ائمہ اہلسنت سے مخطئ شاطبی کا رد
ائمہ اہلسنت سے مخطئ شاطبی کا رد
شاطبی مخطئ کا ایک فتویٰ پیش کیا اور ہم کو نصیحت کرنے والے
انہوں نے علامہ شاطبی مخطئ کا یہ قول لکھا کہ :
اس تقسیم پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:إن هذا التقسيم أمر مخترع لا يدل عليه دليل شرعي
بدعت کی یہ تقسیم خود گھڑی گئی ہے ادلہ شرعیہ اس تقسیم پر دلالت نہیں کرتیں
(الاعتصام للشاطبی 316/1)
شاطبی ساتویں ہجری کے اختتام میں مرا یعنی ۷۹۰ھ میں
اور اسکا یہ کلام نہایت گرا ہوا اور خارجی سوچ کی عکاسی کرنے والا کلام ہے ۔۔ یعنی جس وجہ سے ہم ابن تیمیہ سمیت ابن عبد الوھاب نجدی وغیرہ سے نفرت رکھتے ہیں اور انکی خارجی سوچ اور سلف صالحین کے برعکس اپنا شاذ موقف رائج کرنے والے تھے اور وہی سوچ جب کسی اہل سنت کے خارجی صفت بابے میں آئے تو اسکی مذمت کرنا بھی ویسے واجب ہے جیسا کہ ہم مخالف جماعت کی کرتے ہیں
اب شاطبی نے جو لکھا منہ اٹھا کر کہ یہ بدعت کی تقسیم خود گھڑی گئی ہے ادلہ شرعیہ میں اسکی کوئی تقسیم نہیں
یہی قول شاطبی کی جہالت اور تنگ نظری اور قلیل مطالعہ کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے
کیونکہ اس کی یہ جہالت پر مبنی فتوے بازی صحابہ تک جاتی ہے
سب سے پہلے بدعت کو اچھا کہنے والے صحابہ میں حضرت عمر رضی اللہ ہیں
دوسرے صحابی حضرت عبداللہ بن عمر ہیں جو کہ ایک مقام پر کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے اور ہم یہاں سے دور لے جاو (ابی داود)
اور ایک جگہ کہتے ہیں کہ یہ عمل بدعت ہے اور بہت اچھی بدعت ہے
(بخاری و مصنف ابن ابی شیبہ )
اسی طرح یہی موقف امام شافعی کا ہے
کہ بدعت دو قسم کی ہے ایک ضلالہ اور دوسری حسنہ اور انکی دلیل حضرت عمر کا بدعت کو حسنہ کہنا ہے
اس پر تبصرہ آخر میں پیش کیا جائے گا
یہی موقف
امام قرطبی کا ہے
امام ببیھقی کا
امام نووی کا
امام ابن رجب شارح بخاری کا
یہی موقف امام ابن حجر عسقلانی شارح بخاری کا
یہی موقف امام عینی شارح بخاری کا
یہی موقف امام کرمانی شارح بخاری کا
یہی موقف امام قسطلانی مالکی شارح بخاری کا
یہی موقف امام ابن جوزی محدث کا
یہی موقف امام امام ابن حجر مکی محدث کا
یہی موقف امام ملا علی قاری شارح مشکاتہ کا
یہی موقف امام آلوسی بغدادی کا
یہی موقف امام مناوی کا
یہی موقف امام ابن عبدالسلام السلمی کا
یہی موقف امام ابن الاثیر جزری کا
یہی موقف ابن کثیر کا
یہی موقف امام جلال الدین سیوطی کا
اور اس مسلے پر اہل سنت کا اجماع ہے کہ بدعت متعدد اقسام کی ہے ہر بدعت گمراہی نہیں
انہوں نے ہم کو ایک مخطئ مقلد کا قول پیش کیا جو ہم نے ثابت کر دیا کہ مالکیہ کے محدثین نے بھی اسکی اس بات کو گھاس نہیں ڈالی
اب ہم وہابیہ کے مجتہد مطلق امام شوکانی رحمہ اللہ کا قول پیش کرتے ہیں چونکہ یہ انکے ہاں مجتہد درجے کا مقام رکھتے ہیں
تو علامہ شوکانی حضرت عمر کے حدیث نعمت البدعہ کی شرح میں لکھتے ہیں :
البدعة أصلها ما أحدث على غير مثال سابق، وتطلق في الشرع على مقابلة السنة فتكون مذمومة، والتحقيق أنها إن كانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي حسنة، وإن كانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي مستقبحة، وإلا فهي من قسم المباح، وقد تنقسم إلى الأحكام الخمسة. انتهى
شوکانی صاحب کہتے ہیں :
لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جسکی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاحی شرع میں سنت کے مقابلے میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے
اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہو جو شریعت میں مستحسن( مستحب اچھا ) ہو تو یہ بدعت حسنہ ہے اگر ایسے اصو کے تحت داخل ہو جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سئیہ ہے ورنہ بدعت مباح ہے اور بلا شبہ اسکی پانچ اقسام ہے
(نیل الاوطار ، جلد ۳، ص ۶۵)
اب کوئی بھی ایسا غیر مقلد نہیں کہ جس میں اتنی علمی ہمت ہو کہ وہ جمہور ائمہ اہلسنت سمیت اپنے مجتہد کے قول کو تسلیم کر سکے آخر یہ بھی تو انہی کی برادری کا ہے
اب ہم شاطبی مخطئ کے ہم عصر اور ان سے مقدم امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ سے امام شافعی کے قول کی شرح بیان کرتے ہیں
اور جو لوگ بدعت لغوی کی پھکی دیتے ہوئے کچھ اجہل غیر مقلدین فیسبک پر نظر آتے ہیں تو انکا بھی رد ہو جائے کہ اصل میں بدعت لغوی ہی بدعت حسنہ ہے باقی موقف ایک ہے
امام ابن رجب اپنی تصنیف : جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثا من جوامع الكلم میں فرماتے ہیں :
الشافعي رحمة الله عليه يقول: البدعة بدعتان: بدعة محمودة، وبدعة مذمومة، فما وافق السنة فهو محمود، وما خالف السنة فهو مذموم. واحتج بقول عمر: نعمت البدعة هي.
ومراد الشافعي رحمه الله ما ذكرناه من قبل: أن البدعة المذمومة ما ليس لها أصل من الشريعة يرجع إليه، وهي البدعة في إطلاق الشرع، وأما البدعة المحمودة فما وافق السنة، يعني: ما كان لها أصل من السنة يرجع إليه، وإنما هي بدعة لغة لا شرعا، لموافقتها السنة.
وقد روي عن الشافعي كلام آخر يفسر هذا، وأنه قال: والمحدثات ضربان: ما أحدث مما يخالف كتابا، أو سنة، أو أثرا، أو إجماعا، فهذه البدعة الضلال، وما أحدث فيه من الخير، لا خلاف فيه لواحد من هذا، وهذه محدثة غير مذمومة.
وكثير من الأمور التي حدثت ولم يكن قد اختلف العلماء في أنها بدعة حسنة حتى ترجع إلى السنة أم لا؟
امام شافعی سے مروی ہے ہ بدعتہ محمود بھی ہے اور مذموم بھی جو بدعت سنت (کے احکامات ) کے موافق ہوگی ہے وہ محمود ہے اور جو سنت کے خلاف ہوگی وہی مذموم ہے
اور انہوں نے احتجاج کیا حضرت عمر کے قول نعمت البدعہ سے
پھر امام ابن رجب کہتے ہیں امام شافعی کی مراد یہ ہے جسکو ہم پہلے بیان کر آئے ہیںں :
کہ بدعت مذموم ہو ہے جسکی کوئی اصل نہ ہو شریعت میں تو شریعت کی طرف لوٹایا جائے گا یہی بدعت شرعی ہے
(یعنی شریعت میں جو بدعت ہوگی وہی ضلالت ہوگی جس سے شریعت کے ارکان و احکامات میں کمی و زیادتی ہو وہ بدعت شرعی اور ضلالت ہے )
پھر امام ابن رجب فرماتے ہیں :
اور جو بدعت محمود ہے وہ بدعت ایسی ہوتی ہے جو سنت کے موافق ہوتی ہے اور اسکی اصل شریعت میں موجود ہوتی ہے یہ شرعی بدعت نہیں ہوتی بلکہ لغوی ہوتی ہے
(نوٹ : امام ابن رجب کا مطلب ہے کہ جو بدعت محمود ہے وہ بدعت حقیقی نہیں کیونکہ حقیقی بدعت سے شریعت میں کمی و زیادتی ہوتی ہے اور وہ ضلالہ ہے اور جو بدعت تو ہو لیکن سنت کے موافق ہو تو اسکو لغوی بدعت کہا جائے گا کیونکہ اسی اصل موجود ہے اور جمہور محدثین اس لغوی بدعت پر بدعت حسنہ کا اطلاق کرتے ہیں یعنی موقف میں کوئی بھی فرق نہیں فقط الفاظ کے اطلاق میں تبدیلی ہے )
پھر امام ابن رجب لکھتے ہیں کہ امام شافعی سے جو تفصیل سے یہ کلام آیا ہے وہ یوں ہے کہ
ایسے نئے امور جو کتاب یعنی قرآن کی مخالفت کرے یا سنت کی یا کسی اثر صحابی کی یا اجماع کی تو ایسی بدعت ضلالہ ہے اور وہ نئے امور جو خیر میں سے ہیں جو پہلے بیان کردہ کسی بھی چیز کی مخالفت نہ کرے اور یہ بدعات غیر مذمومہ ہیں یعنی اچھی ہیں
اور ایسے کثیر نئے امور ہو رہے ہیں جس میں علماء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ بدعت حسنہ ہے یہاں تک کہ انکو سنت کی طرف لوٹانا ہے یا نہیں
سمجھنے والوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے نہ ماننے والوں کے لیے ہزار دلائل بھی کم ہیں
تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی