احناف ائمہ حدیث میں سب سے متقن و حجتہ امام یحییٰ بن زکریہ بن ابی زئدہ کا تعارف

ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

 

امام یحییٰ بن زکریا بن ابی زئدہ وہ شخص تھے جو بیک وقت کثیر الحدیث متن حجتہ درجہ کے محدث تھے ، فقھاء میں بھی اول شمار ہوتے اور قاضی بھی تھے مدائن کے انکا مکمل نسب یوں ہے : يحيى بن زكريا بن أبى زائدة : ميمون بن فيروز الهمدانى الوادعى

اور انکی کنیت ہے ” أبو سعيد الكوفى”

انکی وفات 184ھ میں ہوئی تھی ۔

 

یہ امام اعظم ابو حنیفہ کے جید تلامذہ میں سے ایک تھے اور ان سے تفقہ حاصل کی تھی اور انکے مذہب پر رہے مستقل سے اور سنن کی طرز پر باقائدہ فقھی ابواب پر کتب لکھنے میں سب سے پہلے محدث یہی تھے۔ جیسا کہ اسکی تفصیل آگے آئے گی

 

سب سے پہلے متقدمین سے متاخرین تک اس بات کی تصریحات مختصر پیش کردیتے ہیں کہ یہ اصحاب ابی حنیفہؓ میں سے تھے اور فقہ حنفی ائمہ میں سے ایک تھے

 

امام ابن ابی العوام نے انکو اصحاب ابی حنیفہ میں شمار کرتے ہوئے انکا ترجمہ بیان کیا ہے

[مناقب و فضائل ابی حنیفہ امام ابن ابی العوام]

 

امام صیمری انکو ائمہ حنفیہ میں شمار کرتے ہوئے باب قائم کرتے ہیں

”ومن أصحاب أبي حنيفة أيضا يحيى بن زكريا بن أبي زائدة””

 

اسی طرح امام ابن عبدالبر نے امام ابو حنیفہ سے استفادہ کرنے والے کے ناموں میں انکا تذکرہ فرمایا ہے

[الانتقاء فی فضائل ثلاثہ ]

 

امام عبد القادر الحنفی نے اپنی مشہور تصنیف ”الجواهر المضية في طبقات الحنفية” انکو شامل کرتے ہوئے انکے مناقب و فضائل بیان کیے ہیں

 

اسی طرح امام ذھبی انکا تذکرہ الحفاظ میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

 

يحيى بن زكريا بن أبي زائدة الحافظ الثبت المتقن الفقيه أبو سعيد الهمداني الوادعي مولاهم الكوفي صاحب أبي حنيفة

یحییٰ بن زکریا یہ حافظ ثبت متقن فقیہ ہیں یہ صاحب ابی حنیفہ ہیں

[تذکرہ الحفاظ برقم: 252- 21/]

 

اور تاریخ الاسلام میں امام ذھبی فرماتے ہیں :

 

وتفقه بأبي حنيفة، ولزمه مدّة حتّى برع في الرأي وصار من أكبر أصحابه، مع الحِفْظ للحديث والإتقان له.

انہوں نے امام ابو حنیفہ سے فقہ سیکھی یہاں تک کہ یہ رائے یعنی اجتیہاد میں انکے بڑے اصحاب میں شمار ہوئے اسکےساتھ یہ حدیث کو حفظ کرنے والے تھے اور نکا حافظہ اعلی درجہ کا تھا

[تاریخ الاسلام برقم: 400]

 

اب انکے بارے تفصیل درج زیل ہے :

 

چناچہ امام خطیب انکے بارے نقل کرتے ہیں :

 

انکے شیوخ میں انکے والد سمیت درج زیل محدثین ہیں :

أباهُ، وَهشام بْن عروة وَإسماعيل بْن أَبِي خَالِد، وسليمان الأعمش، وعُبَيْد الله بْن عُمر الْعُمري، وحجَّاج بْن أرطاة وغیرہ

[اخبار ابی حنیفہ ]

 

اور انکے تلامذہ میں درج زیل محدثین ہیں :

 

رَوَى عَنْهُ يَحْيَى بْن آدم، وقُتيبة بْن سَعِيد، وهنَّاد بْن السَّري، وأبو داود الحفري، ومحمّد بن عيسى بن الطّبّاع، وأحمد ابن حنبل، ويحيى بْن معين، وأبو بَكْر وعثمان ابنا أبي شيبة، وسريج بْن يونس، وأبو كريب مُحَمَّد بْن العلاء وزياد بْن أيوب، والحسن بْن عرفة.

 

اور انکے علاوہ بھی ایک بہت بڑی جماعت ہے ان سے بیان کرنے والی

 

ناقدین سے انکی مدح و توثیق درج زیل ہے :

 

امام علی بن مدینی کا کلام :

أخبرنا الحسن بن محمد الخلال، أخبرنا علي بن عمرو الحريري أن علي بن محمد ابن كاس النخعي حدثهم قال: حدثنا محمد بن النضر الأزدي قال: سمعت علي بن المديني يقول: انتهى العلم إلى ابن عباس في زمانه ثم إلى الشعبي في زمانه، ثم إلى سفيان الثوري في زمانه، ثم إلى يحيى بن أبي زائدة في زمانه.

 

امام علی بن مدینی فرماتے ہیں : علم (حدیث و فقہ ) کی انتہاء حضرت عبداللہ ابن عباس پر ختم تھی ، پھر انکے بعد امام شعبی پر ختم تھی پھر امام سفیان الثوری پر ختم تھی اور پھر انکے بعد علم کی انتہاء یحییٰ بن ابی زائدہ پر ختم ہوتی ہے انکے زمانے میں

[تاریخ بغداد وسند صحیح]

 

أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق، أخبرنا أحمد بن إسحاق بن وهب البندار، حدثنا أبو غالب علي بن أحمد بن النضر قال: قال علي بن المديني: ولم يكن بالكوفة بعد سفيان الثوري أثبت من يحيى بن زكريا بن أبي زائدة.

 

امام علی بن مدینی کہتے ہیں کوفہ میں سفیان الثوری کے بعد (حدیث میں ) ثبت امام یحییٰ بن ابی زکریا سے زیادہ کوئی نہیں ہے

[تاریخ بغداد وسند حسن]

 

سمعت عليا يقول ما كان ثمة يعنى بالكوفة مثل ابن ابى زائدة وابن ادريس ومحمد بن عبيد فى السنة

ابن محرز کہتے ہیں میں نے علی (بن مدینی) کو کہتے سنا : کوفہ میں (یحییٰ بن ابی زئدہ ، ابن ادریس اور محمد بن عبید کی مثل کوئی نہیں سنت (یعنی حدیث ) میں

[معرفة الرجال عن علي بن المديني بروایت ابن محرز]

 

نا عبد الرحمن حدثني أبي قال قال على ابن المدينى: يحيى بن ابى زائدة من الثقات.

امام علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن زبی زائدہ ثقات میں سے ایک تھے

[الجرح والتعدیل برقم: 609]

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امام یحییٰ بن معین کا کلام :

 

قلت وابن مسهر أحب إليك أو يحيى بن زكريا فقال كلاهما ثقتان

امام دارمی کہتے ہیں میں نے امام یحییٰ بن معین سے کہا آپکو ابن مسہر پسند ہے یا یحییٰ بن زکریا تو انہوں نے کہا یہ دونوں ثقہ اشخصاص ہیں

[تاريخ ابن معين (رواية عثمان الدارمي برقم: 141)]

 

قلت فإسماعيل بن زكريا أحب إليك في الحديث أو يحيى بن زكريا فقال يحيى أحب إلي

امام دارمی کہتے ہیں میں نے امام یحییٰ سے پوچھا کہ آپکو حدیث میں اسماعیل بن زکریا پسند ہے یا یحییٰ بن زکریا تو امام ابن معین نے کہا میرے نزدیک یحییٰ پسندیدہ ہے

[تاريخ ابن معين (رواية عثمان الدارمي برقم: 174)]

 

سمعت يحيى يقول كان يحيى بن زكريا كيسا ولا أعلمه أخطأ إلا في حديث واحد حدث عن سفيان عن أبي إسحاق عن قبيصة الخ۔۔

امام دارمی کہتے ہیں میں نے امام یحییٰ بن معین کو کہتے سنا کہ یحییٰ بن زکریا (حدیث میں ) بڑے ماہر تھے میرے علم میں نہیں ہے کہ انہوں نے حدیث میں کبھی خطاء کی ہو سوائے ایک حدیث کے جو وہ سفیان سے ابی اسحاق کے طریق سے قبیصہ سے بیان کرتے ہیں ۔

[تاريخ ابن معين (رواية الدوري برقم: 2160)]

 

قيل ليحيى بن معين أن زكريا بن عدي لم يحدث عنه قال هو خير من زكريا بن عدي ومن أهل قريته.

امام یحییٰ بن معین سے کہا گیا کہ زکریا بن عدی ان (یحییٰ بن زکریا) سے حدیث بیان نہیں کرتے تو امام ابن معین نے کہا وہ (امام یحییٰ بن زکریا) اس زکریا بن عدی سے اور اسکے سارے گاوں سے افضل ہیں

[تہذیب التہذیب ، من كلام أبي زكريا يحيى بن معين]

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امام عجلی کا کلام :

يحيى بن زكريا بن أبي زائدة ثقة وكان ممن جمع له الفقه والحديث وكان على قضاء المدائن ويعد من حفاظ الكوفيين للحديث مفتيا ثبتا صاحب سنة ووكيع إنما صنف كتبه على كتب يحيى بن زكريا بن أبي زائدة

 

یحییٰ بن زکریا یہ ثقہ ہیں یہ ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے فقہ اور حدیث (کے علم) کو جمع کیا ، یہ مدائن میں عہدہ قضاء پر فائز تھے ۔

اور یہ کوفہ کے حدیث کو حفظ کرنے والوں میں سے، فتویٰ دینے والوں میں سے تھے اور یہ ثبت تھے اور صاحب سنت تھے

اور امام وکیع بن جراح نے صرف امام یحییٰ بن زکریا کی کتب پر اپنی کتب تصنیف کی

[الثقات للعجلی برقم: 1975]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امام أبو خالد الأحمر کا کلام :

 

ثنا عبد الرحمن حدثني أبي نا إبراهيم بن موسى قال سمعت ابا خالد الاحمر يقول: كان ابن ابى زائدة والله جيد الاخذ للحديث.

 

امام ابو خالد حمر کہتے ہیں مجھے اللہ کی قسم ہے کہ ابن ابی زائدہ حدیث لینے کے حوالے سے جید (یعنی اعلی مقام پر) تھے

[الجرح والتعدیل برقم: 609]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امام عبداللہ بن نمیر کا کلام :

 

نا عبد الرحمن نا علي بن الحسين بن الجنيد قال سمعت ابن نمير يقول: كان ابن ابى زائدة في الحديث اكثر من ابن ادريس في الاتقان.

امام عبداللہ بن نمیر کہتے ہیں : امام یحییٰ بن ابی زائدہ حدیث میں امام عبداللہ بن ادریس سے اتقات (یعنی حافظے ) کے حوالے سے مقدم تھے

[الجرح والتعدیل برقم:609]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امام ابو حاتم کا کلام :

 

نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن يحيى بن ابى زائدة فقال: مستقيم الحديث صدوق ثقة.

امام ابو حاتم کہتے ہیں : یحییٰ بن ابی زائدہ محفوظ حدیث والے ہیں سچے اور ثقہ ہیں ۔

[الجرح والتعدیل برقم: 609]

………………..

 

امام خطیب بغدادی کا کلام :

 

وكان ثقة حسن الحديث. ويقولون إنه أول من صنف الكتب بالكوفة،

یہ ثقہ اور اچھی حدیث والے ہیں اور کہا جاتا ہے یہ پہلے شخص تھے جنہوں نے (باقائدہ سنن کی طرز پر ) کتب تصنیف کی تھی (یہ قول امام ابو حاتم کا ہے)

[تاریخ بغداد ]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امام ابن حبان کا کلام :

 

يحيى بن زكريا بن أبى زائدة الهمداني أبو سعيد من المتقنين

امام یحییٰ بن زکریا یہ متقن لوگوں میں سے تھے

[مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار: 1381]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسکےعلاوہ امام ابن شاھین نے بھی انکو ثقات میں درج کیا ہے

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ان تمام ناقدین کی اتفاقی توثیق و مدح کے برعکس ایک ناقد ان پر عجیب سا کلام کرتا ہے لیکن وہ اس بار امام احمد بن حنبل نہیں بلکہ امام ابو نعیم فضل بن دکین ہیں

 

جسکی وجہ سے امام ذھبی کو انکو میزان الاعتدال میں شامل کرنا پڑا کیونکہ امام ذھبی کا منہج تھا ہر ثقہ و غیر ثقہ پر مفسر ، مبھم الغرض جس بھی قسم کی جرح یا طعن ہوگا تو اسکو نقل کرینگے اور ساتھ ان جروحات کا رد بھی کر دیتے ہیں ہیں اکثر یا اس جرح کے برعکس توثیق نقل کرتے ہیں جیسا کہ انکے باب میں کیا

 

امام ذھبی نقل کرتے ہیں ؛

 

قال عمر بن شبة: حدثنا أبو نعيم، حدثنا يحيى بن زكريا بن أبي زائدة – وما هو بأهل أن أحدث عنه، عن ابن أبي خالد، قال: ما رأيت أميرا على منبر أحسن من مصعب.

امام ابو نعیم کہتے ہیں یحییٰ بن زکریا اس قابل نہیں کہ میں اس سے حدیث بیان کروں جبکہ یہ ابن ابی خالد سے بیان کرتا ہے کہ میں نے منبرپر مصعب سے زیادہ خوبصورت کوئی امیر نہیں دیکھا ۔

 

وقال على بن المديني: لم يكن بالكوفة بعد الثوري أثبت من ابن أبي زائدة.

امام ابن مدینی کہتے ہیں کوفہ میں ثوری کے بعد کوئی ثبت نہیں ہے یحیی بن ابی زائدہ کے علاوہ

 

وقال أيضا: انتهى العلم إليه في زمانه.

اور یہ بھی کہا ہے کہ ان پر علم کی انتہاء ہے اپنے زمانے میں

 

وقيل: هو أول من صنف الكتب بالكوفة.

اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے کوفہ میں کتب کی تصنیف کی ہے

 

وقال عمرو الناقد: سمعت سفيان يقول: ما قدم علينا أحد يشبه هذين: ابن المبارك، وابن أبي زائدة.

عمرو بن ناقد کہتے ہیں مین نے سفیان بن عیینہ سے سنا کہ ہمارے پاس کوئی ایسا نہیں ہو جو ان دو شخصیات کی مثل ہو یعنی ابن مبارک اور ابن ابی زائدہ

 

وقال يحيى القطان: ما بالكوفة أحد يخالفني أشد على من يحيى بن أبي زائدة.

امام یحییٰ بن سعید القطان کہتے ہیں : کوئی میں کوئی ایسا نہیں تھا جسکی مخالفت کرنا میرے نزید بہت مشکل ہو کہ جتنا ابن ابی زائدہ کے خلاف

(نوٹ: میرے خیال میں یہاں امام یحییٰ امام ابن ابی زائدہ کے ساتھ اچھے تعلق کی نشاندہی ہے )

 

وقيل: إنه ما غلط قط.

اور یہ کہا گیا ہے کہ ان سے کبھی غلطی نہیں ہوئی (حدیث میں )

[میزان الاعتدال برقم: 9505]

 

اور امام ابو نعیم فضل بن دکین نے امام یحییٰ بن زکریا پر ایک امیر کی مدح پر مبنی روایت بیان کرنے کی وجہ سے یہ فضول بات کہہ دی

اور اسکا سبب انکا تشیع مذہب ہو سکتا ہے اور اس امیر سے انکو نفرت ہو سکتی ہے کیونکہ امام ابو نعیم فضل بن دکین کی یہ عادت تھی وہ شیعہ لوگوں کی تعریف میں غلو کرتے اور اہلسنت آئمہ پر جروحات کر دیتے تھے مذہب کی بنیاد پر

 

جسکی نشاندہی انکے تلمیذ امام یحییٰ بن معین نے فرمائی ہے

جیسا ان سے امام ابن الجنید روایت کرتے ہیں :

 

سمعت يحيى بن معين يقول: «كان أبو نعيم إذا ذكر إنسانًا، فقال: (هو جيد) ، وأثنى عليه؛ فهو شيعي، وإذا قال: (فلان كان مرجئًا) ؛ فاعلم أنه صاحب سنة لا بأس به» .

 

میں نے امام یحییٰ بن معین کو کہتے سنا : امام ابو نعیم جب اس طرح کسی انسان کا ذکر کرتے کہ یہ اعلی درجہ کا ہے اور اسکی تعریف کرتے تو وہ شیعہ ہوتا تھا

اور جب وہ یوں کہتے کہ فلاں فلاں مرجئ تھا تو ہم کو یہ علم ہو جاتا تھا کہ وہ صاحب سنت ہوتا اور اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا تھا ۔

[سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين: 797]

 

اسکے علاوہ امام ذھبی نے سیر اعلام میں انکی توثیق اعلیٰ درجہ کی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

لحَافِظُ، العَلَمُ، الحُجَّةُ،

یہ حافظ و عالم اور حجتہ درجہ کے تھے

 

اسکے علاوہ امام ذھبی نے امام نسائی سے بھی توثیق نقل کی ہے اعلیٰ درجہ کی

 

وَقَالَ النَّسَائِيُّ: ثِقَةٌ، ثَبْتٌ.

[سیر اعلام النبلاء برقم: 90]

 

اور

 

امام ابن حجرعسقلانی تقریب میں انکی توثیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

ثقة متقن

[تقریب التہذیب برقم: 7548]

 

اور اس تحقیق سے معلوم ہو اکہ امام یحییٰ بن زکریا کی توثیق و مدح متشدد ناقدین سے اعلیٰ درجہ کی کی ہے اور ایسے ائمہ کسی بھی راوی کی اعلیٰ درجہ کی توثیق اتنی آسانی سے نہیںکرتے اور یہ اصحاب ابی حنیفہ میں سب سے متقن حنفی محدث و فقیہ تھے

 

تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی