” یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے”

 

بارہ سال کی وہ پتلی سیاہ رنگ کی لڑکی پچھلے کئی دنوں سے قافلوں کی آمد دیکھنے آ رہی تھی۔ گرمیوں کے دن تھے اور شام سے تجارتی قافلوں کی واپسی ہو رہی تھی۔ وہ لڑکی کئی روز سے یونہی قافلوں کے آنے کا منظر دیکھتی لیکن جسے وہ ڈھونڈنے آتی تھی وہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔ شام ہونے سے پہلے وہ لڑکی گھر لوٹ جاتی۔ گھر میں انیس سالہ اسکی مالکن آمنہ بستر پر ہوتی تھیں۔ آمنہ حاملہ تھیں اور دو ماہ میں بچے کی آمد متوقع تھی۔ آمنہ کے شوہر عبداللّٰہ کسی بھی دن شام سے واپس آنے والے تھے۔ وہ لڑکی پہاڑوں سے گھرے اس اجنبی شہر میں صرف دو لوگوں کو جانتی تھی اور ان میں سے ایک پچھلے کئی ماہ سے سفر پر تھے۔ گھر جاتے ہی وہ لڑکی کھانا پکاتی، آمنہ کو کھلاتی اور پھر اپنی بھولی بھالی باتوں سے انکا دل بہلانے کی کوشش کرتی۔ آخری قافلہ کے ساتھ یہ روح فرسا خبر بھی پہنچی کہ عبداللّٰہ شام سے واپسی پر یثرب نامی بستی میں پہنچ کر وفات پا گئے۔ بارہ سال کی اس لڑکی کو انیس سالہ آمنہ کو انکی بیوگی کی خبر دینا پڑی۔ انتظار کی نوعیت بدل گئی۔ اب اداس اور ٹوٹی آمنہ کو شوہر کی بجائے اپنے آنے والے بچے کا انتظار تھا۔ آخر وہ ساعت آن پہنچی۔ دردِزہ میں مبتلا آمنہ کے پاس اس لڑکی کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ بچہ اس دنیا میں آیا تو اسے سب سے پہلے اٹھانے اور سنبھالنے والی وہ لڑکی تھی۔ ننھے محمد نے جب اس دنیا میں پہلی بار آنکھیں کھولیں تو سب سے پہلا چہرہ اسی لڑکی کا دیکھا۔ لڑکی نے محمد کو کپڑے میں لپیٹ کر اسکی ماں کے حوالے کیا لیکن ایک اٹوٹ رشتے کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ محمد ابن عبداللّٰہ اور برکہ بنت ثعلبہ کی قسمتوں کے فیصلے رب العالمین نے کر دیئے تھے۔ برکہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسے کتنی بڑی سعادت اور آزمائش کے لیئے چنا گیا ہے۔

 

دو اونٹوں پر سوار اس قافلے میں تین لوگ شامل تھے۔ چھ سالہ محمد اپنی پچیس سال کی ماں آمنہ کے ساتھ بیٹھے یثرب سے مکہ واپس جا رہے تھے۔ دوسرے اونٹ پر انیس سال کی برکہ بھی انکے ساتھ تھی۔ راستے میں ابوا کے مقام پر آمنہ کی طبیعت خراب ہوئی اور انہیں لگا کہ انکا وقت پورا ہو چکا ہے۔ ننھے محمد سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔ آمنہ نے برکہ کو اپنے پاس بلایا اور اسکے کان میں سرگوشی کی کہ میں نہیں بچ پاؤں گی میرے بعد میرے بیٹے کا خیال رکھنا، ہمیشہ اسکے ساتھ رہنا اور کوشش کرنا کہ میرا بیٹے کو اس غم کے علاوہ کوئی غم نہ ملے۔ آمنہ ننھے محمد برکہ کو سونپ کر وفات پا گئیں۔ انیس سالہ برکہ پر بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی تھی۔ اس نے خود قبر کھود کر آمنہ کو دفنایا اور روتے محمد کو سینے سے لگائے مکہ واپس روانہ ہوگئی۔ اس دن کے بعد سے برکہ نے محمد ہی کو اپنی زندگی کا محور بنا لیا۔ لوگوں کو ورثے میں گھر اور جائداد ملتی ہے لیکن محمد کو ورثے میں صرف برکہ ملی۔ محمد اپنے گھر سے عبدالمطلب کے گھر گئے یا پھر اسکے بعد ابوطالب کے گھر برکہ ان کے ساتھ تھیں۔ تغیر بھرے ان سالوں میں وہ دونوں ہی واحد مستقل تھے۔ انیس سالہ برکہ ہی اب چھ سالہ محمد کی ماں تھیں۔

 

خدیجہ اور محمد کی شادی ہوئی۔ محمد شادی کے بعد خدیجہ کے گھر منتقل ہوئے۔ محمد کے پاس سامان نہیں تھا صرف ایک خاتون اس کے ساتھ تھیں۔ خدیجہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو محمد نے مسکرا کر تعارف کرایا “ھیی اُمی بعد اُمی”۔ یہ میری ماں کے بعد میری ماں ہیں۔ محبت کی پیکر خدیجہ نے کھلی بانہوں کے ساتھ برکہ کو خوش آمدید کہا۔ کچھ دن گزرے تو محمد اور خدیجہ نے اصرار شروع کیا کہ برکہ اب آپ بھی شادی کر لیں لیکن برکہ کی زندگی کا مقصد ہی محمد کا خیال رکھنا تھا سو وہ خدیجہ سے کہتیں کہ میں نے محمد کو عمر بھر نہیں چھوڑا اور نہ اس نے میرا ساتھ چھوڑا اب میں کیسے اس چھوڑ دوں۔ لیکن محمد اور خدیجہ کا اصرار بڑھتا گیا اور برکہ کی شادی یثرب کے قبیلہ خزرج کے عبید ابن زید سے ہوگئی۔ برکہ کے بیٹے ایمن پیدا ہوئے اور یوں برکہ کا نام ام ایمن پڑ گیا۔ اس دوران عبید کی وفات ہوئی اور ام ایمن دوبارہ محمد کے گھر میں منتقل ہوگئیں۔ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وحی کا نزول ہوا اور ام ایمن کے ہاتھوں میں بڑے ہوئے محمد اب محمدؐ رسول اللّٰہ بن گئے۔ ام ایمن خدیجہ کے بعد وہ دوسری خاتون تھیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ ایک دن رسولؐ اللّٰہ نے کہا کہ جو کوئی جنت کی خاتون سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ ام ایمن سے شادی کر لے۔ زید بن حارثہ نے حامی بھری اور ام ایمن کی دوسری شادی طے ہوگئی۔ کسی کو نہیں لگتا تھا کہ اب ام ایمن کا کوئی بچہ پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ اب وہ بوڑھی ہوگئی تھیں لیکن اللّٰہ نے انہیں ایک اور بیٹے سے نوازا جنکا نام اسامہ بن زید تھا۔

 

مکہ میں جب مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی تو مسلمان چھپتے چھپاتے مدینہ ہجرت کرنے لگا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر ہجرت گروہوں کی صورت میں ہوتی تو مکہ والوں کو خبر ہو جاتی۔ تبھی ام ایمن جنکی عمر اب ستر سال ہونے والی تھی اکیلی مدینہ روانہ ہوئیں۔ راستے میں دھوپ، گرمی اور پیاس سے آپ نڈھال ہوگئیں تو تبھی آسمان سے ایک بالٹی اتری جو رسی سے بندھی تھی اور رسی کا دوسرا سرا نظر نہیں آ رہا تھا۔ ام ایمن نے وہ پانی پیا اور باقی بچا پانی اپنے اوپر انڈیل لیا۔ وہ خود بتاتی ہیں کہ اس کے بعد گرمیوں کے روزے میرے لیئے سب سے آسان عبادت بن گئے۔ جب وہ سوجے پیروں اور گرد آلود چہرے کے ساتھ مدینہ پہنچیں تو رسولؐ اللّٰہ نے انہیں دیکھ کر کہا کہ میری ماں آپ نے خود پر جنت واجب کر لی۔ یہ دوسرا موقع تھا جب انہیں جنت کی بشارت دی گئی۔ رسولؐ اللّٰہ انہیں بہت پیارے تھے۔ ام ایمن ایک over protective ماں تھیں۔ رسولؐ اللّٰہ ہر روز ان سے ملنے جاتے اور وہ کھانے پینے کا سامان لیئے انتظار میں ہوتیں۔ اگر کسی دن رسولؐ کو بھوک نہ ہوتی یا وہ نفلی روزے سے ہوتے تو بھی ام ام ایمن “نہیں محمد تم یہ کھاؤ” کہتے ہوئے انہیں زبردستی کھانا کھلا کر رہتیں۔ ام ایمن ہر غزوے میں آپؐ کے ساتھ جاتیں اور پوری جنگ میں وہ آپؐ پر نظر رکھتیں اور رکھتیں بھی کیوں نہ آمنہ سے کیا وعدہ جو نبھانا تھا۔ غزوہ احد میں رسولؐ کو خطرے میں دیکھ کر ام ایمن تلوار اٹھائے میدان میں اتر آئیں۔ رسولؐ بھی انہیں دیکھتے تو یہی کہتے کہ “میرے اہلِ بیت میں سے بس اب یہی باقی ہیں” انہیں اپنی ماں کہتے اور انکے بیٹے اسامہ کو اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے۔ جیسے حسن، حسین، زینب، علی اور امامہ رسولؐ کی گود میں کھیلتے اور کمر پر سوار ہو جاتے اسامہ بھی ویسا ہی کرتے۔ رسولؐ جب بھی ام ایمن سے پوچھتےکہ میری ماں آپ کیسی ہیں تو وہ جواب میں یہی کہتیں کہ جب تک تمہارا لایا دین خیر سے ہے میں خیر سے ہوں۔

 

ام ایمن کیونکہ حبشہ سے تھیں تو انکی عربی کمزور تھی۔ رسولؐ اللّٰہ انکی باتیں سن کر ہنس پڑتے تھے۔ جیسے وہ رسولؐ کو “سلام اللّٰہ علیہ” کی بجائے “سلام لا علیہ” کہہ دیتیں اور رسولؐ انہیں ہنس کر کہتے کہ آپ خالی السلام کہہ لیا کریں۔ اسی طرح جب ام ایمن نےسواری کے لیئے اونٹ مانگا تو آپؐ نے کہا کہ میں تو آپؐ کو اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ جس پر ام ایمن نے کہا نہیں مجھے اونٹ چاہیئے اونٹ کے بچے کا میں کروں گی۔ رسولؐ نے مسکرا کر کہا کہ میری ماں ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔

 

جب رسولؐ کا انتقال ہوا تو ایک طرف پوری امت میں آہ و بکا شروع ہوگئی تو دوسری طرف ام ایمن بالکل چپ ہو گئیں۔ وہ آپؐ کی وفات پر نہ روئیں۔ آپؐ کی تدفین کو بھی دور سے دیکھا اور اسکے بعد لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔ آپؐ کی وفات کے بعد ابوبکر اور عمر آپ سے ملنے آئے تو انہیں دیکھ کر ام ایمن نے رونا شروع کر دیا۔ جس پر ابوبکر نے ان سے کہا کہ آپ نہ روئیں رسولؐ اللّٰہ اب اس دنیا سے بہتر جگہ پر ہیں۔ اس پر ام ایمن نے کہا کہ میں اس لیئے نہیں رو رہی کہ رسولؐ اللّٰہ اب ہم میں نہیں رہے وہ بیشک اب بہت اعلٰی جگہ پر ہیں میں تو اس لیئے رو رہی کہ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔ اللّٰہ کے رسولؐ کے زریعے ہمارا اللّٰہ سے جو تعلق تھا وہ اب نہیں رہا۔ یہ بات سن کر ابوبکر و عمر نے بھی رونا شروع کر دیا۔

 

ام ایمن نے بہت لمبی عمر پائی۔ انکے پہلے شوہر فوت ہوئے۔پھر بیٹے ایمن غزوہِ حنین میں شہید ہوئے. پھر دوسرے شوہر غزوہِ موتہ میں شہید ہوئے۔ پھر رسولؐ اللّٰہ کی وفات ہوئی۔ پھر چھوٹے بیٹے اسامہ بن زید یمامہ میں شہید ہوئے۔ یوں ام ایمن کا ہر رشتہ انکی زندگی میں فوت ہوا۔ ام ایمن خود حضرت عمر کی شہادت کے بیس دن بعد فوت ہوئیں اور انہیں بقیع میں اس طرح دفن کیا گیا کہ انکی قبر اور جنابِ رسولؐ کی قبر ایک سیدھ میں ہیں۔

 

اس کائنات میں صرف ایک انسان رسولؐ اللّٰہ کی پہلی سانس سے آخری سانس تک انکے ساتھ تھا اور وہ انسان سیدہ برکہ بنتِ ثعلبہ ام ایمن تھیں اور یہ اعزاز کسی اور کے پاس نہیں۔ ام ایمن سے بڑھ کر وفا شعار اور محبت کرنے والا کوئی اور نہیں۔ اللّٰہ سے دعا ہے کہ جنت میں ہم عاصیوں کو اُمی بعد اُمی کا دیدار اور صحبت نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین

 

طالبِ دعا عامر کندی از قلم خود۔۔۔