امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کی طرف منسوب کفریہ کلمات کی حقیقت
امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کی طرف منسوب کفریہ کلمات کی حقیقت
تحقیق : اسد الطحاوی الحنفی
امام خطیب بغدادی نے امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کفر پر مبنی روایات نقل کی ہیں جسکی اسناد و متون مندرجہ ذیل ہیں ۔
أخبرنا علي بن محمد بن عبد الله المعدل، أخبرنا محمد بن عمرو بن البختري الرزاز، حدثنا حنبل بن إسحاق، حدثنا الحميدي، حدثنا حمزة بن الحارث ابن عمير عن أبيه قال: سمعت رجلا يسأل أبا حنيفة في المسجد الحرام عن رجل قال: أشهد أن الكعبة حق، ولكن لا أدري: هي هذه التي بمكة أم لا؟ فقال: مؤمن حقا. وسأله عن رجل. قال: أشهد أن محمد بن عبد الله نبي ولكن لا أدري: هو الذي قبره بالمدينة أم لا؟ فقال: مؤمن حقا. قال الحميدي: ومن قال هذا فقد كفر.
قال: وكان سفيان يحدث به عن حمزة بن الحارث.
حارث بن عمیر بیان کرتا ہے کہ اس نے ایک آدمی سے سنا جو امام ابو حنیفہ سے پوچھ رہاتھا کہ میں کعبہ پر تو ایمان رکھتا ہوں کہ کلمہ حق ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ آیا وہ وہی کعبہ ہے جو مکہ میں ہے یا کہیں اور ۔
حضرت محمدﷺ کے سچے نبی ہیں مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ ان کی قبر انور مدینہ میں ہے یا کہ کہیں اور ؟
تو امام ابو حنیفہ نے اس آدمی کو مومن قرار دے دیا
حمیدی نے (ابو حنیفہ کے فتوےکو) کفر قرار دیا
امام خطیب کہتے ہیں یہ روایت سفیان بھی حمزہ بن حارث سے بیان کرتے تھے
پھر اسکے بعد امام خطیب اسی متن سے ملتی جلتی روایت پھر دوسری سند سے نقل کرتے ہیں جس میں احمد بن حنبل کے پاس کتاب تھی امام ابو حنیفہ کی جس میں مسائل نقل کیے ہوئےتھے امام ابو حنیفہ نے
یہی راوی حارث بن عمیر اور آگے پھر سے یہی روایت ہے
أخبرني الحسن بن محمد الخلال، حدثنا محمد بن العباس الخزاز .
وأخبرنا محمد بن أحمد بن محمد بن حسنون النرسي، أخبرنا موسى بن عيسى بن عبد الله السراج قالا: حدثنا محمد بن محمد الباغندي ، حدثنا أبي قال: كنت عند عبد الله بن الزبير، فأتاه كتاب أحمد بن حنبل: اكتب إلي بأشنع مسألة عن أبي حنيفة. فكتب إليه: حدثني الحارث بن عمير قال: سمعت أبا حنيفة يقول: ۔۔۔۔ الخ۔
اسکو نقل کرنے کے بعد امام خطیب کہتے ہیں
هكذا قال في هذا الرواية: عن عبد الله بن الزبير الحميدي عن الحارث بن عمير من غير أن يذكر ابنه بينهما.
