خبر واحد کے انکار کا حکم
مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما
خبر واحد کے انکار کا حکم
خبر واحد کاانکار الگ ہے اور کسی دلیل کے سبب خبرواحد کا ترک الگ ہے۔ مجتہدین کرام کے کسی دلیل کے سبب کسی خبر واحد کوترک کرتے ہیں۔اس کی تفصیل امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز نے ”الفضل الموہبی اذاصح الحدیث فہو مذہبی“میں رقم فرما دی ہے۔
خبرواحد کے انکار کی متعدد صورتیں:
خبر واحد کے انکار کی متعدد صورتیں ہیں۔وہ صورتیں اوراحکام مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)خبر واحد سے ثابت ہونے والے کسی حکم کا انکار: یہ انکار فسق وگناہ ہے۔
(2)راویوں کی تکذیب کی وجہ سے کسی خبر واحد کا انکار:یہ فسق اور ضلالت ہے۔
(3)اگر اس وجہ سے انکار کرے کہ یہ حضور اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام کا قول ہے۔یہ اللہ تعالی کا فرمان نہیں ہے تو یہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بے ادبی اورکفر ہے۔
(4)خبر واحد کی حجیت کا انکار:خبر واحد کی حجیت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے اجماع قطعی منصوص سے ثابت ہے۔ یہ ضروریات اہل سنت سے ہے۔ اس کے انکار کا حکم وہی ہے جو ضروریات اہل سنت کے انکار کا حکم ہے۔
خبرواحد سے ثابت شدہ حکم کا انکار
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”عالمگیری میں ہے:
(من انکر خبر الواحد لا یکفر غیر انہ یاثم بترک القبول ہکذا فی الظہیریۃ)(فتاویٰ رضویہ:جلد سوم:ص280-رضا اکیڈمی ممبئ)
تر جمہ:جو خبر واحد کا انکار کرے، وہ کافر نہیں، مگر وہ اس کو قبول نہ کرنے کے سبب گنہ گار ہوگا۔ایسا ہی ظہیریہ میں ہے۔
راویوں کی تکذیب کے سبب انکار
(۱)قال العلامۃ البدایونی:(یَکفُرُ الشَّاہِدُ بِاِنکَارِ اِیجَابِ صَدَقَۃٍ بِسِمَاعِہٖ مِن فِیہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم-وَیُفَسَّقُ الغائب وَیُضَلَّلُ-لِاَنَّہٗ لَمَّا لَم یَسمَعہُ من فیہ صلی اللّٰہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ-لَم یَکُن ثُبُوتُہٗ قَطعِیًّا-فَلَم یَکُن اِنکَارُہٗ تَکذِیبًا لَہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلم-بَل لِلرُّوَاۃِ وَتَغلِیظًا لَہُم-وہو فِسقٌ وَ ضَلَالٌ،لا کُفرٌ-اَللّٰہُمَّ اِلَّا اَن یَکُونَ اِستِخفَافًا لِکَونِہٖ انما قالہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم-ولم ینزل فی القراٰن صَرِیحًا-فَیَکفُرُ لاستخفافہ بجناب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم)(المعتقد المنتقد: ص212-المجمع الاسلامی مبارک پور)
توضیح:(الف)راویوں کی تکذیب کے سبب خبرواحد کا انکارفسق وضلالت ہے۔
(ب)اگر خبرواحد کا انکار اس وجہ سے کیا کہ یہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشادمبارک ہے۔یہ قرآن مقدس میں نازل نہیں ہوا تویہ حضوراقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام کا استخفاف اور کفر ہے۔ اگر کسی نے حدیث موضوع کو حدیث نبوی اعتقاد کرکے صرف اس لیے انکار کیا کہ یہ قول نبوی ہے،فرمان الٰہی نہیں تو وہ استخفاف کے سبب کافر ہے۔
حدیث نبوی کا استخفاف:
امام احمدرضا قادری نے رقم فرمایا کہ جو حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے حدیث نبوی کو نہیں سنا،پھر اس تک خبرواحد کے طورپرحدیث نبوی پہنچی اوراس نے حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تکذیب کے قصدسے حدیث نبوی کا انکار کیا تویہ کفر ہے،بلکہ حدیث موضوع کو بھی حدیث نبوی سمجھ کر انکار کیا تو کافر ہے،کیوں کہ استخفاف نبوی موجود ہے اور حضواقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تنقیص وبے ادبی کفر ہے۔
(۲)قال الامام احمد رضا تحت قول الماتن(دون الغائب):
(لَا نُکَفِّرُہٗ لاحتمال انہ لم یثبت عندہ-اَمَّا اِذَا عَلِمَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنہُ اَنَّہٗ یَعلَمُ مَجِیءَ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بہذا الامر-ثُمَّ یُنکِرُہٗ تَکذِیبًا لَہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلم-فَہُوَ کَافِرٌ عِندَ اللّٰہِ تَعَالٰی قَطعًا-وَاِن کَانَ الحَدِیثُ حَدِیثَ اٰحَادٍ-وَلَو ضَعِیفًا-بَل وَلَوسَاقِطًا-بَل وَلَو مَوضُوعًا-کَمَا قَدَّمنَا- لِاَنَّ المَنَاطَ ہُوَ تَکذِیبُہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِزَعمِہٖ قَولَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم-واِن لَم یَکُن مَا زَعَمَہٗ قَولَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،قَولَہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الواقع-وَہٰذَا ظَاہِرٌ جِدًّا)
(المعتمد المستند:ص211-المجمع الاسلامی مبارک پور)
توضیح:کسی کو حدیث نبوی خبرواحد کے طورپر پہنچی،اور اس نے انکار کیا تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ یہاں احتمال ہے کہ وہ حدیث اس کے نزدیک ثابت نہ ہو۔اگر وہ اسے حدیث نبوی سمجھ کر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تکذیب کے قصدسے انکار کرے تووہ عند اللہ قطعی کافر ہے،اگر چہ وہ حدیث خبرواحد،حدیث ضعیف وساقط ہو، بلکہ حدیث موضوع کوبھی حدیث نبوی سمجھ کر انکار کرے تو بھی کافر ہے،کیوں کہ تکذیب نبوی ہے۔
(۳)قال الامام احمد رضا القادری:(فمن رد حدیث آحاد صحیحا، بل ولوضعیفا-بل ولو ساقطا-بل ولوموضوعا زعما منہ انہ کلامہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فیردہ قاصدا رد خبرہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فانہ یکفر قطعا بقصدہ السیء-فمناط الکفر ہذا،وان لم یکن الخبر خبرہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم)(المتعمد المستند: ص153-152-مبارک پور)
توضیح:اگر کسی نے کسی امر کوضروریات دین میں سے اعتقاد کرکے انکار کیا تو کافر ہے،اگرچہ وہ ضروریات دین میں سے نہ ہو، کیوں کہ یہاں ارادۂ کفر،استخفاف بالدین اور ضروری دینی کے انکار کا قصد وعزم پایا گیا اورعزم کفر واستخفاف بالدین مستقل طورپر کفرہے، گرچہ وہاں کسی ضروری دینی کا انکار نہ پایا جائے۔
اسی طرح کسی نے حدیث صحیح، یا حدیث ضعیف،یا حدیث موضوع کو کلام نبوی سمجھ کر اس لیے قبول نہ کیا کہ یہ ارشادخداوندی نہیں،بلکہ فرمان نبوی ہے توایسا شخص کافر ہے،کیوں کہ اس میں حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تنقیص ہے۔
خبرواحد کی حجیت کا انکار
صدر الشریعہ بخاری نے رقم فرمایا:(وربما یستدل بالاجماع وہو انہ نقل من الصحابۃ وغیرہم الاستدلال بخبر الواحد وعملہم بہ فی الوقائع التی لاتکاد تحصی وتکرر ذلک وشاع من غیر نکیر-وذلک یوجب العلم عادۃ باجماعہم کالقول الصریح-وقد دل سیاق الاخبار علی ان العمل فی تلک الوقائع کان بنفس خبر الواحد-وما نقل من انکارہم بعض اخبار الاحاد انما کان عند قصور فی افادۃ الظن ووقوع ریبۃ فی الصدیق)
(التوضیح:جلدددوم:ص 7-دار الکتب العلمیہ بیروت)
توضیح: حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہمیشہ خبر واحدسے استدلال کرتے رہے۔کسی نے انکار نہیں،پس خبرواحد کا دلیل شرعی ہونا اجماع صحابہ سے ثابت ہے۔اس امر میں اجما ع منصوص نہیں ہے،لیکن یہ اجماع سکوتی کی منزل میں نہیں،بلکہ اجماع منصوص کے حکم میں ہے،کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین خبر واحد سے استدلال کر تے رہے،اور اس بارے میں کسی صحابی کا انکار منقول نہیں۔جب قرینہ یہ ظاہر کرے کہ سکوت کا سبب اتفاق ہے تو یہ اجماع منصوص کے حکم میں ہے۔
علامہ بحر العلوم فرنگی محلی نے اجماع سکوتی سے متعلق رقم فرمایا:(الاجماع الذی وقع عن سکوت ولا قرینۃ تدل قطعا علی ان السکوت للرضا لاحتمال عدم الموافقۃ)(فواتح الرحموت:جلددوم:ص296-دارالکتب العلمیہ بیروت)
توضیح: اجماع سکوتی یہ ہے کہ کوئی قرینہ اس پر دلالت نہ کرے کہ سکوت رضا کے سبب ہے،کیوں کہ عدم موافقت کا احتمال ہے۔جب صحابہ کرام کے اجماع سکوتی میں کوئی قرینہ اتفاق کو بتائے تویہ اجماع منصوص کی منزل میں ہے۔ خبر واحد کی حجیت میں یہی اجماع ہے۔
علامہ بحر العلوم نے رقم فرمایا:(ولعل مراد صاحب ”التحریر“تسویۃ السکوتی الذی علم بقرائن الحال ان سکوت من سکت لاجل الموافقۃ علما قطعیا مع القولی-والسکوت علی قتال مانعی الزکات من ہذا القبیل)(فواتح الرحموت جلددوم:ص 295-دارالکتب العلمیہ بیروت)
توضیح: جب قرینہ حالیہ سے قطعی علم ہوجائے کہ سکوت موافقت کے سبب تھاتو ایسا اجماع سکوتی،اجماع منصوص کی منزل میں ہے۔
علامہ بحر العلوم نے رقم فرمایا:((المصیب)من المجتہدین ای الباذلین جہدہم(فی العقلیات واحد-والا اجتمع النقیضان)لکون کل من القدم والحدوث مثلًا مطابقًا للواقع(وخلاف العنبری)المعتزلی فیہ (بظاہرہ غیر معقول)بل بتاویل کما سیجئ ان شاء اللّٰہ تعالٰی
(وَالمُخطِئُ فِیہَا)ای فی العقلیات(اِن کَانَ نَافِیًا لِمِلَّۃِ الاسلام فکافرٌ واٰثِمٌ علٰی اختلاف فی شرائطہ کَمَا مَرَّ)من بلوغ الدعوۃ عند الاشعریۃ ومختارالمصنف-وَمضیء مُدَّۃِ التَّأمُّل والتمییز عند اکثر الماتریدیۃ(وَاِن لَم یکن)نافیًا لِمِلَّۃِ الاسلام(کخَلقِ القراٰن)ای القول بہ ونفی الرویۃ والمیزان وامثال ذلک(فَاٰثِمٌ لَاکَافِرٌ) ………………
(وَالشَّرعیات القطعیات کذلک)ای مثل العقلیات(فمنکر الضروریات)الدینیۃ(مِنہَا کَالاَرکَانِ)الاربعۃ الَّتِی بُنِیَ الاسلامُ عَلَیہَا- الصَّلٰوۃِ والزَّکَاۃِ وَالصَّومِ وَالحَجِّ (وحجیۃ القراٰن ونَحوِہِ مَاکافرٌ اٰثِمٌ- وَمُنکِرُ النَّظریات)منہا(کحجیۃ الاجماع وخبرالواحد)وَعَدُّوا مِنہَا حجیۃَ القیاس اَیضًا(اٰثِمٌ فقط)غَیرُ کَافِرٍ-والمراد بالقطع المعنی الاخص-وہومَا لَا یَحتَمِلُ النَّقیض وَلَو اِحتَمَالًا بعیدًا-وَلَوغَیرَ نَاشٍ عن الدلیل)
(فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت:جلددوم:ص377)
توضیح:اجماع،خبر واحداورقیاس کی حجیت قطعیات نظریہ یعنی ضروریات اہل سنت سے ہے۔ان امور کی حجیت حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے متواتر نہیں۔
امام غزالی شافعی قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:
(واما الفقہیۃ:فالقطعیۃ منہا وجوب الصلوات الخمس والزکاۃ والحج والصوم وتحریم الزنا والقتل والسرقۃ والشرب وکل ما علم قطعا من دین اللّٰہ فالحق فیہا واحد وہو المعلوم-والمخالف فیہا آثم۔
ثم ینظر:فان انکرما علم ضرورۃً من مقصود الشارع کانکار تحریم الخمر والسرقۃ ووجوب الصلٰوۃ والصوم فہوکافر-لان ہذا الانکار لا یصدر الا عن مکذب بالشرع۔
وان علم قطعًا بطریق النظر،لا بالضرورۃ ککون الاجماع حجۃ وکون القیاس وخبرالواحد حجۃ وکذلک الفقہیات المعلومۃ بالاجماع فہی قطعیۃ فمنکرہا لیس بکافر-لکنہ آثم مخطئ{
(المستصفٰی:جلددوم:ص407-مؤسسۃ الرسالہ بیروت)
توضیح:امام غزالی وعلامہ بحرالعلوم نے حجیت اجماع،حجیت قیاس وحجیت خبر واحد کو قطعیات نظریہ یعنی ضروریات اہل سنت میں شمار فرمایا۔ان تینوں امور کے دلیل شرعی ہونے کا ثبوت حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے متواتر نہیں، اس لیے ان کی حجیت ضروریات دین میں سے نہیں،یعنی ضروریات دین کی قسم اول سے نہیں،بلکہ ان تینوں امورکی حجیت قسم دوم میں شامل ہیں۔جہاں ان امور کوضروریات دین کہا جائے،وہاں ضروریات دین کی قسم دوم مرادہوگی۔ ان تینوں امور کے اانکار کا حکم وہی ہے جو ضروریات اہل سنت کے انکار کا حکم ہے۔اس کی قطعیت کا علم ہے تو تاویل کے ساتھ اس کا انکار متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی ہے اور فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین کے یہاں کفر فقہی ہے۔اس کی قطعیت کا علم ہوتو بلا تاویل اس کا انکار استخفاف بالدین اور کفر کلامی ہے۔جب کہ انکار مفسر اور صریح متعین ہو۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:03:ستمبر2021