فقہ الاکبر کا متقدمین سے متاخرین تک تواتر سے مشہور و معروف ہونے کے دلائل
فقہ الاکبر کا متقدمین سے متاخرین تک تواتر سے مشہور و معروف ہونے کے دلائل
ازقلم:اسد الطحاوی الحنفی البریلوی
آج کل فیسبکی نیبے یہ اعتراض کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ فقہ الاکبر کی صحیح سند ثابت کرو فلاں ڈھینگ لیکن انکو یہ تک نہیں پتہ کہ مشہور و معروف کتب جو کہ ہر زمانے سے جید ائمہ کی طرف سے مصنف کی طرف منسوب کردہ ہوں اسکے لیےسند کی حاجت نہیں رہتی ہے یہی جمہور کا منہج ہے اور اسی کو امام ابن حجر عسقلانی نے بیان کیا ہے
جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی لکھتےہیں:
ابن حجر عسقلانی النکت علی ابن صلاح میں فرماتے ہیں :
ما استدل به على تعذر التصحيح في هذه الأعصار المتأخرة بما ذكره من كون الأسانيد ما منها إلا وفيه من لم يبلغ درجة الضبط والحفظ والإتقان، ليس بدليل ينهض لصحة ما ادعاه من التعذر، لأن الكتاب [المشهور] 5 الغني بشهرته عن اعتبار الإسناد منا إلى مصنفه: كسنن النسائي مثلا لا يحتاج في صحة نسبته إلى النسائي إلى اعتبار حال رجال الإسناد منا إلى مصنفه.
امام ابن حجر فرماتے ہیں : مشہور کتاب کے لیے اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم سے مصنف تک اسکی سند معتبر (ثقہ ثبت جید راویوں ) پر مشتمل ہو ، مثال کے طور پر سنن نسائی کی صیحت کے لیے اس بات کی حاجت نہیں کہ ہم سے لے کر امام نسائی تک اسکے رجال معتبر کا ثابت ہونا لازم ہو۔۔
[النکت علی کتاب ابن صلاح بن حجر عسقلانی ، ص ۶۸۱]
اب ہم دیکھتے ہیں کیا فقہ الالکبر امام ابن حجر عسقلانی کی اس بیان کردہ تعریف پر پورا اترتی ہے یا نہیں ؟
پہلی بات یہ زہن نشین رہے کہ فقہ الالکبر کتاب کے دو راوی ہیں ایک علامہ ابو مطیع البلخی اور دوسرے حماد بن ابی حنیفہ ان دونوں سے یہ کتاب مروی ہے ۔لیکن مشہور امام ابو مطیع سے ہوئی ہے ۔
وہ ائمہ جنہوں نے فقہ الاکبر کی شروحات لکھی ہیں جو تیسری صدی ہجری سے چودویں صدی ہجری تک کے ہیں ۔
1۔محمد بن محمد بن محمود، أبو منصور الماتريدي: (المتوفیٰ333 هـ)
من أئمة علماء الكلام. نسبته إلى ما تريد (محلة بسمرقند) من كتبه (التوحيد – خ) و (أوهام المعتزلة) و (الرد على القرامطة) و (مآخذ الشرائع) في أصول الفقه، وكتاب (الجدل) و (تأويلات القرآن – خ) و (تأويلات أهل السنة – ط) الأول منه، و (شرح الفقه الأكبر
2۔محمد بن محمد بن محمود، أكمل الدين أبو عبد الله بن الشيخ شمس الدين ابن الشيخ جمال الدين الرومي البابرتي: (المتوفیٰ786 هـ)
علامة بفقه الحنفية، عارف بالأدب. نسبته إلى بابرتي (قرية من أعمال دُجيل ببغداد) أو (بابرت) التابعة لأرزن الروم (الإرشاد – خ) في شرح الفقه الأكبر ل أبي حنيفة
3۔إلياس بن إبراهيم السينوبي الحنفي: (المتوفیٰ 891 هـ)
عالم بالكلام، تركي، تفقه وتأدب وصنف بالعربية.
ولد في سينوب (مرفأ على البحر الأسود في تركيا) وأقام في بروسة، مدرسا في مدرستها (السلطانية) وتوفي بها. له كتب، منها (شرح الفقه الأكبر
4۔محمد بن بَهاء الدين بن لطف الله الصوفي الحنفي، محيي الدين الرحماوي. (المتوفیٰ 952 هـ)
ويقال له بهاء الدين زاده: فقيه متصوف من الموالي الروميّة، معمر من أهل (بالي كسري) جمع بين آداب (الطريقة) وعلوم الشرع، وأقام في القسطنطينية، وصنف كتبا في (تفسير القرآن) و (شرح الفقه الأكبر – خ)
5۔أحمد بن محمد، أبو المنتهي، شهاب الدين المغنيساوي: (المتوفیٰ1000 هـ)
فقيه حنفي عالم بالقراآت من أهل مغنيسا (بتركيا) له كتب عربية، منها (شرح الفقه الأكبر ل أبي حنيفة
6۔إبراهيم بن حسام الدين الكرمياني، المعروف بشريفي: (المتوفیٰ1016 هـ)
فقيه حنفي نحوي. له كتب، منها (نظم الفقه الأكبر)
7۔المُلَّا علي القاري منح الروض الأزهر في شرح الفقه الأكبر (المتوفیٰ1014 هـ)
8۔سليمان بن رصد الحنفي الزياتي: (المتوفیٰ1347 هـ)
فقيه مصري أزهري. لعله من كفر الزيات. له كتب، منها (كنز الجوهر في تاريخ الأزهر – ط) و (المصباح الأزهر شرح الفقه الأكبر – ط)
9۔ علي بن مراد العمري، أبو الفضائل: (المتوفیٰ 1147 هـ)
مفتي الموصل، وأحد فضلائها. رحل إلى القسطنطينية مرارا وولي الإفتاء ببغداد عامين ونيفا. من كتبه ” شرح الفقه الأكبر ” ل أبي حنيفة
10۔نور الله بن محمد رفيع بن عبد الرحيم الشرواني: ۔(المتوفیٰ 1065 هـ)
فقيه حنفي. كان مدرسا في ” بروسة ” وتوفي بها. له كتب، منها ” شرح الفقه الأكبر ” للإمام أبي حنيفة،
[الأعلام، الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ)]
……………………………………..
اسکے علاوہ وہ ائمہ جنہوں نے اس کتاب کا تذکرہ کیا ہے امام ابو حنیفہ کے حوالے سے
امام عبد القاهر البغدادي، المتوفى (429هـ) فرماتے ہیں :
وأول متكلميهم من الفقهاء وأرباب المذاهب أبو حنيفة والشافعي؛ فإن أبا حنيفة أَلَّف كتاباً في الرد على القدرية سماه “الفقة الأكبر”
اور فقہاء اربعہ میں سے پہلے متکلم ائمہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی ہیں اور امام ابو حنیفہ نے قدریہ کے رد میں کتاب لکھی جسکا نام فقہ الالکبر ہے
[اصول الدین لعبدالقادر البغدادی ، ص۳۰]
امام ابو مضفر اسفراینی (المتوفى: 471هـ) فرماتے ہین :
صنفه أَبُو حنيفَة رَحمَه الله كتاب الْفِقْه الْأَكْبَر الَّذِي أخبرنَا بِهِ الثِّقَة بطرِيق مُعْتَمد وَإسْنَاد صَحِيح عَن نصير بن يحيى عَن أبي مُطِيع عَن أبي حنيفَة
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کتاب لکھی ہے فقہ الاکبر جو کہ مجھے خبر دی ثقہ راوی ہے با اعتماد سند سے صحیح سے نصر بن یحییٰ کے حوالے سے ابو مطیع البلخی سے امام ابو حنیفہ تک۔
[التبصير في الدين وتمييز الفرقة الناجية عن الفرق الهالكين، ص۱۸۴]
اس سے معلوم ہوا کہ امام اسفراینی کے نزدیک ان تک جو سند پہنچی ہے وہ انکے بقول بالکل صحیح اور ثابت شدہ ہے ۔
امام ابن قدامة المقدسي (المتوفى : 620هـ)
بلغني عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ أَنَّهُ قَالَ: فِي كِتَابِ الْفِقْهِ الأَكْبَرِ
مجھ تک پہنچا ہے امام ابو حنیفہ نے فقہ الالکبر میں کہا ہے ۔۔۔
[إثبات صفة العلو]
امام زرکشی الشافعی(المتوفى: 794هـ) لکھتے ہیں :
قُلْت: وَلِهَذَا صَنَّفَ أَبُو حَنِيفَةَ كِتَابًا فِي أُصُولِ الدِّينِ وَسَمَّاهُ ” الْفِقْهَ الْأَكْبَرَ “.
میں کہتا ہوں یہ کتاب فقہ الالکبر امام ابو حنیفہ نے تصنیف کی اصول دین و سماہ میں
[البحر المحيط في أصول الفقه]
امام ابن العماد الحنبلی ایک دلچسب بات بیان کرتے ہیں :
أحد موالي الرّوم الطبيب.
كان نصرانيا طبيبا، وكان يعرف علم الحكمة معرفة تامة، وقرأ على المولى لطفي التّوقاتي المنطق، والعلوم الحكمية، وباحث معه فيها، ثم انجرّ كلامهم إلى العلوم الإسلامية، وقرّر عنده حقيقة الإسلام فاعترف وأسلم، ثم ترك الطّب، واشتغل بتصانيف الإمام حجّة الإسلام الغزّالي، والإمام فخر الدّين الرازي، وداوم على العمل بالكتاب والسّنّة، وصنّف شرحا على «الفقه الأكبر» لأبي حنيفة، رضي الله عنه.
روم کے ایک طبیب
یہ نصرانی یعنی عیسائی تھا ، اور یہ علم حکمت کی معرفت پر مکمل مہارت تامہ رکھتا تھا ، اور اس نے لطفی توقانی سے منطق اور حکمت و علوم پڑھے ، اور اس میں مباحث کی ، پھر اس نے علم الکلام پر اپنی توجہ اسلام کی طرف موڑ دی ، اور اس نے اسلام کی حقیقت کو تسلیم کیا اور اسکو بطور مذہب قبول کر لیا،پھر اس نے طب کو ترک کر دیا ، اور حجتہ الاسلام امام غزالی اور امام فخر الدین کی تصانیف میں محو ہو گیا ، اور کتاب اللہ و سنت پر کام کرنے لگا ، اور اس نے امام ابو حنیفہ اللہ ان سے راضی ہو ، انکی کتاب فقہ الالکبر کی شرح بھی تصنیف کی ۔
[ذرات الذهب في أخبار من ذهب]
انکا مکمل نام إسحاق بن إبراهيم المولى الفاضل الأسكوبي اور یہ ۹۰۰ھ کے ائمہ مین سے ہے ۔
اسکے علاوہ امام يحيى بن أبى بكر العامري الحرضي (المتوفى: 893هـ)
اپنی کتاب میں فقہ الاکبر سے استفادہ کیا ہے بطور مثال حوالہ
وفي الفقه الاكبر لابى حنيفة تأليف أبي مطيع
[بهجة المحافل]
علامہ ابن تیمیہ :
كتاب [الفقه الأكبر] لـ[أبي حنيفة النعمان] قال رحمه الله تعالى فيه:
شهرته معروفة معلومة ثابتة عن أبي حنيفة بالأسانيد الثابتة، ويوجد من هو دعي في الأحناف ليس منهم أشكل عليه نسبته إليه، ابن تیمیہ کہتا ہے کہ یہ کتاب شہرت سے معروف ہے اور ثابت ہے امام ابو حنیفہ سے اسناد کے زریعہ بھی ۔ اور احناف میں کسی نے اس روایت کی نسبت میں اشکال وارد نہیں کیا آج تک
[جهود و فتاوى]
وقال أبو مطيع البلخي في كتاب ” الفقه الأكبر ” المشهور
ابو مطیع نے کتاب فقہ الالکبر میں کہا ہے جو کہ مشہور ہے
[مجموع الفتاوى ابن تیمیة]
ابن قیم جوزیہ (المتوفى: 751هـ) لکھتا ہے :
وَفِي كِتَابِ الْفِقْهِ الْأَكْبَرِ الْمَشْهُورِ عِنْدَ أَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ الَّذِي رَوَوْهُ بِالْإِسْنَادِ عَنْ أَبِي مُطِيعٍ الْبَلْخِيِّ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ
اور کتاب فقہ الالکبر میں جو کہ مشہور ہے امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں ، جسکو بااسناد ابی مطیع بلخی سے ورایت کیا گیا ہے
[اجتماع الجيوش الإسلامية]
اسکے علاوہ علماء کی کثیر تعداد ہے جنہوں نے اس کتاب کو نہ صرف امام ابو حنیفہ سے منسوب کیا ہے بلکہ اسکو ثابت مانا ہے اور ا س سے استفادہ کیا ہے یہ متقدمین سے متاخرین تک ہر دور میں مشہور و معروف رہی ہے اور کسی نے اس کتاب کی نسبت کا انکار آج تک نہیں کیا ہے ۔ اور اس تواتر سے مشہور ہونے کے سبب یہ کتاب سند کی محتاج نہیں رہتی ہے
تو ہم نے ۳۳۳ھ میں فوتے ہونے والے ائمہ سے ۱۰۵۶ھ اور آج تکے کے علامہ تک ثابت کیا ہے کہ یہ کتاب تواتر سے ہر دور کے علماء نے امام ابو حنیفہ کی تصنیف تسلیم کی ہے
اور ہم نے اس شرط پر کتاب فقہ الاکبر ثابت کردی ہے جسکے سبب اس کتاب کی سند کا مطالبہ کرنا جہالت اور محدثین کے منہج و اسلوب سے نا واقفی ہے
تحقیق : اسد الطحاوی الحنفی