زبیری زئی کی طرف سے امام عبداللہ بن محمد بن ابی العوام کی کتاب فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه پر اعتراضات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ

(بقلم اسد الطحاوی الحنفی البریلوی )

 

ہم سب سے پہلے زبیری زئی کے اعتراضات پیش کرتے ہیں بالترتیب اسکا رد کرینگے

محدث فورم پر زبیری زئی کے اس کتاب پر درجہ ذیل اعتراضات لکھے گئے ہیں ؛

 

فضائل ابي حنيفه واخباره و مناقبه کےنام سے ایک کتاب مکتبہ امدادیہ (مکہ مکرمہ) سے شائع کی گئی ہے ۔جسے ابوالقاسم عبداللہ بن محمد بن احمد بن یحی بن الحارث السعدی یعنی ابن ابی ابی العوام کی طرف سے منسوب کیاگیا ہے ۔اسے قاضی ابو عبداللہ محمد بن سلامہ بن جعفر القضاعی نے درج ذیل سند کے ساتھ راویت کیا ہے ۔

’’أنبأ القاضي ابوالعباس احمد بن محمد بن عبدالله بن أحمد بن يحي بن الحارث السعدي المعروف بابن ابي العوام قال حدثني ابوعبدالله محمد ابن عبدالله بن محمد قال حدثني ابي ابوالقاسم عبدالله بن محمد بن احمد بجميع هذا الكتاب قال……‘‘ (فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللہ ص 36،37)

اس کتاب کے مذکور ہ راویوں کے بارے میں مختصر اور جامع تحقیق درج ذیل ہے

ابوالعباس احمد بن محمد بن عبداللہ السعدی کاذکر ،اس کی وفات کے صدیوں بعد پیدا ہونے والے عبدالقادر قرشی حنفی نے کرتے ہوئے لکھا ہے ۔

يأتي ابوه وعبدالله جده من بيت العلماء الفضلاء (الجواہر المضیئہ ج 1ص 106)

اس کے باپ (محمد بن عبداللہ )اور اس کے دادا (عبداللہ بن محمد) کا ذکر (آگے) آئے گأ علماء وفضلاء کےگھر میں سے۔

 

عرض ہے کہ علماء وفضلاء کے گھر میں سے ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ شخص ثقہ یا صدوق ہے مثلا ظفر احمد تھانوی دیوبندی کا بیٹا عمر احمد عثمانی منکر حدیث تھا اور اشفاق الرحمن کاندھلوی کا بیٹا حبیب الرحمن کاندھلوی بھی منکرحدیث اور ساقط العدالت تھا۔

 

عبدالقادر قرشی حنفی نے کسی مجہول سے نقل کیا ہے کہ اس نے حاکم بامراللہ (رافضی زندیق) کے سامنے ابن ابی العوام کےبارے میں کہا ’’ثقة صدوق ‘‘(الجواہر المضیئہ ج 1 ص 107)

عرض ہے کہ اس کاقائل مجہول ہے لہذا یہ توثیق مردود ہے۔

عبدالقادر قرشی نے بتایا کہ (اسماعیلی رافضی حکمران) حاکم بامراللہ نےاسے مصر کاقاضی بنایا تھا ۔(الجواہر المضیئہ ج1 ص 107)

عرض ہے کہ یہ توثیق نہیں بلکہ زبردست جرح ہے ۔

حاکم بامراللہ بادشاہ کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نےلکھا ہے

’’العبيدي المصري الرافضي بل الاسماعيلي الزنديق المدعي الربوبية‘‘(سیر اعلام النبلاء ج5 ص 173)

عبیدی مصری رافضی بلکہ اسماعیلی زندیق ،وہ رب ہونے کا دعوای کرتا تھا۔

حافظ ذہبی نے مزید فرمایا

’’وكان شيطانا مريدا جبارا عنيدا كثير التلون سفاكا للدماء حبيث النحلة كان فرعون زمانه‘‘ (سیر اعلام النبلاء ج5 ص 174)

وہ سرکش شیطان ،متکبرحق کامخالف ہٹ دھرم ،بڑے رنگ بدلنے والا ،سفاکی سے (بے گناہوں کے ) خون بہانے والا ،خبیث عقیدے والا اپنےزمانے کا فرعون تھا۔

ابن ابی العوام کی توثیق کسی قابل اعتماد محدث نےنہیں کی اور فرعون وقت ،شیطان مرید اور کافر زندیق کے قاضی ہونے کی روسے وہ مجروح اور ساقط العدالت ہے۔

 

فرعون وقت کے قاضی ابن ابی العوام کا باپ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ بن محمد بالکل مجہول ہے۔کسی کتاب میں اس کی کوئی توثیق موجود نہیں بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ عبدالقادر قرشی نے ابن ابی العوام کے ذکر میں یہ وعدہ کیا کہ وہ آگے اس کا ذکر کریں گے مگر انہوں نے اس وعدے کی خلاف ورزی کی اور آگے جاکر اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

 

3۔ابوالقاسم عبداللہ بن محمد بن احمد بن یحی بن الحارث کو عبدالقادر قرشی نے مختصر ذکر کیا مگر کوئی توثیق نقل نہیں کی۔(الجواہر المضیئہ ج1 ص272)

 

یعنی یہ شخص بھی مجہول ہے نیز دیکھئے یمن کےمشہور عالم شیخ عبدالرحمن بن یحی المعلمی المکی رحمہ اللہ کی کتاب ’’طلیعۃ التنکیل ص 27،28‘‘ اور ’’التنکیل ج1 ص 27‘‘

اس تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ ’’فضائل ابی حنیفہ و اخبارہ و مناقبہ ‘‘ نامی کتاب غیر ثابت ہونے کی وجہ سے مردود ہے ،لہذا اس کتاب کاکوئی حوالہ بھی قابل اعتماد نہیں ہے الا یہ کہ کسی دوسری مستند کتاب میں صحیح سند سے ثابت ہو۔

***********************

 

زبیری زئی کے اعتراضات کا خلاصہ:

 

زبیری زئی نے یہ سارے اعتراضات خود نہیں بلکہ معلمی کی کاپی پیسٹ ماری ہے اور اسکے اعتراضات کا خلاصہ یہ ہے :

 

۱۔ کتاب کے مصنف عبداللہ بن محمد بن احمد بن ابی العوام کی توثیق کسی معتبر محدث سے ثابت نہیں

اورانکی مداح کرنے والا کئی سو سال پیدا ہونے والا عبدالقادر القرشی ہے اوروہ ہے بھی حنفی

 

۲۔اسکے بیٹے کی توثیق بھی ثابت نہیں ہے

 

۳۔ قاضی القضاء احمد بن محمد بن عبداللہ بن ابی العوام جس دور میں قاضی تھے انکا حاکم فرعون الوقت تھا بقول امام ذھبی

