تاریخ طبری سے ماخوذ ریگزار کربلا کی کچھ دردناک تصویریں.

بقلم بدرالدجی الرضوی المصباحی.

 

ریگزار کربلا میں جب غلامان آل رسول نے ایک ایک کر کے اپنی جانیں قربان کردین اور سوائے ہاشمی شہزادوں کے کوئی اور نہیں بچا تو اب بھوک و پیاس سے نڈھال ننھے ننھے ہاشمی مجاہدوں نے مورچا سنبھالا سب سے پہلے حضرت علی اکبر جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے تھے میدان میں آئے اور اپنی شجاعت اور بہادری کا جوہر دکھاتے ہوئے دشمنوں کے حلقے میں گھس گئے آپ شمشیر زنی کرتے ہوئے بار بار اس مضمون کا رجز پڑھ رہے تھے میرا نام علی بن حسین ہے ‘رب کعبہ کی قسم ہم لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے قریب تر ہیں ‘ واللہ پسر ابن سمیہ کے حکم کو ہم کبھی تسلیم نہیں کریں گے آپ یہ رجز پڑھتے ہوئے مرہ بن منقد عبدی کے قریب سے گزرے اس نے کہا : میں اس جوان کے غم میں اس کے باپ کو نہ رلاؤں تو سارے عرب کی مجھ پر پھٹکار ہو مرہ نے سامنے سے حضرت علی اکبر کو برچھی ماری زخموں کی تاب نہ لا کر وہ مقتل میں گر پڑے دشمنوں نے انہیں ہر چہار جانب سے گھیر لیا اور تلواریں مار مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا.

سانحہ کربلا کا چشم دید راوی حمید بن مسلم کا بیان ہے کہ میں نے اپنے کانوں سے حسین بن علی (رضی اللہ عنہ) کو یہ کہتے ہوئے سنا : بیٹے! خدا انہیں غارت کرے جنہوں نے تجھے قتل کیا اللہ و رسول کی آبرو ریزی پر یہ کس قدر جری ہیں تیرے بعد اب دنیا پر خاک ہے. خیمہ سے ایک بی بی دوڑتی ہوئی آئیں ان کے حسن و جمال کو دیکھ کر ایسا لگا جیسے کہ آفتاب نکل آیا ہو وہ بار بار یہی پکار رہی تھیں : اے بھیا! اے میرے بھتیجے! میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ تو معلوم ہوا کہ یہ زینب بنت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں یہ آتے ہی بے ساختہ علی اکبر کی لاش پر گر پڑیں حضرت امام حسین نے انہیں دلاسا دیا صبر و رضا کی تلقین کی اور ہاتھ پکڑ کر خیمے میں لے گئے اور کچھ لڑکوں کو ساتھ لے کر واپس آئے فرمایا : اپنے بھائی کی لاش اٹھاؤ لڑکوں نے مقتل سے لاش اٹھائی اور خیمے کے سامنے میدان کارزار میں لے جاکر رکھ دی.

 

(2)حمید بن مسلم کا بیان ہے کہ میں نے ایک نہایت ہی خوبرو اور حسین و جمیل بچے کو خیمہ حسینی سے نکلتے ہوئے دیکھا ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ وہ چاند کا ایک ٹکڑا ہو وہ اپنے ہاتھ میں تلوار لیے ہوئے دشمنوں کی طرف بڑھ رہا تھا اس کے گلے میں ایک کرتا اور پاؤں میں پائجامہ تھا میں نے دیکھا کہ اس کے بائیں پیر کے جوتے کا تسمہ ٹوٹا ہوا تھا عمرو بن سعید ازدی نے اس بچے کو دیکھ کر مجھ سے کہا : واللہ! اسے تو میں قتل کروں گا میں نے کہا سبحان اللہ! اس نوعمر بچے کے قتل سے تمہیں کیا فائدہ ؟ انصار حسین میں سے جن لوگوں کو تم نے گھیر رکھا ہے کیا ان کا قتل تمہارے لئے کافی نہیں ہے ؟ اس نے جواب دیا تم کچھ بھی کہو لیکن میں واللہ اس بچے کو قتل کر کے ہی دم لوں گا یہ کہہ کر اس نے اس بچے پر حملہ کر دیا اور اس کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ وہ لہو لہان ہوگیا وہ بچہ منہ کے بل زمین پر گر پڑا اور چچا! چچا! کہہ کر پکارا اس کی چیخ سن کر حسین اس کی طرف ایسے جھپٹے جیسے کہ شاہین اپنے شکار پر جھپٹتا ہے اور غضبناک شیر کی طرح آپ نے عمرو بن سعید پر حملہ کر دیا اس نے آپ کی تلوار کو اپنے ہاتھ پر روکا جس سے اس کا ہاتھ کہنی سے کٹ کر الگ ہوگیا وہ درد سے بلبلا اٹھا یزیدی فوج کے گھڑسوارون کا ایک دستہ اسے بچانے کے لئے بڑھا لیکن ان کے گھوڑے بے قابو ہو گئے اور عمرو بن سعید کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا یہاں تک کہ وہ میدان میں ہی تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوگیا.

