَِنَّہُم اذا وُقِّفُواعَلٰی ہٰذَا، قالوا:لانقول”لَیسَ بِعَالِمٍ”وَنَحنُ نَنتَفِی من القول بالمَاٰل الذی اَلزَمتُمُوہُ لَنَا ونعتقد نحن وانتم انہ کفر-بل نقول اِنَّ قَولَنَا لَایؤولُ الیہ علٰی مَا اَصَّلنَاہ-فَعَلٰی ہذین الماخذین اختلف الناسُ فی اِکفَارِہِم وَالاِعرَاضِ عن الحتم علیہم بالخُسران)
(کتاب الشفا: جلددوم:ص294)
توضیح: جولوگ تاویل کے ذریعہ ضروریات اہل سنت کا انکار کرتے ہوں،جس انکار کے سبب کسی ضروری دینی کا انکار لازم آتا ہو،لیکن ضروری دینی کاصریح انکار نہ ہو، نہ ہی اہل تاویل صریح انکار کوتسلیم کرتے ہوں،بلکہ ضروری دینی کے انکارکاصریح انکار کرتے ہوں تو متکلمین ایسے لوگوں کو گمراہ کہتے ہیں،اور فقہا ایسے لوگوں کوکافر فقہی قرار دیتے ہیں۔
چوں کہ یہا ں ضروریات اہل سنت میں سے کسی امر ضروری کا انکار ہوتا ہے،اسی لیے متکلمین انہیں گمراہ قرار دیتے ہیں۔جو لوگ ضروریات دین کاصریح انکار کرتے ہیں اور پھر تاویل باطل کرتے ہیں،وہ بالکل ناقابل قبول ہے۔عہدحاضر کے دیابنہ ضروریات دین میں تاویل کرکے کفرکے مرتکب ہوئے۔اب اس خندق میں ہزاروں متبعین بھی گرپڑے۔
(2)قال القاضی:(فَصلٌ فِی تحقیق القول فی اِکفَارِ المتأولین-قد ذکرنا مذہب السلف فی اِکفَارِاَصحَابِ البدع والاہواء المتأولین ممن قال قولًا یؤدیہ مَسَاقُہ الٰی کفر-ہو اِذَا وُقِّفَ عَلَیہ لایقول بما یؤدیہ قولُہ الیہ-وَعَلٰی اختلافہم اختلف الفقہاءُ والمتکلمونَ فی ذلک-فَمِنہُم مَن صَوَّبَ التَّکفیر الذی قال بہ الجمہور من السلف-ومنہم من اَبَاہ وَلَم یَرَ اِخرَاجَہُم مِن سَوَادِ المُومنین وہو قول اکثر الفقہاء والمتکلمین-وَقَالُوا: ہم فُسَّاقٌ عُصَاۃٌ ضُلَّالٌ)(کتاب الشفاء:جلددوم:ص376)
توضیح:منقولہ بالاعبارت کا مفہوم یہ ہے کہ جمہور فقہا اصحاب تاویل کی تکفیر کرتے ہیں اور اکثر فقہا ومتکلمین انہیں گمراہ قراردیتے ہیں۔ اس عبارت کی تشریح مابعدمیں مرقوم ہے۔
(3)علامہ شہاب الدین خفاجی حنفی نے منقولہ بالاعبارت کی تشریح میں رقم فرمایا:
((اختلف الفقہاءُ وَالمتکلمون فی ذلک)ای فی تکفیرہم وعدمہ بناءً عَلٰی مَسءَلَۃٍ اُصُولِیَّۃٍ وَہی اَنَّ لازمَ المذہب ہل ہو مذہب ام لا(فمنہم) ای الفقہاء والمتکلمین(مَن صَوَّبَ) بتشدید الواؤ ای عَدَّہ صَوَابًا صَحِیحًا والتصویب ضد التخطءۃ(التکفیر) ای القول بکفرہم (الذی قال بہ الجمہور من السلف)ای اَکثَرُہُم نَظرًا لِمَا یؤدی الیہ صَونًا لِحَظَاءِرِ القدس وَحِمَایَۃً لِجَانِبِ الربوبیۃ-والتکفیر والاکفار بمعنًی-وَمَن قَالَ: الاول انما ہو من الکفارۃ فَقَد اَخطَاءَ کَمَا فی المغرب وغیرہ من کتب اللغۃ۔
(ومنہم من اَبَاہ)ای مَنَعَ تکفیرہم بمثلہ(وَلَم یَرَ اِخرَاجَہُم)اَی اِخرَاجَ ہٰؤلَاء القائلین بِمَا ذُکِرَ(من سواد المسلمین)وفی نسخ”المومنین“ صَونًالاَِہلِ القبلۃ للاحادیث الواردۃ فی النہی عنہ…………………………
(وہو قول اکثر الفقہاء والمتکلمین)وقد عَلِمتَ انہ بناءً علی الظاہروالاکثر-وَلَیسَ عَلٰی اطلاقٍ -وذلک لانہ بتعلقہ بذلک من مسائل الکلام من وجہٍ ومسائل الفقہ من وجہٍ(وَقَالُوا ہُم)اَی اہل البدع(فُسَّاقٌ)کَکُفَّارٍ جمع فاسق(عُصَاۃٌ)لارتکا بہم کبائرمن فساد العقائد والاعمال(ضلال))(نسیم الریاض جلدچہارم:ص481- دار الکتاب العربی بیروت)
(4)قال القاری:((اختلف الفقہاء والمتکلمون فی ذلک)ای فی تکفیرہم(فمنہم من صَوَّبَ التکفیر الذی قال بہ الجمہور من السلف ومنہم من اَبَاہ)ای التکفیر(ولَم یَرَ اخراجہم من سواد المسلمین)ای عمومہم(وہو قول اکثر الفقہاء)کابی حنیفۃ والشافعی وغیرہما(و المتکلمین)ای اکثرہم من الاشعریۃ والماتریدیۃ)
(شرح الشفا:جلدچہارم:ص481- دار الکتاب العربی بیروت)
ایک شبہہ کا ازالہ:
کتاب الشفا کی منقولہ بالاعبارت میں (فمنہم من صوب التکفیرالذی قال بہ الجمہور من السلف:الخ)میں ”ہم“ ضمیر کا مرجع ”الفقہاء“کو قرار دیا جائے تومفہوم یہ ہوگا کہ فقہا کا ایک طبقہ اصحاب تاویل کی تکفیر کرتا ہے۔
اگر مذکورہ ضمیرکا مرجع ”الفقہا ء والمتکلمون“کے مجموعہ کوبنایا جائے تو مفہوم ہوگا کہ فقہاومتکلمین کا جو حضرات اصحاب تاویل کی تکفیر کرتے ہیں،وہ حضرات تکفیر کریں گے۔
سوال: اصحاب تاویل کے قول سے کسی ضروری دینی کا لزومی انکار ہوتا ہے توبعض متکلمین اصحاب تاویل کی تکفیر کیسے کرسکتے ہیں۔متکلمین التزام کفر کے وقت تکفیر کرتے ہیں؟
جواب: فقہا ومتکلمین میں سے جو حضرات باب تکفیر میں فقہا کے مذہب پر ہیں،وہ حضرات، اصحاب تاویل کی تکفیر کرتے ہیں۔
سوال:کیا بعض متکلمین بھی باب تکفیر میں فقہا کے مذہب پر ہیں؟
جواب:فقیہ اسے کہا جاتا ہے جو فقہ سے مشغولیت رکھتے ہیں۔متکلم اسے کہاجاتا ہے جوعلم کلام سے مشغولیت رکھتے ہیں۔باب تکفیر میں دومذہب ہے۔ ایک مذہب کومذہب متکلمین کہا جاتا ہے اور ایک مذہب کومذہب فقہا کہا جاتا ہے۔ بہت سے فقہا ئے کرام باب تکفیر میں متکلمین کے مذہب پر ہیں اوربعض متکلمین باب تکفیر میں فقہا کے مذہب پر ہیں۔
حضرت امام احمد بن حنبل (241-164ھ)اپنے عہد میں امام المتکلمین تھے۔ آپ باب تکفیر میں اسی مذہب پر تھے جس کو بعد میں مذہب فقہا کے لقب سے شہرت ملی۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ باب تکفیرمیں اس مذہب پر تھے، جس کو بعد میں مذہب متکلمین کہا گیا۔ قاضی عیاض مالکی قدس سرہ العزیز کی کتاب الشفا کی عبارتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی باب تکفیر میں اسی مذہب پر تھے، جوبعد میں مذہب فقہا کے لقب سے مشہور ہوا:واللہ تعالیٰ اعلم
سال ۸۱۲ھ سے سال ۲۳۲ھ تک یعنی قریباً چودہ (14) سال تک اہل سنت وجماعت کے ساتھ خلفائے بنی عباس کے مظالم کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا۔مامون رشید کے عہد سے اہل سنت وجماعت پرظلم وستم کا آغاز ہوا، اور متوکل بن معتصم کے عہد میں یہ مظالم ختم ہوئے۔ اس مدت کواسلامی تاریخ میں ”ایام محنت“کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ سخت آزمائش کازمانہ تھا۔ معتزلہ نے عباسی خلفا کو اپنا ہمنوا بنالیا تھا۔جو حضرات خلق قرآن کے قائل نہ ہوتے،انہیں قتل کردیا جاتا،یا سخت اذیت دی جاتی۔
اس سخت آزمائش کے زمانے میں اہل سنت وجماعت کے قائد اول اور رہبراعظم حضرت امام احمد بن حنبل تھے۔آپ اس زمانے کے سب سے عظیم متکلم تھے۔مجتہد مطلق اور سب سے بڑے محدث تھے۔آ پ کودس لاکھ احادیث مقدسہ زبانی یاد تھیں۔معتزلہ کو آپ نے مناظروں میں ہمیشہ لاجواب کیا۔کئی سال تک آپ قیدخانے میں رہے۔معتزلہ کا خیال تھا کہ آپ خلق قرآن کے قائل ہوگئے تو تمام اہل سنت وجماعت بھی اس عقیدہ کومان لیں گے۔
اسی خلق قرآن کے مسئلہ کے سبب علم کلام کا نام کلام ہوا،یعنی وہ علم جس میں کلام الٰہی کے غیر مخلوق ہونے کی بحث کی جاتی ہے۔الحاصل بعض متکلمین باب تکفیر میں مذہب فقہا پر ہیں کہ وہ ہرقطعی کے انکار پر حکم کفر عائد کرتے ہیں،اوراکثر فقہاباب تکفیر میں مذہب متکلمین پر ہیں۔
قائلین تکفیر کی قلت:
ضروریات اہل سنت کے انکار پر تکفیر کرنے والے قلیل التعداد ہیں۔فقہائے احناف اوران کے مؤیدین تکفیر کرتے ہیں،جب کہ بہت سے فقہائے احناف اورمذاہب اربعہ میں سے دیگرفقہی مذاہب کے بہت سے فقہا اور متکلمین تضلیل کرتے ہیں۔
علامہ فضل رسول بدایونی قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:
(ان معرفۃ المسائل الاعتقادیۃ فرض عین علی کل مکلف عند جمہور اہل السنۃ والجماعۃ-واتفقوا علی ان ماکان منہا من اصول الدین ضرورۃ یکفر المخالف فیہ-وما لیس من ذلک فذہب جماعۃ الی تکفیر المخالف -والاستاذ ابواسحق الی تکفیر من کفرنا منہم
وجمہور الفقہاء والمتکلمین الی انہ لایحکم بکفر احد من المخالفین فیما لیس من الاصول المعلومۃ ضرورۃ من الدین-ولکن المخالف فیہا یبدع ویفسق بناء علی وجوب اصابۃ الحق فی مواضع الاختلاف فی اصول الدین عینا وعدم تسویغ الاجتہاد فی مقابلتہ بخلاف الفروع التی لم یجمع علیہا) (المعتقد المنتقد:ص10-11-المجمع الاسلامی مبارکپور)
توضیح:تکفیر کے قائلین کاذکر ان لفظوں میں فرمایا:(فذہب جماعۃ الی تکفیر المخالف)
عدم تکفیر کے قائلین کاذکراس طرح فرمایا:(وجمہور الفقہا ء والمتکلمین الی انہ لا یحکم بکفر احدمن المخالفین)۔عدم تکفیر جمہور فقہا ومتکلمین کا مذہب ہے،اور تکفیر ایک جماعت کا مذہب ہے۔وہ جمہور کا مذہب نہیں۔اس سے واضح ہوگیا کہ اکثر اہل سنت وجماعت عدم تکفیر کے قائل ہیں۔جمہور اہل سنت وجماعت عدم تکفیر کے قائلین ہیں۔
لزوم والتزام میں فرق
بہت سے فقہالزوم کفر کے وقت کفر کا حکم نافذکرتے ہیں اور متکلمین اوربہت سے فقہا التزام کفر کے وقت حکم کفر جاری کرتے ہیں۔لزوم والتزام کی تشریح مرقومہ ذیل ہے۔
لزوم کفرکا مفہوم:
معتزلہ کہتے ہیں کہ معدوم شئ ہے۔اس سے بلا تخلیق کے ہیولیٰ کا وجود لازم آتا ہے، نیزاس صورت میں ممکنات کا قدیم ہونااور کسی خالق کا محتاج نہ ہونا لازم آتا ہے،جب کہ ممکنات کے قدیم ہونے کا عقیدہ کفرہے،کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی قدیم نہیں۔
متکلمین اس لزوم کفر کے سبب حکم کفر جاری نہیں کرتے،کیوں کہ معتزلہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے قدیم ہونے کا صریح لفظوں میں انکار کرتے ہیں،گرچہ ان کے کلام سے لزومی طورپر ممکنات کاقدیم ہونا ثابت ہوتا ہے۔عدم التزام کے سبب حکم کفر نہیں۔معتزلہ کی عدم تکفیر کی وضاحت میں قاضی عضدالدین شافعی نے فرمایا کہ لزوم والتزام میں فرق ہے۔
قاضی عضدالدین شافعی نے رقم فرمایا:((وقلنا)ما ذکرتم الزام الکفر علیہم بما ذہبوا الیہ(والالزام غیر الاالتزام-واللزوم غیر القول بہ))
(شرح مواقف: ص727)
قال التفتازانی:(ان من لزمہ الکفر ولم یقل بہ فلیس بکافر)
(شرح مقاصد: جلددوم:ص270)
التزام کفر کا مفہوم:
التزام کفر کا مفہوم یہ ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی امرکا مفسریعنی صریح متعین انکار کیا جائے۔گرچہ منکراپنے انکار کی تاویل کرتا ہو۔ضروریات دین میں تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی۔متواتر معنی کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔التزام کفر کی توضیح مندرجہ ذیل ہے۔
قال الامام احمد رضا القادری:(نَعَم،اَلرَّاجِحُ عِندَنَا اَنَّ لَا اِکفَارَ اِلَّا بِالاِلتِزَامِ-وَلَا نُرِید بہ ان یلتزم کونہ کافرًا-فان اَحَدًا من عبدۃ الاوثان اَیضًا لَا یَرضٰی لِنَفسِہ بتسمیۃ الکافر-وانما المَعنٰی اَن یَلتَزِمَ اِنکَارَ بَعضِ ما ہو من ضروریات الدین-وَاِن زَعَمَ اَنَّہ من کملاء المسلمین-وَاَنَّ لَہ تَاوِیلًا فی ہذا الانکار المہین-کَمَا بَیَّنتُہ فی ”سُبحٰٰن السبوح“)
(المعتمد المستند: ص213-المجمع الاسلامی مبارک پور)
لزوم والتزام کی تشریح:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقادری نے تحریرفرمایا:”پھر یہ انکار،جس سے خدا مجھے اور سب مسلمانوں کوپناہ دے،دوطرح ہوتا ہے۔لزومی والتزامی۔ التزامی یہ کہ ضروریات دین میں سے کسی شئ کا تصریحا ً انکارکرے۔یہ قطعاً اجماعاًکفر ہے۔اگرچہ نام کفر سے چڑے، اورکمال اسلام کادعویٰ کرے۔کفر التزامی کے یہی معنی نہیں کہ صاف صاف اپنے کافر ہونے کا اقرار کرتا ہو،جیساکہ بعض جہال سمجھتے ہیں۔یہ اقرار تو بہت طوائف کفار میں بھی نہیں پایا جائے گا۔ہم نے دیکھا ہے،بہتیرے ہندو کافر کہنے سے چڑتے ہیں،بلکہ اس کے یہ معنی کہ جو انکاراس سے صادر ہوا،یاجس بات کا اس نے دعویٰ کیا،وہ بعینہ کفر ومخالف ضروریات دین ہو،جیسے طائفہ تالفہ نیاچرہ کا وجود ملک وجن وشیطان وآسمان ونار وجنان ومعجزات انبیا علیہم افضل الصلوٰۃوالسلام سے ان معانی پر کہ اہل اسلام کے نزدیک حضور ہادی برحق صلوات اللہ وسلامہ علیہ سے متواتر ہیں،انکار کرنا اوراپنی تاویلات باطلہ وتوہمات عاطلہ کو لے مرنا،نہ ہرگز ہرگز ان تاویلوں کے شوشے انھیں کفر سے بچائیں گے،نہ محبت اسلام وہمدردی قوم کے جھوٹے دعوے کام آئیں گے:قاتلہم اللہ انی یؤفکون
اور لزومی یہ کہ جوبات اس نے کہی،عین کفر نہیں،مگر منجر بکفر ہوتی ہے،یعنی مآل سخن ولازم حکم کوترتیب مقدمات وتمیم تقریبات کرتے چلئے توانجام کار اس سے کسی ضروری دین کا انکار لازم آئے،جیسے روافض کا خلافت حقہ راشدہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت جناب صدیق اکبر وامیرالمومنین حضرت جناب فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے انکار کرنا کہ تضلیل جمیع صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی طرف مؤدی اوروہ قطعاً کفر،مگر انھوں نے صراحۃً اس لازم کا اقرار نہ کیاتھا،بلکہ اس سے صاف تحاشی کرتے اور بعض صحابہ یعنی حضرات اہل بیت عظام وغیرہم چند اکابرکرام علیٰ مولاہم وعلیہم الصلوٰۃوالسلام کوزبانی دعووں سے اپنا پیشوا بتاتے اورخلافت صدیقی وفاروقی پر ان کے توافق باطنی سے انکاررکھتے ہیں۔اس قسم کے کفر میں علمائے اہل سنت مختلف ہوگئے۔جنہوں نے مآل مقال ولازم سخن کی طرف نظر کی،حکم کفر فرمایا اورتحقیق یہ ہے کہ کفر نہیں،بدعت وبدمذہبی وضلالت وگمرہی ہے“۔(فتاویٰ رضویہ:جلد ششم: ص266-رضا اکیڈمی ممبئ)
اصحاب تاویل کے حکم میں اختلاف کا سبب کیاہے؟
متکلمین لازم مذہب کو مذہب تسلیم نہیں کرتے، کیوں کہ جب ملزمین سے اس کا بارے میں سوال کیا جاتا ہے تووہ لازم مذہب کو تسلیم نہیں کرتے۔لازم مذہب کا صریح انکار کرنے کے سبب لازم مذہب کوان کا مذہب قرار نہیں دیا جاسکتا،پس متکلمین لزوم کفرکے سبب گمرہی کا حکم عائد کرتے ہیں،کیوں کہ صریح انکار کے باوجود لزوم کفر باقی رہتا ہے-
فقہائے کرام لازم مذہب کومذہب مانتے ہیں،اس لیے وہ حکم کفر جاری کرتے ہیں۔ اس باب میں اختلاف کا سبب یہی ہے کہ لازم مذہب،مذہب ہے یانہیں؟ متکلمین لازم مذہب کومذہب تسلیم نہیں کرتے۔فقہا لازم مذہب کومذہب تسلیم کرتے ہیں۔
امام عبد الوہاب شعرانی شافعی (۸۹۸ھ-۳۷۹ھ)نے تحریر فرمایا:
(قال الشیخ کمال الدین بن ابی شریف:ومن قال منا بان لازم المذہب مذہب،کفر المبتدعۃ الذین یلزم مذہبہم ما ہو کفر فان المجسمۃ مثلًا عبدوا جسما وہو غیر اللّٰہ تعالی بیقین ومن عبد غیر اللّٰہ،کفر-قال:واما المعتزلۃ فانہم وان اعترفوا باحکام الصفات فقد انکروا الصفات ویلزم من انکار الصفات انکار احکامہا فہم کفار بذلک -قال الکمال:والصحیح ان لازم المذہب لیس بمذہب وانہ لا کفر بمجرد اللزوم-لان اللزوم غیر الالتزام)(الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الاکابر ص527-526-داراحیاء التراث العربی بیروت)
قال الہیتمی:(وضابط الاعتقادی اَنَّ مَن نَفٰی اَو اَثبَتَ لَہٗ تَعَالٰی مَا ہُوَصَرِیحٌ فِی النَّقصِ،کَفَرَ-اوما ہو ملزومٌ لِلنَّقصِ،لَم یَکفُر-لِاَنَّ الاَصَحَّ اَنَّ لَازِمَ المَذہَبِ لَیسَ بِمَذہَبٍ)(الفتاوی الحدیثیہ: ص142-دارالفکر بیروت)
وضاحت:ان شاء اللہ تعالیٰ متعددقسطوں میں لزومی انکار، التزامی انکار اور صفات الٰہی کے مبادیات کی توضیح وتشریح مر قوم ہوگی۔غیر ثابت صفات کو رب تعالیٰ کے لیے ثابت کرنے کا حکم بیان ہوگا،اور دیگر ضمنی امور پر بحث ہوگی:وما توفیقی الاباللہ العلی العظیم
طار ق انور مصباحی
جاری کردہ:12:اگست2021
٭٭٭٭٭
توضیح:(لایحتمل التاویل)سے واضح ہے کہ ضروریات دین میں تاویل کی گنجائش نہیں۔
ضروریات دین میں تاویل قبول نہیں ہوتی،اور تاویل کرنے والے پر حکم کفر عائدہوتا ہے۔ختم نبوت کا عقیدہ اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سارے انسانوں کے رسول ہونے کاعقیدہ ضروریات دین میں سے ہے۔اس میں تاویل یا انکار کفر ہے۔
قال الغزالی:(وَلَایَلزَمُ الکُفرُ لِلمُؤلِینَ مَا دَامُوا یُلَازِمُو نَ قَانونَ التَّاویلِ)(فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ:ص41)
توضیح:تاویل کی تین قسمیں ہیں: (۱)تاویل صحیح (۲)تاویل فاسد (۳)تاویل باطل۔تاویل باطل فقہا اور متکلمین کسی کے یہاں قبول نہیں کی جاتی۔
اسی طرح ضروریات دین میں تاویل قبول نہیں کی جاتی۔یہ امورتاویل کے قوانین میں سے ہیں۔ غیرضروریات دین کا انکار تاویل کے ساتھ کیا تو اس کا ثبوت جیسا ہوگا،اسی طرح حکم ہوگا۔اگر ضروریات دین کی قسم دوم (قطعی بالمعنی الاعم امور)کا انکارتاویل کے ساتھ کیا تومتکلمین کے یہاں گمراہ ہوگا،اورفقہا ئے احناف کے یہاں کافر فقہی ہوگا۔
کیا تاویل کے بعد تکفیر نہیں کی جائے گی؟
سوال:کیا تاویل کے سبب ہرقسم کا کفر ختم ہوجاتا ہے؟یا کوئی خاص کفر ختم ہوتا ہے؟
جواب:یہاں متعدد صورتیں ہیں۔
(1)اگر قطعی بالمعنی الاعم(ضروریات اہل سنت) کے قطعی بالمعنی الاعم ہونے کا علم ہے،اور علم کی حالت میں تاویل فاسدکے ساتھ اس کاانکار کیا تویہ متکلمین کے یہاں گمرہی ہے اورفقہائے احناف کے یہاں کفرفقہی ہے۔
(2)اگر قطعی بالمعنی الاعم(ضروریات اہل سنت) کے قطعی بالمعنی الاعم ہونے کا علم ہے،اور علم کی حالت میں بلا تاویل انکار کیا تویہ متکلمین وفقہا سب کے یہاں استخفاف بالدین اور کفر عنادی ہے۔انکار صریح متعین ہو، یا صریح متبین،دونوں صورت میں فقہا کے یہا ں حکم کفر ثابت ہوگا،کیوں کہ دونوں انکار فقہا کے یہاں قطعی ہے۔
متکلمین کے یہاں کفر اس وقت ثابت ہوگا جب انکارصریح متعین ہو۔
(3)ضروریات دین یعنی قطعی بالمعنی الاخص اموردینیہ کا انکار تاویل کے ساتھ بھی کرے توبھی متکلمین وفقہا سب کے یہاں کفر ہے۔اسی کوکفر اجماعی اورکفر اتفاقی کہا جاتا ہے۔دیابنہ ضروریات دین میں تاویل کرتے ہیں،اسی لیے ان سے حکم کفر ختم نہیں ہوتا۔
ختم نبوت کامسئلہ بھی ضروریات دین میں سے ہے اور تعظیم رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کا مسئلہ بھی ضروریات دین میں سے ہے۔
مسلک دیابنہ کے اشخاص اربعہ میں سے قاسم نانوتوی نے ختم نبوت کا انکار کیا۔رشید احمد گنگوہی نے اللہ تعالیٰ کی شان اقد س میں بے ادبی کی۔
رشیداحمد گنگوہی،خلیل انبیٹھوی اور اشرف علی تھانوی نے حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے بے ادبی کے الفاظ استعمال کیے۔یہاں توبہ کے علاوہ دوسری کوئی راہ نہیں۔ تاویل سے کفر مزید پختہ ہوگا، ختم نہیں ہوگا۔
علمائے کرام کی بعض عبارتوں کودیکھ کربعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ضروریات دین میں بھی تاویل کی گنجائش ہے،حالاں کہ یہ نظریہ غلط ہے۔ اس قسم کی چند عبارتوں کی تشریح مندرجہ ذیل ہے۔
علامہ تفتازانی کی عبارت کی توضیح:
قال التفتازانی فی بحث عدم تکفیرالمُتَأوِّلِینَ کالمعتزلۃ والمشبہۃ وغیرہما:(ان صاحب التاویل وَاِن کَانَ ظَاہِرَ البُطلَانِ-لَیسَ بِکَافِرٍ)
(شرح المقاصد:جلددوم:ص270)
ترجمہ:تاویل گرچہ ظاہر البطلان ہو، صاحب تاویل کافر نہیں۔
توضیح:معتزلہ اورمشبہہ اوردیگر فرقے جو غیر ضروریات دین میں تاویل کرتے ہیں، اس تاویل کے سبب ان پر کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہوگا،لیکن متکلمین کے یہاں حکم ضلالت ضرور نافذہوگا،اسی لیے ان فرقوں کوگمراہ کہا گیا۔جو لوگ ضروریات دین میں تاویل کریں، وہ یقینا متکلمین کے یہاں کافرومرتد ہیں۔ماقبل میں گزرچکا کہ ضروریات دین میں تاویل مقبول نہیں۔
علامہ تفتازانی نے بعض علما کے حوالے سے منقولہ بالا قول کوشرح مقاصدکی بحث ہفتم میں نقل فرمایا،جس کا عنوان ہے: ”المبحث السابع فی حکم مخالف الحق من اہل القبلۃ“۔
اس بحث ہفتم میں ان فرقوں کا بیان ہے جو غیرضروریات دین میں تاویل کرتے ہیں، اور اہل قبلہ میں سے ہیں،یعنی کسی ضروری دینی کے منکر نہیں ہیں۔
علامہ تفتازانی نے تحریر فرمایا:
((المبحث السابع فی حکم مخالف الحق من اہل القبلۃ)فی باب الکفر والایمان-ومعناہ ان الذین اتفقوا علٰی ما ہو من ضروریات الاسلام کحدوث العالم وحشر الاجساد وما اشبہ ذلک- واختلفوا فی اصول سواہا کمسئلۃ الصفات وخلق الاعمال وعموم الارادۃ وقدم الکلام وجواز الرؤیۃ ونحو ذلک مما لا نزاع فیہ ان الحق فیہا واحد-ہل یکفر المخالف للحق بذلک الاعتقاد وبالقول بہ ام لا؟ والا فلا نزاع فی کفر اہل القبلۃ المواظب طول العمر علی الطاعات باعتقاد قدم العالم ونفی الحشر ونفی العلم بالجزئیات ونحو ذلک-و کذا لصدور شیء من موجبات الکفر عنہ)(شرح المقاصد:جلددوم:ص269)
توضیح:منقولہ بالا اقتباس سے واضح ہوگیا کہ اس بحث میں ان لوگوں کا بیان ہے جو ضروریات دین کومانتے ہیں اور ضروریات اہل سنت ودیگر امورمیں تاویل کرتے ہیں۔ تاویل فاسد کے ذریعہ ضروریات اہل سنت کا انکار کفر کلامی نہیں،اسی لیے کہا گیا کہ صاحب تاویل کافر نہیں۔
بحرالعلوم کی عبارت کی توضیح:
علامہ بحرالعلوم عبد العلی فرنگی محلی(م۵۲۲۱ھ)نے خلافت صدیقی کے انکار پر روافض کی عدم تکفیر کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ اجماعی امور کابلاتاویل انکار کفر ہے،اسی طرح قطعی امور(ضروریات اہل سنت) کا بلاتاویل انکار کفر ہے۔
اگر اجماعی امور یاقطعی امور کا انکار تاویل کے ساتھ کیا تویہ کفر نہیں۔یہاں اجماعی امور اور قطعی امور سے غیر ضروریات دین مراد ہیں،جیسے خلافت صدیقی اجماعی اور قطعی امور میں سے ہیں،کیوں کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع خلافت صدیقی پر ہے،اوراجماع صحابہ،اجماع قطعی ہے۔اس طرح خلافت صدیقی کا تاویل کے ساتھ انکار کفرکلامی نہیں،اورخلافت صدیقی کو اجماعی وقطعی مان کر بلا تاویل انکار کرنا کفر ہوگا، کیوں کہ یہ کفر عنادی اور استخفاف بالدین ہے۔ ضروریات اہل سنت کا یہی حکم ہے کہ بلا تاویل اس کا انکار متکلمین کے یہاں کفر ہے۔
بحرالعلوم فرنگی محلی نے رقم فرمایا: (وَاِنَّمَا الکُفرُ اِنکَارُ المُجمَعِ عَلَیہِ مَعَ اعترافہ انہ مجمع علیہ من غیر تأویل-وَہَل ہٰذَا اِلَّا کَمَا اِذَا اَنکَرَ المَنصُوصَ بالنص القطعی بتأویل باطل-وہو لیس کفرًا-کَذَا ہٰذَا)
(فواتح الرحموت:جلددوم:ص294-دار الکتب العلمیہ بیروت)
توضیح:جس کوضروریات اہل سنت کی قطعیت کاعلم ہے،وہ تاویل فاسد کے ذریعہ اس کا انکار کرے تو کفر نہیں۔اسی طرح اجماعی امر کا تاویل فاسد کے ذریعہ انکار کفر نہیں۔
اگر اجماعی امر کا بلا تاویل انکار کرے تو یہ کفرہے،کیوں کہ یہ استخفاف بالدین ہے۔
بحرالعلوم کی عبارت میں قطعی سے ضروریات اہل سنت مراد ہیں جوقطعی بالمعنی الاعم ہوتی ہیں۔ مجمع علیہ سے وہ امر مرادہے جس پرحضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع منصوص ہو۔فواتح الرحموت میں اس مقام پر اس امر اجماعی کی بحث ہے جواجماع صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے ثابت ہو۔ضروریات دین کو بھی اجماعی اورقطعی کہا جاتا ہے،لیکن یہاں وہ مراد نہیں۔
امام غزالی کی عبارت کی توضیح:
امام غزالی شافعی نے فرمایا کہ اصحاب تاویل جب تک تاویل کے قانون کی پیروی کرتے رہیں،ان پر حکم کفر عائد نہیں ہوگا۔تاویل کا قانون یہ ہے کہ ضروریات دین میں تاویل نہ کی جائے۔ضروریات دین میں تاویل مقبول نہیں۔
قال الغزالی الشافعی:(وَلَا یَلزَمُ الکُفرُ لِلمُؤَلِینَ ما داموا یلازمون قانون التاویل)(التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ: ص41)
وضاحت:موجودہ سلسلہ وار مضامین میں کفر فقہی کا بیان رقم کیا جارہا ہے۔کفر فقہی کو کفر اختلافی کہا جاتا ہے۔ ان مضامین میں اس نکتہ پر توجہ دینی ہوگی کہ متکلمین کس مقام پرکفر کا حکم دیتے ہیں اور کس مقام پر ضلالت وگمرہی کا حکم دیتے ہیں۔کہا ں فقہا کے اعتبارسے حکم کفر عائد ہوتا ہے اورکہاں فقہا ومتکلمین دونوں کے اعتبارسے حکم کفر عائد ہوتا ہے۔ جب متکلمین کے یہاں کوئی کافر ہوگا تو فقہا کے یہاں یقینی طورپر کافر ہوگا۔کفر کلامی میں امت مسلمہ میں سے کسی کا اختلاف نہیں ہوتا۔ کفر کلامی کوکفر اتفاقی بھی کہا جاتا ہے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:08:اگست 2021
٭٭٭٭٭
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
کفرفقہی کے اقسام واحکام
(قسط ہفتم)
لزوم التزام کی تشریح
گزارش:ہمارے قارئین میں بہت سے علمائے کرام علم کلام سے وابستہ ہیں۔ ان حضرات کو جہاں کہیں کوئی لغزش نظر آئے تواطلاع فرمائیں،تاکہ تصحیح کی جا سکے۔لغزش وخطا دیکھ کرخاموش رہنا شرعاً جرم ہے:جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء فی الدارین(آمین)
کفرلزومی کا علم نہ ہوتو حکم کفر نہیں:
سوال:اگرکسی کے قول میں کفرلزومی پایاجاتا ہو،لیکن قائل کوخبر نہ ہوتواس پر کوئی حکم کفروارد ہوگایا نہیں؟
جواب: کفر کی دو قسمیں ہیں۔کفر لزومی اور کفر التزامی۔ متکلمین کفر لزومی کی صورت میں حکم کفر عائد نہیں کرتے۔کسی کے بتانے سے یاخودسے کفرلزومی پر مطلع ہوجائے،اس کے باوجود کفرپر اصرار کرے، تب حکم کفر وارد ہوگا۔اگر کفرلزومی صادر ہوگیا اور اس کا علم نہ ہو سکا تومعذور سمجھا جائے گا۔منقولہ ذیل عبارتوں میں اسی مفہوم کوبیان کیاگیا ہے۔
(۱)علامہ میر سیدشریف جرجانی حنفی(۰۴۷ھ-۶۱۸ھ) نے تحریرفرمایا:
(من یلزمہ الکفر ولایعلم بہ لیس بکافر)(شرح المواقف:ص556)
ترجمہ:جسے کفر لازم ہو،اوراسے اس کا علم نہ ہوتووہ کافر نہیں۔
(۲)امام عبد الوہاب شعرانی شافعی (۸۹۸ھ-۳۷۹ھ)نے تحریریر فرمایا: (لا یکفر اذا لم یعلم بان اللازم کفر)(الیواقیت والجواہر:جلددوم:ص ۳۲۱:مصر)
ترجمہ: جب لزوم کفر کا علم نہ ہوتو مرتکب کی تکفیرنہیں کی جائے گی۔
(۳)علامہ بحرالعلوم فرنگی محلی(م۵۲۲۱ھ)نے رقم فرمایا:(والتزام الکفرکُفرٌ- دون لزومہ)(فواتح الرحموت جلددوم:ص244-دارالکتب العلمیہ بیروت)
(۴)(ولزوم الکفر لیس کفرًا-بل التزامہ)
(فواتح الرحموت جلداول:ص145)
(۵)(واما لزومہم تکذیب ما ثبت قَطعًا اَنَّہٗ دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلیس کفرًا-وانما الکفر التزام ذلک)
(فواتح الرحموت جلددوم:ص387)
قال الفرہاروی:(قد تقررفی الشرع ان التزام الکفرکفر-لا لزومہ)
(النبراس شرح شرح العقائد: ص128)
توضیح:التزام کفر یہ ہے کہ ضروری دینی کا مفسر وصریح متعین انکار ہو۔اسی طرح لزوم کفر کا علم ہے،اوراس کو کسی تاویل سے دور نہ کرے تو یہ بھی التزام کفر کی منزل میں ہے۔
(۶)قال السیالکوتی:(ان لزوم الکفر لیس بکفر بل التزامہ،اِن لَا یَکُونُ اللُّزُومُ ظَاہرًا-فہو بمنزلۃ الالتزام)(حاشیۃ السیا لکوتی علی الدوانی:ص 106)
توضیح: (ان لا یکون اللزوم ظاہرا)کا مفہوم یہ ہے کہ اگرلزوم کفر ظاہر نہ ہوتو یہ التزام کفر نہیں،اوراگر لزوم کفر ظاہر ہوتو یہ التزام کی منزل میں ہے،اور التزام کفر،کفر کلامی ہے۔
اگر لزوم کفر ظاہر ہے،لیکن کسی تاویل فاسد کے سبب اس لزوم کفر کا انکار کرے تو یہ بھی التزام کفر نہیں۔
مذکورہ عبارت اس طرح ہونی چاہئے۔
الا ان یکون اللزوم ظاہرا
شاید کاتب سے لغزش ہو گئی۔
مذہب معتزلہ کی تشریح وتفہیم:
معتزلہ رب تعالیٰ کو علیم،قادر، حی،سمیع،بصیر،متکلم وغیرہ تسلیم کرتے ہیں،یعنی اللہ تعالیٰ کو صفات سے متصف مانتے ہیں، لیکن وہ صفات الٰہیہ کو ذات الٰہی پر زائد نہیں مانتے، بلکہ ذات الٰہی کو بعینہ نسبتوں کے اعتبارسے صفت بھی مانتے ہیں۔ان کا وہم یہ ہے کہ جب صفات کو ذات پر زائد ماناجائے تو متعدد امور کا قدیم ہونا لازم آئے گا۔
معتزلہ زیادتی صفات کا انکار کرتے ہیں،جس سے مبادی صفات کا انکار لازم آتا ہے، اور مبادی صفات کے انکار سے صفات کا انکار لازم آتا ہے۔ مبادی صفات کے سبب ہی متصف کو متصف مانا جاتا ہے۔ اگر مبداوماخذ اشتقاق معدوم ہوتو متصف کو متصف نہیں مانا جاسکتا۔ عالم وہی ہوگا جس کے پاس علم ہو،پس عالم ہونے کے لیے صفت علم مبدا اور بنیاد ہے۔ معتزلہ رب تعالیٰ کی ذات ہی کو مبدائے صفات بھی مانتے ہیں۔
معتزلہ کہتے ہیں کہ رب تعالیٰ کی ذات ہی بعینہ صفات الٰہی ہے،یعنی اللہ تعالیٰ عالم ہے، لیکن صفت علم ذات الٰہی پر زائد کوئی صفت نہیں،بلکہ ذات الٰہی علم ہے۔معتزلہ کے نظریہ سے صفات الٰہیہ کا انکار لازم آتا ہے،لیکن وہ صفات الٰہیہ کے انکار لزومی کوتسلیم نہیں کرتے،بلکہ رب تعالیٰ کی صفات کو صراحت کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں،اس لیے لزومی انکار التزامی انکار کی منزل میں نہ آسکا اور معتزلہ پر کفر کلامی کا حکم عائد نہ ہوا۔
علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا:(لما ثبت انہ تعالی عالم قادر حی الٰی غیر ذلک-ومعلوم ان کلا من ذلک یدل علٰی معنی زائد علٰی مفہوم الواجب -ولیس الکل الفاظ مترادفۃ-وان صدق المشتق علی الشیء یقتضی ثبوت ماخذ الاشتقاق لہ فثبت لہ صفۃ العلم والقدرۃ والحیوۃ وغیر ذلک -لا کما یزعم المعتزلۃ انہ عالم لا علم لہ وقادر لا قدرۃ لہ-الی غیر ذلک فانہ محال ظاہر،بمنزلۃ قولنا-اسود لا سواد لہ-وقد نطقت النصوص بثبوت علمہ وقدرتہ وغیرہما ودل صدور الافعال المتقنۃ علی وجود علمہ وقدرتہ-لا علی مجرد تسمیتہ عالما وقادرا)
(شرح العقائد النسفیہ:ص64 -مجلس برکات مبارک پور)
توضیح: اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے۔رب تعالیٰ کی بہت سی صفات ہیں۔ہرمتصف کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس صفت کے ماخذاشتقاق سے متصف ہو،مثلاً عالم وہی ہوگا جو صفت علم سے متصف ہو۔اگر کسی کوعالم مانا جائے اور صفت علم اس کے لیے ثابت نہ مانی جائے تو اس کا عالم ہونا ثابت نہیں ہوگا۔
معتزلہ اللہ تعالیٰ کو صفات سے متصف مانتے ہیں،لیکن صفات کو نہیں مانتے،بلکہ ذات ہی کو صفت مانتے ہیں۔ذات صفت نہیں ہوتی ہے،بلکہ صفت سے متصف ہوتی ہے۔ صفت اور متصف بعینہ ایک نہیں ہوسکتے۔اگر کوئی ذات اور صفت کو ایک ہی مانتا ہے تو گویا وہ صفت کا انکار کرتا ہے۔ اس طرح معتزلہ کے نظریہ کے اعتبارسے صفات الٰہی کا انکار لازم آتا ہے۔معتزلہ کا مذہب مندرجہ ذیل ہے۔
قال التفتازانی:(النزاع فی انہ کما ان للعالم منا علما ہو عرض قائم بہ وزائد علیہ حادث،فہل للصانع العالم علم ہو صفۃ ازلیۃ قائمۃ بہ زائدۃ علیہ وکذا جمیع الصفات؟
فانکرہ الفلاسفۃ والمعتزلۃ وزعموا ان صفاتہ عین ذاتہ بمعنی ان ذاتہ یسمی باعتبار التعلق بالمعلومات عالما وبالمقدورات قادرًا الی غیر ذلک-فلا یلزم تکثر فی الذات ولا تعدد فی القدماء والواجبات-
والجواب ما سبق من ان المستحیل تعدد الذوات القدیمۃ وہو غیر لازم-ویلزمکم کون العلم مثلا قدرۃ وحیوۃ وعالما وحیا وقادرا وصانعا للعالم ومعبودا للخلق وکون الواجب غیر قائم بذاتہ الی غیر ذلک من المحالات)(شرح العقائد النسفیہ ص64-مجلس البرکات مبارک پور)
توضیح:معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ صفات الٰہیہ، عین ذات الٰہی ہیں،یعنی اللہ تعالیٰ کا تعلق معلومات سے ہے،اس اعتبار سے رب تعالیٰ عالم ہے،اور رب تعالیٰ کاتعلق مقدورات سے ہے،اس اعتبارسے اللہ تعالیٰ قادر ہے۔
معتزلہ کا خیال ہے کہ اس طرح متعدد امور کا قدیم اور واجب ہونا لازم نہیں آتا ہے۔اہل سنت کا جواب ہے کہ متعدد ذات کا قدیم ہونا محال ہے۔ ایک ذات اور متعدد صفات قدیم ہوں تو یہ محال نہیں۔
معتزلہ ذات الٰہی کو بعینہ صفت الٰہی مانتے ہیں۔ اس سے بہت سے محالات لازم آتے ہیں،مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفت علم ہی صفت قدرت اورصفت حیات ہو، پھر وہی صفت عالم اورحی اور قادر ہو، وہی صفت علم خالق عالم اور معبود خلائق ہو، کیوں کہ ذات اور صفت بعینہ ایک ہی ہے،نیز یہ بھی لازم آتا ہے کہ ذات واجب الوجود قائم بالذات نہ ہو،کیوں کہ صفت قائم بالذات نہیں ہوتی۔جب صفت علم ہی خدا ہے اورصفت قائم بالذات نہیں ہوتی تو اس سے یہ لازم آیا کہ اللہ تعالیٰ قائم بالذات نہیں،حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا قائم بالذات نہ ہونا محال بالذات ہے۔
چوں کہ صفات الٰہیہ غیرذات نہیں،اس لیے غیرکا قدیم ہونا لازم نہیں آیا،نہ ہی قدیم کا کثیر ہونا لازم آیا،کیوں کہ صفات الٰہیہ غیر ذات نہیں،گرچہ وہ عین ذات بھی نہیں۔
علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا:((وہی لاہوولاغیرہ)یعنی ان صفات اللّٰہ تعالی لیست عین الذات ولا غیر الذات-فلا یلزم قدم الغیر ولا تکثر القدماء)(شرح عقائد نسفیہ:ص66-مجلس برکات مبارکپور)
انکار لزومی کا انکار ہوتو التزام نہیں:
انکارلزومی کا التزام بھی التزام کفر ہے، لیکن اصحاب تاویل انکار لزومی کا التزام نہیں کرتے ہیں،بلکہ انکار لزومی کا انکارکرتے ہیں اور تاویل فاسدکرتے ہیں۔
انکارلزومی کی صورت میں کفرکلامی کاحکم عائدہونے کے درج ذیل شرائط ہیں۔
(۱)کسی ضروری دینی کا انکار لازم آئے(۲) قائل کو اس انکارلزومی کا علم ہو۔
(۳) قائل انکار لزومی کا انکاراورتاویل نہ کرتا ہو۔مذکورہ شرائط کے وجود کے وقت لزوم، لزوم بین ہوجاتا ہے اور لزوم بین التزام کی منزل میں ہے۔
(۱)اگرضروری دینی کا انکار لازم نہ آئے،(۲)یا ضروری دینی کا انکارلازم آئے، لیکن قائل کو اس ضروری دینی کے لزومی انکار کا علم نہ ہو،(۳)یا ضروری دینی کے لزومی انکار کا علم ہو، لیکن قائل انکار لزومی کاصریح انکارکرے،اور تاویل کرے توان تینوں صورتوں میں کفر کلامی کا حکم نہیں،جیسے معتزلہ کے قول سے صفات الٰہیہ کا لزومی انکار ہوجاتا ہے،لیکن معتزلہ اس لزومی انکار کو تسلیم نہیں کرتے ہیں،بلکہ اس لزومی انکار کاتاویل فاسد کے ساتھ انکار کرتے ہیں۔
قال الہیتمی:(فان قُلتَ:المعتزلۃ تُنکِرُ الصفات السبعۃَ اوالثمانیۃَ وَلَم یُکَفِّرُوہُم-قُلتُ:ہم لا ینکرون اَصلَہَا-وانما ینکرون زیادتَہَا عَلَی الذَّات حذرًا من تعدد القدماء-فَیَقولون:انہ تعالٰی عالمٌ بذاتہ قادرٌ بذاتہ وہکذا-والجواب عن شبہتہم المذکورۃ ان المحذور تعدد ذوات القدماء،لاتعدد صفاتٍ قائمۃٍ بذات واحدۃٍ قدیمۃٍ)(الاعلام بقواطع الاسلام:ص350)
توضیح:معتزلہ صفات الٰہیہ کا صریح انکار نہیں کرتے،بلکہ وہ صفات کوثابت مانتے ہیں،گرچہ ان کے قول سے صفات الٰہیہ کاانکار لازم آتا ہے۔یہ لوگ زیادتی صفات کا انکار کرتے ہیں،جس سے مبادی صفات کا انکار لازم آتا ہے اور مبادی صفات کے انکار سے صفات کا انکار لازم آتا ہے،لیکن وہ ذات الٰہی کو ہی صفت الٰہی بھی مانتے ہیں،یعنی ذات کو ہی مبدائے صفت بھی مانتے ہیں۔
معتزلہ کہتے ہیں کہ اگر صفات الٰہیہ کو ذات الٰہی پرزائد تسلیم کیا جائے تو متعددامور کا قدیم ہونا لازم آئے گا،حالاں کہ صرف رب تعالیٰ کی ذات قدیم ہے۔اہل سنت کی جانب سے جواب دیا جاتا ہے کہ چند ذات کا قدیم ہوناممنوع ہے،لیکن ایک ذات کے ساتھ متعددصفات قدیم ہوں تو اس سے متعدد ذات کا قدیم ہونا لازم نہیں آتا۔
قال الامام احمد رضا:(وفی مسلم الثبوت وشرحہ للمولی بحر العلوم ملک العلماء قدس سرہ:(وَاَمَّا)البدعۃ(الغیر الجلیۃ)لم یکن فیہا مخالفۃ لدلیل شرعی قاطع واضح(کنفی زیادۃ الصفات)فان الشریعۃ الحقۃ انما اَخبَرَت بِاَنَّ اللّٰہ تَعَالٰی عا لمٌ قَادِرٌ-وَاَمَّا اَنَّہٗ عَالِمٌ قادر بِعِلمٍ وَقُدرَۃٍ،ہُمَا نَفسُ الذَّاتِ-اَوبِصِفَۃٍ قَاءِمَۃٍ بِالذَّات-فَالشَّرعُ سَاکِتٌ عَنہ- فَہٰذِہِ البِدعَۃُ لَیسَت اِنکَارُ اَمرٍوَاضِحٍ فِی الشَّرعِ(فَتُقبَلُ)شَہَادَتُہٗ وَرِوَایَتُہٗ (اِتِّفَاقًا)-لِاَنَّ ہٰذِہِ البِدعَۃَ لَا تُوجِبُ الفِسقَ-اِذ لَیسَ فِیہَا مُخَالَفَۃٌ لِاَمر شَرعِیٍّ(اِلَّا اَن دَعَا)ہٰذَا المُبتَدِعُ(اِلٰی ہَوَاہُ)فَاِنَّ الداعی الی الہوٰی مخاصم،لَا یؤتمن عَلَی الاِجتِنَابِ عَنِ الکذب)(المعتمد المستند: ص43)
توضیح: بدعت غیر جلیہ یعنی بدعت غیر صریحہ جس میں کسی دلیل شرعی قطعی کی صریح مخالفت نہ ہو،اس کی بنیادپر کفرکلامی کا حکم نہیں ہوگا،جیسے معتزلہ کاقول ہے کہ وہ ذات الٰہی پرصفات الٰہی کوزائدنہیں مانتے،بلکہ ذات ہی کو نسبتوں کے اعتبارسے صفت قرار دیتے ہیں۔وہ ذات وصفا ت کی عینیت کے قائل ہیں۔کسی شرعی دلیل میں یہ صراحت نہیں ہے کہ صفات الٰہیہ عین ذات الٰہی ہیں یاذات کے ساتھ قائم ہیں۔
ہاں،دلیل عقلی کی روشنی میں اہل سنت وجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ صفات الٰہیہ ذات الٰہی کے ساتھ قائم ہیں اور وہ صفات الٰہیہ نہ عین ذات ہیں، نہ ہی غیرذات۔باب عقائد کے ادلہ اربعہ میں عقل سلیم بھی دلیل قوی ہے۔معتزلہ کے عقیدہ سے کسی ضروری دینی کا صریح انکار نہیں ہوتا،لیکن ضروریات دین کا لزومی انکار ہوجاتا ہے۔ صفات الٰہیہ کوماننا ضروریات دین میں سے ہے۔
قال الامام احمد رضا القادری:(وَالاَصوَبُ عِندِی فِی خُصُوصِ المَسءَلَۃِ-اعنی نفی زیادۃ الصفات مَا قَدَّمتُہٗ عَن(مسلم الثبوت)وشرحہ (فواتح الرحموت)مِن اَنَّہٗ بِدعَۃٌ،لَا تُوجِبُ فِسقًا-اِذ لَیسَ فِیہِ اِنکَارُ قَطعِیٍّ- وَاللّٰہ تَعَالٰی اَعلَمُ) (المعتمد المستند: ص51-المجمع الاسلامی مبارک پور)
توضیح: مذکورہ بالا عبارت میں فسق سے کفر کلامی مراد ہے۔کفر کو کبھی فسق کے لفظ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔مفہوم یہ ہے کہ معتزلہ اس بات کے منکر ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات، ذات الٰہی پر زائد ہیں،بلکہ وہ بعینہ ذات الٰہی کو ہی نسبت کے سبب صفت مانتے ہیں۔اس زیادتی کی نفی سے کسی دلیل قطعی شرعی کا انکار نہیں ہوتا،کیوں کہ کسی دلیل قطعی میں ایسا ذکر موجود ہی نہیں کہ صفات الٰہیہ ذات الٰہی پر زائد ہیں۔
چوں کہ صفات کی زیادتی کے انکار سے صفات الٰہیہ کا انکار لازم آتا ہے،اوران صفات کوماننا ضروریات دین سے ہے،اور جس سے ضروری دینی کا انکار لازم آئے، اس کو نہ ماننا اور اس کی ضد ومقابل کو ماننا ضروریات اہل سنت میں سے ہوتا ہے۔
ضروریات اہل سنت کا تاویل فاسد کے ساتھ انکار کفرفقہی اور متکلمین کے یہاں ضلالت ہے تو یہاں بھی منکر پر کفرفقہی اور متکلمین کے یہاں ضلالت کا حکم عائدہوگا،کفر کلامی کا حکم نہیں ہوگا۔منقولہ بالا عبارت میں فسق سے کفر کلامی مراد ہے۔
ضروریات اہل سنت کا بلا تاویل انکار استخفاف بالدین اور کفر کلامی ہے تو یہاں بھی بلا تاویل انکار کفر کلامی ہوگا،لیکن معتزلہ تاویل کے ساتھ انکار کرتے ہیں،پس معتزلہ پر کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہوگا۔
الحاصل زیادتی صفات کو ماننا ضروریات اہل سنت میں ہے،اور زیادتی صفات کا انکار ضلالت وگمر ہی ہے،کیوں کہ اس انکار سے صفات الٰہیہ کا انکار لازم آتا ہے۔
قال الہیتمی ناقلًا عن امام الحرمین:(وبعض التفاصیل المذکورۃ المندرجۃ تحت الشہادتین اختلف فیہا-ہل التصدیق بہا داخل فی مسمی الایمان؟فیکفرمنکرہا-اَو لَا،فَلَا-فمن ذلک اختلاف اہل السنۃ فی تکفیر المخالف فی بعض العقائد بعد اتفاقہم علٰی کفرالمخالف فی بعض الاصول المعلوم ضرورۃً-کالقول بقدم العالم ونفی حشرالاجساد ونفی علمہ تعالٰی بالجزئیات ونفی فعلہ بالاختیار-بخلاف ما لیس کذلک کنفی مبادی الصفات مع اثباتہا کقول المعتزلی-عالم بلا علم- وکنفی عموم الارادۃ للخیر والشر-وکالقول بخلق القراٰن-فقال جماعۃ: ہوکفر-والصحیح عند جمہورالمتکلمین والفقہاء والاشعری خلافہ- انتہٰی) (الفتاوی الحدیثیہ: ص141-دارالفکر بیروت)
توضیح: معتزلہ ضروریات دین کوتسلیم کرتے ہیں۔تاویل کے ساتھ ضروریات اہل سنت میں سے بعض امور کے منکر ہیں،اسی لیے وہ گمراہ ہیں،کافر نہیں۔(کنفی مبادی الصفات مع اثباتہا کقول المعتزلی)کا مفہو م یہ ہے کہ معتزلہ مبادی صفات کے منکر ہیں، لیکن صفات کو ثابت مانتے ہیں،یعنی اللہ تعالیٰ کو عالم وقادروسمیع وبصیر وغیرہ مانتے ہیں۔
در حقیقت معتزلہ مبادی صفات کا بھی صریح انکار نہیں کرتے،بلکہ زیادتی صفات کا انکار کرتے ہیں اور ذات الٰہی کوہی مبدائے صفات بھی مانتے ہیں،لیکن ذات مبدائے صفات نہیں ہوتی،لہٰذا مبادی صفات کا انکار لازم آیا،پھر مبادی صفات کے انکار سے صفات الٰہیہ کا انکار لازم آیا،لیکن چوں کہ معتزلہ صفات الٰہیہ کوصریح لفظوں میں ثابت مانتے ہیں،پس ان کا کفر لزومی،کفر التزامی نہ ہوسکا اور ان پر کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہوسکتا۔کفر فقہی کا حکم عائد ہوگا۔متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی کا حکم عائد ہوگا۔
علامہ عزالدین بن عبد السلام (م660ھ)نے لکھا:(فان قیل:یلزم من الاختلاف فی کونہ سبحانہ فی جہۃ ان یکون حادثا؟قلنا:لازم المذہب لیس بمذہب -لان المجسمۃ جازمون بانہ فی جہۃ جازمون بانہ قدیم ازلی لیس بمحدث-فلا یجوز ان ینسب الی مذہب من یصرح بخلافہ وان کان لازما من قولہ)
(قواعد الاحکام فی مصالح الانام:ص203-مکتبۃ الکلیات الازہریہ قاہرہ)
توضیح:(فلا یجوز ان ینسب الی مذہب من یصر ح بخلافہ:الخ)کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کو ایسے مذہب کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا،جس مذہب کی وہ صریح مخالفت کرتا ہو، گرچہ اس کے قول سے وہ لازم آتا ہو۔ متکلمین لازم مذہب کومذہب نہیں مانتے۔
مجسمہ اللہ تعالیٰ کے لیے جہت مانتے ہیں،جس سے اللہ تعالیٰ کا حادث ہونا لازم آتا ہے،لیکن مجسمہ صراحت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حادث نہیں،بلکہ قدیم وازلی ہے،پس ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کوحادث مانتے ہیں۔ہاں،جب ان کے قول سے اللہ تعالیٰ کا حادث ہونا لازم آتا ہے تو انہیں گمراہ کہا جائے گا۔اسی طرح معتزلہ بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کو مانتے ہیں تو انہیں صفات الہیہ کا منکر نہیں کہا جائے گا۔ہاں،ان کے قول سے صفات کا انکار لازم آتا ہے تو انہیں گمراہ کہا جائے گا۔
لازم کا اعتقاد التزام ہے
قال الہیتمی الشافعی:(وَوَصفُ مُحدِثٍ بِمَا یَستَلزِمُ قِدَمَہٗ اِنَّمَا یَتَّضِحُ کَونُہٗ کُفرًا-اِن اِعتَقَدَ ذٰلِکَ اللَّازِمَ-کَمَا مَرَّ اَنَّ الاَصَحَّ اَنَّ لاَزِمَ المَذہَبِ لَیسَ بِمَذہَبٍ-لِاَنَّ القَاءِلَ بِالملزوم قَد لَایخطرلہ القول بلازمہ)
(الاعلام بقواطع الاسلام:ص374)
توضیح:کسی نے کسی حادث کو ایسی صفت سے متصف کردیا کہ اس سے اس حادث کا قدیم ہونا لازم آتا ہے اور حادث کوقدیم ماننا کفر ہے،لہٰذا قائل پر حکم کفر عائد ہونا چاہئے، لیکن حکم کفر عائد نہیں ہوگا،کیوں کہ متکلمین کے یہاں لازم مذہب کومذہب تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔اگر قائل اس لازم مذہب کا اعتقاد رکھتا ہو، اور اس لازم مذہب کو مانتا ہو،مثلاً مثال مذکور میں قائل مذکورہ حادث کو قدیم مانتا ہو،تب اس پر کفرکلامی کا حکم عائد ہوگا۔
قال السخاوی ناقلًا عن شیخہ ابن حجر العسقلانی:(قال شیخنا: والتحقیق انہ لا یرد کل مکفر ببدعۃ-لان کل طائفۃ تدعی أن مخالفیہا مبتدعۃ وقد تبالغ فتکفرہا-فلو أخذ ذلک علی الإطلاق لاستلزم تکفیر جمیع الطوائف۔
فالمعتمد أن الذی ترد روایتۃ من أنکر أمرًا متواترًا من الشرع معلومًا من الذین بالضرورۃ أی إثباتا ونفیا-فأما من لم یکن بہذہ الصفۃ وانضم إلی ذلک ضبطہ لما یرویہ مع ورعہ وتقواہ فلا مانع من قبولہ أصلا
وقال ایضًا:والذی یظہران الذی یحکم علیہ بالکفرمن کان الکفرصریح قولہ-وکذا من کان لازم قولہ-وعرض علیہ فالتزمہ-اما من لم یلتزمہ-وناضل عنہ فانہ لَا یکون کافرًا-ولو کان اللازم کفرًا-وینبغی حملہ علٰی غیر القطعی لیوافق کلامہ الاول)(فتح المغیث جلد اول:ص365)
توضیح: (وکذا من کان لازم قولہ وعرض علیہ:الخ)کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کلام سے کسی ضروری دینی کا انکار لازم آتا ہو۔ قائل کوبتایا گیا کہ تمہارے اس قول سے ضروری دینی کا انکار لازم آتا ہے تو اس نے اس انکار لزومی کا انکار نہیں کیا،بلکہ اس کوتسلیم کیا،اور انکار لزومی کو دور کرنے کے لیے کوئی تاویل بھی نہیں کی تو یہ انکار لزومی کا التزام کرنا اوراس کوتسلیم کرنا ہے۔یہ کفر کلامی ہے۔اگر انکار لزومی کو تسلیم نہ کرے،بلکہ انکار کرے اور اپنی تاویل پیش کر ے تو حکم کفر عائد نہیں ہوگا، جیسے معتزلہ ودیگر اصحاب تاویل انکار لزومی کو تسلیم نہیں کرتے۔
التزام پر کفر کلامی کا حکم ہے،لزوم کفرپرنہیں۔
التزام کفرپر متکلمین حکم کفر نافذکرتے ہیں۔لزوم کفر پر نہیں۔فقہا ئے کرام لزوم کفر پر بھی حکم کفر نافذکرتے ہیں۔یہ کفر فقہی ہے،کفر کلامی نہیں۔
واضح رہے کہ جہاں تاویل بعید کی گنجائش ہو، اس کو متکلمین لزوم کفر سے تعبیر کرتے ہیں،اوریہی تعبیر مشہور ہے۔ جہاں تاویل قریب کی گنجائش ہو، فقہا اس کو لزوم کفر کہتے ہیں اورتاویل قریب کی گنجائش نہیں،صرف تاویل بعید کی گنجائش ہے،جیسے قطعی بالمعنی الاعم یعنی ظاہر ونص میں تاویل قریب کی گنجائش نہیں ہے تو فقہا کے یہاں ظاہر ونص کے طورپرکسی ضروری دینی کا انکار ہوتو التزام کفر ثابت ہوجائے گا۔ متکلمین اس کو التزام کفرنہیں کہتے ہیں،کیوں یہاں تاویل بعید کی گنجائش ہے،اورمتکلمین تاویل بعید قبول فرماتے ہیں،یعنی تاویل بعید کا لحاظ کر کے حکم کفرجاری نہیں فرماتے۔ باب تکفیر میں لزوم اورالتزام کا وہی معنی متعارف ہے،جو متکلمین کی مشہوراصطلاح ہے۔جہاں لزوم والتزام کا ذکر ہوتو متکلمین کی اصطلاح کے اعتبارسے لزوم والتزام مراد ہوتا ہے۔ التزام کا معنی درج ذیل ہے۔
(1)قال الامام احمد رضا القادری:(والاکفار لا یجوز الا اذا تَحَقَّقَ لَنَا قَطعًا اَنَّہ مُکَذِّبٌ اَو مُستَخِفٌّ-ولا قَطع الا فی الضروریات-لان فی غیرھا لہ اَن یَقُولَ لَم یثبت عندی)(المعتمد المستند: ص212-مبارک پور)
توضیح:(اذا تحقق لنا قطعا:الخ)سے مراد یہ ہے کہ جب قطعی طورپر ثابت ہوجائے کہ کسی ضروری دینی کا انکار ہوا ہے،تب حکم کفر عائد ہوگا۔ قطعی انکارسے قطعی بالمعنی الاخص انکارمراد ہے۔قطعی بالمعنی الاعم انکار میں احتمال بعید ہوتاہے۔
(2)وَقَالَ الامام احمد رضا:(الراجح عندنا اَنَّ لَا اِکفَارَ الا بالالتزام -وَلَا نرید بہ ان یَلتَزِمَ کَونَہ کَافِرًا-فَاِنَّ اَحَدًا مِنَ عَبَدَۃِ الاَوثَانِ اَیضًا لا یرضی لنفسہ بتسمیۃ الکافر-وانما المعنٰی ان یلتزم انکارَ بَعضِ مَا ھو من ضروریات الدین-وان زَعَمَ اَنَّہ من کملاء المسلمین وَاَنَّ لَہ تَاوِیلًا فی ھذا الانکار المھین کَمَا بَیَّنتُہ فی سبحٰن السبوح)(المعتمد المستند ص213- المجمع الاسلامی مبارک پور)
توضیح:(ان لا اکفار الا بالتزام)سے مذہب متکلمین کوبیان کیا گیا ہے کہ متکلمین التزام کفر کے وقت تکفیر کرتے ہیں۔امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز بھی باب تکفیر میں مذہب متکلمین پر ہیں۔
(3)قال الامام احمد رضا:(والمحققون لایکفرون الابانکار ما علم من الدین ضرورۃً بحیث یشترک فی معرفتہ الخاص والعام المخالطون للخواص-فان کان المجمع علیہ ہکذا،کَفَرَ مُنکِرُہٗ وَاِلَّا لَا-وَلَا حَاجَۃَ عندہم اَیضًا اِ لٰی وُجُودِ نَصٍّ-فَاِنَّ کَثِیرًا من ضروریات الدین مِمَّا لَا نَصَّ عَلَیہ کَمَا یَظہَرُ بِمُرَاجَعَۃِ ”الاِعلَام“) (المعتمد المستند:ص195-المجمع الاسلامی مبارک پور)
توضیح:(والمحققون لا یکفرون الا بانکار ماعلم من الدین ضرورۃ:الخ)سے مراد یہ ہے کہ متکلمین صرف ضروری دینی کے انکار پر حکم کفر عائد کرتے ہیں۔
طارق انورمصباحی
جاری کردہ:25:اگست 2021
٭٭٭٭٭
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
کفرفقہی کے اقسام واحکام
(قسط ہشتم)
معتزلہ،نصاریٰ اورمجسمہ کا بیان
قسم ہفتم میں معتزلہ کا تفصیلی حکم بیان کیاگیا ہے۔ معتزلہ ضروریات دین کوتسلیم کرتے ہیں۔تاویل کے ساتھ ضروریات اہل سنت میں سے بعض امور کے منکر ہیں،اسی لیے وہ متکلمین کے یہاں گمراہ ہیں،کافر نہیں۔معتزلہ فقہا کے یہاں کافرفقہی ہیں۔
نصاریٰ بھی صفات الٰہیہ میں تاویل کرتے ہیں،لیکن ان کی تاویل کے سبب تین معبود کا ثبوت ہوجاتا ہے، لہٰذاوہ اصحاب توحید میں شمار نہیں کیے جاسکتے۔یہ زمانہ فترت کے نصاریٰ کا حکم ہے۔ بعد کے نصاریٰ آخری نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نبوت کا انکارکرنے کے سبب کافر ہیں۔اب یہ لوگ اگر توحید خالص کا اقرار بھی کریں تو بھی مومن نہیں ہوسکتے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے کفریات ہیں،مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دینا،وغیرہ۔
نصاریٰ اصحاب توحید نہیں
کفر معلوم کا لزوم بھی التزام ہے،یعنی جب قائل کوعلم ہے کہ اس قول پر کفر لازم آتا ہے، اس کے باوجود اس نے وہ قول کیا تویہ لزوم بھی التزام کی منزل میں ہے،اورقائل پر حکم کفر عائد ہوگا۔لزوم کفر کی صورت میں متکلمین کے یہاں اس وقت حکم کفرعائد ہوگا،جب ضروریات دین میں سے کسی ضروری دینی کا انکار لازم آتا ہو،اور قائل کو اس کا علم ہو۔اگر قائل کواس کا علم نہیں،یاضروری دینی کا انکار لازم نہ آئے،توکفر نہیں۔اسی طرح قائل لازم کا انکار کرے،توبھی کفر کلامی کا حکم نہیں،جیسے معتزلہ کے قول سے صفات الٰہیہ کا انکار لازم آتا ہے،لیکن وہ لازم کا انکار کرتے ہیں۔
نصاریٰ نے صفات الٰہیہ کی ایسی تاویل کی کہ اس سے تین قدیم اور واجب الوجود ذات کا وجود ثابت ہوگیا،لہٰذا بطلان توحید کے سبب وہ اہل توحید نہیں۔
قال التفتازانی:((وہی لاہوولاغیرہ)یعنی صفات اللّٰہ تعالٰی لیست عین الذات ولا غیرالذات فلا یلزم قدم الغیر ولاتکثرالقدماء-والنصارٰی وان لم یُصَرِّحُوابالقدماء المتغایرۃ لکن لزمہم لانہم اَثبَتُوا الاقانیمَ الثلثۃَ التی ہی-الوجود والعلم والحیا ۃ-وَسَمُّوہا الاب والابن وروح القدس- وَزَعَمُوا اَنَّ اقنوم العلم قد انتقل الٰی بدن عیسٰی علیہ السلام-فَجَوَّزُوا الانفکاک والانتقال فکانت الاقانیم ذوات متغایرۃ)(شرح العقائد النسفیہ: ص46-مجلس برکات مبارک پور)
توضیح:نصاریٰ نے اقانیم ثلاثہ کا قول کیا۔ وجود، علم اورحیات۔نصاریٰ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جوہر ہے جوتین اقنوم پرمشتمل ہے۔ وجود سے مراد باپ یعنی اللہ تعالیٰ ہے۔علم سے مراد بیٹا یعنی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام ہیں اور حیات سے مراد روح خداوندی ہے۔ان کے یہاں ان تینوں کا مجموعہ خدا ہے۔
نصاریٰ نے تین مستقل اور متغایر خدا ہونے کی صراحت نہیں کی،یعنی یہ نہیں کہا کہ یہ تینوں بالذات ایک دوسرے سے الگ اور مستقل طورپر خدا ہیں،بلکہ تینوں کے مجموعہ کوایک مانا، لیکن ان لوگوں نے کہا کہ اقنوم علم حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کے جسم مبارک کی طرف منتقل ہوگیا تو ان لوگوں کے قول کے مطابق تین اقنوم میں سے ایک اقنوم،ذات الٰہی سے جدا ہو گیا اور منتقل ہوکرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم میں آگیا،پس اس سے بالکل واضح ہو گیا کہ اقنوم علم بذات خود کوئی ذات ہے،جو منتقل ہوسکتاہے،کیوں کہ صفت اپنے موصوف سے جدا نہیں ہوتی،بلکہ صفت اپنے موصوف کے ساتھ قائم ہوتی ہے،وہ قائم بالغیر ہوتی ہے۔ ذات جدا ہوتی ہے،کیوں کہ ذات قائم بالذات ہوتی ہے۔
نصاریٰ کے قول سے لازم آیا کہ اقنوم علم ایک مستقل ذات اور قائم بالذات امر ہے۔ یہ صفت نہیں،پس متعد د واجب الوجود ذات اور متعددقدیم ذات کا وجود لازم آیا،اور نصاریٰ اقنوم علم کے مستقل ذات ہونے کا انکار بھی نہیں کرتے،لہٰذا لزوم کفر کا علم اوراس کے عدم انکار کے سبب کفر لزومی،کفر التزامی ہوگیا۔
