●حضرت عائشہ صدیقہ کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے مزاح کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی عائشہ صدیقہ کا مزاح پسند کرنا♡♡

 

▪︎سید المحدثین اپنی مشہور تصنیف الادب المفرد میں ایک روایت لاتے ہیں :

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ: مَزَحَتْ عَائِشَةُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ أُمُّهَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَعْضُ دُعَابَاتِ هَذَا الْحَيِّ مِنْ كِنَانَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلْ بَعْضُ مَزْحِنَا هَذَا الْحَيُّ»

▪︎حضرت ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما نے مزاح کی بات کی رسول اللہﷺتشریف فرما تھے ، اور ان کی والدہ نے کہا : یا رسول اللہ! یہ بات بنو کنانہ کی طرف سے آؕئی ہے (یعنی یہ مزاح کرنا یہ یہ طبیعت ہمارے نسب کنانہ کی طرف سے ہے )

یہ سن کر نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ہمارے بھی کچھ مزاج اسی قبیلے سے آئے ہیں

[الادب المفرد للبخاری]

●(سبحان اللہ یعنی نبی اکرمﷺ کی مراد ہے اگر عائشہ مزاح کرنا جانتی ہیں تو ہم بھی کنانہ کے نسب والے ایسے مزاح کو سمجھنے اور کرنے کی طبیعت رکھتے ہیں )

 

اس روایت کی سند ان شاءاللہ صحیح ہے

 

●البانی صاحب نے اس روایت کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے روایت کو مرسل قرار دیتے ہوئے جسکا جواب آگے آئے گا

 

《سند کے رجال کی تحقیق!》

 

■۱۔ بشر بن محمد

بشر ابن محمد السختياني أبو محمد المروزي صدوق رمي بالإرجاء من العاشرة مات سنة أربع وعشرين خ

[تقریب التہذیب ، برقم ۷۰۱]

 

■۲۔ عبداللہ بن مبارک انکی توثیق پیش کرنے کی ضرورت نہیں امیر المومنین فی حدیث ہیں

 

■۳۔ عمر بن سعيد بن أبي حسين،

امام ذھبی انکی توثیق نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

عمر بن سعيد بن أبي حسين النوفلي المكي وثقه أحمد، وغيره.وقال أبو حاتم: صدوق.

[تاریخ الاسلام الذھبی ، جلد 4 ، ص 162]

 

■۴۔ عبيد الله بن عبد بن أبي مليكة

امام ذھبی انکی توثیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

الإمام، الحجة، الحافظ،

[سیر اعلام النبلاء ، جلد ۵ ، ص ۸۹]

 

●محدثین کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ راوی تابعی یا صحابی ہے

 

لیکن امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ انکو صحابہ میں شمار کرتے ہیں اور انکے دلائل درج ذیل ہیں :

 

●عبيد الله

بن [عبد بن أبي مليكة] «2» زهير بن عبد الله بن جدعان القرشي التيمي «3» ، والد الفقيه عبد الله بن أبي مليكة.

ذكره أبو علي الغساني في حواشي الاستيعاب، وقال: له صحبة، لكنه نسبه لجده، فقال: عبيد الله بن أبي مليكة، وهو الذي أعتمده المزي في التهذيب أن أبا مليكة جد الفقيه عبد الله. وأما ابن الكلبي وابن سعد وغيرهما فأدخلوا بين عبد الله وأبي مليكة عبد الله، وهو المعتمد.

وذكره الفاكهي في كتاب مكة خبرا يدل على أن له صحبة، قال: حدثنا سعيد بن عبد الرحمن، أنبأنا «4» هشام بن سليمان، عن ابن جريج: سمعت ابن أبي مليكة يقول: مر عمر «5» في أجناد، فوجد رجلا سكران، فطرق به دار عبد الله «6» بن أبي مليكة، وكان جعله يقيم الحدود، فقال: إذا أصبحت فاجلده.