جب غبار فرو ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ بچہ زمین پر ایڑیاں رگڑ رہا ہے اور حسین اس کے سرہانے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں : خدا ان لوگوں سے حساب لے جنہوں نے تجھے قتل کیا ہے قیامت کے دن تیرے پدر بزرگوار (امام حسن) تیرے خون کا دعویٰ کریں گے واللہ! تیرے چچا (امام حسین ) پر یہ بہت شاق ہے کہ تونے پکارا اور وہ جواب نہ دے سکے اور جواب بھی دیں تو اس سے تمہیں کچھ فائدہ نہ ہو. فرزند! تیرے چچا کے دشمن بہت ہیں اور مددگار بہت تھوڑے ہیں پھر انہوں نے اس بچے کو گود میں اٹھا یا اور سینے سے چمٹا لیا.

حمید بن مسلم کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ جب حسین اس بچے کی لاش کو اپنے خیمے کی طرف لے جارہے تھے تو اس کے دونوں پیر زمین پر گھسٹ رہے تھے میں نے دیکھا کہ انہوں نے اس بچے کی لاش کو اپنے بیٹے علی اکبر کی لاش کے پہلو میں آل رسول کی دیگر لاشوں کے درمیان لٹا دیا میں نے لوگوں سے پوچھا کہ اس مقتول بچے کا حسین سے کیا رشتہ ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ اس بچے کا نام قاسم ہے اور یہ حسین کے بڑے بھائی حسن کا فرزند ہے. (رضی اللہ عنہم)

(3)

ہانی حضرمی کا بیان ہے کہ قتل حسین کے دن میں یزیدی فوج میں تھا دس دس سواروں کے دستے ترتیب دیے گئے تھے میں بھی ایک دستے میں تھا گھوڑے میدان کے چاروں طرف سرپٹ دوڑ رہے تھے واللہ میں نے خیمہ حسینی سے ایک خوبرو بچے کو جھانکتے ہوئے دیکھا وہ کرتا اور پائجامہ زیب تن کیے ہوئے تھا اس پر اس قدر خوف و ہراس چھایا ہوا تھا کہ خیمہ سے سر باہر نکالتا اور فورا ہی اندر کرلیتا وہ کبھی اپنی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف دیکھتا اس کے ہاتھ میں خیمہ کی ایک لکڑی تھی وہ ہمت کرکے کسی طرح خیمے سے باہر نکلا اس کے کانوں میں بندے تھے جب وہ لڑکھڑاتا ہوا ادھر ادھر مڑتا تو اس کے دونوں بندے ہلنے لگتے یزیدی فوج کے ایک سپاہی کی اس پر نظر پڑ گئی اس نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس بچے کے قریب آکر کھڑا ہوگیا وہ بچہ اتنا چھوٹا تھا کہ بغیر جھکے ہوئے اس پر تلوار سے وار نہیں کیا جاسکتا تھا یزیدی فوج کا وہ سپاہی اپنے گھوڑے سے جھکا اور اس بچے کو تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا.

امام طبری لکھتے ہیں : اصل میں یہ حرکت خود ہانی حضرمی کی تھی لوگوں کی ناراضگی اور ملامت کے خوف سے وہ اپنا نام چھپا رہا تھا.

(4)

ہاشمی شہزادوں کی لاشیں کربلا کی تپتی ہوئی ریت پر بکھری پڑی تھیں اور یزیدی فوج میں فتح کے شادیانے بج رہے تھے حسین غم و الم سے نڈھال خیمے میں سر جھکائے بیٹھے تھے اسی اثنا میں ایک بی بی ایک شیر خوار بچے کو آپ کے پاس لے کر آئیں آ پ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا وہ بچہ پیاس سے جان بلب تھا زبان سوکھ کر کانٹا ہوگئی تھی آ پ اس بچے کو اس خیال سے خیمے سے لے کر باہر آئے کہ شاید کسی دشمن کو اس پر ترس آجائے اس بچے کا نام عبد اللہ بن حسین تھا (علی اصغر) لیکن پانی کے بجائے قبیلہ اسد کے ایک ستمگر نے نشانہ سادھ کر ایسا تیر چلا یا جو اس بچے کے حلق کو چھیدتا ہوا باہر نکل گیا ننھے اصغر کے حلق سے خون کے فوارے ابل پڑے امام حسین کے دونوں چلو خون سے بھر گئے آپ نے اس خون کو زمین پر گرادیا اور فرمایا خدایا: تونے آسمان سے اگر ہمارے لیے نصرت نہیں نازل کی تو ہمارے حق میں جو بہتر ہے وہی کر اور تو ظالموں سے ہمارا انتقام لے. (رضی اللہ عنہم)