الحاصل ان کے عقیدہ سے تین متغایر ذات کا وجود لازم آیا اوروہ اس تثلیث کے منکر نہیں،بلکہ تثلیث ان کے بنیادی عقائد میں سے ہیں، اور متعدد ذات کو قدیم اور واجب الوجود ماننا کفرکلامی اور توحید کے منافی ہے،پس وہ کافر اور غیر موحد ثابت ہوئے۔
علامہ فرہاری نے رقم فرمایا:(زعموا ان الذات المقدسۃ نفس ہذہ الصفات الثلاثۃ-وسموہا اقانیم-لانہا اصل الموجودات)
(النبراس شرح شرح العقائد ص265)
ترجمہ:نصاری نے کہا کہ (اللہ تعالی کی) ذات مقدسہ بعینہ یہ تین صفات(کا مجموعہ)ہے۔اور ان صفات کا نام اقانیم رکھا,کیوں کہ یہ تینوں موجودات کی اصل ہیں۔
علامہ فرہاری نے نصاریٰ کے التزام کفر کی وضاحت کرتے ہوئے رقم فرمایا:
(البحث الاول:بانہ تقرر فی الشرع ان التزام الکفرکفر،لا لزومہ- والا لزم تکفیر کثیر من اہل القبلۃ-والنصاری لم یلتزموا التکثر-ولکن لزمہم من الانتقال-اجیب بوجہین:احدہما ان النصاری التزموہ بعد ما ظہر لہم)(النبراس شرح شرح العقائد ص266-مکتبہ یاسین ترکی)
توضیح:نصاریٰ نے التزامی طورپر یہ نہیں کہا کہ متعدد ذات قدیم ہیں،لیکن ان لوگوں نے کہا کہ اقنوم علم منتقل ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کے جسم مبارک میں آگیا،اور صفت منتقل نہیں ہوتی ہے،بلکہ ذات منتقل ہوتی ہے،لہٰذا اقنوم علم صفت نہیں، بلکہ اس کا ایک ذات ہونا لازم آیا،اور نصاریٰ نے اقنوم علم کے مستقل ذات ہونے کا انکار نہیں کیا۔
قال الخیالی:((قولہ لکن لزمہم ذلک)قیل علیہ-اللزوم غیر الالتزام ولا کُفرَ الا بالالتزام-وجوابہ:ان لزوم الکفر المعلوم کفرٌ ایضًا ولذا قال فی المواقف:من یلزمہ الکفر ولایعلم بہ فلیس بکافر-ولا شَکَّ ان لزوم الذاتیۃ للانتقال من اجلی البدیہات علٰی ان قولہ تعالٰی-وَمَا مِن اِلٰہٍ اِلَّااِلٰہٌ وَاحِدٌ-بَعدَ قولہ تعالٰی(لَقَد کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوااِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ)شَاہِد صدقٌ عَلٰی اَنَّہُم کَانُوا یَقُولُونَ بِاٰلِہَۃٍ وَذَوَاتٍ ثَلٰثَۃٍ)(حاشیۃ الخیالی: ص۱۷)
توضیح:(ان لزوم الذاتیۃ للانتقال من اجلی البدیہیات)سے مراد یہ ہے کہ جو منتقل ہوگا،اس کا ذات ہونا لازم ہے۔ کوئی صفت اپنے موصوف سے منتقل ہوکر دوسرے جسم میں نہیں جا سکتی،مثلاًزید کی کڈنی نکال کر بکر کے جسم میں لگائی جا سکتی ہے،لیکن زید کا علم بکر کے جسم تک منتقل نہیں کیا جا سکتا۔
نصاریٰ کے عقیدۂ انتقال کے سبب اقنوم علم، اللہ تعالیٰ کی صفت ثابت نہ ہوسکا،بلکہ وہ ایک مستقل ذات ثابت ہوگیا جو منتقل ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم مبارک میں آگیا۔ چوں کہ نصاریٰ اقنوم علم کے مستقل ذات ہونے کا انکاربھی نہیں کرتے،حالاں کہ انہیں معلوم ہے کہ اقنوم علم کے منتقل ہونے کا قول کرنے سے اس کا ذات ہونا لازم آتاہے، اور لزوم کے عدم انکار کے سبب لزوم،التزام کی منزل میں آگیا،پس ان کے عقیدہ کے اعتبار سے متعدد واجب الوجود ذات کاوجود ثابت ہوگیا۔متعدد واجب الوجود ذات کا عقیدہ رکھنا کفر ہے،پس نصاریٰ پرالتزام کفر کا حکم عائد ہوگا۔
آیت مقدسہ (قالوا ان اللہ ثالث ثلثۃ)سے ثابت ہے کہ نصاریٰ تین ذات اور تین معبود کے قائل تھے۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کوکافر قرار دیا۔
قال السیالکوتی:((قولہ وان لزوم الکفر المعلوم کفرٌ ایضًا)یعنی کما ان التزامَ الکفر کُفرٌ-کذلک لزوم الکفر المعلوم کفرٌ-لان لزوم الشیء مع العلم بہ التزام)(حاشیۃ السیالکوتی علی الخیالی: ص129)
ترجمہ:کفر معلوم کا لزوم بھی التزام ہے۔یعنی جس طرح التزام کفر،کفر ہے،اسی طرح کفر معلوم کا لزوم، کفرہے،اس لیے کہ علم کے ساتھ کسی چیز کا لزوم،التزام ہے۔
قال السیالکوتی:((قولہ ولذا قال فی المواقف)فان تقییدہ بقولہ- وَلَا یَعلَمُ بِہ-یَدُلُّ بِالمَفہُومِ المُخَالِفِ عَلٰی اَنَّہ اِن عَلِمَ بِہ یَکفُرُ)
(حاشیۃ السیالکوتی علی الخیالی:ص129)
توضیح:(لا یعلم بہ)کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر لزوم کفر کا علم ہے تو حکم کفر عائد ہوگا۔
صفات غیر ثابتہ کا اثبات:
قال الہیتمی:(ومنہا القول الذی ہو کُفرٌ سَوَاءٌ صَدَرَعَن اِعتِقَادٍ اَو عِنَادٍ اَو اِستِہزَاءٍ-فََمِن ذٰلک اِعتِقَادُ قِدَمِ العالم اوحدوث الصانع-اونفی ما ہو ثابت للقدیم بالاجماع المعلوم من الدین بالضرورۃ کَکَونِہ عَالِمًا اَو قَادِرًا وَکَونِہ یَعلَمُ الجُزءِیَّاتِ-اَو اِثبَاتُ ما ہو منتفٍ عنہ بالاجماع کذٰلک کالالوان او اثبات الاتصال والانفصال لہ)(الاعلام بقواطع الاسلام:ص351)
توضیح:ضروریات دین کا انکار کفر ہے،مثلاً رب تعالیٰ سے کسی ایسے امر کی نفی کیا جو رب تعالیٰ کے لیے ثابت ہے،اور اس کا ثبوت ضروریات دین سے ہے تو یہ نفی کفر ہے۔
اسی طرح رب تعالیٰ کے لیے کوئی ایساامر ثابت کیا جورب تعالیٰ کے لیے ثابت نہیں اور اس کی نفی ضروریات دین میں سے ہو تو یہ اثبات کفر ہے۔ ضروریات دین کے خلاف ہراثبات ونفی کفر کلامی ہے۔اللہ تعالیٰ کے لیے لون ورنگ،اتصال وانفصال ثابت کرنا کفر ہے۔ یہ سب حوادث کی کیفیات ہیں اور اللہ تعالیٰ حوادث کی صفات سے متصف نہیں، کیوں کہ حوادث کی صفات بھی حادث ہیں،جب کہ اللہ تعالیٰ کی صفات قدیم اور ازلی ہیں۔
علامہ تفتازانی نے صفات الٰہیہ کے بارے میں رقم فرمایا:(ازلیۃ،لا کما یزعم الکرامیۃ من ان لہ صفات لکنہا حادثۃ-لاستحالۃ قیام الحوادث بذاتہ)
( شرح العقائد النسفیہ:ص65-مجلس برکا ت مبارکپور)
مجسمہ کے اقسام واحکام:
قال الہیتمی:(والمشہور من المذہب کما قالہ جمعٌ متأخرون ان المجسمۃ لا یُکَفَّرُونَ لکن اطلق فی المجموع تکفیرہم-وینبغی حمل الاول علٰی ما اذا قالوا:جسم لا کالاجسام-والثانی علٰی ما اذا قالوا:جسم کالاجسام-لان النقص اللازم عَلَی الاَوَّلِ قد لایلتزمونہ وَمَرَّ اَنَّ لَازِمَ المَذہَبِ غَیرُمَذہَبٍ-بخلاف الثانی فانہ صریح فی الحدوث والترکیب والالوان والاتصال فیکون کفرًا-لانہ اَثبَتَ لِلقَدِیمِ مَا ہو منفی عنہ بالاجماع-وَمَا عُلِمَ من الدین بالضرورۃ انتفاۂ عنہ-ولا ینبغی التوقف فی ذلک)(الاعلام بقواطع الاسلام:ص358)
توضیح:مجسمہ کافر ہیں یا نہیں؟دراصل دو مذہب کے سبب مجسمہ کے بارے میں دو قول ہیں۔ایک مذہب کے مطابق وہ گمراہ ہیں اور ایک مذہب کے مطابق کافر ہیں۔
(۱)اگر مجسمہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جسم والا ہے،لیکن رب تعالیٰ کا جسم ہمارے جسم کی طرح نہیں تو یہ ضلالت وگمرہی ہے۔
(۲)اگر مجسمہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جسم والا ہے،جیسے کہ ہمارا جسم ہے تو یہ کفر کلامی ہے،کیوں کہ جب ہماری طرح جسم ثابت کیا گیا توحادث ہونا،مرکب ہونا،محتاج ہونا،مخلوق ہونا،رنگ والا ہونا اور بہت سے نقائص ثابت ہوگئے پس یہ کفر کلامی ہے۔اس عقیدہ سے آیت قرآنیہ(لیس کمثلہ شئ) کا صریح ومفسرانکار ہوگیا،اور یہ کفر کلامی ہے۔
صریح انکار اورلزومی انکار میں فرق:
قال الہیتمی:(وَقَد اَشَارَ اِبنُ الرَّفعَۃِ الٰی مدرک القول بالکفر والقول بعدمہ-بما حاصلہ ان المخالفین لِصِفَات الباری تَعَالٰی الذی ہو متصفٌ بہا-اِنَّمَا لَم یُحکَم بِکُفرِہِم-لانہم یعترفون باثبات الربوبیۃ لِذَاتِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَہِیَ وَاحِدَۃٌ-والقول بالکفر نَظرًا اِلٰی اَنَّ تَغیِیرَ الصِّفَاتِ بما لایعتبر فیہ النظرُ والعیانُ بمنزلۃ تغییر الذات-فَکُفِّرُوا لِاَنَّہُم لَم یَعبُدُوا اللّٰہَ سبحانہ وَتَعَالٰی المُنَزَّہُ عَنِ النَّقصِ-لانہم عَبَدُوامَن صِفَتُہ کَذَا وَکَذَا-وَاللّٰہُ سُبحَانَہ مُنَزَّہٌ عَن ذٰلِکَ-فَہُم عَابِدُونَ لِغَیرِہ بہذا الاعتبار-قال وہذا ما یحکٰی عن اختیار شیخ الاسلام ابن عبد السلام قَدَّسَ اللّٰہُ رُوحَہ-انتہٰی۔
وَمَیلُ کلام ابن الرفعۃ الٰی عدم التکفیر وہوکذلک وَاِن لَزم علٰی ہذا الاعتقاد نقص-لان لازمَ المَذہَبِ غَیرُ مَذہَبٍ کَمَا یَاتِی-ومن ثم قال الاسنوی:المجسمۃ ملزمون بالالوان وبالاتصال وبالانفصال مع انا لا نکفرہم علی المشہور کما دل علیہ کلام الشرح والروضۃ فی الشہادات :الخ-وسیاتی الجمع بین ہذا وقول النووی عَفَااللّٰہُ تَعَالٰی عَنہ فی شرح المہذب بکفرہم-فالحاصل اَنَّ مَن نَفٰی اَو اَثبَتَ مَا ہُوَ صَرِیحٌ فی النقص کَفَرَ -اَو مَا ہُوَ ملزومٌ لِلنَّقصِ فَلَا)(الاعلام بقواطع الاسلام: ص351)
توضیح:علامہ ہیتمی کے قول سے واضح ہوگیا کہ جس نفی واثبات میں رب تعالیٰ کی صریح تنقیص ہو،وہ کفر کلامی ہے،اور جس سے نقص لازم آئے،وہ متکلمین کے یہاں کفر نہیں، کیوں کہ متکلمین لازم مذہب کومذہب نہیں مانتے۔
طارق انورمصباحی
جاری کردہ: 27:اگست 2021
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
کفرفقہی کے اقسام واحکام
قسط نہم
ذات الٰہی کی عدم معرفت کے تین حالات
اللہ تعالیٰ کی عدم معرفت کی تین صورتیں ہیں۔ ان کے سبب کفر کلامی کا حکم عائد ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کے وجود سے لاعلمی کفر ہے،کیوں کہ لاعلمی کے سبب جب ایمان نہیں لایا تو عدم ایمان یعنی کفر پایا گیا۔اسی طرح جو کام صرف کافر کرتا ہے،مثلاً کفار کی مذہبی عبادتیں یا ضروریات دین کا انکارتو ایسے امور کے سبب بھی کفرکا حکم عائد ہوگا۔
قال القاضی:(قال القاضی ابوبکر:القول عندی ان الکفر باللّٰہ ہو الجہل بوجودہ-والایمان باللّٰہ ہو العلم بوجودہ-وانہ لایکفر احد بقولٍ ولارأیٍ اِلَّا اَن یَکُونَ ہو الجہل باللّٰہ-فان عصٰی بقول او فعل نَصَّ اللّٰہُ وَ رَسُولُہٗ-اَو اَجمَعَ المُسلِمُونَ اَنَّہٗ لَایوجد الامن کافر-او یقوم دلیل علٰی ذلک-فَقَد کَفَرَ-لَیسَ لِاَجَلِ قولہ او فعلہ-لکن ممایقارنہ من الکفر۔
فالکفر باللّٰہ لا یکون الا باحد ثَلَاثَۃِ اُمُورٍ:
(۱)احدہا الجہل باللّٰہ تَعَالٰی
(۲)والثانی اَن یَاتِیَ فِعلًا اَو یَقُولُ قَولًا-یخبراللّٰہُ وَرَسُولُہ-اَو یُجمِعُ المُسلِمُونَ اَنَّ ذلک لَا یَکُونُ اِلَّا من کافرکالسجود للصنم والمشی الی الکنائس بالتزام الزنار مع اصحابہا فی اَعیَادِہِم۔
(۳)اویکون ذلک القول اوالفعل لا یمکن معہ العلم باللّٰہ۔
قال:فہذان الضربان-وان لم یکونا جہلًا بِاللّٰہ-فَہُمَا عَلَمٌ اَنَّ فَاعِلَہُمَا کَافِرٌ مُنسَلَخٌ مِنَ الاِیمَانِ)(الشفاء:جلددوم:ص292)
توضیح:منقولہ بالا عبارت میں اللہ تعالیٰ کی عدم معرفت کی تینوں صورتوں کا بیان ہے۔
اللہ تعالیٰ کی عدم معرفت کی تین صورتیں ہیں۔ ان کے سبب کفر کلامی کا حکم عائد ہوگا۔
(1)اللہ تعالیٰ کی بالکل معرفت ہی حاصل نہ ہو۔ایسا شخص کافر ہے۔جب وہ جانتا ہی نہیں تو اللہ تعالیٰ کو مانے گا بھی نہیں، اور جو اللہ تعالیٰ کونہ مانے،وہ کافر ہے۔
(2)کوئی ایسا قول کہے،یا ایسا عمل کرے جو صرف کافر کرتے ہیں،جیسے بت کو سجدہ کرنا۔یہودیوں کے تہوا ر کے دن زنار باندھ کر ان کے ساتھ کلیسا (عبادت خانہ)جانا۔
(3)کوئی ایسا قول وفعل کرے،جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی معرفت ممکن نہ ہو، جیسے کسی فرض قطعی کا انکار۔ فرض قطعی وہ فرض ہے جو حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ مروی ہو۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کے احکام کو ماننے کا حکم فرمایا ہے۔جب وہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں مان رہا ہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ ناواقف ہے۔ رب تعالیٰ وہ ذات اقدس ہے جس کا ہر حکم مانا جاتا ہے۔
(فہذان الضربان:الخ)کا مفہوم یہ ہے کہ اخیر کی دونوں صورتوں میں گرچہ منکر اللہ تعالیٰ سے واقف ہے،لیکن یہ ایسے قول وفعل ہیں جومومن سے واقع نہیں ہوتے، پس یہ دونوں قسمیں اس بات کی علامت ہیں کہ ایسا شخص مومن نہیں۔
قال القاری:((اویکون ذلک القول اوالفعل لا یمکن)ای لا یتصور (معہ العلم باللّٰہ)کانکار فرض مجمع علیہ-والقاء مصحف فی قاذورۃ)
(شرح الشفاء:جلدچہارم: ص523)
توضیح:عدم معرفت کی تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی ایسا قول وفعل کرے جس کے ساتھ علم باللہ متصورنہ ہو،جیسے کسی فرض قطعی کا انکار،مثلاً نماز پنج گانہ کا انکار۔اسی طرح قرآن شریف کوآلودگی کی جگہ ڈالنا۔جب وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود مانتا ہے تو اس کے کلام مقدس کی تعظیم کرے گا۔ کلام مقدس کی بے ادبی سے ظاہر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود نہیں مانتا ہے۔ اس قسم کے امور عدم معرفت کی علامت ہیں کہ وہ کما حقہ معرفت نہیں رکھتا۔
علامہ شہاب الدین خفاجی حنفی نے عدم معرفت کی آخری دونوں قسموں کے بارے میں رقم فرمایا:((فہذان الضربان وان لم یکونا جہلًا بِاللّٰہِ تَعَالٰی)ای ان لم یقتض قولہ وفعلہ المذکورَانِ جَہلًا بِاللّٰہ تَعَالٰی(فَہُمَا عَلَمٌ)بِفَتحَتَینِ-اَی عَلَامَۃٌ وَاَمَارَۃٌ(عَلٰی ان فاعلہما کافرٌ منسلخ)خارجٌ (من الایمان)باللّٰہ تَعَالٰی-لان الایمان عند الاشاعرۃ تصدیق النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیما علم مجیۂ بہ ضَرُورَۃً-وَمِمَّا جَاءَ بِہٖ الاِقرَارُبِاللّٰہ وَرُسُلِہٖ وَکُتُُبِہٖ-فالکفر حینئذٍ جحد ذلک-وقد جعل الشرعُ بَعضَ الامور عَلَامَۃً عَلٰی ذٰلک)
(نسیم الریاض:جلد چہارم:ص523)
توضیح:اخیر کی دونوں قسمیں گرچہ اللہ تعالیٰ کی عدم معرفت اور جہل باللہ نہیں ہے،لیکن وہ دونوں قسمیں اس بات کی علامت ہیں کہ ایسا شخص مومن نہیں ہے، کیوں کہ شریعت اسلامیہ نے بعض امور کو کفرکی علامت قرار دیا ہے،جیسے بت کو سجدہ کرنا۔کوئی شخص تمام ضروریات دین کو مانتا ہو،لیکن بت کوسجدہ کرتا ہوتویہ کافر ہے،کیوں کہ بت کوسجدہ کرنا کفار کی عبادت ہے۔ عبادت کفار کو اختیار کرنا کفر کلامی ہے،گر چہ وہ تمام ضروریات دین کومانتا ہو۔
قال الجرجانی:((ولایکفراحد من اہل القبلۃ الابما فیہ نفی الصانع القادر العالم-او شرک-او انکارالنبوۃ اوانکارما علم مجیۂ علیہ الصلٰوۃ والسلام ضرورۃً-او انکار المجمع علیہ کاستحلال المحرمات)التی اجمع علٰی حرمتہا-فان کان ذلک المجمع علیہ مما علم ضرورۃً من الدین فذاک ظاہر داخل فیما تقدم ذکرہ-والا فان کان اجماعًا ظنیًّا فلا کفربمخالفتہ-وان کان قطعیًّا ففیہ خلافٌ(واما ماعداہ فالقائل بہ مبتدع غیرکافر-وللفقہاء فی معاملتہم خلاف-ہوخارج عن فَنِّنَا))
(شرح مواقف:ص762-مطبع نول کشورلکھنؤ)
توضیح:منقولہ بالاعبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ ضروریات دین کا منکر کافر ہے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:28:اگست 2021
٭٭٭٭٭
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
کفرفقہی کے اقسام واحکام
قسط دہم
ذات الٰہی وصفات الٰہیہ سے متعلق احکام
عقل ونقل ہراعتبارسے رب تعالیٰ کا وجود ثابت ہے۔جس امرسے رب تعالیٰ کے وجود کا انکارہوجائے،وہ کفرکلامی ہوگا،اور جس امرسے وجود باری کاانکار لازم آئے،وہ کفر فقہی ہوگا۔انکارکی تمام صورتو ں کے لیے مستقل دلیل کی ضرورت نہیں۔
اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:
”ایجاب وسلب متناقض ہیں،جمع نہیں ہوسکتے۔ وجود شئ اس کے لوازم کے وجود کا مقتضی اور ان کے نقائض ومنافیات کانافی ہے کہ لازم کا منافی موجود ہوتو لازم نہ ہو،اور لازم نہ ہوتو شئ نہ ہوتوظاہر ہواکہ سلب شئ کے تین طریقے ہیں۔
اول: خود اس کی نفی مثلاً کوئی کہے:انسان ہے ہی نہیں۔
دوم:اس کے لوازم سے کسی شئ کی نفی مثلاً کہے:انسان توہے،لیکن وہ ایک ایسی شئ کا نام ہے جو حیوان یا ناطق نہیں۔
سوم: ان کے منافیات سے کسی شئ کا اثبات مثلاً کہے:انسان حیوان ناہق یا صاہل سے عبارت ہے۔
ظاہر ہے کہ ان دونوں پچھلوں نے اگرچہ زبان سے انسان کوموجود کہا،مگر حقیقۃً انسان کو نہ جانا،وہ اپنے زعم باطل میں کسی ایسی چیز کوانسان سمجھے ہوئے ہیں، جو ہرگز انسان نہیں توانسان کی نفی اوراس سے جہل میں یہ دونوں اوروہ پہلا جس نے سرے سے انسان کا انکار کیا،سب برابر ہیں،فقط لفظ کا فرق ہے۔
مولیٰ عزوجل کو جمیع صفات کمال لازم ذات،اور جمیع عیوب ونقائص اس پر محال بالذات کہ اس کے کمال ذاتی کے منافی ہیں۔ کفار میں ہرگز کوئی نہ ملے گا جواس کی کسی صفت کمالیہ کامنکر یامعاذاللہ اس کے عیوب ونقص کامثبت نہ ہو تودہریے اگرقسم اول کے منکر ہیں کہ نفس وجود سے انکار رکھتے ہیں،باقی سب کفار دوقسم اخیر کے منکر ہیں کہ کسی کمال لازم ذات کے نافی یاکسی عیب منافی کے مثبت ہیں۔بہر حال اللہ عزوجل کونہ جاننے میں وہ اور دہریے برابر ہوئے،وہی لفظ وطرز ادا کا فرق ہے۔دہریوں نے سرے سے انکار کیا اوران قہریوں نے اپنے اوہام تراشیدہ کا نام خدا رکھ کر لفظ کا اقرار کیا“۔(فتاویٰ رضویہ ج۵۱ص۰۳۵-جامعہ نظامیہ لاہور)
صفات الٰہیہ سے متعلق تین احکام:
صفات الٰہیہ کے انکار کی تین صورتیں ہیں:
(۱) حقائق کا علم ہوتے ہوئے کسی صفت خداوندی کاالتزامی انکار:یہ کفر کلامی ہے۔
(۲)جہالت ونادانی کے سبب کسی صفت کا انکار:یہ متکلمین کے یہاں کفر نہیں ہے۔ جو فقہا لازم مذہب کو مذہب مانتے ہیں،ان کے یہاں کفرفقہی کا حکم ہوگا۔
(۳)کسی تاویل فاسد کے سبب کسی صفت کالزومی انکار:
معتزلہ کا قول ہے کہ اگر صفات الٰہیہ کو ذات الٰہی پر زائدمانا جائے تو ذات الٰہی کے ساتھ متعددقدیم کا وجود لازم آئے گا،اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کو عالم وقادروغیرہ مانتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ذات الٰہی ہی علم وقدرت وغیرہ ہے۔معتزلہ صفات الٰہیہ اور ذات الٰہی کی عینیت کے قائل ہیں۔معتزلہ واصحاب تاویل کے قول سے لزومی طورپر صفات
حکم اول:تکفیر کلامی
جوشخص صفات الٰہیہ ذاتیہ میں سے کسی صفت ذاتی کاعلم رکھتے ہوئے اس کا التزامی انکار کرے،وہ کافرکلامی ہے۔
(۱)قال القاضی:(فاما من نفی صفۃً من صفات اللّٰہ تَعَالٰی الذَّاتِیَۃَ اَو جَحَدَہَا مُستَبصِرًا فی ذلک-کقولہ -لَیسَ بعالمٍ ولا قادرٍ ولا مریدٍ ولا متکلمٍ-وشِبہَ ذلک من صفات الکمال الواجبۃ لہ تَعَالٰی-فَقَد نَصَّ اَءِمَّتُنَا عَلَی الاِجمَاعِ عَلٰی کُفرِ مَن نفی عنہ تعالی الوصفَ بھا-وَاَعرَاہُ عَنہَا- وَعَلٰی ہٰذَا حُمِلَ قَولُ سُحنُونَ-”مَن قَالَ-لَیسَ لِلّٰہِ کَلَامٌ فہوکافرٌ“- وَہُوَ لَا یُکَفِّرُ المُتَاَوِّلِینَ کَمَا قَدَّمنَاہُ)(الشفاء:جلددوم:ص292)
توضیح:جس کو اللہ تعالیٰ کی کسی صفت ذاتی کا قطعی یقینی علم ہے،اس کے باوجود وہ اس صفت کا التزامی انکار بلا تاویل کرے تووہ کافرکلامی ہے۔اسی طرح صفات کمالیہ واجبہ میں سے کسی صفت کا انکار کرے تو حکم کفر ہے۔معتزلہ ودیگر اصحاب تاویل التزامی انکار نہیں کرتے،بلکہ وہ تاویل فاسد کے سبب انکار کرتے ہیں،لہٰذاان پر کفر کلامی کا حکم نہیں۔
قال القاری:((مستبصرًا)ای متیقنا غیرشاک)
(شرح الشفاء للقاری جلد چہارم:ص523-دارالکتاب العربی بیروت)
توضیح:(مستبصرا فی ذلک)کامفہوم یہ ہے کہ اس صفت کا یقینی علم ہے، اس کے باوجود انکار کرتا ہے تو حکم کفر ہوگا۔ معتزلہ وغیرہ تعددقدما کے شبہہ کے سبب صفات الٰہیہ کا لزومی انکار کرتے ہیں۔وہ التزامی انکار نہیں ہے۔
قال القاری:((فَقَد نَصَّ اَءِمَّتُنَا)المالکیۃ(عَلَی الاِجمَاعِ عَلٰی کُفرِمَن نفی عنہ تعالی الوصفَ بھا-وَاَعرَاہُ عَنہَا)ای اخلاہ منہا بلا وصفہ بہا- وہذا قول الباقلانی-ولا اعرف خلافًا فی ذلک-لانہ سبحانہ وَتَعَالٰی وصف ذاتہ بہذہ الصفات فی کلامہ القدیم الذی یستفاد منہ الدین القویم -فَمَن اَنکَرَشَیءًا مِن ذٰلِکَ فَقَد اَنکَرَ القُراٰنَ العَظِیم)
(شرح الشفاء للقاری: جلد چہارم:ص523-دارالکتاب العربی بیروت)
توضیح:اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی صفات مقدسہ کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا۔اب اگر ان صفات میں سے کسی صفت کا انکار ہے تو یہ قرآن عظیم کا انکار ہے۔
قال الہیتمی:(ومنہا القول الذی ہو کُفرٌ سَوَاءٌ صَدَرَ عَن اِعتِقَادٍ اَو عِنَادٍ اَو اِستِہزَاءٍ-فََمِن ذٰلک اِعتِقَادُ قِدَمِ العالم اوحدوث الصانع-او نفی ما ہو ثابت للقدیم بالاجماع المعلوم من الدین بالضرورۃ کَکَونِہ عَالِمًا اَو قَادِرًا وَکَونِہ یَعلَمُ الجُزءِیَّاتِ-اَو اِثبَاتُ ما ہو منتفٍ عنہ بالاجماع کذٰلک کالالوان اواثبات الاتصال والانفصال لہ)(الاعلام بقواطع الاسلام:ص351)
توضیح:وہ صفات جن پر اجماع امت ہے اور جن کوماننا ضروریات دین میں سے ہے، ان میں سے کسی صفت کا انکار کفر کلامی ہے۔ اسی طرح جن صفات کے اللہ تعالیٰ سے منتفی اور مسلوب ہونے پر اجماع ہے،اور ان کو مسلوب ماننا ضروریات دین میں سے ہیں،ان میں سے کسی صفت کو اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات ثبویہ ہیں،بہت سی صفات سلبیہ ہیں،بہت سی صفات حقیقیہ ہیں اوربہت سی صفات اضافیہ ہیں۔ان شاء اللہ تعالیٰ تفصیلی مضمون رقم کیا جائے گا۔
حکم دوم:تکفیر فقہی
(جہالت کے سبب انکار)
کسی ضروری دینی کا لاعلمی کے سبب انکار ہوجائے تو متکلمین حکم کفر عائد نہیں کرتے۔ اس بارے میں فقہا کا دومذہب ہے۔ایک طبقہ لاعلمی کو عذر مانتا ہے۔جب کہ دوسرا طبقہ لا علمی کوعذرنہیں مانتا اور حکم کفر عائد کرتا ہے۔یہ تکفیر فقہی ہے۔
جوصفات الٰہیہ میں سے کسی صفت سے جاہل ہو، اورجہالت کے سبب اس صفت کا انکار کرے تووہ بعض فقہا کے یہاں کافرہے اورایک جماعت کے یہاں وہ مومن ہے۔
(۱)قال القاضی:(فَاَمَّا مَن جہل صِفَۃً من ہذہ الصِّفَاتِ-فَاختَلَفَ العُلَمَاءُ ہٰہُنَا-فَکَفَّرَہٗ بَعضُہُم-وحُکِیَ ذٰلِکَ عَن اَبِی جَعفَر الطَّبَرِیِّ وغیرہ -وقال بہ ابو الحسن الاشعری مَرَّۃً-وذَہَبَت طَاءِفَۃٌ اِلٰی اَنَّ ہٰذَا لَا یُخرِجُہٗ عَن اِسمِ الاِیمَانِ-وَاِلَیہِ رَجَعَ الاَشعَرِیُّ-قَالَ:لِاَنَّہٗ لَم یَعتَقِد ذٰلِکَ اِعتِقَادًا یَقطَعُ بِصَوَابِہٖ وَیَرَاہُ دِینًا وَشَرعًا-وَاِنَّمَا یَکفُرُ مَن اِعتَقَدَ اَنَّ مَقَالَہٗ حَقّ)
(الشفاء:جلددوم:ص292)
توضیح:صفات ذاتیہ میں سے کسی صفت کا انکارجہالت ولاعلمی کی وجہ سے کردیا،لیکن وہ اس کا اعتقاد نہیں رکھتا ہے،اور نہ ہی اس کو اپنا مذہب مانتا ہے،بلکہ لاعلمی کی وجہ سے کہا تو اس کے کفر میں اختلاف ہے۔ بعض فقہا اسے کافرکہتے ہیں۔عہد حاضر میں جاہل لوگ بول دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ ہے۔ اب ان کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جگہ سے پاک ہے۔ جب بتایا جائے تو وہ اپنی غلطی مان لیتے ہیں اور اس سے توبہ کرلیتے ہیں۔
متکلمین کے یہاں اس صورت میں حکم کفر عائد نہیں ہوگا۔فلاسفہ بھی اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا انکار کرتے ہیں، لیکن وہ لاعلمی کے سبب انکار نہیں کرتے،بلکہ اپنے غلط دلائل کی بنیاد پر اعتراض کرتے ہیں۔
فلاسفہ پر حکم کفر عائد ہوگا اور جاہل مسلمانوں پر متکلمین کے یہاں حکم کفر عائد نہیں ہوگا۔بعض فقہا کے یہاں حکم کفر عائد ہوگا۔ (لِاَنَّہٗ لَم یَعتَقِد ذٰلِکَ اِعتِقَادًا یَقطَعُ بِصَوَابِہٖ وَیَرَاہُ دِینًا وَشَرعًا-وَاِنَّمَا یَکفُرُ مَن اِعتَقَدَ اَنَّ مَقَالَہٗ حَق)کا یہی مفہوم ہے جو لاعلمی کے سبب انکار کرے اور اس کو اپنا دین وعقیدہ نہ سمجھے،بلکہ سمجھانے اوربتانے پر حق بات قبول کرلے،اس پر متکلمین کے یہاں حکم کفر نہیں او ربہت سے فقہا کے یہاں کفر فقہی کا حکم ہے۔ فلاسفہ نے اپنی باطل دلیل کے سبب بعض صفات الٰہیہ کا انکار کرتے ہیں،اور اس کو اپنا عقیدہ بتاتے ہیں،لہٰذا متکلمین کے یہاں بھی ان پر حکم کفر عائدہوتا ہے۔
قال الخفاجی:((فَاَمَّا مَن جہل صِفَۃً من ہذہ الصِّفَاتِ)الذاتیۃ کالعلم والقدرۃ ولم ینفہا مستبصرًا ای مستندًا لِدَلِیلٍ وَلَاجَحَدَہَا عِنَادًا(فَاختَلَفَ العُلَمَاءُ ہٰہُنَا)ای فی تکفیرہ وعدمہ لعذرہ بجہلہ(فَکَفَّرَہٗ بَعضُہُم)ولم یجعل الجہل عذرًا لہ-لوجوب النظر علیہ۔
(و حُکِیَ ذٰلِکَ)ای تکفیرہ(عَن اَبِی جَعفَر)محمد بن جریر (الطَّبَرِیِّ)العلامۃ المفسرکما تقدم فی ترجمتہ (وغیرہ)من العلماء(وقال بہ)ای ذہب الٰی مثل رأیہ فی التکفیر(ابو الحسن الاشعری)امام اہل السنۃ -وقولہ(مَرَّۃً)اشارۃ الٰی انہ احد قولین لہ فی ہٰذہ المسئلۃ۔
(وَذَہَبَت طَاءِفَۃٌ)من اہل السنۃ(اِلٰی اَنَّ ہٰذَا)ای جہلہ بصفۃ من صفاتہ تعالی الذاتیۃ(لَا یُخرِجُہٗ عَن اِسمِ الاِیمَانِ)یعنی انہ مومن غیر کافر- فیطلق علیہ اسم مأخوذ من الایمان-اواسم مقحم ہنا کقولہ-”الی الحول ثم اسم السلام علیکما”(وَاِلَیہِ)ای الٰی ہذا القول بعدم تکفیرہ(رَجَعَ الاَشعَرِیُّ)عن قولہ الاول لترجحہ عندہ وقیام الدلیل علیہ۔
(قَالَ) الاشعری انما لم نکفرہ(لِاَنَّہٗ)ای النَّافِیُ لِصِفَۃٍ جَہِلَہَا(لَم یَعتَقِد ذٰلِکَ)ای انتفاء الصفۃ الذاتیۃ(اِعتِقَادًا یَقطَعُ بِصَوَابِہٖ)لقیام دلیل عندہ کالفلاسفۃ-وانما قالہ لجہلہ فہومعذور(وَیَرَاہُ دِینًا وَشَرعًا)ای یعتقد برأیہ کذلک-وانما قالہ توہمًا وجہلًا(وَاِنَّمَا یَکفُرُمَن اِعتَقَدَ اَنَّ مَقَالَہٗ)وفی نسحۃ ماقالہ ای قولہ(حَق)صواب موافق للبرہان ومطابق للواقع)
(نسیم الریاض: جلدچہارم:ص524-دارالکتاب العربی بیروت)
توضیح:(لقیام دلیل عندہ کالفلاسفۃ)کا مفہوم یہ ہے کہ کسی دلیل کے سبب کسی صفت کا انکار کرے،جیسے فلاسفہ بعض صفات الٰہیہ کاانکار کرتے ہیں تو یہ کفر ہے،کیوں کہ یہ لاعلمی کے سبب انکار نہیں،بلکہ اپنی دلیل باطل کے سبب انکار ہے۔
(وانما قالہ لجہلہ فہو معذور)کا مفہوم یہ ہے کہ جو کسی دلیل کے سبب انکار نہ کرے، بلکہ جہالت کے سبب انکار کرے توحکم کفر نہیں،بلکہ ایسا شخص متکلمین اور بہت سے فقہا کے یہاں معذور ہے۔
(ای یعتقد برایہ کذلک)کا مفہوم یہ ہے کہ کسی دلیل فاسد کے سبب کسی صفت کا انکار کرے،اور اس انکار کو اپنا عقیدہ بنالے،تب حکم کفر ہے۔
(وانما قالہ توہما وجہلا)کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے وہم اور جہالت سے کسی صفت کا انکار کرے توایسا شخص متکلمین اور بہت سے فقہا کے یہاں معذور ہے۔
قال القاری:((لایخرجہ عن اصل الایمان)ای اصلہ:وان کان یخرجہ عن کمال الایقان)(شرح الشفاء: جلد چہارم:ص524-دارالکتاب العربی بیروت)
توضیح:جہالت کے سبب کسی صفت کا انکار کرنے والا کافر نہیں،لیکن اس کا رتبہ اس کے برابر نہیں جو صفات الٰہیہ سے واقف ہو۔عالم وجاہل کا رتبہ برابر نہیں۔
قال العلامۃ البدایونی:(ان ساب اللّٰہ تعالی بنسبۃ الکذب والعجز ونحو ذلک الیہ کافر-وکذا من نفی صفۃ من صفاتہ الذاتیۃ-من الحیاۃ والعلم والقدرۃ والسمع والبصر والکلام-مستبصرًا فی ذلک-کقولہ: لیس بحیی،ولا عالم-وکذا قولہ:لیس بعالم بالجزئیات،او لا قادر،او لا مرید،او لا متکلم،او لا سمیع،او لا بصیر،فہو کافر بالاتفاق۔
ومن جہل صفۃ من ہذہ الصفات ونفاہا غیر مستبصر فیہا- فاختلف العلماء فی تکفیرہ-والمعتمد عدمہ-فان ہذا الجہل لا یخرجہ عن اسم الایمان-وان کان یخرجہ عن کمال الاتقان-ولم یعتقد ذلک اعتقادا یقطع بصوابہ ویراہ دینا وشرعا)
(المعتقد المنتقد:ص50-المجمع الاسلامی مبار ک پور)
توضیح:مذکورہ بالا عبارتوں میں ان لوگوں کا بیان ہے جن سے جہالت کی وجہ سے رب تعالیٰ کی کسی صفت کی نفی ہوجائے،جیسے بھارت کے کفار بھی اللہ تعالیٰ کو”اوپر والا“ کہتے ہیں۔اسی طرح بعض جاہل مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کو ”اوپروالا“کہتے ہیں،لیکن جب ان کو بتایا جائے کہ ایسا کہنا غلط ہے تووہ پھر مان لیتے ہیں کہ ہمارا کہنا غلط تھا۔ایسا نہیں کہ انہوں نے یہ عقیدہ بنالیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے اوراللہ تعالیٰ مکان والا ہے،بلکہ وہ اپنی لاعلمی اورجہالت کے سبب ایسا کہتے ہیں۔یہ کفرالتزامی نہیں ہے،بلکہ کفرلزومی ہے۔جب انکار پایا گیا تویہ انکار کفر ہے۔لاعلمی اور جہالت کے سبب کہا،اس لیے اسے کفر لزومی کہا گیا۔بہت سے فقہا کے یہاں کفر لزومی کا حکم عائد ہوگا،اور بہت سے فقہا اور متکلمین کے یہاں جہالت ولاعلمی کے سبب حکم کفر عائد نہیں ہوگا۔
منقولہ بالا عبارت میں (مستبصرا فی ذلک) کا مفہوم یہ ہے کہ علم کی حالت میں انکار کرے۔(غیر مستبصر فیہا)کا مفہوم یہ ہے کہ جہالت ولاعلمی کے سبب انکار کرے۔
حکم سوم:تکفیر فقہی وتضلیل(تاویل کے سبب انکار)
معتزلہ،مجسمہ،مشبہہ، قدریہ وغیرہم کو اصحاب تاویل کہا جاتاہے۔ اصحاب تاویل کے احکام کی تفصیل ماقبل کی قسطوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کردی گئی ہے۔در حقیقت اصحاب تاویل ضروریات دین کے منکر نہیں ہیں،بلکہ تاویل کے ساتھ ضروریات اہل سنت کا انکار کرتے ہیں۔ تاویل کے ساتھ ضروریات اہل سنت کا انکار فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین کے یہاں کفر فقہی ہے اور متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی ہے۔
قال القاضی:(فَاَمَّا مَن اَثبَتَ الوَصفَ وَنَفَی الصِّفَۃَ-فَقَالَ:اَقُولُ:عَالِمٌ وَلٰکِن لَاعِلمَ لَہٗ-ومتکلم و لکن لا کَلَامَ لَہٗ-وہکذا فی سائر الصفات علٰی مذہب المعتزلۃ-فَمَن قَالَ بِالمَاٰلِ لِمَا یُؤدِّیہِ اِلَیہِ قَولُہٗ وَیَسُوقُہٗ اِلَیہِ مَذہَبُہٗ،کَفَّرَہٗ-لِاَنَّہٗ اِذَا نَفَی العِلمَ اِنتَفٰی وَصفُ عَالِمٍ-اِذ لَا یُوصَفُ بعالم اِلَّا مَن لَہٗ عِلمٌ-فَکَاَنَّہُم صَرَّحُوا عِندَہٗ بِمَا اَدّٰی الیہ قَولُہُم-وَہٰکَذَا عِندَ ہٰذَا سَاءِرُ فِرَقِ اَہلِ التَّاوِیلِ مِنَ المُشَبِّہَۃِ والقدریۃ وغیرہم۔
وَمَن لَم یَرَ اَخذَہُم بِمَاٰلِ قَولِہِم-وَلَا اَلزَمَہُم مُوجَبَ مَذہَبِہِم،لَم یَرَ اِکفَارَہُم-قَالَ:لِاَنَّہُم اِذَا وُقِّفُوا عَلٰی ہٰذَا-قَالُوا:لَا نَقُولُ-لَیسَ بِعَالِمٍ- ونحن ننتفی من القول بِالمَاٰلِ الَّذِی اَلزَمتُمُوہُ لَنَا-وَنَعتَقِدُ نَحنُ وَاَنتُم-اَنَّہٗ کُفرٌ-بَل نَقُولُ:اِنَّ قَولَنَا لَایَؤولُ اِلَیہِ عَلٰی مَا اَصَّلنَاہُ -فَعَلٰی ہٰذَینِ المَاخَذَینِ اِختَلَفَ النَّاسُ فِی اِکفَارِاَہلِ التَّاوِیلِ-وَاِذَا فَہِمتَہٗ، اِتَّضَحَ لَکَ المُوجِبُ لِاِختِلَافِ النَّاسِ فِی ذلک-وَالصَّوَابُ تَرکُ اِکفَارِہِم-وَالاِعرَاضُ عَنِ الحَتمِ عَلَیہِم بِالخُسرَان)(الشفاء:جلددوم:ص294)
قال العلامۃ البدایونی:(ومن اَثبَتَ الوصفَ ونَفی الصِّفَۃَ عَلٰی طریق التاویلِ الفاسد والخطاء المفضیء الَی الہَوٰی وَالبِدعَۃِ-کَنَفِیِّ المُعتَزِلَۃ صفاتِہ القدیمۃِ الذاتیۃِ علٰی تَوَہُّمِ الحذر من تعدد القدماء-وقولہم عالم لا علمَ لہ-فہٰذا مما اختلف السلف والخلف فی تکفیر قائلہ ومعتقدِہ-فمن رأی اَخذَہُم بِالمَاٰل لِمَا یُوَئدِّیہ الیہ قَولُہُم وَیَسُوقُ اِلَیہِ مَذہَبُہُم کَفَّرَہُم-لاَِنَّہ اِذَا نَفَی العِلمَ انتفی العَالِمُ-اِذ لَا یُوصَفُ بِعَالِمٍ اِلَّا مَن لَہ العلمُ-فَکَاَنَّہُم صَرَّحُوا عِندَہ بِمَا اَدّٰی اِلَیہِ قَولُہُم-مِن لُزومِ نَفِیِّ الوَصفِ المُشتَقِّ لِنَفِیِّ المشتق منہ۔
وَمَن لَم یَرَ اَخذَہُم بِمَآلِ قَولِہِم وَمَالَزمَہُم بِمُوجَبِ مَذہَبِہِم لَم یَرَ اِکفَارَہُم قَالَ:لِاَنَّہُم اذَا اُطُّلِعُوا عَلٰی ہٰذَا،قَالُوا:لا نَقُولُ:لَیسَ بِعَالِمٍ سَلبًا مُعَطَّلًالَہ تَعَالٰی عَنِ العِلمِ-بَل لَیسَ بِعَالِمٍ بِعِلمٍٍ زَاءِدٍ عَلٰی ذاتہ-فَاِنَّہ عَالِمٌ بِعِلمٍ ہو ذَاتُہ-وَقَولُنَا لَایَوُئولُ اِلَیہِ وَنَعتَقِدُہ کُفرًا،مِثلُکُم-فَعَلٰی ہٰذَینِ الاَصلَینِ اِختَلَفَ النَّاسُ فی تکفیر اہل التَّاویل-وَالصَّوَابُ تَرکُ اِکفَارِہِم واِجراءُ اَحکَامِ الاِسلَامِ عَلَیہِم لٰکِن یُغَلَّظُ عَلَیہِم بِوَجِیعِ الاَدَبِ وَشَدِیدِ الزَّجرِ حَتّٰی یَرجِعُوا عَن بدعتہم)(المعتقد المنتقد:ص50-المجمع الاسلامی مبار ک پور)
قال الہیتمی ناقلًا عن امام الحرمین:(وبعض التفاصیل المذکورۃ المندرجۃ تحت الشہادتین اختلف فیہا-ہل التصدیق بہا داخل فی مسمی الایمان؟فیکفرمنکرہا-اَو لَا،فَلَا-فمن ذلک اختلاف اہل السنۃ فی تکفیر المخالف فی بعض العقائد بعد اتفاقہم علٰی کفرالمخالف فی بعض الاصول المعلوم ضرورۃً-کالقول بقدم العالم ونفی حشرالاجساد ونفی علمہ تعالٰی بالجزئیات ونفی فعلہ بالاختیار-بخلاف ما لیس کذلک کنفی مبادی الصفات مع اثباتہا کقول المعتزلی-عالم بلا علم- وکنفی عموم الارادۃ للخیروالشر-وکالقول بخلق القراٰن-فقال جماعۃ: ہوکفر-والصحیح عند جمہورالمتکلمین والفقہاء والاشعری خلافہ- انتہٰی) (الفتاوی الحدیثیہ: ص141-دارالفکربیروت)
توضیح:کفر فقہی کے احکام واقسام کی یہ دسویں قسط ہے۔ کفر فقہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ضروریات دین کا غیر مفسر انکار بھی کفر فقہی ہے۔ مفسر سے مراد یہ ہے کہ انکار ایسا ہو جس میں تاویل بعید کی بھی گنجائش نہ ہو۔ اسی کو کفر متعین، کفر قطعی بالمعنی الاخص،کفربدیہی، کفر اجماعی، کفر اتفاقی اور کفر کلامی بھی کہا جاتا ہے۔غیر مفسر انکار کی متعدد صورتیں ہیں۔ انکار نص یاظاہر کے طور پر ہو۔یا انکار ظنی ہوکہ انکار راجح ہو، اور عدم انکار مرجوح ہو۔یا انکار وہمی ہو،یعنی انکار مرجوح ہو،اور عدم انکا ر راجح ہو۔
ضروریات اہل سنت کا انکار تاویل کے ساتھ ہوتویہ کفر فقہی ہے۔خواہ انکار مفسر ہو یا غیر مفسر،دونوں صورتوں میں کفرفقہی کاحکم عائد ہوگا۔
ضروریات اہل سنت کا انکار بلا تاویل ہو تو یہ استخفاف بالدین ہے۔ استخفاف بالدین کفر ہے۔اگر انکار مفسر ہے تو استخفاف بالدین بھی مفسر ہوگا اور کفر کلامی کا حکم عائد ہوگا،کیوں کہ مفسر انکار میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں۔ظاہر اور نص کے طورپر انکار ہوتو تاویل بعید کی گنجائش ہے۔
جس طرح ضروریات دین کا انکار نص یاظاہر کے طورپر ہوتو متکلمین تاویل بعید کے سبب حکم کفرنہیں عائد کرتے، اسی طرح استخفاف بالدین میں بھی تاویل بعید کی گنجائش ہوتو متکلمین حکم کفرعائد نہیں کریں گے۔
حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”لا جرم تاویل صحیح اگر چہ کتنی ہی بعید ہو، متکلمین قبول کریں گے۔یہ ہے وہ کہ محققین محتاطین نے فرمایا کہ ایک بات میں ننانوے پہلو کفر کے ہوں اورایک اسلام کا تو پہلوئے اسلام کو ترجیح دیں گے“۔
(الموت الاحمرص49-جامعۃ الرضا بریلی شریف)
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:28:اگست 2021
٭٭٭٭٭
مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما
تکفیرفقہی:اقسام واحکام
قسط یازدہم
ضروریات اہل سنت کے منکر کاحکم
امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز نے تحریر فرمایا:
”مانی ہوئی باتیں چارقسم کی ہوتی ہیں:
ضروریات دین:ان کا ثبوت قرآن عظیم یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی قطعیات الدلالات واضحۃ الافادات سے ہوتا ہے، جن میں نہ شبہے کی گنجائش، نہ تاویل کی راہ، اور ان کا منکر یاان میں باطل تاویلات کا مرتکب کافر ہوتا ہے۔
ضروریات مذہب اہل سنت وجماعت: ان کاثبوت بھی دلیل قطعی سے ہوتا ہے، مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں ایک نوع شبہہ اورتاویل کا احتمال ہوتا ہے،اسی لیے ان کا منکر کافر نہیں، بلکہ گمراہ،بدمذہب، بددین کہلاتا ہے۔
ثابتات محکمہ:ان کے ثبوت کو دلیل ظنی کافی،جب کہ اس کا مفاد اکبررائے ہوکہ جانب خلاف کومطروح ومضمحل اورالتفات کے ناقابل بنادے۔اس کے ثبوت کے لیے حدیث آحاد،صحیح یاحسن کافی،اورقول سواد اعظم وجمہور علما کی سندوافی:فان ید اللہ علی الجماعۃ۔
ان کا منکر وضوح امر کے بعد خاطی وآثم،خطاکاروگناہگار قرار پاتا ہے۔نہ بددین وگمراہ،نہ کافر وخارج از اسلام۔
ظنیات محتملہ:ان کے ثبوت کے لیے ایسی دلیل ظنی بھی کافی،جس نے جانب خلاف کے لیے بھی گنجائش رکھی ہو۔ان کے منکر کو صرف مخطی وقصور وار کہا جائے گا۔نہ گناہگار،چہ جائیکہ گمراہ،چہ جائیکہ کافر۔
ان میں سے ہربات اپنے ہی مرتبے کی دلیل چاہتی ہے۔جوفرق مراتب نہ کرے، اور ایک مرتبے کی بات کواس سے اعلیٰ درجے کی دلیل مانگے،وہ جاہل بے وقوف ہے یا مکار فیلسوف“۔ (فتاویٰ رضویہ ج۹۲ ص ۵۸۳-جامعہ نظامیہ رضویہ: لاہور)
ضروریات اہل سنت کی چند تعبیرات مندرجہ ذیل ہیں:
(الف)ضروریات دین کی قسم دوم
(ب) قطعیات غیر ضروریہ
(ج)نظریات یقینیہ
(د)غیر ضروری اجماعی امور۔
احکام کا اجمالی بیان
(1) علم قطعی کے بعدضروریات دین کا انکارتاویل کے ساتھ ہو،یابلاتاویل ہو، دونوں صورت میں کفر کلامی کا حکم عائدہوگا۔بشرطے کہ انکار مفسر ہو۔
(2) ضروریات اہل سنت کی قطعیت کاعلم ہونے کے بعدتاویل کے ساتھ انکار فقہائے احناف اوران کے مؤیدین کے یہاں کفر اور متکلمین کے یہاں گمرہی ہے۔
(3)ضروریات اہل سنت کی قطعیت کاعلم ہونے کے بعدان کا بلاتاویل انکار استخفاف بالدین اورکفر کلامی ہے،جب کہ انکار مفسر(صریح متعین) ہو۔
ضروریات اہل سنت کا ثبوت ان دلیلوں سے ہوتا ہے،جس میں احتمال بلادلیل ہوتا ہے،یعنی قطعی بالمعنی الاعم دلائل سے ہوتا ہے۔ ضروریات اہل سنت کے انکار پر فقہا ئے احناف اور ان کے مؤیدین حکم کفر جاری کرتے ہیں اور متکلمین حکم ضلالت نافذکرتے ہیں۔
(۱)قال القاضی عیاض:(ذہب عبید اللّٰہ بن الحسن العنبری الٰی تصویب اقوال المجتہدین فی اصول الدین فِیمَا کَانَ عُرضَۃً لِلتَّاوِیلِ- وَفَارَقَ فی ذٰلک فرق الامۃ اِذ اَجمَعُوا سواہ علٰی ان الحق فی اصول الدین فی واحد والمخطیء فیہ اٰثمٌ عاصٍِ فاسقٌ-وانما الخلاف فی تکفیرہ)
(کتاب الشفاء:جلددوم:ص281)
توضیح:ضروریات دین اور ضروریات اہل سنت دونوں کا شمار اصول دین میں ہوتا ہے۔ قطعی علم ہونے کی حالت میں ضروریات دین کاانکار ہوتو کفر کلامی ہے۔
تاویل فاسد کے ساتھ ضروریات اہل سنت کے انکار پر بہت سے فقہا حکم کفر عائد کرتے ہیں اور متکلمین اور بہت سے فقہا ضلالت وگمرہی کا حکم عائد کرتے ہیں۔
منقولہ بالا عبارت میں ”فیما کان عرضۃ للتاویل“سے قطعی بالمعنی الاعم امور مراد ہیں، جن میں احتمال بعید کی گنجائش ہوتی ہے۔ایسے امورضروریات اہل سنت میں شمار ہوتے ہیں۔ اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اصول دین میں دونوں قسم کے امو ر کا شمار ہوتا ہے۔
جن اصول دین کے دلائل میں احتمال بعید ہو، ان کو ضروریات دین قسم دوم میں شمار کیا جاتا ہے۔ضروریات دین کی قسم دوم کوضروریات اہل سنت کہا جاتا ہے۔
اہل سنت وجماعت کاعقیدہ ہے کہ اصول دین میں ایک ہی قول حق ہے۔اس کے علاوہ سب باطل۔اصول دین کی دونوں قسموں کے انکار کا حکم جدا گانہ ہے۔
قال القاری:(قد ذہب(الی تصویب اقوال المجتہدین)اجمعین(فی اصول الدین)ولوکانوا من المبتدعین(فیما کان عرضۃ للتاویل)ای قابلا لہ مما لم یرد فیہ نص صریح کتاویل المعتزلۃ انہ تعالٰی متکلم بخلقہ الکلام فی جسم متمسکین بشجرۃ موسی علیہ الصلٰوۃ والسلام(وفارق)العنبری (فی ذلک)القول(فرق الامۃ)ای طوائفہا من الناجیۃ وغیرہا(اذ اجمعوا سواہ علی ان الحق فی اصول الدین واحد والمخطئ فیہ آثم عاص فاسق وانما الخلاف فی تکفیرہ)علی ما سبق بعض تحریرہ-واما فروع الدین فالمخطئ فیہا معذور بل ماجور باجر واحد-والمصیب لہ اجران کما فی حدیث ورد بذلک)(شرح الشفا جلددوم:ص507-دار الکتب العلمیہ بیرو ت)
توضیح:فروع دین سے یہاں امورعملیہ اجتہادیہ یعنی مسائل فقہیہ اجتہادیہ مراد ہیں۔ یعنی ظنی امور مراد ہیں جن میں اجتہاد جاری ہوتا ہے۔مجتہد اپنے دلائل کی روشنی میں ظنی امور میں اختلاف کرے تو یہ جائز وصحیح ہے۔ اگر حق کو پالے تو دواجرہے،لغزش ہوجائے تو ایک اجر ہے۔قطعیات کی دونوں قسموں یعنی قطعی بالمعنی الاخص وقطعی بالمعنی الاعم میں اجتہاد جاری نہیں ہوتا۔ اجتہاد کے ذریعہ نئی راہ اختیار کرنے والے پر شرعی حکم وارد ہوگا۔
مندرجہ ذیل امور میں اجتہاد جاری نہیں ہوگا۔
(۱)قطعی الثبوت بالمعنی الاخص وقطعی الدلالت بالمعنی الاخص۔
(۲)قطعی الثبوت بالمعنی الاخص وقطعی الدلالت بالمعنی الاعم۔
(۳)قطعی الثبوت بالمعنی الاعم وقطعی الدلالت بالمعنی الاخص۔
(۴)قطعی الثبوت بالمعنی الاعم وقطعی الدلالت بالمعنی الاعم۔
مندرجہ ذیل امور میں اجتہاد جاری ہوگا۔
(۱)قطعی الثبوت بالمعنی الاخص وظنی الدلالت
(۲)قطعی الثبوت بالمعنی الاعم وظنی الدلالت
(۳)ظنی الثبوت وقطعی الدلالت بالمعنی الاخص
(۴)طنی الثبوت وقطعی الدلالت بالمعنی الاعم
(۵)ظنی الثبوت وظنی الدلالت۔
(۶)جس بارے میں نہ نص وارد نہ ہو،نہ ہی اجماع قائم ہو۔
بعض اصطلاحات کی وضاحت
(الف)دینی امور میں قطعی الثبوت بالمعنی الاخص وہ امرہے جوحضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے قطعی طورپرثابت ہو،اورعدم ثبوت کا احتمال بعید بھی نہ ہو۔
قطعی الثبوت بالمعنی الاخص کی دو قسمیں ہیں۔
(۱)وہ امر دینی جس کو کسی صحابی نے حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان مبارک سے سماعت کیا ہو۔ ان کے حق میں وہ قطعی الثبوت بالمعنی الاخص ہے۔
(۲)اسی طرح جو امر حضور اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام سے متواتر ہو،وہ قطعی الثبوت بالمعنی الاخص ہے۔لفظ متواتر ہو تو وہ لفظ قطعی الثبوت بالمعنی الاخص ہے،جیسے قرآن مجید کے تمام الفاظ وحروف۔ اگر معنی متواتر ہو تو وہ معنی قطعی الثبوت ہے،جیسے ختم نبوت کا معنی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بعثت اوردنیا میں جلوہ گری کے اعتبار سے سب سے آخری نبی ہیں۔آیت قرآنیہ میں وارد لفظ (خاتم النبیین) کا یہی مفہوم حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے متواتر ہے۔
(ب)دینی امور میں قطعی الثبوت بالمعنی الاعم وہ امرہے جوحضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے قطعی طورپرثابت ہو،لیکن عدم ثبوت کا احتمال بعید ہو،جیسے وہ احادیث طیبہ جو متواتر معنوی ہیں۔
(ج)قطعی الدلالت بالمعنی الاخص وہ ہے کہ اس کے معنی مراد میں دوسرے معنی کا احتمال بعید بھی نہ ہو۔اس کو حنفی اصول فقہ میں ”مفسر“کہا جاتا ہے۔
(د) قطعی الدلالت بالمعنی الاعم وہ ہے کہ اس کے معنی میں دوسرے معنی کا صرف احتمال بعید ہو۔ احتمال قریب نہ ہو۔حنفی اصول فقہ میں نص اور ظاہراسی قبیل سے ہے۔
قال الخفاجی:(وذہب(الی تصویب اقوال المجتہدین)ای القول بانہا صواب(فی اصول الدین)مما یتعلق بالاعتقاد کالاجتہاد فی الفروع (فیما کان عرضۃ)ای قابلا(للتاویل)وفی الاساس:فرس عرضۃ للسباق ای قویۃ علیہ مطیقۃ لہ،انتہی-کانہ لقابلیتہ تعرض لہ(وفارق)ای خالف العنبری(فی ذلک)القول الذی قالہ فی تجویزہ الاجتہاد فی اصول الدین وفارق(فرق الامۃ)من علماء الشرع والسنۃ والمتکلمین،فانہا امور سمعیۃ لابد فیہا من نقل صحیح(اذ اجمعوا)ای علماء الامۃ(سواہ)ای غیر العنبری(علی ان الحق فی اصول الدین)والعقائد(فی واحد)لا یقبل التعدد لبراہینہ القطعیۃ فلیس کالفروع التی ہی محل الاجتہاد۔
وذہب بعضہم الی ان کل مجتہد فیہا مصیب وفی نسخۃ ”فی الواحد“(والمخطئ فیہ)الذی لم یصادف الحق الواحد(آثم عاص فاسق)لعدولہ عن الحق برأیہ(وانما الخلاف فی تکفیرہ)باجتہادہ المخطئ فیما لیس محل الاجتہاد-وانما محلہ الفروع العملیۃ فہو مثاب فی اجتہادہ سواء قلنا:المصیب واحد ام لا؟ علی ما اشتہر فی الاصول-اما فی اصول الدین فالمصیب واحد قطعًا فلا وجہ للاجتہاد فیہا،وان بذل وسعہ وجہدہ)(نسیم الریاض ج۶ص۸۳۳-دار الکتب العلمیہ بیروت)
توضیح:اصول دین میں قابل تاویل امور سے ضروریات دین کی قسم دوم مرادہے جو قطعی بالمعنی الاعم دلائل سے ثابت ہوتی ہیں۔ اس کے منکر کی تکفیر میں اختلاف ہے۔متکلمین اس کے منکر کوضال وگمراہ کہتے ہیں اور فقہائے احناف اوراس کے مؤیدین کافر کہتے ہیں۔
ضروریات اہل سنت کا انکاراور غیرحنفی فقہا:
ضروریات اہل سنت کے انکار پر حکم کفر جاری کرنے میں بہت سے غیر حنفی فقہا بھی فقہائے احناف کے ساتھ ہیں۔حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے اجماع منصو ص (اجماع قولی،غیر سکوتی)سے جوامر ثابت ہو، و ہ ضروریات اہل سنت میں سے ہے۔اس کے انکار پر فقہائے احناف اوران کے مؤیدین حکم کفر نافذکرتے ہیں،بشرطے کہ وہ امر اجماعی تواتر کے ساتھ منقول ہو۔
(۱)قال بحرالعلوم الفرنجی محلی فی بحث الاجماع:((انکار حکم الاجماع القطعی)وہو المنقول متواترًا من غیر استقرار خلاف سابق علیہ(کفر عند اکثر الحنفیۃ وطائفۃ)ممن عداہم،لانہ انکار لما ثبت قطعا انہ حکم اللّٰہ تعالی(خلافا لطائفۃ)قالوا:حجیتہ وان کان قطعیا لکنہا نظریۃ فدخل فی حیز الاشکال من حیز الظہورکالبسملۃ(ومن ہہنا)ای من اجل ان انکار حکمہ لیس کفرا(لم تکفر الروافض)مع کونہم منکرین لخلافۃ خلیفۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم حقا،وقد انعقد علیہ الاجماع من غیرارتیاب)
(فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت:جلددوم:ص294-دارالکتب العلمیہ بیروت)
توضیح:منقولہ بالا عبارت میں (وطائفۃ)ممن عداہم)سے مراد یہ ہے کہ بہت سے غیر حنفی فقہا بھی قطعیات (ضروریات اہل سنت)کے انکار پر حکم کفر عائد کرتے ہیں۔
اجماع، قیاس اورخبر واحد کا دلیل شرعی ہونا حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت نہیں،بلکہ دلائل سے ثابت ہے۔ان امور کے دلیل شرعی ہونے پر حضرات صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ اجماع شرعی کا دلیل شرعی ہونا امورمتواترہ اورضروریات دین سے نہیں، اس لیے اجماع سے ثابت ہونے والے امور بھی ضروریات دین سے نہیں۔
ضروریات دین میں جو اجماع پایا جاتا ہے،وہ اجماع شرعی نہیں،بلکہ اجماع متصل ہے۔ اجماع شرعی اور اجماع متصل کی بحث ”ضروریات دین اور عہد حاضر کے منکرین“ (دفتر اول)میں مرقوم ہے۔
(۲)قال الامام احمد رضا القادری:(اقول:تحقیق المقام اَنَّ اَکثَرَ الحَنفیۃ یُکَفِّرُونَ بانکارکل مقطوع بہ -کما ہومُصَرَّحٌ فی ردالمحتار وغیرہ-وہم ومن وافقہم،ہم القائلون بانکارکل مجمع علیہ-بَعدَ مَا کَانَ الاِجمَاعُ قَطعِیًّا نَقلًا وَدَلَالَۃً-وَلَاحَاجَۃَ اِلٰی وجود النص-وَالمُحَقِّقُونَ لَا یُکَفِّرُونَ اِلَّا بانکارمَا عُلِمَ مِنَ الدِّینِ ضَرُورَۃً بحیث یشترک فی معرفتہ الخاص والعام المخالطون للخواص-فان کان المجمع عَلَیہِ ہکذا-کَفَرَ مُنکِرُہ-وَاِلَّا،لَا-وَلا حَاجَۃَ عند ہم اَیضًا اِلٰی وجود نَصٍّ-فَاِنَّ کَثِیرًا مِن ضَرُورِیَاتِ الدِّین مِمَّا لَا نَصَّ عَلَیہِ کَمَا یَظہَرُبِمُرَاجَعَۃِ ”الاعلام“وغیرہ)
(المعتمد المستند:ص195-المجمع الاسلامی مبارک پور)
توضیح:منقولہ بالاعبارت میں (وہم ومن وافقہم،ہم القائلون بانکارکل مجمع علیہ)سے مراد یہ ہے کہ بہت سے غیر حنفی فقہا بھی قطعیات (ضروریات اہل سنت)کے انکار پر حکم کفر عائد کرتے ہیں۔
فقہائے احناف ہرقطعی امر کے انکار پر حکم کفر جاری کرتے ہیں، خواہ وہ ضروریات دین میں سے ہو،یا ضروریات اہل سنت میں سے۔
جس امر پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع قطعی ہو، اور قطعی طورپرمنقول ہو،یعنی تواتر کے ساتھ منقول ہو، اور اپنے مفہوم پر دلالت میں قطعی ہو، جیسے خلافت صدیقی پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع قطعی ہے۔اس کا انکار فقہائے احناف کے یہاں کفر ہوگا۔
انکار قطعیات پر تکفیر صحابہ کرام سے منقول
بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین قطعیات غیر ضروریہ (ضروریات اہل سنت)کے منکر کی تکفیر فرماتے تھے۔ قرآن مقدس کے غیر مخلوق ہونے کا مسئلہ ضروریات اہل سنت سے ہے۔بہت سے صحابہ کرام وتابعین عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین خلق قرآن کے قائلین کی تکفیر فرماتے تھے۔
قال الامام احمد رضا القادری:(وَقَد تَوَاتَرَعن الصحابۃ والتابعین العظام والمجتہدین الاعلام علیہم الرضوان التام-اِکفَارُ القَاءِلِ بِخَلق الکلام کَمَا نَقَلنَا نُصُوصًا کَثِیرًامنہم فی(سبحٰن السبوح عن عیب کذب مقبوح)وَہُمُ القُدوَۃُ لِلفُقَہَاءِ الکِرَامِ فِی اِکفَارِکُلِّ مَن اَنکَرَ قَطعِیًّا- وَالمُتَکَلِّمُونَ خَصُّوہُ بالضروری-وہوالاحوط) (المعتمد المستند: ص50)
انکار قطعیات اور امام احمد بن حنبل
حضرات ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں سے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہما باب تکفیر میں اسی مذہب پر ہیں،جس کوبعد میں مذہب متکلمین کہا گیا۔کتاب الشفا میں منقول حضرت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض اقوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ باب تکفیر میں اس مذہب پر ہیں جس کو بعد میں مذہب فقہا کہا گیا۔
فقہائے احناف اوران کے مؤیدین ضروریات دین کی قسم دوم یعنی ضروریات اہل سنت کے انکار پر بھی حکم کفرعائد کرتے ہیں۔حضرات ائمہ مجتہدین میں سے حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے۔آپ خلق قرآن کے قائلین کی تکفیر فرماتے تھے،حالاں کہ قرآن مقدس کے غیر مخلوق ہونے کا مسئلہ ضروریات دین میں سے نہیں،بلکہ ضروریات اہل سنت میں سے ہے۔
معتزلہ اور جہمیہ وغیرہ قرآن مجید کومخلوق مانتے تھے،اس سبب سے ان لوگوں پر کفر فقہی کا حکم عائدکیا گیا۔ حضرت امام احمد حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے عہد کے بہت سے فقہائے کرام ومحدثین عظام نے خلق قرآن کے قائلین کو کافر قرار دیا۔ یہ حضرات کافرفقہی کے لیے ”من شک فی کفرہ فقدکفر“کی اصطلاح بھی استعمال فرماتے تھے۔ہمارے رسالہ: مناظراتی مباحث اورعقائد ونظریات:بحث دوم:فصل دوم میں وہ اقوال منقول ہیں۔
(الف)امام احمد بن حنبل نے نقل فرمایا:(قال ابوبکر بن عیاش:
من قال:القرآن مخلوق فہوکافر-ومن شک فی کفرہ فہوکافر)
(الورع للامام احمد بن حنبل:جلد اول ص88-مکتبہ شاملہ)
(ب)امام مسددبن مسرہد بصری نے معتزلہ،جہمیہ وغیرہ کے فتنوں کے زمانے میں حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چند سوالات کیے۔امام احمدبن حنبل نے جواب میں ایک رسالہ تصنیف فرمایاجو”العقیدہ“کے نام سے مشہور ہے۔آپ نے رقم فرمایا:
(وآمرکم أن لا تؤثروا علی القرآن شیئا-فإنہ کلام اللّٰہ وما تکلم اللّٰہ بہ فلیس بمخلوق-وما أخبر بہ عن القرون الماضیۃ فلیس بمخلوق- وما فی اللوح المحفوظ وما فی المصحف وتلاوۃ الناس وکیفما وصف فہو کلام اللّٰہ غیر مخلوق-فمن قال مخلوق فہو کافر باللّٰہ العظیم-ومن لم یکفرہ فہو کافر)
(العثیدۃ للامام احمدبن حنبل -روایت محدث خلال حنبلی-ص60-مکتبہ شاملہ)
توضیح:قرآن مجید کے غیر مخلوق ہونے کی عمدہ بحث امام احمد رضا قادری نے ”انوار المنان فی توحید القرآن“ میں رقم فرمائی ہے۔قرآن مجید کے غیر مخلوق ہونے کا مسئلہ ضروریات اہل سنت میں سے کیسے ہے؟ان شاء اللہ تعالیٰ کبھی تفصیل مرقوم ہوگی۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:30:اگست 2021
٭٭٭٭٭