میسون بنت بحدل
میسون بنت بحدل /مختلف آراء اور نوعیت_مسئلہ
تاریخی روایات کی بنیاد پر بعض اکابر مثلا مفتی اعظم ہند مصطفیٰ رضا خان صاحب نوری رحمہ اللّٰہ اور برادر رضا مولانا حسن رضا خان صاحب رحمہ اللّٰہ نے امام حسن کو زہر دینے کی نسبت آپ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث کی طرف کی اور بعض دوسرے علماء یعنی صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مرادآبادی رحمہ اللّٰہ اور فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمہ اللّٰہ نے اس نسبت کی نفی کی ۔ جنہوں نے یہ نسبت کی انہوں نے تاریخی روایات کی شہرت کو ملحوظ رکھا اور جنہوں نے جعدہ سے اس زہر خوانی کی نفی کی انہوں نے سند صحیح کے فقدان کو سامنے رکھا کہ بغیر سند صحیح کسی کی طرف کبیرہ گناہ کی نسبت درست نہیں ۔
لیکن ان بزرگوں نے اس قضیہ کو کسی مجادلے کا پیش خیمہ نہیں بننے دیا ۔ ان اکابر کے مابین یہ مسئلہ ایک علمی اختلاف کی حد تک محدود رہا ۔
ٹھیک اسی طرح اب میسون بنت بحدل کے بارے اختلاف پیدا ہو گیا جو میرے خیال سے کوئی بڑی بات نہیں تھی ، اسے ایک علمی مسئلہ کہ کر بھی حل کیا جا سکتا تھا لیکن رفض و نصب کی اسناد تقسیم کرنے کا جو چلن عام ہو چکا ہے بھلا کب کسی کو سکون سے بیٹھنے دیتا ، لہذا جو تاریخی روایات کی بنا پر ان کے نصرانی ہونے کے قائل تھے مثلا تفسیقی پنڈوی احباب انہوں نے قائلین ایمان کو ناصبی کہ کر اپنے بغض معاویہ سے جلتے سینوں کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام کوشش کی اور جو قائلین ایمان تھے انہوں نے قائلین نصرانیت کو بلا کسی تفریق کے مبغض حضرت معاویہ بنا ڈالا اب چاہے وہ حضرت معاویہ کو خلیفہ راشد ماننے والے ہاشمی میاں ہی کیوں نہ ہوں ۔۔۔۔
میں کہتا ہوں جب جعدہ بنت اشعث کا معاملہ اختلافی ہو سکتا ہے تو میسون بنت جحدل کا معاملہ کیوں نہیں ۔۔۔ جبکہ معمولی فرق کے علاؤہ ساری صورت حال ایک جیسی ہے ۔
در اصل میسون بنت بحدل کو نصرانیہ ماننے والے دو طرح کے لوگ ہیں ایک گروہ کی ان سے نفرت کا سبب ان کے نصرانیہ ہونے سے زیادہ ان کا حضرت معاویہ کی بیوی ہونا ہے یہ وہی طبقہ ہے جسے آپ آج کل ناصبیت کے فتاوی تقسیم کرتا ہوا پائیں گے ،جنہیں حضرت معاویہ سے منسوب کسی فضیلت کا بیان بغض اہل بیت معلوم ہوتا ہے اور دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو حضرت معاویہ سے تو حسن عقیدت رکھتے ہیں البتہ تاریخی روایات کے تائیدی دلائل ہونے کے ساتھ ساتھ میسون کا یزید کی ماں ہونا بھی دیکھ رہے ہیں ۔ اس مسئلہ میں قائلین ایمان بعض کتب میں میسون سے محدثین کے روایت لینے، انہیں تابعیہ لکھنے اور کفر و ارتداد پر باقی رہنے کی پختہ دلیل نہ ہونے کی بنا پر انہیں مومنہ کہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں ۔
بہرحال حالات یہ ہیں کہ علم میں رسوخ مفقود ہے، جگہ جگہ التباس کی چھاؤنیاں ہیں، تشکیک نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ۔۔۔ ایسے میں رب سے ہی التجا ہے کہ وہ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔
ف۔م زعیم
29/08/2021