خالد حسنین خالد، یَگانَہءِعَصْر نعت خواں

از قلم حافظ محمد رفیق چشتی

حصہ اوّل

تقسیم کے بعد دُنیائے نعت میں اعظم چشتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسا نام تھا کہ جن کے فنِ نعت خوانی سے تقریباً اُس وقت سے لے کر دَورِ حاضر تک کے تمام لوگوں نے استفادہ کیا. اِسی دوران سید منظور الکونین صاحب، نذیر نظامی صاحب، محمد علی ظہوری قصوری صاحب، عبدالستار نیازی صاحب، خورشید احمد صاحب اور ان جیسے درجنوں بہت بڑے بڑے نام نعت شُعبہ نعت کا حصہ بنے. جنہیں ہم اساتذہ فن یا کلاسیک انداز کے حاملین و ماہرین کہہ سکتے ہیں. یوں اس شعبے کو فروغ ملا اور یہ فن اپنے عروج پہ پہنچا. لیکن اکیسویں صدی کے آغاز میں نعت خوانی میں جدت کے نام پر مختلف طریقوں سے تجربے کیے گئے.محافلِ نعت میں دَف اور ذکر کے ساتھ نعت خوانی کا رُجحان بڑھتا چلا گیا. جو اب بھی مختلف انداز میں جاری ہے. لیکن اس دوران ایک آواز ایسی تھی جس نے ہمیشہ کلاسیکل اور جدید انداز کا سنگم بنائے رکھا. نعت خوانی کے تمام تر تقاضوں یعنی معیاری انتخابِ کلام، طرز کی بناوٹ،عقیدے کی پاسداری، ادب و آداب وغیرہ کو ملحوظِ خاطر رکھنے والی اس شخصیت کا نام خالد حسنین خالد تھا. ایک سفر میں آپ نے فرمایا تھا کہ “مَیں شروع سے ہی سیدھی، سادہ، مترنم اور منفرد نعت پڑھتا تھا عالمی شہرت حاصل ہونے سے پہلے بہت سے نعت گو شعراء اپنی محافل میں مجھے مدعو کرتے تھے مثلا سید ریاض الدین سہروردی، سید ناصر حسین شاہ صاحب وغیرہ، بلکہ سید ناصر شاہ صاحب شکوہ لرتے تھے کہ ساری دنیا مجھ سے کلام لیتی ہے مگر آپ نے کبھی فرمائش نہیں کی، تو میں کہتا کہ شاہ صاحب! میرے پاس جو کتب پڑی ہیں وہ ختم کروں تو پڑھنے کے لیےآپ سے کلام لوں” مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ جس طرح فنِ قوالی جو کہ صرف درگاہوں تک محدود تھا نصرت فتح علی خان صاحب کی آمد اور اُن کے جدید طرز موسیقی کے اپنانے کے بعد وہی قوالی ہر ایک محفل کا حصہ بننے لگی ہر فرد کو اسکی تفہیم ہونے لگی حتی کہ مغربی ممالک تک قوالی سنی جانے لگی. اسی طرح فنِ موسیقی میں غزل خوانی میں مہدی حسن خاں صاحب نے کلاسیکل انداز سے سینکڑوں غزلیں گائیں مگر چھوٹے غلام علی خان صاحب نے اِس میں جو روانی، مٹھاس اور خوبصورتی پیدا کی اس سے غزل ہر ایک پہنچ میں آ گئی. لوک موسیقی میں بہت سے اساتذہ آئے مگر طفیل نیازی صاحب کا انداز ایسا تھا کہ جس پر اساتذہءِموسیقی بھی بے ساختہ داد دیتے تھے اور ایک ڑیڑھی والا بھی سَر دُھنتا نظر آتا تھا. اِس فَنّی اور تکنیکی نکتے کی تفہیم کے لیے چند مثالیں عرض کی ہیں اب موضوع کی طرف لَوٹیں تو محترم خالد حسنین خالد صاحب کے ہاں ایسا آہنگ اور انداز تھا جس میں جدیدیت کا ذائقہ بھی موجود تھا اور کلاسیکیّت کے رنگ بھی نمایاں نظر آتا تھا. یہی وجہ تھی کہ وہ مقبولِ خاص و عام تھے. شاید ہی کوئی ایسا نعت خواں ہو جو اُن سے بڑھ کر محفل کے مزاج کو سمجھتا ہو. عُلَمَا کی محفل میں کس معیار اور انداز سے نعت پڑھنا ہے اور عوام الناس کے مجمع میں کیسے نعت خوانی کرنی ہے وہ خوب جانتے تھے. بعض دفعہ ایک ہی کلام کو مختلف طرزوں میں پڑھ دیتے اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ عزیز میاں قوال کی طرح ایک کلام اگر مختلف جگہوں پر پڑھا ہے تو اُس میں ایک ہی طرح کی گرہ نہیں کرتے تھے بلکہ گرہ بندی میں بھی مختلف اشعار پڑھا کرتے تھے. آپ کے جنازے میں ہر مزاج و انداز سے پڑھنے والا نعت خواں موجود تھا کیونکہ وہ دورِ حاضر کے تمام نعت خوانوں کے محبوب و پسندیدہ تھے سوائے چند ایک کے، تمام نعت خواں اُن کے انداز و انتخابِ کلام سے حسبِ مزاج و استطاعت کچھ نہ کچھ سیکھتے نظر آتے تھے. بقول جناب سرور حسین نقشبندی صاحب “وہ اپنے لہجے، اپنے انداز اور اپنے آہنگ کے خود ہی موجد تھے اور خود ہی خاتم” راقم الحروف نے ایک دفعہ حضرت سے استفسار کیا کہ حضور! جناب نے یہ انداز کیسے اور کیوں کر اپنایا یا ایجاد کیا.؟ فرماتے ہیں کہ “جب آپ بہت سی مختلف چیزوں کو سنتے اور سمجھتے ہیں تو لامحالہ ایک نئی چیز تخلیق ہو جاتی ہے اور میرے ذہن میں تو تمام نعت خوانوں کے Folder بنے ہوئے ہیں اور میں جسے Click کرتا ہوں تو اُس کے سارے کلام اور اشعار میرے سامنے آ جاتے ہیں” شاید یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں اشعار کی بہتات ہوتی تھی. بلاشبہ اُن لہجے میں جو مٹھاس اور چاشنی تھی وہ فی زمانہ کسی نعت خواں کے حصے میں نہیں آ سکی.شعبہ نعت میں آپ اعظم چشتی صاحب سے بہت متاثر تھے اور فرماتے تھے کہ” اعظم چشتی صاحب کے ہاں جو نعت پڑھنے میں وارفتگی اور اندازِ محبت ہے وہ بہت کم لوگوں کے ہاں ہے” اور اُن کے علاوہ اگر کیفیت کی بات ہو تو قاری زبید رسول صاحب کے وہ انتہائی دلدادہ تھے. اکثر فرماتے تھے کہ “نعت تو صرف قاری زبید رسول ہی پڑھ گیا ہے” خالد صاحب نے اعظم چشتی صاحب کے سامنے تو نہیں پڑھا لیکن اعظم چشتی صاحب کو نوجوانوں نعت خوانوں میں خورشید احمد رحمانی صاحب بہت پسند تھے اور ایک محفل میں خورشید احمد صاحب کے سامنے خالد صاحب نے نعت شریف پڑھی تو اُن کی کیفیت اور اُن کی بے ساختہ داد دینے سے، اُن کی پسندیدگی عیاں ہوتی نظر آ رہی تھی.