پھر زبیری زئی نے اس بات کو بنیاد بنا کر قاضی احمد بن محمد بن ابی العوام جو کہ مصنف کے پوتے ہیں انکی عدالت ساکت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بھی لکھا کہ مجہول نے اسکو ثقہ مامون لکھا ہے اور اسکو قرشی نے لکھ دیا

لہذا یہ کتاب معتبر نہیں ہے

 

*************************

 

الجواب:

 

زبیری زئی نے جو پہلا اعتراض کیا ہے کہ فضائل ابی حنیفہ ؓ کے مصنف المعروف ابن ابی العوام کی کوئی معتبر توثیق ثابت نہیں ہے اور جو مداح ہے وہ کئی سالوں بعد پیدا ہونے والا عبدالقادر قرشی صاحب تراجم الحنفیہ ہے

 

تو عرض یہ ہے کہ زبیری زئی نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مصنف کی توثیق کسی معتبر سے ثابت نہیں ہے اور مداح کرنے والے فقط عبد القادر قرشی ہیں

 

ہم عبد القادر القرشی کے علاوہ اسکی توثیق ثابت کرینگے پھر یہ ثابت کرینگے کہ جو اگلے راویان یعنی مصنف کے بیٹے اور پوتے پر اعتراضات کیے وہ اسکی کتب کو قبول کرنے کے اصول سے نا واقفیت اور جہالت ہے جسکی تفصیل بعد میں بیان کرینگے

 

کتاب کے مصنف امام القاسم عبداللہ بن محمد بن احمد بن یحییٰ بن الحارث السعدی الحنفی کی توثیق و توصیح درج ذیل ہے

 

یہ بات واضح رہے کہ امام ابن ابی العوام امام ابو جعفر الطحاوی ، امام نسائی وغیرہ کے شاگرد تھے

 

۱۔امام الفقیہ محدث ابو المئوید محمد بن محمود الخوارزمی المتوفیٰ (۶۶۵ھ)

جنکے بارے میں امام ذھبی فرماتے ہیں :

227- مُحَمَّد بن محمود بن مُحَمَّد بن حَسَن.

الإِمَام أَبُو المؤيّد الخُوارزْمي، الحنفيّ، الخطيب.

(تاریخ الاسلام )

 

اورامام ذھبی اپنی تصنیف علوم حدیث میں اپنا منہج بتاتے ہیں کہ الامام انکے نزدیک ثقہ سے بھی بڑی تعدیل ہے

امام قاسم بن قطوبغہ محدث تاج التراجم میں انکے بارے فرماتے ہیں :

محمد بن محمود بن محمد بن حسن الإمام أبو المؤيد الخوارزمي مولده ثاني عشر ذي الحجة سنة ثلث وتسعين وخمسمائة تفقه على الإمام طاهر بن محمد الحفصي وسمع محمود وقدم بغداد وسمع بها وقدم دمشق وسمع بها وحدَّث وولى قضاء خوارزم وخطابتها بعد أخذ التتار لها ثم تركها وقدم بغداد حاجا فحج وجاور ورجع إلى مصر ثم إلى دمشق ثم إلى بغداد ودرَّس بها وصنف مسانيد الإمام أبي حنيفة في مجلدين جمع فيها بين خمسة عشر مصنفا وقد رويناه عن قاضي بغداد عن عمه عن ابن الصباغ عنه وتوفى في ذي العقدة سنة خمس وخمسين وستمائة.

 

امام ابو المئوید محمد بن محمود الخوارزمی کا تعلق وسط ایسیا کے مشہور شہر خوازتم سے تھا ۔ آپ ۱۲ زوالحج ۵۹۳ ھ میں پیدا ہوئے تھے ، آپ نے ابتدائی تعدیل خوازم میں حاصک کی اور پھر بغداد اور دمشق کا سفر کر رکے وہاں کے اکابر مشائخ سے استفادہ کیا ۔

یہ تاتاریوں کے حملے کے بعد یہ خوازم کے قاضی اور خطیب مقرر ہوئے تھے ۔ پھر انہوں نے یہ عہدہ ترک رک دیا تھا تھا اور حج کے لیے تشریف لے گئے ۔ حج کے بعد یہ خاصہ عرصہ مکہ میں مقیم رہے ۔ پھر مسر تشریف لے گئے ۔ وہاں سے دمشق چلے گئے پھر بغداد آئے اور وہاں درس و تدریس کرتے رہے انہوں نے دو جلدوں میں مسانید امام اابی حنیفہ تصنیف کی ، جس میں انہوں نے ۱۵ تصانیف کو جمع کر دیا تھا

(تاج التراجم في طبقات الحنفية، جلد ۲ ، ص ۸۸)

 

یہ وہ پہلے حنفی تھے جنہوں نے تمام مسانید الامام ابی حنیفہ جمع کی تھیں

اور یہ امام ابن ابی العوام کی روایت کردہ مسند ابی حنیفہ کو یوں بیان کرتے ہیں :

 

مسند له جمعه الامام الحافظ ابو القاسم عبداللہ بن محمد بن ابی العوام السعدی رحمہ اللہ

(جامع المسانید )

امام الخوارزمی نے انکو الحافظ کا لقب دیا ہے یعنی یہ حدیث کے حفاظ میں سے تھے

 

۲۔امام محدث محمد بن يوسف الصالحي الشامي (المتوفى: ۹۳۳ھ)

 

جنکے بارے امام ابن العماد الحنبلی الدمشقی المتوفیٰ (۱۰۷۹ھ) فرماتے ہیں

الشیخ شمس الدین محمد الشامی المتمسك بالسنہ المحمدیة نزیل التربة وکان عالما صالحا مفننا فی العلوم و الف السیرة النبویة المشہور التی جمعھا من الف الکتب

 

کہ امام شیخ شمس الدین محمد الشامی الصالحی یہ یہ سنت نبوی کے عالم تھے ۔ یہ صالح عالم اور علوم حدیث کے فن میں ماہر تھے انہوں نے سیرت نبویہ پر کتاب لکھی تھی

(شذرات الذھب)

 

امام عبد الحئی بن عبدالکبیر الکتانی فھرس الفھارس والثبات میں انکے بارے فرماتے ہیں :

الشامی ھو الامام الحافظ المحدث الدیار المصریه و مسند ه شمس الدین محمد بن یوسف بن علی بن یوسف الشامی الصالحی الدمشقی صاحبنا الشیخ الاعلامہ الصالح الفھامة الثقہ الملطع الحافظ المبتع الشیخ الشامی الدمشقی ثم المصری

امام الکتانی فرماتے ہیں : الشامی وہ امام محدث حافظ الحدیث اور مسند دیار کے محدث تھے دمشق میں یہ اہل فہم اور ثقہ امام تھے دمشق میں

(امام عبد الحئی بن عبدالکبیر الکتانی فھرس الفھارس والثبات، ص ۱۰۶۳)

 

امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی الشافعی امام ابن ابی العوام کی توثیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

 

الاخلوقات احد من اٗئمه الحدیث من صنف فی مناقب الامام ابی حنیفة ، امام ابی جعفر الطحاوی ، القاضی ابی القاسم بن ابی العوام ،

ابی القاسم بن کاس ، والقاضی ابی عبداللہ الصیمری ، والشیخ محیی الدین القرشی ، صاحب طبقات ، وغیرھم

وكلھم حنفیون ثقات انبات لھم اطلاع الکبیر

 

امام الشامی فرماتے ہیں کہ ائمہ حدیث میں جنہوں نے مناقب ابی حنیفہ پر مستقل کتب تصنیف کی ہیں جن میں

امام ابو جعفر الطحاوی ، امام ابو القاسم ابن ابی العوام ، امام الصیمری ، امام ابن کاس ، امام عبدالقادر القرشی وغیرہ ہیں

اور یہ تمام احناف ائمہ حدیث ثقات میں سے ہیں

(عقود الجمان ، امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی الشافعی، ص ۱۳۱ )

 

تنبیح!!!

کوئی یہ اعتراض کرے کہ ۹۰۰ ھ والے محدث سے آپ ۳۰۰ھ کے محدث کی صریح توثیق کیوں پیش کررہے ہیں ؟

تو عرض ہے یہ کونسا اصول ہے کہ توثیق کے لیے امام کا ہم عصر ہونا لازم ہے یا زمانہ قریب کا ایسا اعتراض تو جہالت سے بھرا اور علم رجال سے جاہل ہی کر سکتا ہے

 

اسکی مثال وہابیہ کے گھر سے بھی پیش کردیتے ہیں

 

زبیری زئی جز رفع الیدین کی سند کو ثابت کرنے کے چکر میں اس کتاب کے مرکزی راوی محمد بن اسحاق جسکی کوئی توثیق صریح ثابت نہیں تھی اوریہ تھا بھی ۲۰۰ھ کا راوی

اور اسکی ضمنی توثیق زبیری زئی نے ۸۰۰ھ کے بعد پیدا ہونے والے امام ابن حجر عسقلانی سے پیش کی

جبکہ وہ ضمنی توثیق بھی باطل ہے کیونکہ ضمنی توثیق کسی راوی کی منفرد روایت پر ہوتی ہے جبکہ امام ابن حجر نے شاہد میں روایت لکھ کر حدیث کو حسن قرار دیا تھا لیکن زبیری زئی نے اپنے مقلدین کے لیے پھکی بنا دی اور اسکے مقلدوں نے ہضم کر لی

 

۳۔ امام المحدث الزیلعی الحنفی رحمہ اللہ نے ابن ابی العوام کی کتاب مسند ابی حنیفہ کی روایت سے استدلال کیا ہے

نصب الرائیہ میں

عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، قَالَ: كُنَّا نَحْمِلُ الصَّيْدَ صَفِيفًا، وَكُنَّا نَتَزَوَّدُهُ، وَنَأْكُلُهُ، وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، انْتَهَى

. قَالَ: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الْعَوَّامِ فِي “كِتَابِ فَضَائِلِ أَبِي حَنِيفَةَ”

) نصب الراية لأحاديث الهداية مع حاشيته بغية الألمعي في تخريج الزيلعي, جلد ۳، ص ۱۴۰)

 

نوٹ: یہ یاد رہے کہ زبیری زئی نے محمود بن اسحاق کے لیے ضمنی توثیق کا اصول امام زیلعی کی نصب الرائیہ سے دیا تھا تو ہم نے اسکو بھی امام زیلعی سے امام ابن ابی العوام کی کتاب سے حدیث سے احتجاج ثابت کر دیا تو اب یہ بھی مصنف اور اس سمیت پوری کتاب کی سند کی توثیق سمجھ لے تسلی سے قبر میں

 

اور باقی ایک حوالہ خود زبیری زئی نے امام عبدالقادر القرشی کا لکھا ہے :

 

يأتي ابوه وعبدالله جده من بيت العلماء الفضلاء (الجواہر المضیئہ ج 1ص 106)

اس کے باپ (محمد بن عبداللہ )اور اس کے دادا (عبداللہ بن محمد بن ابی العوام) یہ علماء وفضلاء کےگھر میں سے تھے

 

تو ہم نے امام ابو القاسم عبداللہ بن محمد بن ابی العوام مصنف کتاب فضائل ابی حنیفہ کی صریح توثیق اور عدالت بھی ثابت کر دی ہے

 

باقی اسکا بیٹا اور پوتا یہ ۳۰۰ھ کے بعد کے محدث ہیں اور انکے بارے امام القرشی نے تصریح کر دی کہ یہ علماء وفضلاء کے گھر میں سے تھے

 

اور اسکے باوجود بھی ہم یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ یہ عالم تھے اپنے وقت میں مصر کے

 

امام ابو اسھاق بن الجبال (المتوفیٰ ۴۸۶ھ) نے ایک تصنیف لکھی بنام وفیات المصرین

جس میں انہوں نے ان مصر کے علماء کو درج کیا جنکی وفات انکے دور میں ہوئی تھی

وہاں انہوں نے ۳۶۰ ھ کے عرصے میں فوت ہونے والوں میں امام ابن ابی العوام کے بیٹے کا ذکر کیا ہے

۱۸۔ ابو عبداللہ محمد بن احمد بن ابی العوام الحنفی یوم الثلاثہ )

 

تو زبیر ی زئی کا یہ اعتراض کرنا کے اہل علم و فضل گھرانے سے تعلق رکھنے سے ضروری نہیں کہ راوی کی عدالت بھی ثابت ہو جس پر اس نے کچھ منکر الحدیث لوگوں کی مثال دی

تو عرض ہے انکے دور کے پاس کے اپنے وقت کے جید محدثین جیسا کہ ابن الجبال جنکے بارے امام ذھبی کہتے ہیں شیخ الاسلام متقن

تھے وہ انکو مصر کے ان اہل علم لوگوں میں شامل کر رہے ہیں جنکی وفات تیسری ہجری کے وسط میں ہوئی تھی

تو اگر یہ عدالت کے اعتبار سے ساقط ہوتے یا اہل علم نہ ہوتے تو امام ابن الجبال کو انکو شامل کرنے کی ضرورت نہ پڑتی

جیسا کہ پاکستان میں کوئی اہل علم نہین جانتا کے زبیری زئی کب مرا تھا تو جنکے بارے متقن لوگ وفات کو درج کریں تو وہ ضرور بل ضرور اہل علم لوگ تھے

 

اور امام ابن ابی العوام کے پوتے کی توثیق کو زبیری زئی نے امام القرشی پر ڈال کر عبارت غلط بیان کر کے جان چھڑائی

جبکہ امام احمد بن محمد بن عبداللہ العوام القاضی جو مصنف کے پوتے ہیں انکے بارے امام نے تفصیلا ذکر کیا ہے

۴ صفحات پر اور یوں لکھا ہے :

۳۰۔ احمد بن محمد بن عبداللہ بن محمد بن احمد بن یحییٰ الحارث السعدی الفقیہ الحنفی ابی العباس

فقیل لحاکم کم لیس ھو علی مذہبک ولا علی مذہب من سلف من اباک ، فقال ھو ثقہ مامون مصری عارف بالقضاء و اہل البد وما فی المصرین

امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :

ابو العباس انکا لقب تھا ۔ تو حاکم کو کہا گیا کہ یہ ابو العباس (مصنف کا پوتا ) نہ تمہارے مذہب پر ہے نہ ہی تمہارے آبو سلف کے مذہب پر ہے (یعنی جس حاکم کے بارے زبیر ی نے امام ذھبی سے لکھا کہ وہ وقت کا فروع ن تھا وغیرہ وغیرہ تو اسکے ساتھی خود اعتراف کر تے تھے کہ یہ تو ہمارے مذہب اور عقیدے کا نہیں ہے )

تو اس (حاکم) نے جواب دیا کہ وہ ثقہ مامون ہے اور مصر کا باشندہ ہے اور قضاء کا اہل ہے

(الرفع الاصرعن قضاہ مصر، ترجمہ برقم: ۳۰)

تو یہاں تو مخالف مذہب امام ابن ابی العوام کے پوتے کو ثقہ مامون مان رہا ہے باجود اسکو اپنے مذہب کے خلاف ہونے پر بھی تو یہ تو بدرجہ اولیٰ ہمارے لیے توثیق کی دلیل بنتی ہے لیکن زبیری زئی نے کمال ڈھٹائی سے اسکو رد کرنے کی کوشش کی

 

یہاں تک تو ہم نے زبیری زئی کی اس جہالت کے جوابات دیے جو اسنے اپنی طرف سے یا معلمی کی کاپی پیسٹ ماری تھی

اصل بات یہ ہے کہ ہم کو فقط مصنف کی توثیق درکارتھی حفظ کی باقی مصنف کے بیٹے اور پوتے کی عدالت کی توثیق فقط درکار تھی جو کہ ہم نے ثابت بھی کر دی

 

اور زبیری زئی کا خود کا منہج بھی یہی ہے

کیونکہ وہ لکھتا ہے : تیسری صدی ہجری کے بعد مشہور عالم پر اگر جرح نہ ہو تو اس کی توثیق کی صراحت کی ضروری نہیں ہے بلکہ علم ، فقاہت اور نیکی اور دینداری کے ساتھ مشہور ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایسے شخص کی حدیث حسن کے درجے سے کبھی نہیں گرتی ہے اور اسکا مقام کم از کم صدوق ضرور ہوتا ہے

(اضواء الصالبیح فی تحقیق مشکوٰة المصابیح ، ص ۲۵۱، زبیری زئی )

 

ہم نے بھی اسکے اصول کے مطابق مصنف کے بیتے اور پوتے کو عالم فاضل ثابت کیا ہے بلکہ ثقہ مامون کی توثیق بھی مخالف مذہب سے پیش کی ہے اور امام ابن حجر نے مصنف کے پوتے کو اہل قضاء جو وقت کے بڑے قاضی رہے اور قاضی القضا جو چیف جسٹس ہوتا ہے یہی عہدہ ہی انکی عدالت کے لیے کافی ہے کیونکہ اس دور میں قاضی چیف جسٹس کوئی ایرہ غیرہ نہیں بنتا تھا

تو زبیر زئی ایسوں کی روایت یعنی حدیث رسول کو حسن ماننے پر خو ش تھا ہم تو بقول اسکے فقط کتاب ثابت کر رہے ہیں

 

اب آتے ہیں زبیری زئی کی اصل جہالت کی طرف

کتاب کے لیے صحیح سند کا ثبوت ہونا یہ اصول کسی محدث ، کسی مفسر نے لازم قرار ہی نہیں دیا کہ جو کتاب صحیح الاسناد ثابت نہ ہوگی تو وہ رد ہوگی یہ جہالت اور بدعت سب سے پہلے بر صغیر میں زبیری زئی کی قسمت میں پیدا کرنا لکھی تھی

 

جب انکے اصول پر وہابیہ سے کتاب السنہ جس سے یہ جروحات دیکھاتے نہیں تھکتے امام اعظم پر جب اسکی سند کا مطالبہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں فلاں امام نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے فلاں امام نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے

 

اور جب وہابیہ سے جز رفع الیدین پر محمود بن اسحاق کی توثیق صریح یا صحیح ضمنی طور پر مانگیں تو وہ انکے پاس نہیں تو ہم کو پھر وہابی یہی جواب دیتے ہیں کہ امام عینی ، امام ابن حجر ، امام بیھقی ان سب سے امام بخاری کی اس کتاب سے روایتیں لکھی ہیں یا اس کتاب کو امام بخاری کی کتاب مانا ہے

تو ایسے کے لیے ہمارا بھی یہی ہے کہ یہ کتاب بھی بہت سے محدثٰین نے امام ابن ابی العوام کی مانا ہے جسکی تفصیل بعد میں پیش کرینگے

 

لیکن پہلے محدثین کا راجح اصول ہم پیش کرتے ہیں امام ابن حجر عسقلانی سے کہ راجح منہج کیا ہے محدثین کا کتاب کو قبول کرنے ے بارے

امام ابن حجر عسقلانی النکت علی ابن صلاح میں فرماتے ہیں :

ما استدل به على تعذر التصحيح في هذه الأعصار المتأخرة بما ذكره من كون الأسانيد ما منها إلا وفيه من لم يبلغ درجة الضبط والحفظ والإتقان، ليس بدليل ينهض لصحة ما ادعاه من التعذر، لأن الكتاب [المشهور] 5 الغني بشهرته عن اعتبار الإسناد منا إلى مصنفه: كسنن النسائي مثلا لا يحتاج في صحة نسبته إلى النسائي إلى اعتبار حال رجال الإسناد منا إلى مصنفه.

 

امام ابن حجر فرماتے ہیں : مشہور کتاب کے لیے اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم سے مصنف تک اسکی سند معتبر (ثقہ ثبت جید راویوں ) پر مشتمل ہو ، مثال کے طور پر سنن نسائی کی صیحت کے لیے اس بات کی حاجت نہیں کہ ہم سے لے کر امام نسائی تک اسکے رجال معتبر کا ثابت ہونا لازم ہو۔۔

(النکت علی کتاب ابن صلاح بن حجر عسقلانی ، ص ۶۸۱)

 

معلوم ہوا کہ محدثین کا کتاب کو قبول کرنے کا منہج یہ ہے کہ کتاب کا تواتر سے مشہور ہونا اور ہر دور کے علامہ کا اس کتاب سے دلائل لینا ، اس کتاب کو مصنف کی طرف منسوب کرتے چلے آرہے ہوں یہی دلیل بہت پختہ اور مکمل ہے کہ کتاب کو سند کی محتاجی سے دور کر دیتی ہے

لیکن زبیری زئی کو احناف سے اتنا بغض تھا کہ انکی کتب کا رد دلائل سے تو کر نہیں سکتا تھا لیکن پوری پوری کتاب کو ہی رد اور غیر ثابت مان لیتا اپنی طرف سے نئے نئے اصول گھڑھ کر

جبکہ البانی نے بھی امام ابن حجر کی بات کو تسلیم کیا ہے

 

اب ہم دیکھتے ہیں امام ابن حجر کے منہج پر جو انہوں نے محدثین کا بیان کیا یہ امام ابن ابی العوام کی کتاب ثابت ہوتی ہے یا نہیں ؟

 

امام أبو طاهر السِّلَفي أحمد بن محمد بن أحمد بن محمد بن إبراهيم سِلَفَه الأصبهاني (المتوفى: 576هـ)

انہوں نے ایک تصنیف لکھی بنام : مشيخة الشيخ الأجل أبي عبد الله محمد الرازي، وبذيله ثلاث حكايات غريبة

اس میں انہوں نے امام ابن ابی العوام کی کتاب فضائل ابی حنیفہ سے نہ صرف روایت کی تخریج کی بلکہ یہ بھی بیان کیا کہ انہوں نے اپنے ایک شیخ کے واسطے سے امام احمد بن محمد بن عبداللہ ابی العوام (مصنف کے پوتے سے کتاب کا سماع کیا )

 

پہلے ہم امام ابن الطاہر کی نقل کردہ روایت پیش کرتے ہیں :

 

4 – أَخْبَرَنَا القَاضِي أَبُو عَبْد اللَّه مُحَمَّد بْن سَلامَة بْن جَعْفَر الْقُضَاعِي بِمصْر أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاس أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن عَبْد اللَّه بْن أَبِي الْعَوام السَّعْدِيّ أَخْبَرَنَا أَبِي مُحَمَّد حَدَّثَنَا أَبِي عَبْد اللَّه قَالَ حَدثنِي أَبُو بكر مُحَمَّد بْن جَعْفَر بْن الإِمَام حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْن أَبِي إِسْرَائِيل حَدَّثَنَا حَمَّاد بْن زيد عَن أَبِي حنيفَة عَن حَمَّاد عَن إِبْرَاهِيم قَالَ بَلغنِي أَنه يُؤْتى بموازين الْقسْط يَوْم الْقِيَامَة فيوزن عمل رجل فَلَا يرجح فَيُؤتى بِشَيْء فَيُوضَع فِي مِيزَانه فيرجح فَيَقُول مَا هَذَا فَيُقَال هَذَا علمك الَّذِي عَلَّمْتَهُ فَعُمِلَ بِهِ من بعْدك

(: مشيخة الشيخ الأجل أبي عبد الله محمد الرازي، وبذيله ثلاث حكايات غريبة)

 

امام ابن طاہر السلفی جو ۵۰۰ کے امام ہیں جنکا زمانہ بہت قریب کا ہے امام ابن ابی العوام سے وہ خود سے متصل سند سے روایت بیان کرتے ہیں

جس میں اپنے اپنے شیخ ثقہ القاضی ابو عبداللہ محمد بن سلامہ ہیں وہ مصر میں ابو العباس احمد بن محمد بن عبداللہ بن ابی العوام السعدی (مصنف کے پوتے ) سے وہ اپنے والد (مصنف کے بیٹے سے) وہ اپنے والد (یعنی مصنف فضائل ابی حنیفہ سے) اور وہ ابو بکر جعفر وہ اسحاق بن ابی اسرائیل وہ حماد بن زید وہ ابی حنیفہ سے وہ حماد بن ابی سلیمان اور وہ اما م ابراہیم النخعی سے روایت بیان کرتےہیں

 

اب دیکھتے ہیں کیا یہ روایت جو ۵۰۰ کے مصنف نے نقل کی تھی اپنی کتاب میں اما م ابن ابی العوام کے تعلق سے کیا موجود ہے یا نہیں ؟

 

377 – حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني أبو بكر محمد بن جعفر بن الإمام قال: ثنا إسحاق بن أبي إسرائيل قال: ثنا حماد بن زيد، عن أبي حنيفة، عن حماد، عن إبراهيم قال: بلغني أنه يؤتى بموازين القسط يوم القيامة فيوزن عمل رجل فلا يرجح، فيؤتى بشيء فيوضع في ميزانه فيرجح، فيقول: ما هذا؟ فيقال: هذا علمك الذي علمته فعمل به من بعدك.

(فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه ابن ابی العوام)

 

اب ہم امام ابن طاہر السلفی کے شیخ ابو جعفر القضائی سے اس کتاب کا سماع کرنا ثابت کرتے ہیں :

 

وفضائل أَبِي حنيفَة النُّعْمَان بْن ثَابت الْفَقِيه الْكُوفِي صَاحب الرَّأْي وأخباره وفضائل أَصْحَابه وحكاياتهم وَمن أَخذ عَنهُ وروى عَنهُ تأليف أَبِي الْقَاسِم عَبْد اللَّه بْن مُحَمَّد بْن أَحْمَد بْن يحيى السَّعْدِيّ الْمَعْرُوف بِابْن أَبِي الْعَوام أَخْبَرَنَا بِهِ عَن أَبِي الْعَبَّاس أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن عَبْد اللَّه بْن أَبِي الْعَوام السَّعْدِيّ عَن أَبِيه عَن جده وَهُوَ خَمْسَة أَجزَاء ضخام

والرواة عَن الرّبيع بْن سُلَيْمَان الْمرَادِي صَاحب الشَّافِعِي تَخْرِيج القَاضِي رَحمَه اللَّه من حَدِيثه حدثت بِهِ وَمَا لي بِهِ نُسْخَة

 

امام ابن طاھر ((المتوفى: 576هـ) فرماتے ہیں :

فضائل ابی حنیفہ نعمان بن ثابت الفقیہ الکوفی صاحب الرائے اور انکے بارے میں اخبار اور انکے و اصحاب کے فضائل پر مبنی حکایات جو ان (ابی حنیفہ) سے جنہوں نے اخذ کیا اور جنہوں نے ان (ابی حنیفہ ) سے روایت کیا ہے

اس پر تصنیف لکھی ہے ابی القاسم عبداللہ بن محمد بن محمد بن احمد بن یحییٰ السعدی المعروف ابن ابی العوام نے جسکی خبر مجھے دی ابی العباس نے انہوں نے اپنے والد سے بطریق اپنے دادا سے جو متعدد ضخیم اجزاء پر ہے اور ان سے امام القضائی نے یہ کتاب سماعت کی

(: مشيخة الشيخ الأجل أبي عبد الله محمد الرازي، وبذيله ثلاث حكايات غريبة، ص ۲۴۳ٌ)

 

امام الطافظ شمس الدی محمد بن علی الداوودی (المتوفیٰ ۹۳۰ھ)

اپنی تصنیف طبقات المفسرین میں انہی

امام محمد بن سلامہ بن جعفر بن علی بن حکمون جو کہ امام طبرانی کے شاگردوں میں سے ہیں انکے ترجمے میں بیان کرتے ہیں

 

عبداللہ الرازی ، کتاب المختلف و الموتلف اخبرہ بہ عن مصنف عبدالغنی بن سعید و کتا ب فضائل ابی حنیفہ نعمان بن ثابت وروی تالیف ابی القاسم عبداللہ بن محمد بن احمید بن یحییٰ السعدی عرف با ابن العوام اخبربہ عن ابی العباس احمد بن ابی العوام ان ابیہ عن جدہ

(طبقات المفسری، برقم : ۴۹۷)

 

ابی جعفر بن سلامہ جو امام طبرانی کےشاگرد ہیں انکے ترجمے میں بھی امام شمس الدین الداوودی نے لکھا ہے کہ انہوں نے اس کتاب کا سماع کیا تھا جو کہ تالیف کردہ امام ابن ابی العوام کی جسکو انکے پوتے اپنے والد کے طریق سے ان سے بیان کرتے ہیں

 

امام ذھبی بھی اس کتاب سے متعددتصانیف میں نقل کیاہے

 

وقال ابن أبي العوام القاضي في فضائل أبي حنيفة: ثنا الطحاوي، ثنا أحمد بن أبي عمران، ثنا محمد بن شجاع، عن الحسن بن زياد، عن أبي حنيفة، قال: «ربما قرأت في ركعتي الفجر حزبين من القرآن»

 

قال قاضي مصر أبو القاسم عبد الله بن محمد بن أحمد بن يحيى بن الحارث بن أبي العوام السعدي في كتاب فضائل أبي حنيفة وهو مجلد واحد: حدثني إبراهيم بن أحمد بن سهل الترمذي، ثنا القاسم بن غسان القاضي، ثنا أبي، أنا جدي أبو غسان أيوب بن يوسف، سمع النضر بن محمد، يقول: ” كان أبو حنيفة جميل الوجه، سري الثوب عطرا، ولقد أتيته في حاجة، فصليت معه الصبح وعلي كساء قومسي، فأمر بإسراج بغله، وقال: أعطني كساءك لأركب في حاجتك وهذا كسائي إلى أن أرجع، ففعلت، فلما رجع، قال: يا نضر أخجلتني بكسائك، قلت: وما أنكرت منه؟ قال: هو غليظ، قال النضر: وكنت اشتريته بخمسة دنانير وأنا به معجب، ثم رأيته بعد هذا وعليه كساء قومسي قومته بثلاثين دينارا “

 

وقال أبو القاسم عبد الله بن محمد بن أبي العوام السعدي قاضي مصر: حدثني إبراهيم بن أحمد الترمذي، سمعت أبا نصر محمد بن محمد بن سلام البلخي، سمعت نصير بن يحيى البلخي، يقول: قلت لأحمد بن حنبل: ما الذي تنقم على هذا الرجل؟ قال: الرأي، قلت: فهذا مالك ألم يتكلم بالرأي؟ قال: ” بلى، ولكن رأي أبي حنيفة خلد في الكتب، قلت: فقد خلد رأي مالك في الكتب، قال: أبو حنيفة أكثر رأيا منه، قلت: فهلا تكلمتم في هذا بحصته وهذا بحصته؟ ! فسكت “

 

(مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه، الامام ذھبی )

 

امام ذھبی نے مناقب ابی حنیفہ میں تین روایات تو اسی کتاب سے نقل کی ہیں امام بن ابی العوام کا ذکر کر کے آگے متصل سند بیان کر دی

 

اسکے علاوہ امام ذھبی نے تاریخ الاسلام اور سیر اعلام میں ابن ابی العوام سے نقل کی ہیں روایتیں

 

تو ہم نے امام طبرانی جو کہ امام طحاوی کے شاگردوں میں سے تھے اور امام ابن ابی العوام بھی امام طحاوی کےشاگردوں میں سے تھے انکے دور سے محدثین کا اس کتاب کو سماع کرنا

اس سے احادیث اور روایایتیں نقل کرنا امام ذھبی کے دور تک پیش کیا پھر محدثین نے تو اس کتاب سے بغیر کسی عزر کے روایات نقل بھی کی ہیں اور چونکہ یہ اتنی مشہور تھی کہ شروع سے متاخرین کے زمانے تک لوگوں نے اس کتاب کا سماع بھی کیا اور اس کتاب سے تخریج بھی کی روایات کی تو یہ کتاب منہج محدثین کے مطابق ثابت ہے اسکے لیے اس کتاب کی سند کی محتاجی بالکل نہیں ہے

 

اب ہم نے امام ابن حجر سے اس روایت کا نقل کرنے کا ثبوت پیش کرنا ہے جس میں امام ابن حجر سے ایک خطاء ہوئی جسکی وجہ سے زبیری زئی اور معلمی نے اپنی اندھی گھمائی تھی

جسکو بیان کرنا بہت اہم ہے جس سے وہابیہ کے تمام اعتراضات بالکل باطل ہو جائیں گے

 

امام ابن حجر سے غلطی یہ ہوئی کہ لسان المیزان میں اور اپنی دوسری کتاب رفع القضاء میں انہوں نے یہ لکھا کہ یہ کتاب احمد بن محمد بن عبداللہ بن احمد بن ابی العوام (یعنی مصنف کے پوتے) نے لکھی ہے

جبکہ یہ انکی خطاء ہے یہ کتاب تو انکے جد یعنی دادا نے لکھی تھی

 

انکی اس غلطی کیو امام المحدث العصر علامہ الکوثری نے بھی تانیب الخطیب میں عیاں کیا کہ یہاں امام ابن حجر سے سہو ہوا یہ کتاب انکے دادا کی ہے المعروف ابن ابی العوام کی نہ کہ ابو العباس احمد بن محمد بن عبداللہ کی

 

جیسا کہ امام ابن حجر لکھتے ہیں :

 

وله مصنف حافل من مناقب أبي حنيفة وأصحابه. روى عنه القُضاعي الكتاب المذكور. وحدث به السِّلَفي عن الرازي عن القضاعي.

امام ابن حجر امام ابن ابی العوام کے پوتے کے ترجمے میں لکھتے ہیں کہ انہوں کتاب لکھی تھی مناقب ابی حنیفہ و صاحبہ کے بارے جسکو یہ روایت کرتے ہیں مذکورہ کتاب اور ان سے السفی (ابی طاہر ) بیان کرتے ہیں الرازی سے اور وہ القضاعی سے

(رفع الإصر عن قضاة مصر، ص ۷۴۔ الامام ابن حجر )

 

اور دوسری جگہ لسان المیزان میں یوں لکھتے ہیں :

 

وقال أحمد بن محمد بن أبي العوام قاضي مصر في مناقب أبي حنيفة: قال لي أبو جعفر الطحاوي: سمعت أبا خازم عبد الحميد بن عبد العزيز القاضي يقول: سمعت أَحمد بن عَبْدَة هو الضبي البصري يقول: قدم زفر بن الهذيل البصرة فكان

 

یعنی امام احمد بن محمد بن ابی العوام ( یعنی مصنف ابن ابی العوام کے پوتے ) وہ فرماتے ہیں مجھے بیان کیا امام طحاوی نے انہوں نے ابو خازم سے اور انہوں نے احمد بن عبدہ الضبی سے سنا

(لسان المیزان برقم: ۳۲۰۷)

 

احمد بن محمد بن ابی العوام یہ تو مصنف کے پوتے ہیں یہ کیسے امام طحاوی سے سن سکتے ہیں

جبکہ یہ کتاب تو انکے دادا نے لکھی تھی انکے پوتے فقط اپنے والد کے طریق سے اسکو بیان کرتے تھے کیونکہ انکے پاس یہ کتاب انکے والد کی لکھی ہوئی موجود تھی اور وہ فقط اسکو طرز محدثین کے تحت خود سے اپنے دادے تک متصل سند سے بیان کرتے تھے لیکن کتاب سے

کیونکہ جب محدثین کسی کو اپنی کتاب بیان کرنے کی اجازت سماع یاقرات کے زریعے سے دیتے تھے تو وہ پھر بجائے کتاب سے ڈریکٹ بیان کرنے کے اپنی سند کومتصل بیان کرتے تاکہ سند کا یہ سلسلہ آگے چلے اور لوگ ان کے طریق سے وہ روایات بیان کریں جیسا کہ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے اسنادی اجازت کا

 

لیکن امام ابن حجر نے اپنی اس غلطی کی تصحیح کر لی تھی جب انہوں نے امام مغلطائی کی تصانیف دیکھی تھیں تو انکی زندگی کی آخری کتب میں سے ایک کتاب الصابہ میں جس میں وہ فرماتے ہیں :

 

4766 ز- عبد اللَّه بن شعيب:

قرأت بخط مغلطاي، قال: أخرج ابن أبي العوام في مناقب أبي حنيفة من طريق أبي أسامة عنه، عن رشدين، عن طارق بن شهاب، عن عبد اللَّه بن شعيب، عن النبيّ صلى اللَّه عليه وسلّم، قال: «أفضل الأعمال العجّ والثّجّ» «6» .

 

امام ا بن حجر فرماتے ہیں میں نے امام مغلطائی کا مسودہ دیکھا جس میں امام ابن ابی العلوام (مصنف ) نے مناقب ابی حنیفہ میں اسامہ کے طریق سے روایت کی تخریج کی ہے

 

اور یہ روایت امام ابی العوام کی کتاب میں موجود ہے جسکی سند یوں شروع ہوتی ہے

8 – قال حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: وحدثني محمد بن أحمد ابن حماد قال: ثنا محمد بن شجاع الثلجي قال: ثنا أبو أسامة ثم قالا: ثنا أبو حنيفة عن قيس بن مسلم عن طارق بن شهاب عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ((أفضل الأعمال العج والثج، فأما العج: فالعجيج بالتلبية، وأما الثج: فنحر البدن)).

(مناقب ابی حنیفہ و صاحبہ ابن ابی العوام )

 

محدثین کا یہ طریقہ کار تھا جب انکو محدث اپنی کتاب روایت کرنے کی اجازت دیتے تو انکے پاس کتاب موجود ہونے کے باوجود بھی وہ خود سے متصل سند بیان کرتے تھے

اسکی دو مثالیں ہم پیش کرتے ہیں

 

۱۔ امام بخاری اپنی جز رفع الیدین میں فرماتے ہیں :

قَالَ الْبُخَارِيُّ: ” وَكَذَلِكَ يُرْوَى عَنْ سَبْعَةَ عَشَرَ نَفْسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كَانُوا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ عِنْدَ الرُّكُوعِ مِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيُّ , وَأَبُو أُسَيْدٍ السَّاعِدِيُّ الْبَدْرِيُّ

 

اب یہی قول امام بیھقی نے اپنی کتاب السنن الکبری میں لکھا ہے

لیکن امام بیھقی نے یہ قول امام بخاری کا جز رفع الیدین کی کتاب کے حوالے سے لکھنے کی بجائے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے ؎

 

2523 – أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُوسَى الْبُخَارِيُّ بِنَيْسَابُورَ ثنا مَحْمُودُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ مَحْمُودٍ الْبُخَارِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ قَالَ: وَقَدْ رُوِّينَا، عَنْ سَبْعَةَ عَشَرَ نَفْسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” أَنَّهُمْ كَانُوا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ عِنْدَ [ص:109] الرُّكُوعِ فَمِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيُّ، وَأَبُو أُسَيْدٍ السَّاعِدِيُّ الْبَدْرِيُّ بلخ۔۔۔۔۔

 

امام بیھقی نے یہ قول امام حاکم سے وہ محمد بن احمد بن موسی سے وہ محمود بن اسحاق(مجہول) سے وہ امام بخاری سے یہ قول بیان کرتا ہے

یاد رہے امام بخاری کی جز رفع الیدین کا بنیادی راوی یہی ہے اب جبکہ محدثین نے امام بخاری کی جز رفع الیدین کو قبول کیا ہے اور اس سے استدلال کیا ہے اسکو امام بخاری کی طرف نسبت متواتر سے ہر دور میں ثابت ہے

 

اب کوئی کہے کہ امام بیھقی کی یہ سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں محمود بن اسحاق مجہول ہے تو یہ بات غلط ہے کیونکہ اسکا مجہول ہونا مضر نہیں کیونکہ اما م بخاری کی کتاب موجود تھی امام بیھقی کے پاس اب بیشک امام بیھقی سے امام بخاری تک درمیان میں مجہول و ضعیف راویان بھی آجائے تو ا س سے کوئی مسلہ نہیں پڑتا

 

دوسری مثال امام ابن حجر عسقلانی سے :

 

امام ابن حجر عسقلانی اپنی تصنیف الموافقہ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں :

 

فأخبرني الحافظ أبو الحسن بن أبي بكر أخبرنا محمد بن أزبك أخبرنا محمد بن عبد المؤمن أخبرنا أبو البركات بن ملاعب أخبرنا أبو الفضل الأرموي أخبرنا أبو الغنائم بن المأمون أخبرنا أبو نصر محمد بن أحمد أخبرنا محمود بن إسحاق الخزاعي حدثنا محمد بن إسماعيل البخاري في كتابه القراءة خلف الإمام حدثنا أبو الوليد هو الطيالسي حدثنا همام حدثنا قتادة عن أبي نضرة عن أبي سعيد الخدري رضي اللَّه عنه قال: أمرنا نبينا -صلى اللَّه عليه وسلم- أن نقرأ بفاتحة الكتاب وما تيسر

 

اب امام ابن حجر نے خود سے متصل سند بیان کی ہے امام بخاری تک جبکہ امام ابن حجر سے پہلے وہی مجہول راوی محمود بن اسحاق موجود ہے پھر امام ابن حجر کہتے ہیں البخاری فی کتابہ القراء

جبکہ یہ کتاب بھی امام ابن حجر کے سامنے موجود تھی امام ابن حجر نے ڈریکٹ اس کتاب سے نقل کرنے کی بجائے خود سے امام بخاری تک اس روایت کو متصل الاسناد بیان کیا کیونکہ یہ کتاب کی اجازت امام ابن حجر نے اپنے شیخ سے انہوں نے اپنے شیخ سے یہاں تک کہ سند امام بخاری تک پہنچی

اب کوئی کہے کہ امام ابن حجر کے شیوخ میں ایک راوی مجہول ہے تو یہ جہالت ہوگی کیونکہ جب امام بخاری کی کتاب ثابت ہے تو امام ابن حجر کے شیوخ میں کوئی مجہول آبھی جائے تو وہ اس روایت کی صیحت کے منافی نہیں کیونکہ کتاب جز رفع الیدین اور خلف الامام للبخاری محدثین کے اصول کے مطابق ثابت ہے بےشک اسکی سند ثابت ہو یا نہ ہو

 

اسی طرح کتاب مناقب ابی حنیفہ ابن ابی العوام میں جو اسناد ہیں جو کہ حدثنی ابی حدثنی ابی (ابن ابی العوام) سے شروع ہوتی ہیں

تو مصنف کے پوتے کے پاس اپنے دادے کی کتاب تھی لیکن چونکہ انہوں نے اپنے والد اور انہوں نے اپنے والد جو مصنف ہیں اس کتاب سے ان سے اجازت لی ہوئی تھی اس کتاب کو روایت کرنے کی تبھی جب یہ کتاب آگے قرات کرائی گئی اور جس نے اسکو لکھا ہے اس نے کتاب کی اصل سند مصنف سے لکھنے کی بجائے مصنف کے پوتے سے لکھی جبکہ یہ دونوں اس کتاب روایات کے راوی نہیں بلکہ کتاب کی سند کے راوی ہیں

 

اور کتاب امام ابن حجر کے بقول جو محدثین کااصول ہے اسکے مطابق ثابت ہے جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر چکے اب جب اس کتاب کی روایات کی سند کی تحقیق کی جائے گی تو مصنف سے اگلے راویوں کی توثیق و تصحیح پیش کرنی ہوگی نہ کہ مصنف یا اس کے بیٹے یا پوتے کی

 

محدث عبدالرزاق جو امام بخاری کے دادا استداد ہیں انکی مشہور کتاب مصنف عبدالزاق ہے

اگر اسکی اسناد دیکھی جائیں تو وہ مصنف کی اپنی سند کی بجائے مصنف کے شاگرد سے شروع ہوتی ہیں یعنی امام عبدالرزاق کا شاگرد جس نے سماع کیا امام عبدالرزاق سے وہ پہلے امام عبدالرزاق کا نام لیتا ہے پھر آگے سند شروع کرتا ہے جبکہ کتاب کے مصنف تو امام عبدالرزاق ہیں

مصنف عبدالرزاق کی اسناد یوں ہوتی ہیں

1 – عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: أَرَأَيْتَ إِنْ غَمَسْتُ يَدَيَّ فِي كِظَامَةٍ غَمْسًا قَالَ: «حَسْبُكَ، وَالرِّجْلُ كَذَلِكَ وَلَكِنْ أَنْقِهَا»

2 – عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ، فِيمَا يُغْسَلُ؟ قَالَ: «نَعَمْ، لَا شَكَّ فِي ذَلِكَ»

7 – عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُدْخِلُ يَدَيْهِ فِي الْوَضُوءِ، فَيَمْسَحُ بِهِمَا مَسْحَةً وَاحِدَةً الْيَافُوخَ قَطْ “

(مصنف عبدالرزاق )

 

جبکہ عبدالرزااق خود مصنف ہیں تو انکا نام کیوں آرہا ہے جیسا کہ عام کتب میں ایسا نہیں ہوتا تو یہ جو شاگرد اپنے شیخ سے سماع کر کے کتاب لیتا ہے تو وہ خود سے پہلے مصنف تک پھر آگے کی سند بیان کرتا ہے جبکے اس شاگرد سے پہلے مصنف کی کتاب اسکے سامنے موجود ہوتی ہے

 

لیکن زبیر زئی نے اپنی جہالت یا احناف سے بغض کی وجہ سے اس کتاب پر وہ باطل فضول اعتراضات کیے کیونکہ اسکو معلوم تھا کہ اس کتاب میں مضبوط اسناد سے امام اعظم کی توثیق و مداح ثابت ہو جائے گی جمہور محدثین سے تو اس نے کتاب پر ہی حملہ کر دیا

 

اسی طرح کئی کتب ہیں جنکی اسناد ثابت ہی نہیں ہیں یا مجہولین ہیں محدثین تو استدلال کرتے ہیں لیکن وہابیہ بھی ایسی کتب قبول کرتے ہیں

جبکہ اس کتاب کی سند بھی لا باس بہ ہے اور جمہور محدثین کے منہج پر بھی ثابت ہے

 

غیر مقلدین مندرجہ ذیل کتب کو بغیر اسناد کے قبول کرتے ہیں

کتاب السنہ امام احمد بن عبداللہ

کتاب الضعفاء للعقیلی جبکہ اسکے مرکزی راوی کو زبیر علی زئی مجہول کہتا تھا

کتاب الرد علی الزنادقۃ والجھمیۃ،

کتاب الحرف للسجزی، ک

تاب الإبانی عن الأصول الدینۃ

 

انکی اسناد ثابت نہیں لیکن چونکہ زبیر زئی کو احناف سے پیدائی ویر تھا جسکو لیکر وہ مرا تھا تو اسکا کوئی علاج نہیں اور کتاب مناقب ابی حنیفہ سے ہر دور کے محدثین مفسرین مورخین و شارحین استدلال بھی کرتے آئے ہیں اس کتاب کا سماع بھی کرتے آئے ہیں شروع سے اب تک

 

تحقیق : دعا گو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی ۲فروری ، ۲۰۲۰