کہ حمیدی نے یہ واقعہ بیان کیا ہے حارث بن عمیر سے لیکن اس نے حارث اور اسکے والد کے درمیان اسکے بیٹے کے نام کا تذکرہ نہیں کیا
امام خطیب یہی روایت پھرتیسرے طریق سے لاتے ہیں لیکن اس میں بھی وہی حارث بن عمیر راوی ہی موجود ہے امام ابو حنیفہ ؓسے بیا کرنے والا
أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق وأبو بكر البرقاني قالا: أخبرنا محمد بن جعفر بن الهيثم الأنباري قال: حدثنا جعفر بن محمد بن شاكر- زاد ابن رزق الزاهد. ثم اتفقا- قال: حدثنا رجاء بن السندي الخراساني قال: سمعت حمزة بن الحارث بن عمير ذكره عن أبيه قال: قلت لأبي حنيفة- أو قيل له وهو يسمع- رجل قال: أشهد أن الكعبة حق ۔۔۔۔۔ الخ
[تاريخ بغداد ج13 ، ص368]
اب آج کا بھی ایک عام بندہ جانتاہے کہ یہ تو صریح کفر ہے تو امام اعظم جیسا بندہ جنکو امت نے امام اعظم تسلیم کیا جنکی پیروی کرنے والے امت محمدی نصف سے بھی زیادہ ہیں تو کیا وہ اس کفر سے جاہل رہے؟
کیا اہلسنت نے اجماعی طور پرجسکو امام بنایا انکی تحقیق بھی اتنی گری ہوئی تھی کہ جید ائمہ کو یہ تصریحات نہ ملی اور وہ امام اعظم کے مناقب بیان کرتے رہے بلکہ خاص احتمام سے انکی مناقب و فضائل پر کتب لکھی ہیں ۔
یہ روایت کے متن کے اعتبار سے بھی جھوٹی اور الزام تراشی ہے فقط اور سند کے اعتبار سے بھی جھوٹی ہے
غیر مقلدین اس روایت کی سند کو صحیح سمجھتے ہیں لیکن یہ انکی کم علمی ہے جبکہ یہ روایت ناقابل احتجاج ہیں
ہم پہلے اس راوی پر مختصر خلاصہ پیش کرتے ہیں پھر تفصیلی تحقیق آگے پیش کرینگے ۔ اکثریت غیر مقلدین ایک ویب سے راویان کو دیکھ کر اسکو تحقیق کا نام دیتے ہیں ۔
جیسا کہ ویب پر اسکی توثیق یوں موجود ہے :
الأسم : حارث بن عمير
الشهرة : الحارث بن عمير البصري , الكنيه: أبو عمير
النسب : البصري
الرتبة : ثقة
عاش في : البصرة, مكة
مولي : مولى عمر بن الخطاب
اور متقدمین سے توثیق کرنے والے درج ذیل ائمہ ہیں جنکی توثیق نقل کی ہوئی ہے
• أبو بكر بن أبي شيبة : ثقة
• أبو حاتم الرازي : ثقة
• أبو زرعة الرازي : ثقة رجل صالح
• أحمد بن شعيب النسائي : ثقة
• أحمد بن صالح الجيلي : ثقة
• الدارقطني : ثقة
• يحيى بن معين : ثقة
• يعقوب بن سفيان الفسوي : ثقة رحل في طلب العلم وكان من رواته وأهله
جبکہ یہ راوی ضعیف اور احتجاج کے درجہ سے بھی گرا ہوا ہے
جیسا کہ اسی ویب پر اس پر درج ذیل جروحات بھی ہیں :
• أبو حاتم بن حبان البستي : يروي عن الأثبات الأشياء الموضوعات، وقال مرة: ضعيف في أحاديثه مناكير
• أبو عبد الله الحاكم النيسابوري : روى عن حميد الطويل، وجعفر بن محمد أحاديث موضوعة، ومرة: واهي
• محمد بن إسحاق بن خزيمة : كذاب
• أبو الفتح الأزدي : ضعيف منكر الحديث
یعنی امام ابن حبان کہتے ہیں : یہ ثقات راویان سے جھوٹی روایات بیان کرتا تھا پھر انہوں نے کہا یہ ضعیف ہے اور اسکی روایات میں مناکیر ہوتی ہیں
امام حاکم کہتے ہی یہ حمید طویل اور جعفربن محمد سے موضوع روایات بیان کرتا ہے یہ فحش راوی ہے
امام ابو بکر ابن خزیمہ کہتے ہیں یہ کذاب ہے
اور
امام الازدی کہتے ہیں یہ ضعیف اور منکر الحدیث راوی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام ابن حجر عسقلانی متقدمین سے ائمہ کی صریح توثیقات کے سبب فقط حسن ظن کی بنیاد پر تقریب میں یہ لکھ دیا :
وثقه الجمهور، وفي أحاديثه مناكير، ضعفه بسببها الأزدي وابن حبان وغيرهما، ولعله تغير حفظه في الآخر
اسکو ثقہ جمہور نے قرار دیا ہے اور اسکی حادیث میں مناکیر تھی جس کے سبب اسکی تضعیف کرنے والے امام ازدی ، ابن حبان اور دیگر ناقدین ہے ہو سکتا ہے اسکا حافظہ متغیر ہو گیا ہو عمر کے آخری حصے میں
جبکہ انکا تعاقب کرتے ہوئے علامہ شعیب لکھتے ہیں :
لكن قال ابن خزيمة أيضا: الحارث بن عمير كذاب. وقال الحاكم: روي عن حميد الطويل وجعفر بن محمد أحاديث موضوعة. وقال ابن حبان: “كان ممن يروي عن الأثبات الأشياء الموضوعات”، وساق له جملة منها. وقال الذهبي في “الميزان”: وثقه ابن معين من طريق إسحاق الكوسج عنه، وأبو زرعة وأبو حاتم والنسائي، وما أراه إلا بين الضعف. وقال في “المغني”: أتعجب كيف خرج له النسائي.
قلت: فلعله تبين لكل هؤلاء ما لم يتبين لمن وثقه؟ والله أعلم.
علامہ شعیب الارنووط کہتے ہیں :
لیکن امام ابن خزیمہ نے حارث کو کذاب بھی کہا ہے اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حمید و جعفر صادق علیہ رحمہ سے موضوعات روایت کرتا ہے
اور امام ابن حبان نے کہا یہ ثقات راویان سے موضوع روایات بیان کرتاتھا
اور امام ذھبی علیہ رحمہ نے بھی اسکی تفصیل لکھی ہے میزان میں
(اسکی تفصیل آگے آئےگی)
میں ( الارنووط) کہتا ہوں میں کہتا ہوں شائد ان سب (جارحین) پر وہ (قرائن/ دلائل) ظاھر ہوئے ہونگے جو ان لوگوں پر ظاھر نہیں ہوئے جنھوں نے اسکی توثیق کی ہے
[تحریر تقریب التہذیب 1041]
اسی لیے امام ابن حجرعسقلانی کا موقف تحقیقا درست نہیں ہے جبکہ یہ راوی صریح دلائل کی بنیاد پر کذب پر محمول ہوتا ہے اور منکر الحدیث ثابت ہے
جیسا کہ امام ذھبی ، ،امام ابن حبان ، امام حاکم، امام الازدی اور امام خزیمہ نے تصریح کی ہے
علامہ شعیب الارنووط بھی اسکی تضعیف کی طرف ہیں بلکہ انہوں نے امام ابن حجر عسقلانی علیہ رحمہ پر سخت تعقب کیا اور
البانی صاحب پہلے امام ابن حجر کی بنیاد پر اسکو ثقہ مانتے تھے معلمی کی تقلید میں
لیکن بعد میں وہ بھی اسکی کذب بیانی کے دلائل دیکھ کر اسکو منکر الحدیث و واھی قرار دیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آتے ہیں حارث بن عمر سے مروی موضوع روایات کے دلائل کی طرف :
امام ابن حبان سے ثبوت :
الحارث بن عمير من أهل البصرة كنيته أبو عمير يروي عن حميد الطويل والبصريين
كان ممن يروي عن الأثبات الأشياء الموضوعات
حارث بن عمیر یہ اہل بصرہ سے ہے اور اسکی کنیت ابو عمیر ہے یہ حمید طویل اور بصریوں سے روایت کرتا ہے
یہ ثقات راویوں سے موضوع چیزیں روایت کرتا تھا
اسکے کذب پر جو پہلی دلیل دی امام ابن حبان نے وہ درج زیل ہے :
حدثنا الحسين بن محمد بن خالد بحر جرايا ثنا محمد بن زنبور المكي ثنا الحارث عمير عن حميد وقد روى الحارث بن عمير عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده عن علي عن النبي صلى الله عليه وسلم قال آية الكرسي وشهد الله وفاتحة الكتاب معلقات بالعرش ما بينهم وبين الله عزو وجل حجاب يقلن يا رب تهبطنا إلى أرضك وإلى من يعصيك قال الله عز وجل بي حلفت لا يقرأكن أحد من عبادي دبر كل صلاة إلا جعلت الجنة ثوابه على ما كان فيه وإلا أسكنته حظيرة القدس وإلا نظرت إليه بعين مكنونة كل يوم سبعين مرة
حارث بن عمیر امام جعفر صادق سے انکے والد امام محمد باقر سے انکے دادا امام زین العابدین سے حضرت علی سے روایت کرتا ہے
آیت کرسی اور (آیت) اللہ اس باتک ی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی معربود نہیں اور فاتحہ عرش کے ساتھ لٹکے ہوئی ہے اور یہ عرض کرتی ہے اے میرے پروردیگار تو نے ہم کو زمین کی طرف نازل کر دیا اور انو لوگوں کی طرف نازل کر دیا جو تیری نافرمانی کرتی ہیں
(استغفار)
یعنی اس میں ناموس رسالت پر بھی حملہ ہے
امام ابن حبان اسکو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
وذكر حديثا طويلا موضوعا لا أصل له
یہ بہت طویل حدیث ہے یہ موضوع ہے جسکی کوئی اصل نہیں ہے ۔
[المجروحین ابن حبان برقم: 199]
اس روایت کو درج ذیل محدثین نے تخریج کی ہے اپنی اسناد سے جس میں حارث کا تفرد ہے
.1امام ابن السُّنِّي (المتوفى: 364هـ) اپنی مشہور کتاب ”عمل اليوم والليلة” میں نقل کرتے ہیں
حدثنا أبو جعفر بن بكر، حدثنا محمد بن زنبور المكي، حدثنا الحارث بن عمير، عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده، عن علي بن أبي طالب، رضي الله عنهم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إن فاتحة الكتاب، وآية الكرسي ۔۔۔۔۔ الخ
[عمل اليوم والليلة سلوك النبي برقم: 125]
.2 امام أبو محمد الحسن البغدادي الخَلَّال (المتوفى: 439هـ) اسکو نقل کرتی ہیں
ثنا محمد بن إسماعيل بن العباس الوراق، ثنا يحيى بن محمد بن صاعد،
وثنا محمد بن علي بن سويد العنبري، ثنا محمد بن حصين بن خالد الأولسي أبو عبد الله، بطرسوس ثنا محمد بن زنبور، بمكة، ثنا الحارث بن عمير، عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده عليه السلام، عن علي بن أبي طالب، عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إن فاتحة الكتاب، وأية الكرسی۔۔۔الخ
[المجالس العشرة الأمالي للحسن الخلال برقم: 14]
.3 امام معمر بن عبد الواحد بن رجاء السمرقندي الأصبهاني (المتوفى: 564هـ) بھی نقل کرتے ہیں:
ثنا الأستاذ الإمام أبو القاسم إسماعيل بن محمد إملاءً سنة ثمان وخمس مئة، [ص:138] ثنا أبو بكر السمسار، ثنا أبو محمد بن حولة، ثنا القاسم بن محمد، ثنا أحمد بن سعيد، ثنا إسماعيل هو ابن أسيد، ثنا محمد بن زنبور بن أبي الأزهر، ثنا الحارث بن عمير، ثنا جعفر بن محمد عن أبيه، عن جده، عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن فاتحة الكتاب وآية الكرسي ۔۔۔۔الخ
[موجبات الجنة برقم: 189]
.4 امام الجورقاني (المتوفى: 543هـ) بھی اسکو حارث کے طریق ہی سے نقل کرتے ہیں :
أخبرنا حمد بن نصر، قال: حدثنا القاضي أبو سعيد عبد الكريم بن أحمد بن طاهر بن أحمد المعروف بالوزان الطبري، بهمذان، أخبرنا أبو حيان محمد بن أحمد النيسابوري، أخبرنا محمد بن علي بن الحسن، ببغداد، قال: حدثنا أبو عبد الله محمد بن حصين، قال: حدثنا محمد بن زنبور، قال: حدثنا الحارث بن عمير، عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده، عن علي بن أبي طالب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إن فاتحة الكتاب , وآية الكرسي ۔۔۔۔الخ
[الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير برقم: 682]
اسکے علاوہ اور بھی کثیر آئمہ نے اسکو روایت کیا ہے حارث کے طریق سے جس میں اسکا تفرد ہے
ایک دلیل ثابت ہوئی حارث بن عمیر کی موضوع روایت بیان کرنے کی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معلمی میاں نے اس روایت پر حارث بن عمیر کا دفاع کرنے کی بڑی بھونڈی کوشش کی ہے جسکا خلاصہ ہم پیش کرتے ہی
بلکہ البانی صاحب نے بھی اسکا ٹھیک تعاقب کیا ہے اس مسلے پر
معلمی کے گھسے پٹے اعتراضات درج ذیل تھے۔
۱۔ امام ابن خذیمہ سے کذاب کی جرح کی سند نہیں ملی اور ابن جوزی نے ماخذ نہیں بتایا اور امام ذھبی نے اسکی نقل کردہ عبارات پر جرح کی ہے کہ یہ نقل میں غلطیاں کرتے تھے۔
۲۔ اس روایت میں پچھلے راوی یعنی محمد بن زنبور کا وھم ہے کیونکہ یہ صدوق درجہ کا ہے اور قوی نہیں تھا
تو ان اعتراضات کے جواب ہم پیش کرتے ہیں :
پہلی بات یہ ہے کہ محمد بن زنبور حارث بن عمیر سے روایت کرنے میں منفرد نہیں ہے بلکہ اسکی متابعت دوسرے راوی نے بھی کر کررکھی ہے حارث سے اس روایت کو بیان کرنے میں
امام ابن جوزی اسکی متعدد اسناد لکھتے ہیں :
أنبأنا أبو محمد عبد الله بن علي المقري قال أنبأنا أبو منصور محمد بن أحمد الخياط قال أنبأنا أبو طاهر أحمد بن الحسن الباقلاوي قال أنبأنا عبد الملك بن بشران قال حدثنا دعلج قال حدثنا محمد بن خضر بن خالد قال محمد بن زنبور المكي قال حدثنا الحارث بن عمير ح.
وأنبأنا محمد بن ناصر قال أنبأنا أحمد بن الحسين بن قريش قال أنبأنا محمد بن علي بن الفتح قال حدثنا عمر بن أحمد قال حدثنا إبراهيم بن أحمد الدورقي قال أنبأنا أحمد بن الحسن المعدل قال حدثنا محمد بن جعفر المكي قال حدثنا الحارث بن عمير عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” إن فاتحة الكتاب وآية الكرسي الخ۔۔۔
اور اس روایت کو موضوعات میں شامل کرتے ہوئے امام ابن جوزی نے اس روایت پر آفت کا مدار حارث پر رکھا ہے ۔اور امام ابن جوزی کی جرح کو مزید پختہ اور مفسر کر دیا دلیل دے کر۔
[الموضوعات ابن الجوزی، ج 1، ص [245
تو اس روایت پر امام ابن حبان کا نقد صحیح ثابت ہوا۔
باقی دوسرا اعتراض امام ابن جوزی کی نقل پر امام ذھبیؒ کی جرح پیش کرکے احتمال پیدا کیا گیا تو تو عرض ہے امام ابن خزیمہ سے یہ جرح نقل کرنے میں امام ابن جوزی منفرد نہیں بلکہ خود امام ذھبی نے بھی یہ جرح نقل کی ہے
کیونکہ امام ذھبی نے اس روایت کو موضوعات میں شامل کرتے ہوئے حارث پر نقد کیا اور امام ابن خزیمہ سے جرح نقل کی ہے جس سے علامہ ابن جوزی کے نقل کرنے پر انکا تفرد ختم ہوا اور چونکہ انکی نقل پر جرح کرنے والے بھی امام ذھبی ہیں تو عمومی طور پر اور جب خود وہ اس قول کو نقل کرکے استدلال کرنے والے ہیں تو یہ اعتراض معلمی میاں کا ختم ہو جائے گا
جیسا کہ امام ذھبی اپنی تصنیف ” ترتيب الموضوعات” میں اس روایت پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
حدیث الحارث بن عمیر عن جعفر بن محمد عن ابیه عن جده عن علی رفعه ان ایة الکرسیی الخ۔۔۔
الحارث کذبه ابن خزیمة
حدیث جو حارث بن عمیر امام جعفر سے انکےوالد سے انکے دادا سے حضرت علی رضی اللہ سے بیان کرتا ہے آیت الکرسی کے باب میں
اور یہ حارث راوی کی امام ابن خزیمہ علیہ رحمہ نے اسکی تکذیب کی ہے (اس روایت کے تحت)
[ترتيب الموضوعات للذھبی برقم:۱۴۵]
تو معلمی میاں کے اس اعتراض کا یہ اعتراض بھی رفع ہوگیا کہ ابن جوزی نقل کرنے میں امام ذھبی کے نزدیک معتبر نہیں لیکن اس مذکورہ مسلہ میں یہ علت مضر نہیں کیونکہ یہاں امام ذھبی خود بھی امام ابن خزیمہ سے یہ جرح نقل کرکے استدلال کرتے ہوئے مذکورہ روایت کو موضوع قرار دیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حارث بن عمیر کی طرف سے موضوعات روایت کرنے پر دوسری دلیل
جیسا کہ امام ذھبی نے میزان الاعتدال سے امام حاکم سے جرح نقل کرتے ہیں
وقال الحاكم: روى عن حميد، وجعفر الصادق أحاديث موضوعة
امام حاکم کہتے ہیں یہ حمید اور امام جعفر صادق سے موضوع روایات بیان کرتاتھا
[میزان الاعتدال برقم: 1638]
امام جعفر سے مروی موضوع روایت کے بارے آپ اوپر پڑھ چکے ہیں اب وہ روایات جو یہ امام حمید بن طویل سے بیان کرتا ہے منفردوہ درج ذیل ہیں جنکو امام طبرانی نے نقل کی ہیں
حدثنا موسى بن هارون، نا محمد بن زنبور، ثنا الحارث بن عمير، عن حميد الطويل، عن أنس بن مالك قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن أجر الرباط، فقال: «من رابط ليلة حارسا من وراء المسلمين كان له مثل أجر من خلفه ممن صام وصلى»
حارث بن عمیر بیان کرتا ہے حمید بن طویل سے وہ حضرت انس سے بیان کرتے ہیں :
مسلمانوں کی حفاظت کے لیے جو شخص ایک رات تک پہراداری کرےگا اس سے اپنے پیچھے موجود ارد کے نوافل ادا اور نفلی روزہ رکھنے کا سا اجر ملے گا
اوربالکل اسی سند سے حارث سے ایک اور روایت حمید بن طویل سے بیان کرتا ہے
وبه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تصدقوا، فإن الصدقة فكاككم من النار»
اور اسی سند سے حارث نے حمید بن طویل سے حضرت انس سے روایت کیا ہے
”یہ مصدق ہے کہ صدقہ تم کو جہنم کی آگ سے آزاد کردیتا ہے”
اسکو نقل کرنے کے بعد امام طبرانی کہتے ہیں :
لم يرو هذين الحديثين عن حميد إلا الحارث بن عمير، تفرد بهما: محمد بن زنبور
یہ دو حدیثین حمید سے سوائے حارث بن عمیر کے کوئی بیان نہیں کرتا اور اسکے ساتھ تفرد ہے محمد بن زنبور کا (حارث سے بیا کرنےمیں )
[المعجم الاوسط للطبرانی برقم: 8059]
لیکن امام طبرانی کی اس حد تک بات ٹھیک ہے کہ حمید سے سوائے حارث کے اور کوئی بیان نہیں کرتا
لیکن انکا یہ کہنا کہ حارث سے بیان کرنے میں بھی تفرد ہے یہ بات محل نظر ہے کیونکہ امام العلل دارقطنی نے اس روایت پر فقط یہی نقد کیا ہے کہ اسکو روایت کرنے میں حارث کا تفرد ہے حمید سے
جیسا کہ امام دارقطنی اپنی مشہور تصنیف ”أطراف الغرائب والأفراد من حديث” میں اس روایت کو لائے ہیں اور یہ تصنیف اسی باب پر لکھی گئی تھی کہ کن کن روایات میں کون کون سے راویان منفردہیں غریب روایتیں بیان کرنے میں چناچہ وہ لکھتے ہیں :
حديث: تصدقوا فإن الصدقة فكاككم من النار
تفرد به أبو عمير الحارث بن عمير عن حميد عنه.
اس روایت میں ابو عمیر حارث بن عمیر کا تفرد ہے حمید سے
[”أطراف الغرائب برقم: 799]
بس امام دارقطنی علل کے امام ہیں اور وہ جب کسی روایت پر علل میں نقد کرتے ہیں تو وہ روایات کی مکمل اسناد پر دسترس رکھتے ہیں تو انہوں نے اس روایت پر حارث کا تفرد بیان کر دیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ اس روایت کا مدار بھی حارث پر ہے اور تبھی امام حاکم نے اس روایت کے تحت موضوع کا حکم لگا یا
تو یہ دوسری دلیل سے امام ابن خزیمہ کی جروحات ثابت ہوگئی
اور وہابیہ کے البانی صاحب بھی ان دو روایات کو اپنی کتاب سلسلہ ضیعفہ میں درج کیا ہے اور روایت پر موضوع کا حکم لگایا ہے
الحدیث موضوع
[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة برقم: 698]
حارث بن حمید اور روایات بھی بیان کرتا ہے جس میں موضوع و منکرات ہوتی ہیں
اب امام ذھبی سے اسکے ثبوت پیش کرتے ہیں
امام ذھبی علیہ رحمہ لکھتے ہیں :
وثقه ابن معين من طريق إسحاق الكوسج عنه، وأبو زرعة، وأبو حاتم، والنسائي، وما أراه إلا بين الضعف، فإن ابن حبان قال في الضعفاء: روى عن الاثبات الأشياء الموضوعات.
وقال الحاكم: روى عن حميد، وجعفر الصادق أحاديث موضوعة.
انکو ثقہ قرار دینے میں امام یحیی بن معین ہیں اور ان سے یہ قول اسحاق الکوسج ہیں اور امام ابو زرعہ ، امام ابو حاتم ، اور امام نسائی ہیں
اور میرے نزدیک یہ واضح طور پر ضعیف ہے
(نوٹ امام ذھبی صریح دلائل کی بنیاد پر ناقدین کی توثیق رد کر دی کیونکہ اس پر جرح مفسر کے کلمات تھے اور دلائل ثابت ہونے پر جرح مفسر ثابت ہو گئی)
امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ موضوعات بیان کرتاتھا امام جعفر و حمید بن طویل سے
[میزان الاعتدال برقم: 1639]
اور امام حاکم نے یہ جرح اپنی تصنیف المدخل الی صحیح میں درج کی ہے تو اس جرح کا ماخذ ثابت ہے اور امام ذھبی کا یہ جرح امام حاکم نے نقل کرنا معتبر ثابت ہوا
جیسا کہ امام حاکم بیان کرتے ہیں :
الْحَارِث بن عُمَيْر الْبَصْرِيّ
وَقيل كنيته أَبُو عُمَيْر روى عَن حميد الطَّوِيل وجعفر بن مُحَمَّد الصَّادِق أَحَادِيث مَوْضُوعَة وَالله اعْلَم
[المدخل إلى الصحيح برقم ترجمہ : 33]
اور امام حاکم کی جرح مفسر اس پر ثابت ہوچکی ہے واقعی ہی اسکا تفرد ہے ثقات سے موضوع روایات بیان کرنے میں
اسی طرح امام ذھبی جنکو صاحب استقراء کہا ہی اس لیے جاتا تھا کہ وہ ہر راوی پر گہرائی تک عمومی طور پر تحقیق کرنے کے بعد حکم لگاتے اور اس راوی پر امام ذھبی جید ناقدین کی توثیق سےمتاثر نہیں ہوئے بلکہ دلائل قطعی کے بعد تحقیقی طور پر حارث کو ضعیف قرار دیا
اب ہم امام ذھبی سے اس راوی کی تضعیف پر انکی متعدد کتب سمیت اخری کتاب سے بھی موقف پیش کرینگے۔۔۔۔
الحارث بن عمير لا يحتج به
حارث بن عمیر اس سے احتجاج نہیں کیا جائے گا
[من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث برقم: 73]
اور اپنی تصنیف المغنی میں تو امام نسائی پر بہت حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قلت انا اتعجب كيف خرج له النسائي
میں ( الذھبی) کہتا ہوں کہ مجھے بہت تعجب ہے کہ امام نسائی (جیسا علل کا ماہر امام) اسکی روایت کی کیسے تخریج کر دی (ان سے اسکا ضعف کیسے چھپا رہا )
[المغنی فی ضعفاء برقم: 1245]
اور اپنی آخری تصنیف سیر اعلام میں اسکو اعلام میں بھی شامل نہ کیا اور نہ ہی اس قابل سمجھا بلکہ ایک حدیث کی سند پر کلام کرتے ہوئے اسکی تضعیف کر دی
الحارث بن عمير ضعيف
[سیر اعلام النبلاء ج،2 ص 275]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پس ثابت ہوا کہ حارث بن عمیر ثقات سے موضوعات روایات کرتا تھا اور مناکیر بھی اور امام اعظم ابو حنیفہؓ پر کفر پر مبنی روایات میں حارث بن عمیر ضعیف ہے جو کہ غیر احتجاج بہ ضعیف اور واھی راوی ہے۔
اور ایسے راوی کی بنیاد پر امام اعظم پر الزام کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔
اور اسکے علاوہ ایسا واقعہ امام خطیب ایک اور سند سے بھی لائے ہیں امام سفیان ثوری سے انکے شیخ عبادبن کثیر سے :
(نوٹ اس پر ہم پہلے سابقہ پوسٹ بنا چکے ہیں امام سفیان ثوری نے اسی عباد بن کثیر ہی سے کفر سے توبہ کرانے والی جھوٹی روایت بیان کی تھی پھر اسکو حذف کر کے خود بیان کرنے لگ گئے اور بعد والے بھی یہ کارستانی بھی عباد بن کثیر کی تھی )
أخبرنا ابن رزق، أخبرنا جعفر بن محمد بن نصير الخلدي، حدثنا أبو جعفر محمد بن عبد الله بن سليمان الحضرمي- في صفر سنة سبع وتسعين ومائتين- حدثنا عامر بن إسماعيل، حدثنا مؤمل عن سفيان الثوري قال: حدثنا عباد بن كثير قال: قلت لأبي حنيفة: رجل قال أنا أعلم أن الكعبة حق الخ۔۔۔۔۔
[تاریخ بغداد ، ج 13 ، ص 368]
عباد بن کثیر جنکے بارے امام ذھبی فرماتے ہیں :
عباد بن كثير الرملي: مجمع على ضعفه
عباد بن کثیر اسکی تضعیف پر اتفاق ہے
[دیوان الضعفاء للذھبی برقم: 2081]
اور
امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں :
عباد بن كثير الثقفى البصرى
متروك ، قال أحمد : روى أحاديث كذب
عباد بن کثیر یہ متروک ہے اور امام احمد نے کہا یہ کذب پر مبنی روایات بیان کرتاتھا
[تقریب التہذیب برقم: 3139]
پس ثابت ہوا ان جیسی روایات جن میں امام اعظم پر معاذاللہ ایسی فحش اور کفر پر مبنی روایات بیان کرکے حمیدی اور ان جیسے لوگ پھر امام ابو حنیفہ پر کفر کا اطلاق کرتے ہیں یہ سب روایات غیر ثابت ہیں اور امام اعظم کا دامن ان جیسی چیزوں سے پاک ہے
اور امام احمد بن حنبل ، امام سفیان الثوری اور امام مالک کا رجوع بھی ثابت ہے اور یہ امام اعظم کی احسن رائے کے قائل ہوگئے تھے
یہی وجہ ہے امام اعظم کے ہم عصر جید ائمہ جیسا کہ
امام الاعمش
امام ایوب سختیانی
امام ابو یوسف
امام عمرو بن دینار
امام مسعر بن کدام
امام یحییٰ بن سعید القطان
امام عبدالرزاق
امام شعبہ
امام ابو ضحاک
امام فضیل بن عیاض
امام وکیع بن جراح
امام الکندی
اما م ابو نعیم فضل بن دکین
امام مکی بن ابراہیم
سعید بن ابی عروبہ اور ایک بہت بڑی تعداد ہے انکی مدح و توثیق کرنے یہی وجہ ہے کہ امام سمعانی ، امام مزی ، امام ذھبی ، امام ابن کثیر ، امام نووی ، امام ابن حجر عسقلانی وغیرہم نے امام اعظم پر کوئی ایسا طعن نقل نہ کیا بلکہ فقط مدح و توثیق نقل کی ہے کیونکہ ان جید ائمہ نے ان چیزوں پر استقراء کر لیا تھا کہ امام اعظم کے خلاف کچھ اصحاب الحدیث کے تعصب کے سبب وہ باتیں قبول نہیں ہونگی جو امام اعظم کی نمایاں تشخص کے خلاف ہیں اور انکی معروف کتب اور انکے تلامذہ کی تصنیفات کے برعکس ہیں یہی عقل کا تقاضہ بھی تھا اور دلائل کا بھی ۔
اور یہ اصول متفقہ علیہ ہے جرح مفسر (مع دلائل ) تعدیل پر ہمیشہ مقدم ہوتی ہے
چونکہ یہ اصول متفقہ علیہ ہے ہم اس پر فقط ایک حوالہ پر اکتفاء کرینگے ۔
جیسا کہ امام سیوطی شرح تدریب الراوی میں اس اصول کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وإذا اجتمع فيه أي الراويجرح مفسر، وتعديل، فالجرح مقدم
کہ جب کسی راوی پر جرح مفسر اور تعدیل جمع ہو جائیں تو جرح مقدم ہوگی (تعدیل) پر
[تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ، ص 364]
۔ یہی وجہ ہے کہ امام ذھبی، امام حاکم ، امام ابن خزیمہ ، امام ابن حبان ، علامہ شعیب الارنووط ، علامہ البانی وغیرہم نےمتقدمین کی تعدیل کو اصول کی بنیاد پر رد کر دیا اور راوی کو شدید ضعیف قرار دیا ۔اور امام ابن حجر عسقلانی اپنے موقف میں اکیلے تھے حسن ظن کی بنیاد پر کیونکہ انہوں نے بغیر دلائل کے راوی پر اختلاط پر قیاس کیا جو کہ درست موقف نہ تھا ۔
تحقیق: دعا گو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی