مقدمہ : حجیت حدیث
حجیت حدیث
اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی پیروی کا حکم دیا چنانچہ ارشاد فرماتا ہے
أطيعوا الله وأطيعوا الرشول. (آل عمران: 36) اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔
ما اتكم الرسول فخذوہ وما نهكم عنه فانتهوا۔(الحشر:7)رسول تم کو جوحکم دیں وہ لے لو اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جاؤ۔”
قل إن کنتم تحبون الله فاتبعونی( آل عمران:۳۱) آپ فرما دیجئے کہ تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔
لقد كان لكم في رسول الله أسوۃ حسنة. (الاحزاب:۲۱) تمہارے اعمال کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت اور آپ کے افعال کی اتباع قیامت تک کےمسلمانوں پر واجب ہے اب سوال یہ ہے کہ بعد کے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور آپ کے افعال کا کس ذریعہ سے علم ہوگا۔ الله تعالی نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو ہمارے لیے نمونہ بنایا ہے پس جب تک حضور کی زندگی ہمارے سامنے نہ ہو ہم اپنی زندگی کوحضور کے اسوہ میں کیسے ڈھال سکیں گے اور جب کہ ہمیں اسوہ رسول پر اطلاع صرف احادیث سے ہی ممکن ہے تو معلوم ہوا کہ الله تعالی کے نزدیک جس طرح صحابہ کے لیے بنفس نفیس حضور کی ذات ہدایت تھی اسی طرح ہمارے لیے حضور کی احادیث ہدایت ہیں اور اگر احادیث رسول کوحضورکی دی ہوئی ہدایات اور آپ کے نمونہ کے لیے معتبر ماخذ نہ مانا جائے تو اللہ تعالی کی حجت بندوں پر ناتمام رہے گی کیونکہ اللہ تعالی نے رشد و ہدایت کے لیے صرف قرآن کو کافی قرار نہیں دیا بلکہ قرآن کے احکام کے ساتھ ساتھ رسول کے احکام کی اطاعت اور اس کے افعال کی اتباع کوبھی لازم قرار دیا ہے اور اس کے اقوال اور افعال کو جانے کے لیے احادیث کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
احادیث شریف کو اگر معتبر نہ مانا جائے تو نہ صرف یہ کہ حضور کی دی ہوئی ہدایات سے ہم محروم ہوں گے بلکہ قرآن کریم کی دی ہوئی ہر بات سے بھی مکمل طور پر مستفید نہیں ہوسکیں گے کیونکہ الله تعالی نے ہدایت کے لئے قرآن نازل فرمایا لیکن اس کے معانی کا بیان اور اس کے احکام کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دی چنانچہ ارشادفرمایا:
وانزلنا إليك الذكر لتبين للناس ما نزل الیهم(نحل: 44) ہم نے آپ کی طرف ذکر (قرآن کریم) نازل فرمایا تاکہ آپ لوگوں سے بیان کریں جو ان کی طرف احکام نازل کیے گئے
ويعلمهم الكتاب والحكمة. (آل عمران: 164)اور وہ رسول مسلمانوں کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔
ممکن ہے کوئی شخص یہ کہدے کہ آیات کے معانی کا بیان اور کتاب و حکمت کی تعلیم صرف صحابہ کے لیے تھی تو میں اول یہ کہوں گا کہ اسلام صرف صحابہ کانہیں بلکہ قیامت تک کے مسلمانوں کا دین ہے اس لیے جس ہدایت کی انہیں ضرورت تھی ہمیں بھی ضرورت
ثانیا: صحابہ کرام جب اپنی بلندی مقام اور جناب رسالت مآب سے قرب کے باوجود قرآنی احکام کو سمجھنے کے لیے حضور کے بیان اور آپ کی تعلیم کے محتاج تھے تو بعد کے لوگ تو بدرجہ اولی اس بیان اورتعلیم کی طرف محتاج ہوں گے۔
ثالثا : قرآن کریم میں الله تعالی فرماتا ہے:
هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ(۲) وَّ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۳)(الجمعۃ:۳-۲)
وہ ذات جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک بڑی شان والا رسول بھیجا جو ان پر الله کی آیات تلاوت کرتا ہے اوران کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ وہ لوگ پہلے کھلی گمراہی میں تھے اور بعد کے لوگوں کو جو ابھی پہلوں کے ساتھ لاحق نہیں ہوئے۔
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی تعلیم دی ہے وہ صحابہ کے لیے بھی ہے اور بعد کے لوگوں کے لیے بھی پس ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کریم کی تعلیم دینا اور آیات کے معانی بیان کرنا جس طرح صحابہ کے لیے تھا اسی طرح قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے بھی ہے اور اگر احادیث کو معتبر نہ مانا جائے تو بعد کے لوگوں کے لیے حضور کی تعلیم اور تزکیہ کا کس طرح ثبوت ہوگا اور اس آیت کا صدق کیسے ظاہر ہوگا۔
آپ ہی سوچیے ! اگر حضور نہ بتلاتے تو میں کیسے معلوم ہوتا کہ لفظ صلوہ سے یہ ہیبت مخصوصہ مراد ہے مؤذن کی اذان سے لے کر امام کے سلام پھیرنے تک نماز اور جماعت کی تفصیل اور کیونکر معلوم ہوتی اس طرح حج اور عمر کا بیان احرام کہاں سے اورکس دن باندھنا ہے وقوف عرفہ طواف زیارت وداع ان تمام احکام کی تفصیل اور تعیین قرآن میں کہیں نہیں ملتی حد یہ ہے ۔ قرآن میں یہ بھی مذکور نہیں کہ حج کسی دن ادا کیا جائے زکوة کا صرف لفظ قرآن میں مذکور ہے لیکن عشر اور زکوة کی کسی تفصیل کا قرآن میں بیان نہیں، پھر ان کی شہری ہیئت کذائی جس سے فرائض واجبات اور آداب کی تمیز ہو قرآن میں کہیں نہیں ملتی۔
قرآن کریم کے بیان کردہ ان تمام احکام کی تفصیل او تعیین صرف حضور سے ملتی ہے عبد رسالت میں صحابہ کو یہ بیان زبان رسالت سے حاصل ہوا اور بعد کے لوگوں کو یہی بیان احادیث نبویہ سے حاصل ہورہا ہے اور جو شخص ان احادیث کو معتبر نہیں مانتا اس کے پاس قرآن کریم کے مجمل اور مبہم احکام کی تفصیل او تعین کے لیے کوئی ذریعہ نہیں ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کو حلال اور حرام کیا قرآن میں کہیں ان کا ذکر نہیں ہے۔ ان کا ذکر صرف احادیث رسول سے ہی ممکن ہے حضور نے شکار کرنے والے درندوں اور پرندوں کو حرام کیا دراز گوش اور حشرات الارض کو حرام کیا اور ہمارے لیے ان احکام کاعلم صرف احادیث رسول سے ہی ممکن ہے اور اگر احادیث رسول کو حجت نہ مانا جائے تو حلت و حرمت کے تمام احکام کے لیے شریعت اسلامی متکفل نہیں ہوگی۔
قرآن کریم کے نفس مضمون کو سمجھنے کے لیے بھی ہمیں احادیث کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ قرآن مجید کی بعض آیات کا نزول کسی خاص واقعہ سے متعلق ہوتا ہے بعض دفعہ کسی خاص سوال کے سبب سے کوئی آیت نازل ہوتی ہے اور بعض مرتبه مشرکین یا منافقین کی کسی بات کے رد میں کوئی آیت نازل ہوتی ہے کبھی کسی آیت میں عہد رسالت میں ہونے والے کسی واقعہ کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور بھی صحابہ کے کسی عمل پر تنبیہ یا اس کی تائید میں کوئی آیت نازل ہوتی ہے لہذا جب تک اس قسم کی تمام آیات کے پس منظر اور اسباب نزول کا علم نہ ہو ان کا کوئی واضح معنی سمجھ میں نہیں آتا اور اگر فہم قرآن کے لیے احادیث نبوی کو ایک معتبر ماخذ اور حجت نہ مانا جائے تو قرآن مجید کی بعض آیات ایک چیستان اور معمہ بن کر رہ جائیں گی۔