کیا امام ابو حنیفہ کے نزدیک قیاس حدیث پر مقدم تھا؟
sulemansubhani نے Wednesday، 12 January 2022 کو شائع کیا.
کیا امام ابو حنیفہ کے نزدیک قیاس حدیث پر مقدم تھا؟
تحریر: اسد الطحاوی الحنفی
اصحاب الحدیث میں کچھ ائمہ کے نزدیک امام اعظم کی شخصیت فقط اس وجہ سے مجروح تھی کہ وہ قیاس زیادہ کرتے تھے
یا بقول انکے وہ صحیح روایات کے خلاف بھی قیاس کو مقدم کرتے تھے
کچھ دلائل سے ہم اس الزام جو کہ انکی طرف منسوب کیا گیا اسکی حقیقت دیکھتے ہیں
امام ابو زرعہ اپنی سند سے روایت بیان کرتے ہیں:
حدثنا يزيد بن عبد ربه قال: سمعت وكيع بن الجراح يقول ليحيى بن صالح الوحاظي: يا أبا زكريا احذر الرأي، فإني سمعت أبا حنيفة يقول: للبول في المسجد أحسن من بعض قياسهم.
یزید بن عبد ربہ کہتے ہیں میں نے امام وکیع بن جراح کو یحییٰ بن صالح کو کہتے ہوئے سنا : اے ابو زکریہ رائے (دینے)سے ہوشیار رہو ۔
میں نے امام ابو حنیفہؓ کو یہ کہتے سنا ہے کہ مسجد میں پیشاب کرنا بعض (باطل) قیاس کرنے سے بہتر ہے
[تاريخ أبي زرعة الدمشقي ص ۵۳۶ وسند جید]
یعنی اس روایت سے صریح طور پر یہ ثابت ہوا گیا کہ امام اعظم تو قیاس کو مطلق حجت قرار نہ دیتے تھے بلکہ بعض قیاس کو تو مسجد میں پیشاب کرنے جیسے برے فعل سے بھی بدتر سمجھتےتھے تو اس سے اس الزام کی نفی ہوتی ہے کہ امام اعظم مطلق قیاس کو حجت سمجھتے تھے اور اسکی بنیاد پر احادیث کو رد کرتے تھے
امام ابو حنیفہؓ کے تلمیذِخاص امام محمد بن الحسن شیبانیؒ سے کچھ تصریحات پیش کرتے ہیں :
جو امام محمد نے امام مالک کی شاگردی میں تین سال گزارنے کے بعد اہل مدینہ کے دیگر فقھا اور امام ماک کے دلائل اور اہل مدینہ کہ ان مسائل پر لکھی جو انکے اعمال اثار و سنت کے خلاف تھے
اس کتاب میں ہم امام محمد کی زبانی یہ شہادت پیش کرتے ہیں کہ احادیث اور اثار کی موجودگی کی صورت میں امام اعظم اور انکے تلامذہ کے نزدیک قیاس باطل ہوتا ہے
جیسا کہ اس کتاب کے صفحہ ۳۱۶ پر فرماتے ہیں :
وقال محمد بن الحسن السنة والأثار في هذا معروفة مشهورة لا يحتاج معها إلى نظر وقياس
سنت رسولﷺ اور اثار اس مسئلے میں مشہور و معروف ہیں ،ان کے ہوتے ہوئے قیاس کی ضرورت نہیں ہے۔
احناف کے نزدیک نصوص قیاس پر مقدم ہیں اس بات کو عیاں کرتے ہوئے امام محمد فرماتے ہیں :
جیسا کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک قہقہ سے وضو دوبارہ کرنا ضروری ہے اور نماز بھی ٹوٹ جاتی ہے
جبکہ مالکیوں اور اہل مدینہ کا عمل اسکے برخلاف تھا
تو امام محمد فرماتے ہیں :
وقال اهل المدينة القهقهة في الصلاة بمنزلة الكلام الذي ينقض ولا يعاد منها الوضوء
وقال محمد بن الحسن لولا ما جاء من الآثار كان القياس على ما قال اهل المدينة ولكن لا قياس مع اثر وليس ينبغي الا ان ينقاد للآثار
مالکیوں اور اہل مدینہ کا رد کرتے ہوئے امام محمد فرماتے ہیں :
اگر قہقہہ سے وضو ٹوٹنے کے حوالے سے مذکورہ روایات نہ ہوتیں ،تو قیاس کا تقاضا یہی تھا جو اہل مدینہ کا مسلک ہے، لیکن حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس نہیں ہوتا اور نصوص کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی مناسب ہے۔
[ایضا ص ۲۰۴]
یعنی اہل مدینہ ضعیف حدیث کو رد کرکے خود قیاس جھاڑتے تھے۔ لیکن الزام اہل کوفہ پر۔۔
مذہب حنیفہؓ کو مدون کرنے والی شخصیات میں امام محمد کا مقام امام ابو یوسف کے بعد پہلے نمبر پر ہے اور انکی مذکورہ تصریحات کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بعض اصحاب الحدیث تک امام اعظم اور انکے اصحاب کے بارے غلط معلومات پہنچی تھیں جبکہ حقیقت کا اس الزام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا
یہاں تک کہ مذہب حنفیہ کے مخالف ابن حزم بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے جیسا کہ انکا قول امام ذھبی نے نقل فرمایا ہے :
امام ذھبی علیہ رحمہ اپنی مشہور تصنیف تاریخ الاسلام میں ابن حزم ظاہری سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قال أبو محمد بن حزم: جميع الحنفية مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث أولى عنده من القياس والرأي.
ابو محمد بن حذم کہتا ہے :
کہ تمام حنفیہ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ امام ابو حنیفہؓ کا مذہب (یعنی اصول) یہ ہے کہ ضعیف حدیث انکے نزدیک قیاس کرنے اور رائے دینے پر مقدم ہے
[تاریخ الاسلام ، جلد 3، ص 990]
اسکے ساتھ ہم امام اعظم سے صحیح سند سے انکا یہ موقف بھی پیش کردیتے ہیں کہ امام اعظم قیاس کو سب سے آخر میں رکھتے تھے جب کوئی دلیل نہ ہوتی تو امام اعظم پھر قیاس کی طرف جاتے تھے
امام یحییٰ بن معین نے امام ابو حنیفہ کا مذہب روایت کیا ہے جسکو صحیح اسناد سے امام خطیب بغدادی ، امام ابن عبدالبر ، امام ابن ابی العوام اور دیگر محدثین نے نقل کیا ہے
نا يحيى ابن معين الحنفی (الامام حجتہ) قال نا عبد الله بن ابى قرة(ثقہ) عن يحيى بن ضريس(ثقہ)
قال قال ابو حنيفة إذا لم يكن في كتاب الله ولا في سنة رسول الله نظرت فى اقاويل اصحابه ولا أخرج عن قولهم إلى قول غيرهم فإذا انتهى الامر أوجاء الامر الى ابراهيم والشعبى وابن سيرين والحسن وعطاء وسعيد بن جبير وعدد رجالا فقوم اجتهدوا فاجتهد كما اجتهد۔۔۔الخ
امام یحییٰ بن معین الحنفی فرماتے ہیں : امام یحییٰ بن ضریس بیان کرتے ہیں :
(ابو حنیفہ ) کہتے ہیں، اگر مجھے اللہ کی کتاب میں اور سنت رسولﷺ میں (مسلے کا جواب) نہیں ملتا ، تو میں نبی اکرمﷺ کے اصحاب (میں سے کسی کے) قول کے مطابق فتویٰ دونگا ،لیکن میں صحابہ کرام کے اقوال میں سے نکل کر کس دوسرے کے قول کی طرف نہیں جاونگا ، جب معاملہ (تابعین)
ابراہیم نخعی ،
شعبی ،
حسن بصری ،
عطاء بن ابی رباح ،
ابن سیرین ،
سعید بن مسیب
، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اجتہاد کیا تھا ، جب معاملہ ان تک پہنچے گاتو میں بھی اسی طرح اجتیہاد کرونگا ، جس طرح انہوں نے اجتیہاد کیا تھا ،
[تاریخ بن معین ، تاریخ بغداد ، الانتقاء واسناد جید]
جن تابعین نے اجتہاد کیا انکے نام امام ابو حنیفہ نے بیان کیے انہوں نے بھی قیاسات کیے مصنف ابن ابی شیبہ و مصنف عبدالرزاق ان تابعین کے قیاس سے بھری پڑی ہے۔۔۔
لیکن چونکہ امام اعظم نے اپنا مذہب مدون کرنا تھا اور انکا مذہب پھیلنا تھا تو اللہ نے انکے اجتہاد میں برکت رکھی۔
ان تصریحات کو پڑھنے کے بعد جو بھی آج کے دور میں چند متقدمین آئمہ کی غلط فہمی پر محمول عبارتوں کا سہارہ لیکر امام اعظم کی تنقیص کرتا ہے اسکو سوچنا چاہیے کہ جب اتنے صریح دلائل ثابت ہو چکے ہیں تو پھر مبھم اور مضطرب اقوالات کو دلیل بنانا نادانگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
اللہ امام اعظم کے درجات کو بلند فرمائے (آمین)
تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی
ٹیگز:-
اسد الطحاوی , رانا اسد الطحاوی الحنفی البریلوی , اسد الطحاوی الحنفی البریلوی , اسد الطحاوی الحنفی