حضرت امیر معاویہؓ پر ایک روایت کے حوالے سے شراپ پینے کے الزام کی حقیقت اور روایت کی تحقیق

ازقلم : اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

 

اس فحش الزام کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ روایت پیش کی جاتی ہے جو کہ مسند احمد میں ہے :

 

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﺒﺎﺏ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺣﺴﻴﻦ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ، ﻗﺎﻝ ﺩﺧﻠﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﺃﺑﻲ، ﻋﻠﻰ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻓﺄﺟﻠﺴﻨﺎ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻔﺮﺵ ﺛﻢ ﺃﺗﻴﻨﺎ ﺑﺎﻟﻄﻌﺎﻡ ﻓﺄﻛﻠﻨﺎ ﺛﻢ ﺃﺗﻴﻨﺎ ﺑﺎﻟﺸﺮﺍﺏ ﻓﺸﺮﺏ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺛﻢ ﻧﺎﻭﻝ ﺃﺑﻲ ﺛﻢ ﻗﺎﻝ ﻣﺎ ﺷﺮﺑﺘﻪ ﻣﻨﺬ ﺣﺮﻣﻪ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ۔۔۔

ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﺑﺮﯾﺪﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﻌﺎﯾﮧ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﺴﺘﺮ ﭘﺮ ﺑﭩﮭﻮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻣﻨﮕﻮﺍﯾﺎ ﺟﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﺮﻭﺏ ﻣﻨﮕﻮﺍﯾﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯼ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ‏( ﺹ ‏) ﻧﮯ ﺟﺐ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺣﺮﺍﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﯿﺎ۔۔۔

ﻣﺴﻨﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﺝ 5 ﺹ 347 ﺣﺪﯾﺚ 22991

 

اس روایت میں سند اور متن دونوں اعتبار سے علتیں ہیں ۔

اس روایت کا مرکزی راوی زید بن حباب ہے

اور امام ابو حاتم نے بھی اسکی منکر روایت کی نشاندہی کی ہے کیونکہ اس سے منکرات بھی مروی تھیں۔

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ زَيْدُ بْنُ الحُبَاب عَنْ سليمان ابن الربيع، عن مَوْلَى أنسٍ ، عَنْ أنسِ بنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رسولُُ اللَّهِ: مَنْ كَفَّ غَضَبَهُ كَفَّ اللهُ عَنْهُ عَذَابَهُ، وَمَنْ خَزَنَ لِسَانَهُ سَتَرَ اللهُ عَوْرَتَهُ، وَمَنِ اعْتَذَرَ إِلَى اللهِ قَبِلَ اللهُ عُذْرَهُ؟قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ

اما م ابو حاتم نے ان سے مروی ایک روایت کو منکر کہا ہے

[العلل لابن أبي حاتم جلد 5 ص 200]

 

امام احمد بن حنبل کی اس پر جرح مفسر کے دلائل:

سمعته يَقُول كَانَ رجل صَالح مَا نفذ فِي الحَدِيث إِلَّا بالصلاح لِأَنَّهُ كَانَ كثير الْخَطَأ قلت لَهُ من هُوَ قَالَ زيد بن الْحباب

امام عبداللہ بن احمد بن حنبل اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ:میں نے انکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ وہ ایک صٓالح آدمی تھا لیکن حدیث میں اسکا نفاذ نہیں تھا مگر اصلاح کے ساتھ کیونکہ وہ بہت زیادہ خطا کرتا تھا ۔ میں نے پوچھا وہ کون ہے فرمایا وہ زید بن الحباب ہے

(یہ جرح مفسر ہے مطلق)

[العلل ومعرفة الرجال جلد 2 96]

 

قَالَ [سَمِعت أَحْمد قَالَ] زيد بن الْحباب كَانَ صَدُوقًا وَكَانَ يضْبط الْأَلْفَاظ عَن مُعَاوِيَة بن صَالح وَلَكِن كَانَ كثير الْخَطَأ

امام ابو داود اپنے شیخ امام احمد سے روایت کرتے ہیں : میں نے امام احمد سے سنا وہ کہتے ہیں زید بن حباب صدوق تھا وہ ابو معاویہ سے الفاظ تو یاد کر تا تھا لیکن کثیر خطاء کرتے تھا

[: سؤالات أبي داود للإمام أحمد بن حنبل في جرح الرواة وتعديلهم برقم 432]

 

یہ تو اس روایت کے راوی کا حال ہے جو عمومی طور صدوق ہے لیکن صاحب منکرات ہے اور بعض اوقات یہ روایات کو صحیح یاد نہیں کر پاتا تھا اور بقول امام احمد کثیر غلطیاں بھی کرتا تھا ۔

اور مذکورہ روایت میں اس سے غلطی ثابت بھی ہے متن کے حوالے سے ۔

 

روایت کے متن میں قابل اعتراض الفاظ شرب نہیں جسکا ترجمہ تفضیلیہ یا روافض شراب کر رہے ہیں کیونکہ عربی میں شراب کو خمر کہتے ہیں اور شرب تو عمومی مشروبات کو کہا جاتا ہے جس میں نبیذ بھی شامل ہے جب وہ تیز نہ ہو اور زیادہ پکی نہ ہو تو حلال ہوتی ہے کیونکہ اس میں نشہ نہیں ہوتا اور یہ چیزیں سنت ہیں پینا ۔

 

جیسا کہ صحیح مسلم میں ایک باب قائم ہے :

باب إِبَاحَةِ النَّبِيذِ الَّذِي لَمْ يَشْتَدَّ وَلَمْ يَصِرْ مُسْكِرًا:

باب: جس نبیذ میں تیزی نہ آئی ہو اور نہ اس میں نشہ ہو وہ حلال ہے۔

 

حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، قالا: حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن انس ، قال: ” لقد سقيت رسول الله بقدحي هذا الشراب كله العسل والنبيذ والماء واللبن “.

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے اپنے اس پیالہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد، نبیذ، پانی اور دودھ پلایا۔

[صحیح مسلم برقم: 523]

 

اس متن میں قابل غور بات ہے کہ شراب کے لفظ استعمال ہیں جس کا اطلاق مشروب و نبیذ پر ہے ۔ نہ کہ اس سے مراد اردو میں شراب مراد ہے جسکو عربی میں خمر کہتے ہیں

پس ثابت ہوا کہ روایت میں شراب سے مراد مشروب ہیں نہ کہ خمر شراب ۔۔۔

 

باقی رہا یہ اعتراض کہ اگر یہ حلال مشروب تھا تو عبداللہ بن بریدہ کے والد نے یہ کیوں کہا : ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ‏( ﺹ ‏) ﻧﮯ ﺟﺐ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺣﺮﺍﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﯿﺎ۔۔۔

 

تو اسکا جواب یہ ہے کہ یہ متن منکر اور غیر ثابت ہے کیونکہ اصل روایت میں یہ الفاظ موجود نہیں تھے ۔ جب امام ابن ابی شیبہ نے اس سے مذکورہ روایت سنی تھی تو اس میں یہ الفاظ نہ تھے جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں فقط اتنی روایت ہے :

 

حدثنا زيد بن الحباب، عن حسين بن واقد قال: حدثنا عبد الله بن بريدة قال: قال: دخلت أنا وأبي على معاوية، فأجلس أبي على السرير وأتى بالطعام فأطعمنا، وأتى بشراب فشرب، فقال معاوية: «ما شيء كنت أستلذه وأنا شاب فآخذه اليوم إلا اللبن، فإني آخذه كما كنت آخذه قبل اليوم» والحديث الحسن

[مصنف ابن ابی شیبہ برقم: 30560]

 

اس میں مذکورہ متن موجود نہیں کہ جس میں عبداللہ بن بریدہ کے والد نے کہا ہو یہ کہ میں یہ نہیں پیتا جسکو نبی اکرمﷺ نے حرام قرار دیا ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ امام احمد کی جرح ان پر صحیح تھی کہ اس سے منکرات مروی ہیں اور یہ صحیح سے یاد نہیں کرتا تھا اور کثیر غلطیاں کرجاتا تھا ۔ اور امام احمد کو بیان کرنے میں زید بن حبیب نے متن میں زیادتی کر دی جو کہ منکر ہے پچھلے متن سے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اب چونکہ ایسی منکر اور غیر ثابت روایات سے مرزا کے بھکت اور تفضیلیہ و روافف ض بھی اعتراضات کرتے رہتے ہیں تو ہم مجبور ہیں کہ ایک روایت الزامی طور پر ہم بھی پیش کرتے ہیں لیکن ہمارا مقصود بالکل اھل بیت یا مولا علی ؓ کی نتقیص کرنا نہیں ۔ بلکہ یہ روایت فقط الزامی طور پر پیش کی جارہی ہے ۔

 

کیا حضرت مولا علی علیہ السلام نے حرمت شراب کے حکم سے پہلے شراب پی کر نماز ادا کرائی ؟؟

 

امام ابی داود اپنی سند یہ روایت لاتے ہیں سنن میں :

حدثنا مسدد حدثنا يحيى عن سفيان حدثنا عطاء بن السائب عن أبي عبد الرحمن السلمي عن علي بن أبي طالب عليه السلام أن رجلا من الأنصار دعاه وعبد الرحمن بن عوف فسقاهما قبل أن تحرم الخمر فأمهم علي في المغرب فقرأ قل يا أيها الكافرون فخلط فيها فنزلت (لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون)

.علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہیں اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو ایک انصاری نے بلایا اور انہیں شراب پلائی اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی پھر علی رضی اللہ عنہ نے مغرب پڑھائی اور سورۃقل يا أيها الكافرون کی تلاوت کی اور اس میں کچھ گڈ مڈ کر دیا تو آیت:لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون

نشے کی حالت میں نماز کے قریب تک مت جاؤ یہاں تک کہ تم سمجھنے لگو جو تم پڑھو نازل ہوئی۔

[السنن ابی داود ، برقم : 3671]

 

سند کے رجال کی مختصر تحقیق:

۱۔ سند کا پہلا راوی مسدد شیخ ابی داود ہے

یہ ثقہ متفقہ علیہ ہے

امام ذھبی فرماتے ہیں یہ حدیث کے اعلام میں سے تھے اور حافظ و حجت ہیں

مسدد بن مسرهد بن مسربل الأسدي

الإمام، الحافظ، الحجة، أبو الحسن الأسدي، البصري، أحد أعلام الحديث.

ولد: في حدود الخمسين ومائة.

[سیر اعلام النبلاء برقم: 208]

 

۲۔دوسرے یحییٰ بن سعید القطان ناقد متقن محدث یہ امیر المومنین فی حدیث ہیں

جیسا کہ امام ذھبی سیر اعلام میں انکے بارے فرماتےہیں :

يحيى القطان بن سعيد بن فروخ أبو سعيد

الإمام الكبير، أمير المؤمنين في الحديث، أبو سعيد التميمي مولاهم، البصري، الأحول، القطان، الحافظ.

[سیر اعلام النبلاء برقم: 53 ]

 

۳۔تیسرے راوی سفیان الثوری ہیں انکا تعارف کرانے بھی ضرورت نہیں

یہ بھی متقن مجتہد امیر المومنین فی حدیث ہیں

امام ذھبی فرماتے ہیں :

سفيان بن سعيد بن مسروق الثوري *

هو شيخ الإسلام، إمام الحفاظ، سيد العلماء العاملين في زمانه، أبو عبد الله الثوري، الكوفي، المجتهد، مصنف كتاب (الجامع) .

[سیر اعلام النبلاء برقم: 82]

 

۴۔چوتھے راوی اس روایت کے عطاء بن السائب ہیں

یہ راوی ثقہ متقن ہیں اور بڑے بڑے جید و متشدد و معتدل محدثین نے اس راوی کی توثیق کی ہوئی ہے

لیکن انکو عمر کے آخری حصے میں اختلاط ہو گیا تھا اور یہ تلقین بھی قبول کر لیتے تھے

اور روایات میں اضطراب بھی واقع ہو جاتا تھا ان سے

اب یہ دیکھنا ہے کہ اختلاط سے پہلے ان سے کس کس نے سماع کیا ہے اور اختلاط کے بعد کس کس نے ان سے سماع حدیث کیا ہے

 

امام بخاری تاریخ الکبیر میں لکھتے ہیں :

عطاء بن السائب بن زيد أبو يزيد الثقفي ويقال: ابن السائب بن مالك الكوفي 1، وقال عبد الله بن أبي الأسود عن أبي عبد الله البحلى: مات سنة ست وثلاثين ومائة أو نحوها، وقال يحيى القطان: ما سمعت أحدا من الناس يقول في عطاء بن السائب شيئا في حديثه القديم، قيل ليحيى: ما حدث سفيان وشعبة أصحيح هو؟ قال: نعم إلا حديثين كان بأخرة عن زاذان

 

عطابن السائب ابو زید مالک الکوفی امام یحییٰ بن سعید القطان فرماتے ہیں : میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے عطاء بن السائب سے احادیث قدیما (یعنی اختلاط سے قبل) سنا ہے

امام یحییٰ بن سعید سے کہا گیا کہ کہ جو حدیث سفیان الثوری اور امام شعبہ بیان کرتے ہیں عطا سے کیا وہ صحیح ہیں ؟

تو فرمایا ہاں (صحیح ہیں ) سوائے ان احادیث کہ جنکو اخری عمر میں روایت کیا ہے زاذان سے

[التاریخ الکبیر للبخاری برقم: 3000 ]

 

امام ابن حبان الثقات میں فرماتے ہیں :

عطاء بن السائب بن زيد الثقفي كنيته أبو زيد من أهل الكوفة وقد قيل إنه عطاء بن السائب بن مالك يروي عن أبيه والكوفيين وقد قيل إنه سمع من أنس ولم يصح ذلك عندي مات سنة ست وثلاثين ومائة وكان قد اختلط بآخره ولم يفحش خطاءه حتى يستحق أن يعدل به عن مسلك العدول بعدتقدم صحة ثباته في الروايات روى عنه الثوري وشعبة وأهل العراق

 

عطابن السائب یہ اہل کوفہ سے تھے یہ والد اور کوفین والوں سے روایت کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے انہوں نے انس سے سماع کیا ہے یہ صحیح نہیں

انکو آخری عمر میں اختلاط ہو گیا تھا اور فاحش اغلاط کرتے اور انکی روایات وہ ثابت(صحیح ) ہیں جو ان سے امام سفیان الثوری ، امام شعبہ بن الحجاج اور کوفین والے روایت کریں

[الثقات ابن حبان 9928 ]

 

امام عجلی الثقات میں فرماتے ہیں :

عَطاء بن السَّائِب بن زيد يكنى أَبَا زيد كوفى تَابِعِيّ جَائِز الحَدِيث وَقَالَ مرّة كَانَ شَيخا قَدِيما ثِقَة روى عَن بن أبي أوفى وَمن سمع من عَطاء قَدِيما فَهُوَ صَحِيح الحَدِيث مِنْهُم سُفْيَان الثَّوْريّ فَأَما من سمع مِنْهُ بِأخرَة فَهُوَ مُضْطَرب الحَدِيث مِنْهُم هشيم وخَالِد بن عبد الله الوَاسِطِيّ إِلَّا أَن عَطاء كَانَ بِأخرَة يَتَلَقَّن إِذا لقنوه فِي الحَدِيث لِأَنَّهُ كَانَ كبر صَالح الْكتاب وَأَبوهُ تَابِعِيّ ثِقَة قلت واملاه على بن الْمَدِينِيّ فِيمَن يُسمى عَطاء وَهُوَ ثِقَة

عطاء بن سائب یہ تابعی اور حدیث میں جائز ہیں ، اور یہ شیخ قدیما ثقہ تھے

یہ ابن ابی اوفی سے بیان کرتے ہیں اور ان سے سماع کرنے والے جو قدیم ہیں جنکی ان سے حدیث صحیح درجے کی ہوتی ہے ان میں سفیان الثوری ہیں اور جن کا سماع ان سے اختلاط کے بعد ہے جس میں یہ مضطرب الحدیث ہو گئے تھے اس وقت میں ان سے سماع کرنے والے ہشیم ، خالد بن عبداللہ ، ارو عطاء آخر میں تلقین بھی قبول کرنے لگ گئے لیکن اسکے علاوہ وہ بڑے نیک تھے علی بن مدینی نے لکھا ہے ان سے یہ ثقہ تھے

[الثقات للعجلی برقم: 1237 ]

 

امام احمد حنبل کا فرمان :

نا عبد الرحمن نا محمد بن حمويه بن الحسن قال سمعت أبا طالب يقول سألت أحمد يعني ابن حنبل عن عطاء بن السائب قال من سمع منه قديما كان صحيحا ومن سمع منه حديثا لم يكن بشئ، سمع منه قديما شعبة وسفيان وسمع منه حديثا جرير وخالد بن عبد الله واسمعيل يعنى ابن علية وعلي بن عاصم فكان يرفع عن سعيد بن جبير اشياء لم يكن يرفعها وقال وهيب لما قدم عطاء البصرة قال كتبت

عن عبيدة ثلاثين حديثا ولم يسمع من عبيدة شيئا، فهذا اختلاط شديد.

امام احمد بن حنبل سے عطاء کے بارے پوچھا گیا تو فرمایا کہ جنہوں نے اس سے قدیم سماع کیا وہ صحیح ہے اور دوسرا کا سماع کیا ہوا کچھ نہیں ہے

اور ان سے قدیم سماع کرنے والوں میں سے شعبہ ، اور سثفیان الثوری ہیںاور ان سے سماع کرنے والے جریر ، خالد بن عبداللہ ، اسمعیل اور علی بن عاصم اور وھیب نے کہا ہم بصرہ گئے اور عطاؑ سے لکھا عبیدہ کے تعلق سے اور یہ عبیدہ سے کچھ نہیں سنا ہوا تھا اوری ہ انکا شدید اختلاط کا زمانہ تھا

[الجرح والتعدیل]

 

الغرض امام ابو زرعہ

امام ابی حاتم

وغیرہ سب محدثین کا متفقہ علیہ فیصلہ ہے کہ

عطابن سائب سے سفیان الثوری اور امام شعبہ کا سماع قدیم اور صحیح ہے

اور یہ روایت بھی امام سفیان الثوری بی بیان کر رہے ہیں اور یہ روایت اصول حدیث اور محدثین کے نزدیک تحقیقا صحیح ثابت ہوتی ہے

 

۵۔اور اس روایت کےپانچوے و اخری راوی ابو عبدالڑھمن السلمی ہیں :

أبو عبد الرحمن السلمي عبد الله بن حبيب

مقرئ الكوفة، الإمام، العلم، عبد الله بن حبيب بن ربيعة الكوفي.

من أولاد الصحابة، مولده في حياة النبي -صلى الله عليه وسلم-.

قلت: ما أعتقد صام ذلك كله، وقد كان ثبتا في القراءة، وفي الحديث.

حديثه مخرج في الكتب الستة.

یہ مقری الکوفی امام عالم ہیں یہ صحابہ کی اولاد میں سے تھے ، اور نبی پاک کی زندگی میں پیدا ہوئے

امام ذھبی فرماتے ہیں میں کہتا ہوں

یہ علم قرآت اور علم حدیث میں ثبت تھے اور انکی روایت کتب الستہ میں لی گئی ہے

[سیر اعلام النبلاء برقم: 97 ]

 

اسی طرح اس روایت کو مفسرین و محدثین نے اسی روایت کے تحت یہی حدیث بیان کی ہے کہ اس آیت کا نزول اسی وجہ سے ہوا

 

جیسا کہ امام طحاوی نے اپنی تفسیر میں یہ روایت لکھی ہے آیت کا سبب نزول ثابت کرنے کے لیے

عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: دَعَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ عَلِيًّا، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، فَأَصَابُوا مِنَ الْخَمْرِ، فَقَدَّمُوا عَلِيًّا فِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ فَقَرَأَ: {قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ} فَخَلَطَ فِيهَا فَنَزَلَتْ: {يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ} ، فَهَذَا الْحَدِيثُ عَلَى السُّكْرِ مِنَ الشَّرَابِ، وَذَلِكَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الْخَمْرِ، وَالنَّهْيُ الَّذِي فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِنَّمَا وَقَعَ عَلَى الصَّلَاةِ فِي عَيْنِهَا

کہ یہ واقعہ شراب کے حرا ہونے سے قبل کا ہے

اسی طرح دیگر محدثین و مفسرین نے بیان کیا

 

یہ واقعہ کیونکہ شراب کے حرام ہونے سے قبل کا ہے لیکن یہ تو ثابت ہوا کہ مولا علی ؓ نے شراب پی تھی اور نماز ادا کرواتے ہوئے بھول گئے ۔ لیکن ہم ایسی روایات سے نہ ہی صحابہ کرامؓ کے پہلے اداور کے اعمال پر بات کرینگے اور نہ کرنے دینگے ۔

ہمارے لیے صحابہ کرامؓ اور اھل بیت ؓ دونوں محبوب ہیں اور جن کے دل میں بیماری ہیں چاہے رواف ض ہوں یا ناصبی انکو تکلیف پہنچاتے رہیینگے

 

تحقیق : دعواگو اسد الطحاوی الحںفی البریلوی