صحیح بخاری کی شروح

کتب حدیث میں سب سے زیادہ صحیح بخاری کی شروح لکھی گئی ہیں حاجی خلیفہ متوفی ۱۰۶۷ھ نے ”کشف الظنون میں ۱۰۱۲ھ تک بخاری‘‘ کی پچاس سے زیادہ شروح گنوائی ہیں ان تمام کا ذکر تو یہاں دشوار ہے چند مشہور اور اہم شروح کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

(1) اعلام السنن: یہ امام ابو سلیمان حمد بن محمد الخطابی المتوفی ۳۸۸ھ کی تصنیف ہے اور یہ بخاری کی سب سے پہلی شرح ہے اس شرح میں عجیب و غریب نکات اور لطائف بیان کیے گئے ہیں۔

(۲) شرح البخاری: یہ امام ابوالحسن علی بن خلف القرطبی المالکی المتوفی 449ھ کی شرح ہے جو ابن بطال کے نام سے مشہور ہیں اس شرح میں انہوں نے فقہ مالکی کو بیان کیا ہے اور بعد میں آنے والے شارحین میں سے بمشکل کوئی ایسا ہوگا جو ان کا ذکر نہ کرتا ہو۔ شرح اب چھپ چکی ہے اور ہم نے بھی نعمة الباری میں اس سے بہت استفادہ کیا ہے۔

(۳) شرح البخاری: یہ امام فخر الاسلام علی محمد البزدوی الحنفی المتوفی 482ھ کی تالیف ہے اور نہایت مختصر شرح ہے۔

(3) شرح البخاری: یہ شرح قاضی ابوبکر محمد بن عبداللہ ابن العربي المالکی المتوفی ۵۳۴ھ کی تالیف ہے۔

(۵) كتاب النجاح: شرح امام نجم الدین عمر بن النسفی المتوفی ۵۳۷کی تصنیف ہے یہ شرح حدیث کی روشنی میں مسائل حنفیہ کی تحقیق کے لیے بہترین کتاب ہے۔

(6) شواہد التوضیح: شیخ جمال الدین محمد بن عبدالله النحوی المتوفی 272ھ کی تالیف ہے اس میں مشکل اعاریب نحویہ کی توضیح کی گئی ہے۔

(7) التلویح: یہ امام حافظ علاؤالدین مغلطائی الحنفی المتوفی 792 ھ کی تصنیف ہے یہ مبسوط شرح ہے اور اس میں تعلیقات پر بحث اور مشکل الفاظ کی وضاحت کی گئی ہے۔

(۸) الکواکب الداراری : علامہ شمس الدین محمد بن يوسف بن علی الکرمانی المتوفی ۷۹۶ھ کی تصنیف ہے اس شرح کے شروع میں علم حدیث کی فضیلت اور امام بخاری کا مفصل ترجمہ ذکر کیا گیا ہے نیز الفاظ کے معانی لغویہ اعاریب نحویہ ضبط روایات اسماء رجال اور القاب رواة بیان کیے گئے ہیں اور احادیث متعارضہ میں تطبیق کی گئی ہے بعد میں آنے والے اکثر شارحین نے اس سے استفادہ کیا ہے۔

(9) منح الباری: یہ شرح علامہ مجدالدین ابوطاہر محمد بن یعقوب الفیروز آبادی الشیرازی المتوفی 817ھ کی تصنیف ہے صرف ربع کتاب کی شرح بیس جلدوں میں کی گئی ہے اس سے آگے یہ شرح نہیں لکھی جا سکی۔ اس شرح میں محی الدین ابن عربی کی فتوحات مکیہ سے عبارات بہت زیادہ نقل کی گئی ہیں ۔

(۱۰) مصابیح الجامع: علامہ بدرالدین محمد بن ابی بکر الدمامینی المتوفی ۸۲۸ھ کی شرح ہے کہ یہ بادشاہ ہند احمد شاه بن محمد بن مظفر کی فرمائش پر لکھی گئی تھی۔

(11) الكوثر الجاری: احمد بن اسماعیل الکورانی الحنفی المتوفی ۸۹۳ھ کی شرح ہے اس کے شروع میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کی گئی ہے اس میں حل لغات اور ضبط اسماء رواتہ پر زور دیا گیا ہے اور حافظ ابن حجر اور کرمانی کا بالخصوص رد کیا گیا ہے۔

(۱۲) التوشیخ على الجامع الصحيح: یہ حافظ جلال الدین السیوطی المتوفی 911 ھ کی شرح ہے اس میں زیادہ تر لغوی معانی بیان کیے گئے ہیں۔

(۱۳) ارشاد الساری: یہ شرح شهاب الدین احمد بن محمد الخطيب القسطلانی الشافعی المتوفی 923ھ کی تصنیف ہے۔ دس مجلدات پر مشتمل ہے کتاب کے شروع میں امام بخاری کی مفصل سوانح ذکر کی گئی ہے اس شرح میں فتح الباری سے بہت زیادہ استفادہ کیا گیاہے۔

سطور بالا میں جن شروح کا ذکر کیا گیا ہے حاجی خلیفہ نے کشف الظنون میں ان کے علاوہ اور پینتیس سے زیادہ شروح کا ذکر کیا ہے لیکن طوالت کی وجہ سے ہم ان کے ذکر کو ترک کر رہے ہیں۔

صحیح بخاری کی سب سے زیادہ مشہور مفصل مفید اور متداول دو شرحیں ہیں عمدة القاری اور فتح الباری ” عمدة القاری حافظ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ۸۵۵ھ کی تصنیف ہے اور فتح الباری حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی 852ھ کی تصنیف ہے۔ اب ہم سطور ذیل میں ان دونوں شرحوں کا مفصل تعارف کرارہے ہیں۔