تدوین حدیث:

عام طور پر منکرین حدیث یہ کہتے ہیں کہ احادیث کی تدوین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے اڑھائی سو سال بعد کی گئی ہے اس لیے کتب احادیث قابل اعتبار نہیں ہیں، لیکن ان کا یہ قول سخت مغالطہ آفرینی پر مبنی ہے کیونکہ احادیث رسول کی حفاظت اور کتابت کے سلسلہ میں عہد رسالت سے لے کر اتباع تبع تابعین تک پورے تسلسل اور تواتر سے کام ہوتا رہا ہے اور اڑھائی سو سال کے اس طویل عرصہ بغیر کسی وقفہ میں بھی اس کام کا انقطاع نہیں ہوا۔

رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں متعدد صحابہ کرام نے احادیث کوقلم بند کرنا شروع کر دیا تھا امام بخاری اپنی صحیح میں روایت کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل خطبہ دیا۔ یمن ایک شخص (ابوشاه ) نے آکرعرض کیا: ” اكتب لی یا رسول الله يا رسول اللہ! میرے لیے یہ خطبہ لکھ دیجیے: آپ نے حکم دیا:” اكتبوا لابي فلان اس شخص کے لیے (یہ خطبہ ) لکھ دو ۔ ( صحیح البخاری ج 1 ص 22 طبع کراچی)

اسی طرح حضرت عبد الله بن عمرو بن عاص کو احادیث لکھنے کی عام اجازت تھی انہی سے روایت ہے

عبدالله بن عمرو قال كنت أكتب كل شيء أسمعه من رسول الله ﷺ ،ارید حفظہ  فنهتني قريش وقالوا : تكتب کل شیء تسمعہ رسول الله صلى الله عليه وسلم بشر یتکلم في الغضب والرضا؟ فأمسكت عن الکتب،فذكرت ذلك الی رسول الله صلى الله علیہ وسلم فاوما باصبعہ فیہ فقال اكتب، فوالذي نفسي بيده، ما یخرج منه إلا حق سنن ابودائود 3646 بیروت سنن ابودائود  ج ۲ ص 158مطبع مجتبانی پاکستان 

حضرت عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حفاظت کے خیال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہر بات لکھ لیتا تھا پس بعض قریشی نے مجھے منع کیا اور کہا: تم حضور سے سن کر ہر بات لکھ لیتے ہو حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک بشر ہیں آپ کبھی ناراض کبھی خوش ہوتے ہیں اور یہ سن کر میں نے لکھنا چھوڑ دیا جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے اس واقعہ کا ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اپنے دہن قدس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: لکھا کرو قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اس منه سے حق کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  نے بھی حضرت عبد الله بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما  کے احادیث لکھنے کا تذکرہ کیا ہے فرماتے ہیں:

ما من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم احد اکثر حدیثا عنه مني الا ما كان من عبد الله بن عمرو فانه كان يكتب ولا اكتب .صحیح البخاری ج ۱ ص ۲۲ مطبع کراچی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ میں مجھ سے یہ کسی کے پاس  حضور کی احادیث محفوظ نہ تھیں سوا عبد اللہ بن عمرو کے کیونکہ وہ احادیث لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔

” ابوداؤ  ” اور ” بخاری کی ان روایتوں سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت عبد الله بن عمرو احادیث قلم بند کیا کرتے تھے رہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ کی وجہ سے ان کا حافظہ بہت تیز ہو گیا تھا اس وجہ سے وہ احادیث نہیں لکھتے تھے تاہم ان کے پاس ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کتب اورصحائف کی شکل میں بھی محفوظ تھیں چنانچہ عمرو بن امیہ بیان کرتے ہیں:

تحدث عند ابي هريرة بحديث فاخذ بیدی الى بيته فارانا كتبا من حديث النبي صلى الله عليه وسلم وقال هذا هو مكتوب عندی فتح الباری1 ص ۲۱۷ طبع معمر )

حضرت ابو ہریرہ کے سامنے ایک حدیث پر گفتگو ہوئی تو وہ  میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور ہمیں (احادیث کی) کتابیں دکھائیں اور کہا: دیکھو وہ حدیث میں سے پاس لکھی ہوئی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوہریرہ کے پاس ان کی تمام مرویات لکھی بوئی محفوظ تھیں حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں۔۔

ابوہریرہ ابتداء زمانہ رسالت میں احادیث نہیں لکھتے تھے حضور کے وصال کے بعد انہوں نے احادیث کو لکھا لیا اسی زمانہ میں

وہ کسی اور شخص سے ان احادیث کولکھواتے رہے ہوں گے اور حضرت انس نے تو احادیث لکھ کر حضور کو سنانے کا شرف بھی حاصل کرلیا تھا

چنانچہ قتادہ روایت کرتے ہیں:

كان يملي الحديث حتى اذ اكثر عليه الناس بمجمال کتب فالقاها ثم قال هذه احادیث سمعتها و كتبتها عن رسول الله وعرضتها عليه.تفسیر العلم ص 96-95

حضرت انس احادیث لکھوایا کرتے تھے اور جب لوگ زیادہ تعداد میں آئے تو وہ اپنا صحیفہ لے کر آئے اور اس کوان سامنے رکھ کر فرمایا: یہ وہ احادیث ہیں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر لکھا اور انہیں میں آپ پر پیش کر چکاہوں۔

 

حضرت عبد اللہ بن عمرو بھی احادیث کو لکھ کر صحائف میں محفوظ رکھا کرتے تھے چنانچہ روایت ہے

یروی عن عبد الله بن عمرو كان خرج الى السوق نظر في كتبه وقد اكد الراوي ان كتبه هذه كانت في الحديث.( الجامع الاخلاق الراوی و آداب السامع ۱۰۰)

روایت ہے کہ حضرت عبد الله بن عمرو جب بھی بازار جاتے تو اپنی کتابوں کو دیکھ لیتے تھے راوی تائیدا کہتے ہیں۔ ان وہ کتابیں احادیث پر مشتمل تھیں۔

حضرت عبد الله بن عمرو بن عاص حضرت ابوہریرہ اور حضرت انس بن مالک کے بارے میں آپ کی نظر سے مستحکم حوالے گزچکے ہیں کہ کہ یہ حضرات عہد رسالت میں احادیث کو صحائف میں لکھ کر محفوظ کر لیا کرتے تھے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں :

كان عند رسول الله صلى الله عليه و سلم ناس من أصحابه و انا معهم وانا اصغرا لقوم فقال النبي صلى الله عليه وسلم من کذب علی متعمدا فليتبوأ مقعده من النار فلما خرج القوم قلت كيف تحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد سمعتم ما قال وانتم تنهمكون في الحديث عن رسول الله صلی الله عليه و سلم فضحكوا وقالوا يا ابن اخينا ان كل ما سمعنا منه عندنا في كتاب .مجمع الزوائد ج ۱ ص ۱۵۱/۱۵۲ بیروت 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ حاضر تھے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا جب کہ میں ان سب سے عمر میں کم تھا نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جو شخص میری جھوٹ منسوب کرلے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم مین بنالے جب لوگ باہر نکلے تومیں نے ان سے کہا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث کیسے بیان کرتے ہو ، جب کہ تم آپ کا ارشاد سن چکے ہو اور آپ لوگ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ کثرت احادیث بیان کرتے ہیں یہ سن کر وہ لوگ ہنسے اور کہنے لگے اے بھتیجے ہم لوگ جو بیان کرتے ہیں وہ سب ہمارے پاس لکھا ہوا محفوظ ہے ۔

ان احادیث سے یہ ظاہر ہو گیا کہ احادیث کو لکھنے اور محفوظ کرنے کا کام عہد رسالت میں شروع ہو چکا تھا اور صحابہ کرام رسول الله صلى اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کے افعال اور احوال لکھ کرقلم بند کیا کرتے تھے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ بعض احادیث میں لکھنے کی جو ممانعت آئی ہے وہ بعض مواقع کے ساتھ مخصوص ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صورتوں میں لکھنے سے منع فرمایا تھا جن میں قرآن اور حدیث کے اشتباه کے احتمال تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد دورصحابہ میں تابعین نے صحابہ کی مرویات کولکھ کر محفوظ کرنا شروع کیا حضرت ابو ہریرہ جن سے پانچ ہزار تین سو چوہتر(۵۳۷۴) احادیث مروی ہیں انہوں نے بے شمار شاگرد تیار کیے اور ان لوگوں نے ان احادیث کو لکھ کر محفوظ کیا اور یہ سلسلہ روایت آگے بڑھایا چنانچ مسند داری میں ہے کہ آپ کے شاگردوں میں سے بشیر بن نہیک نے آپ کی روایات کو لکھ کر محفوظ کر لیا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے ایک ہزار چھ سو ساٹھ (۱۲۲۰) احادیث مروی ہیں ان کی روایات کو دوسرے شاگردوں کے علاوہ کریب نے محفوظ کر لیا تھا۔ (طبقات ابن سعد ج ۵ ص16 وار صادر بیروت) اور حضرت انس جو کہ دو ہزار دوسو چھیاسی (2286) احادیث کے راوی ہیں ان کے بارے میں مسند داری میں ہے کہ ان کی مرویات کو ابان نے لکھ کر محفوظ کر لیا تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جو دو ہزار دوسودس (2210) احادیث کی روایت کرتی ہیں ان کی احادین عروہ بین الزبیر نے لکھ کر محفوظ کر لیا تھا ۔ ( الکفایہ ص ۲۲۹) حضرت عبد الله بن عمر جو ایک ہزار چھ سو تیس (1630) احادیث کی روایت کرتے ہیں ” طبقات ابن سعد اور داری میں ہے کہ ان کی روایات کو نافع نے لکھ کرمحفوظ کر لیا تھا اور حضرت جابر جو ایک ہزار پانچ سو چالیس (1540 ) احادیث کے راوی ہیں ان کی مرویات کو قتادہ بن دعامہ سدوسی نے لکھ کرمحفوظ کرلیا تھا۔ طبقات ابن سعد ج 7 ص 73 دارصادر بیروت)

مذکورہ الصدر سطور میں چند مثالیں پیش کی ہیں اور صحابہ کرام سے احادیث کا سماع اور روایت کرنے والے تمام حضرات احادیث کو ضبط تحریر میں لے آتے تھے۔ پہلی صدی ہجری کے اخیر تک اسی طرح متفرق طور پر کتابت کے سہارے تدوین حدیث کا کام آگے بٹھتا رہا احادیث کے یہ صحائف اور نو شتے کسی نقطہ پر مشترک اورکسی جہت سے مجمتع نہ تھے بغیر کسی ترتیب کے تابعین کرام نے اپنی اپنی مرویات کو اپنے سینوں اور صحیفوں میں محفوظ کر رکھا تھا یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا زمانہ خلافت آیا اور انہوں نے احادیث کو یکجا کرنے کا ارادہ کیا چنانچہ اس کام کے لیے انہوں نے معتمد اور مستند علماء کی ایک کمیٹی مقرر کی، جن میں ابوبکر بن محمد بن عمرو من حزم قاسم بن محمد بن ابی بکر اور ابوبکر محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد الله بن شہاب زہری کے اسماء خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

عمر بن عبد العزیز نے مختلف علاقوں سے احادیث کا لکھا ہوا ذخیرہ جمع کیا اور ابن شہاب زہری نے ان احادیث کو ترتیب دیا تہذیب سے منظم اور منضبط کیا۔ (تدریب الراوی ص ۷۳) احادیث کو جمع اور منظم کرنے کے ساتھ ساتھ حدیث کو سند کے ساتھ بیان کرنے کی ابتداء بھی ابن شہاب زہری نے کی ہے۔ اسی وجہ سے ان کوعلم اسناد کا واضع کہا جاتا ہے۔

احادیث کی ترتیب اور تہذیب کا جو کام ابن شہاب زہری نے شروع کیا تھا اس کام کو ان کے مایہ ناز تلامذه برابر آگے بڑھاتے رہے یہاں تک کہ دوسری صدی کے اخیر میں ان کے ایک نامور شاگرد امام مالک بن انس اصحبی نے احادیث کو باب وارترتیب دے کر پہلا مجموعہ حدیث” موطا‘‘ کے نام سے پیش کردیا۔

“موطا امام مالک‘ کے علاوہ امام اعظم نے اپنی مرویات کو کتاب الاثار کے نام سے پیش کیا جس کو ان کے لائق اور قابل صدفخرتلانده نے الگ الگ روایت کیا ہے ان حضرات کے علاوہ دوسری صدی کے جن دوسرے متعدد بزرگ مصنفین نے فن حدیث میں کتابیں پیش کی ہیں ان میں سے بعض کی کتابیں یہ ہیں :سنن ابوالولید ۵۱اھ جامع سفیان ثوری 161 ھ مصنف ابی سلمہ ۱۲۷ھ مصنف ابن سفيان ۱۹۷ ھ جامع سفیان بن عینیہ ۱۹۸ھ اور تیسری صدی کے جن مصنفین نے حدیث کی کتابیں تصنیف کی ہیں ان میں سے بعض حضرات کی کتابیں یہ ہیں: کتاب الام للشافعی ۲۰۴ھ مسند احمد بن حنبل، 241 ھ الجامع صحیح البخاری 156 ھ الجامع المسلم 261 ھ سنن ابوداؤ د 275 ھ الجامع للترمذی 279 ھ سنن ابن ماجه ۲۷۳ھ۔

مضبوط اور مستحکم حوالہ جات کی روشنی میں ہم نے آپ کے سامنے عہد رسالت سے لے کر صحاح ستہ کے مصنفین تک تدوین حدیث کا ایک مربوط جائزہ پیش کر دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمانہ رسالت سے لے کر اتباع تبع تابعین تک ہر دور میں احادیث کو قلم بند کیا جاتا رہا اور سینوں سے لے کر صحیفوں تک ہر طرح سے حدیث کی حفاظت کی جاتی رہی نیز ہر دور میں لوگوں نے اپنے زمانہ کے خصوصی تقاضوں اور تصنیف و تالیف کے رجحانات کو سامنے رکھ کر احادیث کی تدوین کی یہاں تک کہ تیسری صدی میں مصنفین صحاح ستہ نے پہلے لوگوں کی خوبیوں کو نئے اضافوں کے ساتھ ضم کر کے ایک جامع اسلوب کے ساتھ اپنی تصانیف کو پیش کیا جن کا تفصیلی تعارف اور تبصرہ اس کتاب کے آئندہ ابواب میں پیش کیا جا رہا ہے۔ حدیث کی ضرورت جیت اور تدوین پر بے کرنے کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کی تعریف اور اس کی اقسام وغیرہ پر بھی گفتگو کرلی جائے۔