کربلا میں پانی کی غیر بندش کے حوالے سے تاریخ طبری اور البدایۃ والنہایۃ میں درج کردہ روایت کی تحقیق…!!!

ہمارے اکثر لوگ یہ بات بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کربلا میں پانی کی بندش نہیں تھی اس پر وہ اکثر حوالہ البدایۃ والنہایہ لابن کثیر اور تاریخ طبری کا دیتے ہیں لیکن سند کی تحقیق نہیں کرتے۔آج ہم اس روایت کی اسنادی حیثیت دیکھنے لگے ہیں کہ یہ استدلال کے قابل ہے بھی یا نہیں!!!

امام طبری و حافظ ابن کثیر نے اس روایت کو اس سند سے بیان و درج کیا ہے:

قال ابومخنف حدثنی الحارث بن کعب و ابوالضحاک عن علی بن الحسین زین العابدین…الخ

[تاریخ الطبری ج 3 ص 316]

[البدایۃ والنہایۃ ج 8 ص 177]

پہلی بات تو یہ روایت تو اہل سنت کے نزدیک بالکل جھوٹی ہے کیونکہ اس میں ابومخنف ہے اس کے علاوہ الحارث بن کعب الاذری کوفی بھی شیعہ راوی ہے اس کا ذکر کتب رجال شیعہ میں ملتا ہے لیکن توثیق نہیں ہے۔[رجال الطوسی ص 36 رقم 1102]

لیکن اہل سنت کی کتب رجال میں اس کا کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔

ایسے ہی ابوالضحاک البصری کی توثیق ائمہ اہل سنت سے ثابت نہیں لیکن امام ابن حجر عسقلانی نے اس کو شاید تابعی ہونے کی وجہ سے مقبول قرار دیا ہے۔ [التقریب التہذیب ج2 ص 651 رقم 8181] لیکن اس راوی کا شیعہ کتب رجال میں کچھ اتا پتہ نہیں۔

لہذا یہ روایت بھی اہل سنت کے نزدیک جھوٹی ہے اور اسی طرح اہل تشیع کے نزدیک بھی استدلال کے قابل نہیں۔

لہذا کربلا میں پانی غیر بندش کی کوئی روایت اہل سنت و اہل تشیع کے اصولوں سے ثابت نہیں۔

واللہ اعلم

 

خادم صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم

✍️عسقلانی الشافعی غفراللہ لہ

10 ستمبر 2021ء