قلت: لا يقيم عمر رضي الله عنه من يقيم الحدود حتى يكون رجلا، وعمر عاش بعد النبي صلى الله عليه وسلم ثلاث عشرة سنة تنقص قليلا فيكون عبد الله أدرك من الحياة النبوية ما يكون به مميزا، وهو قرشي من أقارب أبي بكر الصديق.ثم وجدت له حديثاأورده أبو بشر الدولابي في الكنى، من طريق محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى، عن الحكم بن عيينة، عن ابن أبي مليكة- أن أباه سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن أمه، فقال: يا رسول الله، كانت أبر شيء وأوصله وأحسنه صنيعا، فهل ترجو لها؟ قال:«هل وأدت؟» قال: نعم. قال: «هي في النار» .وهذا لو ثبت لكان حجة، لكن أخشى أن يكون ابن أبي ليلى وهم فيه، فإن الحديث محفوظ من طريق سلمة بن يزيد، قال: ذهبت أنا وأخي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقلنا: إن أمنا مليكة كانت … فذكر الحديث.

ويحتمل التعدد.

 

●عبید اللہ بن عبداللہ ابن ابی ملیکہ بن عبداللہ بن جد عان قریشی تیمیمی کے والد ابو علی نسائی نے استیعاب کے حاشیے میں انکا ذکر کیا ہے کہ انہیں شرف صحابیت حاصل ہے لیکن نسب میں دادا کا ذکر کر کے عبیداللہ بن ابی ملیکہ کہا ہے جس پر المزی نے تہذیب میں اعتماد کیا ہے

کہ ابو ملیکہ فقیہ عبداللہ کے دادا ہیں ۔ ادھر ابن کلبی ، ابن سعد وغیرہ نے عبیداللہ اور ابو ملیکہ کے درمیان عبداللہ کو شامل کیا ہے جو کہ معتبر ہے

امام فاکہی نے کتاب مکہ میں ایک روایت نقل کی ہے جس سے انکا صحابی ہونا معلوم ہوتا ہے

ابن جریج کہتے ہیں :

میں نے ابن ابی ملیکہ کو فرماتے سنا : حضرت عمر لشکروں کا معائنہ کرنے آؕئے تو انہیں ایک شخص ملا جو نشے میں مست تھا آپ اسے عبداللہ بن ابی ملیکہ کی حویلی میں لے گئے جسے آپ نے دارالحدود بنا رکھا تھا ، ان سے فرمایا صبح اسے کوڑے لگانا

میں (ابن حجر) کہتا ہوں یقینی بات ہے کہ جس آدمی کو حضرت عمر نے کوڑے لگانے کی زمہ داری سونپی ہوگی وہ مرد (جوان) ہوگا

اس لحاظ سے عبداللہ نے سن تمیز میں حیات نبویہ کے سال پائے ہونگے ۔

نیز یہ قریشی اور صدیق اکبر ؓ کے رشتہ داروں میں سے ہیں ۔

پھر مجھے انکی ایک حدیث مل گئی ہے جو امام دولابی نے الکنی میں بطریق عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ بواسطہ حکیم بن عیینہ اور وہ ابن ابی ملیکہ سے روایت کی ہے کہ انکے والد نے انکی والدہ کے بارے رسولﷺ سے پوچھا کہ وہ بڑی نیک سلوک کرنے والی صلہ رحمی کرنے والی اور بہت اچھا برتاو کرنے والی تھی کیا میں اس کے بارے ثواب کی امید رکھ سکتا ہوں ؟

آپﷺ نے فرمایا کیا اس نے بچی کو زندہ درگور کیا تھا ؟ انہوں نے عرض کی ہاں تو آپﷺ نے فرمایا وہ جہنمی ہے

اگر یہ روایت ثابت ہوجائے تو (مذید)دلیل بن سکتی ہے لیکن مجھے خدشہ ہے کہ ابن ابی لیلیٰ کو اس میں وھم ہوا ہے کیونکہ یہ حدیث بطریق سلمہ بن یزید کے محفوظ ہے جس میں ہے کہ میں اور میرا بھائی رسولﷺ کے پاس گئے ۔ہم نے اپنی والدہ ملیکہ کے بارے پوچھا پھر وہ حدیث ذکر کی احتمال ہے کہ مختلف ہو (وہ روایت )

[الصابہ فی تمیزالاصحابہ۔ جلد۴ ، ص۳۳۲]

 

◇تو اس تحقیق سے معلوم ہوا یہ سند صحیح ہے اور امام ابن حجر کے دلائل کو رد کرنے کے لیے کوئی صریح دلیل نہیں

 

دعاگو: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی